سنی تحریک ، انتہا پسندی کے راستے پر
بریلوی تنظیمیں ’توہین رسالت کی ایک سزا، سرتن سے جدا‘ کے نعرے کواپنا کراپنی مسلکی طاقت کا اظہار کر رہی ہیں .
کراچی میں رینجرزکی سربراہی میں جاری آپریشن سے کمزورہونے والی سنی تحریک ممتازقادری کے حق میں اسلام آباد ڈی چوک میں چاردن تک کامیاب دھرنا دینے کے بعد پاکستان کی سطح پر بریلوی مکتبہ فکرکی ایک پرتشدد سیاسی جماعت بن کرابھری ہے جو ساتھ ہی ساتھ جارحانہ سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کواپنی طرف راغب کرنے میں بھی کامیاب ہوئی ہے۔
جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گیں : سنی تحریک کاقیام :
سنی تحریک 1990 میں کراچی میں قائم ہوئی جس کے بانی سلیم قادری تھے۔فرانسیسی مصنف
Laurent Gayer
نے کراچی پرشائع اپنی کتاب میں سلیم قادری کے حوالے سے لکھاہے کہ’’ 1960 ء میں پیداہونے والے سلیم قادری کے والدین قیام پاکستان کے وقت بھارتی صوبے گجرات سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ سیاست کااغاز زمانہ طالبعلمی میں آل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا مگرجلدہی بریلوی مکتبہ فکرکی غیرسیاسی تنظیم دعوت اسلامی میں شمولیت اختیارکرلی جو 1984ء میں دیوبندی مکتبہ فکرکی ’تبلیٖغی جماعت‘ کامقابلے میں قائم ہوئی تھی‘‘۔ 1988 ء میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقے سے علامہ شاہ احمدنورانی کی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی حصہ لیامگرہارگئے ۔
’جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے‘‘ کے نعرے کے ساتھ سنی تحریک کافی حد تک کراچی شہرمیں بریلوی مسلک کی بڑی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کوکمزورکرنے میں کامیاب ہوئی۔
سلیم قادری نے 1990ء میں بریلوی گروپوں خصوصا ًجمعیت علمائے پاکستان کی ’پرامن‘ سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی جماعت سنی تحریک تشکیل دی جوشروع میں دیوبندی اوراہلحدیث مسلک کے گروپوں کی بریلوی مسلک کی مساجدوں پرقبضہ کرنے کی کوششوں کوروکنے میں کامیابی پربہت جلدہی کراچی میں بریلوی مسلک میں معروف ہوگئی ۔ ’جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے‘‘ کے نعرے کے ساتھ سنی تحریک کافی حد تک کراچی شہرمیں بریلوی مسلک کی بڑی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کوکمزورکرنے میں کامیاب ہوئی۔سنی تحریک اپنی تشکیل کے بعد کافی عرصے تک سپاہ صحابہ پاکستان اوراہلحدیث کی تنظیموں کے ساتھ مساجدپرقبضوں کی لڑائی میں مصروف عمل رہی۔ سلیم قادری کو پانچ ساتھیوں کے ہمراہ مئی 2001 ء میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں نمازجمعہ جاتے ہوئے فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک کردیاگیاتھا جس کے قتل کاالزام سپاہ صحابہ پاکستان کراچی کے کارکنوں فیصل پہلوان اورارشد پولکا پرعائدکیاگیاتھا۔
ایم کیوایم کے ساتھ تناؤ :
سنی تحریک نے تنظیمی طورپر شہرکی ایک مضبوط سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی طرز پر سیکٹر اوریونٹ کی سطح پر اپنی تنظیم سازی کی اوردونوں جماعت کا ’ سپورٹ بیس ‘ لوئرمڈل کلاس مہاجرآبادیاں ہونے کی وجہ سے دونوں جماعتوں میں بھی لڑائیاں شروع ہوئی۔
2003 ء میں مہاجرقومی موومنٹ (حقیقی) کے خلاف جب پرویزمشرف دورمیں متحدہ قومی موومنٹ کی ایما ء پرآپریشن شروع ہوا اوران کے کارکنوں کواپنے علاقوں سے بے دخل کیا گیا تو حقیقی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے سنی تحریک میں شمولیت اختیارکرلی ۔ 2009 ء میں شائع ویکی لیکس میں شائع ایک رپورٹ میں اس بات کا ذکرکیاگیاہے کہ حقیقی کے کارکنوں کی شمولیت کے بعد سنی تحریک بھی ایک طاقتور عسکریت پسند گروپ بن گیاہے۔ یوں کراچی کی مہاجرآبادیوں میں وقفوں وقفوں سے ایم کیوایم اورسنی تحریک میں مسلح تصاد م کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگیں جبکہ سنی تحریک کے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے بعد دونوں گروپوں میں تناؤ بڑھ گیا۔
سلیم قادری کو پانچ ساتھیوں کے ہمراہ مئی 2001 ء میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں نمازجمعہ جاتے ہوئے فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک کردیاگیاتھا
اپریل 2006ء میں کراچی کے نشترپارک میں عیدمیلاد البنی کے ایک بڑے پروگرام میں سنی تحریک کے مرکزی قائدین عباس قادری، افتخاربھٹی اور اکرم قادری، دیگربریلوی گروپوں کے رہنماؤں کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد ثروت اعجازقادری نے پارٹی قیادت سنبھالی۔
کراچی آپریشن:
جنوری 2002 ء میں جنرل پرویزمشرف کی جانب سے پانچ تنظیموں سپاہ صحابہ پاکستان، جیش محمد، لشکرطیبہ، تحریک جعفریہ پاکستان اورتحریک نفاذ شریعت محمدی پرپاپندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سنی تحریک کو قتل وغارت اورجرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے ’واچ لسٹ‘ میں شامل کرکے ان کی سرگرمیوں پرنظررکھنے کی ہدایات کی گئی تھی۔ سندھ حکومت کی چندماہ قبل جاری کردہ ایک رپورٹ میں بھی یہ کہاگیاکہ وزارت داخلہ اورانٹیلی جنس ادارے سنی تحریک کی سرگرمیوں پرمسلسل نظررکھے ہوئے ہیں۔ ایک انٹیلی جنس ادارے کی پولیس کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں کراچی کے 48 بڑے بھتہ خوروں میں سے 19 کاتعلق سنی تحریک سے بتایاگیاہے جبکہ سپریم کورٹ میں جاری کراچی بدامنی کیس میں بھی سنی تحریک کوشہرمیں جاری قتل وغارت اوربھتہ خوری میں ملوث قرارپایاگیاہے۔
یہی وجہ ہے کہ ستمبر 2013 ء سے رینجرزکی سربراہی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن میں شہرکی دیگرسیاسی جماعتوں اورشدت پسندگروپوں کے ساتھ ساتھ سنی تحریک کے خلاف بھی متعدد کاروائیاں کی گئیں ۔جون میں دومرتبہ کراچی میں سول اسپتال کے قریب واقع سنی تحریک کے مرکزی سیکریٹریٹ پررینجرزنے چھاپہ مارکرسارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا اورثروت اعجازقادری اور شاہد غوری سے رینجرزہیڈکوارٹرزمیں کئی گھنٹےپوچھ گچھ کی۔
سنی تحریک کے کارکنوں کی حالیہ گرفتاریوں کے بعد رینجرزکی جانب سے جاری کردہ اطلاعات میں انہیں قتل اوراقدام قتل، ایم کیوایم اوردیگرگروپوں کے ساتھ مسلح تصادم، بھتہ وصولی، کھالوں کی جبری وصولی، زکوۃ اورفطرہ کے نام پربھتہ وصولی،اغواء برائے تاوان، ڈکیتیوں اور گاڑیاں جلانے جیسے جرائم سے جوڑاگیا ہے۔
سنی تحریک: انتہاپسندی کی راہ پر
مذہبی جماعتوں کی سیاست پرگہری نظررکھنے والے حلقوں کاکہناہے کہ سنی تحریک ،ممتازقادری کی پھانسی اور توہین رسالت کے ایشوزکواستعمال کرتے ہوئے عسکریت پسندی اورانتہاپسندی کی جانب راغب ہورہی ہے جس پر بریلوی مکتبہ فکرکی پرامن سیاست کرنے والی جماعتیں بھی اپنے تحٖفظات کااظہارکررہی ہے۔ ماہرین کاکہناہے کہ ممتازقادری کی پھانسی نے بریلوی گروپوں خصوصا ًسنی تحریک کواپنی طاقت ظاہرکرنے کا ایک موقع فراہم کیاہے جس سے وہ ملک میں دیوبندی ، اہلحدیث اورشیعہ مسلک کی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثرونفوس کامقابلہ کرسکتے ہیں جو افغانستان، خلیجی ممالک اورایران کننکشز کے سبب کافی مضبوط اورمستحکم ہوچکے ہیں جبکہ بریلوی گروپوں کا کسی بھی اندرونی یابیرونی جہاد سے کوئی تعلق نہیں رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بریلوی تنظیمیں اب شدت سے ’توہین رسالت کی ایک سزا، سرتن سے جدا‘ کے نعرے کواپنا کراپنی مسلکی طاقت کواجتماعی طورپرظاہرکرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ایک سینئر صحافی کے بقول ’توہین رسالت کے مسئلے پر بریلوی مسلک کے ماننے والوں کے صوفی ازم، ماڈیریٹ اورامن پسند ہونے والے بیانیے غیرضروری ثابت ہوجاتے ہیں ۔
فیس بک پر تبصرے