روبوٹ سے شادی

915

ہمیں یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ یہ کیسا معاشرہ ہوگا۔ مسائل جدیدہ کا انبار سامنے دیکھ کر اجتہاد کی ضرورت شدیدہ یاد آئی

ماتھا تو اسی وقت ٹھنک گیا تھا جب گذشتہ برس فرانس سے یہ خبر آئی تھی کہ پیرس کی ایک نوخیز حسینہ  لِلّی کو روبوٹ سے عشق ہو گیا ہے ۔ ڈیلی پاکستان میں للی کی اس ننگ انسانیت حرکت پر کہ اس نے روبوٹ سے جنسی تعلقات بھی قائم کر لئے ہیں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔  پھر سے یقین ہوگیا کہ مغربی ثقافت انسانیت کی تذلیل پر تُل گئی ہے اور بہت جلد اپنے ہی ہاتھوں  خود کشی کرنے والی ہے۔ روبوٹ خاتون سے عشق تک تو قابل برداشت تھا لیکن شوہرکو روبوٹ سمجھ کر۔۔ حد ہوگئی۔

کئی پاکستانی جوانوں نے دل ہی دل میں افسوس کا اظہار ضرور کیا کہ ہم کیا مر گئے تھے۔ ان کی تسلی کے لئے ایک چینل نے بریکنگ نیوز بھی دی کہ فرانس کی حسینائیں پاکستان آ رہی ہیں۔  ایسی ہی ایک حسینہ کے ساتھ ایک خوش نصیب پاکستانی کی تصویر بھی سکرین پر دکھائی گئی۔ لیکن پاکستان کے دیگراخبارات نے اس خبر کوعموماً نظر انداز کر دیا کیونکہ ہمارے ہاں  روبوٹ شوہر اور  روبوٹ بیوی دونوں آئیڈیل ہوتے ہیں۔ البتہ اسی ہفتے جاپان سے یہ خبر آئی کہ گھریلو کام کے لئے لئے روبوٹ دستیاب ہیں تو صاحب حیثیت حضرات کی جان میں جان جاناں آئی کہ جاپان سے حسین روبوٹ گھریلو ملازمہ لے آئیں تو بیوی کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ نہ نان نفقہ کا خرچہ، نہ روز کی چخ چخ، نہ گھریلو تشدد کے الزام کا خدشہ۔ ہر وقت حسین مسکراہٹ کا سامنا۔

ہمیں یہ سوچ کر ہول آتا ہے کہ  یہ کیسا معاشرہ ہوگا۔  مسائل جدیدہ کا انبار سامنے دیکھ کر اجتہاد کی ضرورت شدیدہ یاد آئی۔ روبوٹ سے شادی کے کیا قوانین ہوں گے۔ یا یہ شادیاں کسی قانون کی تابع نہیں ہوں گی۔ طلاق کی کیا صورت ہوگی۔ شوہروں کی تعداد پر تو بات  کی اجتہاد بھی اجازت نہیں  دے گا البتہ یہ سوال بار بار اٹھتا رہے گا کہ کتنی روبوٹ بیویوں کی اجازت ہوگی۔

روبوٹ  سے شادی کی پریشانی میں ہمارا دھیان  پاکستان کے دوسرے مسائل سے ہٹ گیا ۔ہم  اسی برس کی  پوسٹ ٹروتھ والی خبر کو بالکل بھول گئے۔ حالانکہ دونوں خبروں کا ایک دوجے سے  گہرا رشتہ  ہے۔ پوسٹ ٹروتھ  دامن ہے تو روبوٹ چولی۔   یہی وجہ ہے کہ صادق اور امین کے سوال سے اس رشتے کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے ۔ روبوٹ کو ویسے بھی  کسی بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔  روبوٹ کی نہ کوئی مرضی ہوتی ہے، نہ خواہش۔ فرشتوں پر الزام لگانا بلاس فیملی کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستانی تو بے چارے فطری طور پر فرشتے  ہیں۔ ورنہ کم از کم روبوٹ تو ہیں ہی۔ خود کش بمبار روبوٹ ہوتے ہیں۔ تبھی انہیں بٹن دبا کر اڑانا پڑتا ہے۔  نہ وہ اپنی ہلاکت کے ذمہ دار ہوتے ہیں نہ ان ہلاکتوں کے جو ان کی خود کشی سے واقع ہوتی ہیں۔  ہم نے اسی لئےانہیں “کم از کم روبوٹ” کہا۔   ان میں جو خود بٹن دبا کر دھماکے  سے مرتے ہیں وہ بھی مجبور محض ہوتے ہیں۔ جب تک ان کی مجبوری کا سبب تلاش نہ کر لیا جائے ان کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی قانون کی نظر میں مقتول سے زیادہ قاتل انصاف کا مستحق ہوتا ہے۔

پاکستان میں اکثر دہشت گرد روبوٹ کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔  اصل مجرم بیرونی ہاتھ  ہیں ۔ دہشت گردی کے حادثات میں پولیس  کو دہشت گرد کا سر تو مل جاتا ہے لیکن بیرونی ہاتھ  نہیں ملتا۔ بیرونی ہاتھ کے بارے میں جھوٹ اور سچ کا سوال اٹھانا بھی بیرونی سازش کا حصہ ہے۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ پوسٹ ٹروتھ کے زمانے میں  سچ اور جھوٹ تعبیر کا فریب ہے۔ کوا کب وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔ اور جو نظر آتے ہیں وہ کوکب نہیں ہوتے،  صرف نظر کا فریب ہوتے ہیں۔  بقول غالب یہ بازیگر ہیں ، جادوگر ہیں جو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ جو ہم سوچتے ہیں وہ دکھاتے ہیں۔ جو ہم دیکھتے ہیں وہ ہماری تعبیر ہے۔

روبوٹ سے تو توقع ہو سکتی ہے کہ تعبیر کے فریب کی جادوگری سے متاثر  نہ ہو لیکن انسان تعبیر کے سحر سے نہیں نکل سکتا۔  انسان کا ذہن ایک وقت میں ایک ہی سچ کو مان سکتا ہے۔ اس لئے جب تعبیر بدلتی ہے تو سچ بھی بدل جاتا ہے۔ جب بار بار تعبیر بدلے تو سچ گڈ مڈ   ہوجاتا ہے۔ کامیاب جادوگر کو روبوٹ اور انسان کا فرق معلوم ہے اس لئے وہ ایک ہی وقت میں بے شمار سچ بولتا ہے،  پورے اور آدھے بھی، متضاد بھی، سچ نما بھی، جھوٹ بھی، اور بہکاوے بھی۔ ناظرین کا ذہن سچ اور جھوٹ کی بحث میں الجھا رہتا ہے اور جادوگر اپنا کام دکھا جاتا ہے۔ روبوٹ کا سچ اور جھوٹ سے سروکار نہیں اس لئے وہ نہ جادو پر یقین کرتا ہے نہ جادوگر کے بہکاوے میں آتا ہے۔

تعبیر کا فریب یہ ہے کہ ہم  دوسروں کی تعبیر کو غلطی بتاتے ہیں لیکن اپنی تعبیر کو سچائی سمجھتے ہیں۔  ہم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سارا کھیل تعبیر کا ہے۔ ہم آنکھ سے دیکھتے، کان سے سنتے، زبان سے چکھتے، ناک سے سونگھتے اور ہاتھ سے چھوتے ضرور ہیں لیکن معلومات کی حد تک۔ حقیقت کیا ہے  یہ تعبیر دماغ اور دل کا کام ہے۔ تعبیر ذاتی تجربے، معاشرتی تربیت، اور مذہبی تعلیمات کی مرہون منت ہے  اس لئے لمحہ بہ لمحہ بدلتی بھی رہتی ہے۔  تعبیر کو نظریاتی سچائی بھی کہا جاتا ہے جو تمام سچائیوں کو یکجا رکھتی ہے۔ نظریاتی سچائی انسان کو  فرشتہ بنا دیتی ہے، جو دوسروں کی غلطیوں کا اندراج تو کر سکتا ہے لیکن خود  کبھی غلطی نہیں کرتا۔ غالب کے بارے میں مشہور ہے کہ غالب فرشتوں کے لکھے پر ناحق  پکڑ لئے جاتے تھے اس لئے انہیں فرشتوں سے شکایت  رہتی تھی ۔ شارحین کلام غالب نے وضاحت کردی ہے کہ ان کا اشارا انگریزوں  کے خفیہ محکمے کی جانب تھا۔ کیونکہ غالب  کو اصل شکایت یہ تھی کہ  دم تحریران کا آدمی  موجود نہیں ہوتا تھا۔ خفیہ والے  کسی آدمی کو ساتھ نہیں رکھتے اسی لئےتعبیر کے فریب میں مبتلا رہتے ہیں ۔ وہ صرف نظریاتی سچائی کو سچ مانتے ہیں۔

خفیہ میں انسانیت کا احساس پیدا ہو جائے تو وہ بھی سچ کی جادوگری  اور جھوٹے خواب کی نیند سے  ہڑ بڑا کر جاگ  سکتا ہے۔  لیکن  بے چارہ  انسان ۔ اسے تعبیر کے فریب کی خلش نہ جاگنے دیتی ہے نہ سونے۔  ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے۔ ایک دریا پار کیا تو دوسرا دریا سامنے آجاتا ہے۔  ایک خواب سے اٹھتا ہے تو دوسرا خواب آلیتا ہے۔

پچھلی تعبیر کے چھالے ہیں ابھی پیروں میں    پھر نیا خواب سرہانے سے نکل آتا ہے

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...