مولانا فضل الرحمن اور مولانا شیرانی

753

مولانا محمد خان شیرانی کو میں زیادہ نہیں جانتا۔ جتنا جانتا ہوں، اس کی بنیاد پر یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ ’کسی‘ کے اشارے پر متحرک ہوئے ہوں گے۔ اسی طرح، میں مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو جتنا سمجھ سکا ہوں، اس کی بنیاد پر یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ شیرانی صاحب، فضل الرحمن صاحب کو کوئی بڑانقصان پہنچا سکتے ہیں۔

نادیدہ قوتوں کے ساتھ، مولانا شیرانی کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ (نادیدہ تکلفاً لکھ دیا، ورنہ اب تو سب کچھ دیدہ ہے۔ ہم بے حجابی کے دور میں زندہ ہیں) تاریخ اور حکمتِ عملی کے باب میں، ان کا نقطہ نظر ریاستی بیانیہ سے بہت مختلف رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن سے بھی زیادہ۔ وہ اپنا موقف بغیر کسی ابہام کے بیان کرتے ہیں اور اس باب میں جلوت وخلوت میں کسی فرق کے قائل نہیں۔ ایک واقعہ سے آپ کواس کا اندازہ ہوجائے گا۔ جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے توانہوں نے کشمیرپر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ میں بھی بطور مہمان مقرر شریک تھا۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل مرحوم کے ساتھ برادرِ عزیز سلیم صافی بھی شرکا میں شامل تھے۔ دس بارہ افراد کے اس اجتماع سے مولانا شیرانی کی افتتاحی تقریر چونکا دینے والی تھی۔

یہ خطاب کشمیر کے معاملے میں ریاستی پالیسی پرشدید تنقید پر مبنی اوراس سے اساسی طور پرمختلف تھا۔ اس سے اسلم بیگ صاحب اور حمید گل صاحب کی طبیعت مکدر ہوئی۔ جنرل حمید گل صاحب تو اپنے جذبات چھپا نہ سکے اور اپنی گفتگو میں انہوں نے مولانا پر شدید غم اور غصے کا اظہار کیا۔ مولانا جب پارلیمنٹ کے رکن تھے تو اس وقت بھی اپنی رائے کو کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کرتے تھے۔ قائد اعظم کے بارے میں بھی ان کے خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ریاستی بیانیے کے ساتھ اس جوہری اختلاف کی وجہ سے، میرے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ وہ کسی کے کہنے پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں؛ تاہم اقتدار کے کھیل میں سب کچھ ممکن ہے۔ کسی وقتی ضرورت اور مفاد کے لیے، نظری اختلاف کو پسِ پشت ڈالاجا سکتا ہے۔ آخر متحدہ مجلس عمل نے بھی ایک ایسے وقت میں سیکولر جنرل پرویز مشرف کو کمک پہنچائی جب وہ شکست خوردہ تھے۔ پھراپویشن کے زورکو توڑنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں نقب لگانا، ہماری سیاست میں کوئی نئی بات نہیں۔

مسلکِ دیوبند میں، جس نے بھی مولانا فضل الرحمن کی قیادت کو چیلنج کیا، اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان کے سامنے مولانا سمیع الحق کا دبدبہ اور رسوخ بھی ٹھہر نہ سکا

اسی طرح، معاملے کی حقیقت جو بھی ہو، مولانا فضل الرحمن کیلئے وہ کوئی بڑا چیلنج کھڑا نہیں کرسکتے۔ اس کے دو اسباب ظاہر وباہر ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا حلقہ اثر بلوچستان کے ایک علاقے تک محدود ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں لوگ ان سے زیادہ واقف نہیں۔ دوسرا یہ کہ مولانا فضل الرحمن جیسی سیاسی بصیرت کا مقابلہ کرنے کے لیے، ان سے زیادہ بصیرت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک وہ مسلکِ دیوبند کا سیاسی چہرہ اور اس کے گروہی مفادات کے محافظ ہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک سیاستدان ہیں‘ جو قومی سیاست میں اپنی ایک شناخت رکھتا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں ان کی بات کو وزن دیتی ہیں اوراب ان کی قیادت کو بھی قبول کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ مقام اپنی صلاحیت اور محنت سے بنایا ہے۔

مسلکِ دیوبند میں، جس نے بھی ان کی قیادت کو چیلنج کیا، اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان کے سامنے مولانا سمیع الحق کا دبدبہ اور رسوخ بھی ٹھہرنہ سکا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے کے پی میں، اپنے پہلے دورِ اقتدار میں، پوری کوشش کی کہ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ان کیلئے کوئی بڑا چیلنج کھڑا کرے مگر اسے بھی ناکامی ہوئی۔

مولانا فضل الرحمن نے اس قیادت کیلئے اپنا استحقاق ثابت کیا ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد مسلک دیوبند کیلئے سب سے بڑا چیلنج، نجی جہاد کی وہ تحریک بنی جس کا عَلم فرزندانِ دیوبند کے ہاتھ میں تھا۔ واضح تھا کہ اگر اس تحریک نے اہلِ دیوبند کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تو اس کی زد مدارس اور تبلیغی جماعت جیسے دیوبند کے تعلیمی اور دعوتی بازوئوں پر بھی پڑے گی۔

مزید یہ ہواکہ اہلِ دیوبند میں بھی عسکریت پسندوں کے دو حلقے قائم ہو گئے۔ ایک نے ریاست کے وجود کوچیلنج کردیا اور دوسرے نے خود کو ریاستی پالیسی سے ہم آہنگ رکھا۔ مولانا نے اِس بحران میں سیاسی اور سماجی سطح پر وہ توازن پیدا کیا جس نے اس مسلک کے اجتماعی وجود کو ایک بڑے بحران سے بچا لیا۔ میرا احساس ہے کہ معاصر دیوبندی قیادت میں انکے سوا، کوئی فرد ایسا نہیں تھا جو اپنے مسلک کو اس بحران سے بچا سکتا۔ آج وہ کراچی جاتے ہیں تو جامعہ الرشید اور دارالعلوم میں انہیں یکساں احترام ملتا ہے۔ یہ مدارس مولانا فضل الرحمن کی بصیرت کے باعث بحرانوں سے محفوظ ہیں۔

ایک ایسے مرحلے پر حکومت کی ہمنوائی کا تاثر، جب وہ اپنی غیر مقبولیت کے عروج پر ہے، سیاسی بصیرت کا کوئی اچھا مظہر نہیں

پھر مولانا شیرانی کا اثرورسوخ مولانا طارق جمیل سے تو زیادہ نہیں۔ طارق جمیل صاحب نے جب اپنا پورا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا اس دوران میں، جامعہ الرشید میں جب ان کی خصوصی میزبانی ہوئی تو یہ اقدام مولانا کی قیادت کو شدید نقصان پہنچا سکتاتھا۔ آج ہم جانتے ہیں اس کا نقصان مولانا طارق جمیل کی شہرت اور ساکھ کو تو پہنچا، مولانا کی قیادت اسی طرح مستحکم رہی۔ اب ایسے زیرک شخص کو مولانا شیرانی کتنا نقصان پہنچا سکیں گے؟ اس میں شبہ نہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے لیے بلوچستان کی وہی اہمیت ہے جو نون لیگ کے لیے پنجاب اور پیپلزپارٹی کے لیے سندھ کی ہے۔ وہاں دھڑے بندی سے اس کو نقصان ہو سکتا ہے؛ تاہم، میرا خیال ہے کہ مولانا اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مولانا شیرانی بھی، کبھی پارلیمنٹ تک پہنچ سکتے تھے، نہ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بن سکتے تھے، اگر مولانا فضل الرحمن ان کے لیے راستہ ہموار نہ کرتے۔

مزید برآں، مولانا شیرانی نے بغاوت کے لیے جو وقت چنا، وہ بھی ایسے اقدام کے لیے انتہائی نامناسب ہے۔ وہ اصلاً ایک سیاسی آدمی ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان کی نظر سیاسی ماحول پر نہ ہو۔ ایک ایسے مرحلے پر حکومت کی ہمنوائی کا تاثر، جب وہ اپنی غیر مقبولیت کے عروج پر ہے، سیاسی بصیرت کا کوئی اچھا مظہر نہیں۔ ان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ اس سے عوام میں ان کے بارے میں کیا تاثر قائم ہوگا۔ کچھ ایسی ہی حیرت مجھے حافظ حسین احمد صاحب پر بھی ہے جو سیاسی حرکیات پر اچھی نظررکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد اسرائیل کی حمایت۔ میں مولانا شیرانی سے بہتر سیاست کی توقع رکھتا تھا۔

یہ بات تو واضح ہے کہ جماعتوں میں ایسے اختلافات نظریاتی یا اصولی نہیں، مفاداتی ہوتے ہیں۔ مولانا شیرانی کا مولانا فضل الرحمن سے ویسا ہی ’اصولی‘ اختلاف ہے جیسا جنرل عبدالقادر بلوچ کو نوازشریف سے ہے۔ سٹیج پہ بٹھا دیتے توختم ہوجاتا۔ ایسے اختلافات کی عمر مختصرہوتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام میں، اس سے بڑے اختلافات رہ چکے۔ بالآخر سوادِ اعظم ہی باقی رہا۔ اس بار بھی نتیجہ مختلف نہیں ہوگا۔

تاریخ یہ ہے کہ بڑی جماعتوں سے الگ ہونے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ نعیم صدیقی جیسے لوگ بھی طاقِ نسیاں کی نذر ہوگئے، جماعت اسلامی کی قیادت سے جن کے اختلاف کوکسی درجے میں بھی مفاداتی نہیں کہا جاسکتا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جو اپنا جہاں پیدا نہیں کر سکتا، اسے دوسروں کی آباد کی ہوئی دنیا میں ایک گوشے پراکتفا کرناچاہیے۔ حالات ناقابلِ برداشت ہوجائیں تو پھر اپنی تنہائی کو آباد کرلے۔ تاریخ میں ناہید خان بن کر جینے سے بہتر ہے کہ آدمی شیخ رشید بن جائے۔ وہی بابائے سوشلزم شیخ رشید جو پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے تو گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ ایک آدھ کتاب لکھی اورآسودگی کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کثرت کی خواہش ہے جو ہلاک کرتی ہے۔

بشکریہ: روزنامہ دُنیا

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...