عالمی وبا اور اعتقادات

871

سال 2020ء کو خوف اور بے یقینی جیسے حالات کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ اگرچہ کووڈ-19 نے انسانوں کو پہلے سے زیادہ ڈیجیٹل اور عالمگیریت کی حامل طرز زندگی میں ڈھالا ہے، تاہم اس وبا نے انسانوں کی یہ کمزوری بھی ظاہر کی ہے وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہوسکے کہ وہ عالمی سطح کے بحرانی اوقات میں بھی سماج کے مذہبی، نسلی، سیاسی نظریاتی اور نفرت کو ہوا دینے والے ان جیسے دیگر مسائل پر قابو پاسکیں۔ یہ سال اس بات کی یاددہانی بھی کراتا رہے گا کہ فطرت کے دائرے میں زندگی کی حیثیت کمزور رہتی ہے، یوں یہ انسانوں کو جستجو، امید اور بقاء کے سفر کو جاری رکھنے کی وجہ فراہم کرتی ہے۔

اس وبا کے دوران مذہب نے کئی حوالوں سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ دنیا کے بہت سارے سرکردہ مذہبی اداروں اور رہنماؤں نے اس وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کیا ہے، جس میں سرے سے اس بیماری کے وجود کو مسترد کرنا بھی شامل تھا، لیکن ایک طریقے سے ان کے اس عمل سے وبا کے خوف پر قابو پانے اور گھبراہٹ کو کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ وائرس کی موجودگی کے انکار اور اس کے متعلق سازشی نظریات کے پھیلاؤ کی طرح کووڈ-19 کی ویکسین کے آنے سے قبل ہی اس کے بارے فرضی کہانیوں کی بھرمار کردی گئی۔

مگر جس طرح بہت سارے لوگوں نے وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد اس سے متعلق اپنے خیالات کو تبدیل کیا اسی طرح امید کی جاسکتی ہے کہ ویکسین کے خلاف مزاحمت کی سوچ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ مولانا طارق جمیل کا اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد والا ویڈیو پیغام اس کی مثال ہے جس میں انہوں نے وائرس کی وجود کو مسترد کرنے کے اپنے سابقہ بیان سے رجوع کرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ تمام ایس او پیز اور احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔

مذہبی ذہن کو سمجھنا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا ہے، اور یہ اپنے آپ کو کسی ایک طے شدہ سانچے میں پیش نہیں کرتا۔ وبا اور خوف کے حالیہ عرصے میں جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی کو پڑھنا دلچسپ رہا جسے گارڈین اخبار نے مقدس طرزِ تحریر والا لکھاری (Cult Writer) کا نام دیا تھا۔ اس کے ناولوں میں سے Norwegian Wood، Kafka on the Shore،1Q84، Colourless Tsukuru Tazaki، اور His Years of Pilgrimage ایسے تھے جن کی وجہ سے مطالعے کی لذت دوآتشہ ہوگئی۔ تاہم موراکامی کا دلچسپ غیرافسانوی شذرہ Underground نامی کتاب ہے جس سے پیچیدہ مذہبی ذہنیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

موراکامی کے اخذکردہ نتائج سے اس خیال کی بھی تائید ہوتی ہے کہ لوگوں کے اندر گروہی وابستگی کے ساتھ گناہ کرنے کا میلان زیادہ ہوتا ہے، جبکہ اس کی بنسبت بغیر گروہی وابستگی کے انفرادی حیثیت میں اس جانب رجحان کم ہوتا ہے

ناول ’زیرزمین‘ کی پہلی طباعت جاپانی زبان میں 1997ء میں ہوئی تھی، یہ کتاب دراصل مارچ 1995ء میں ٹوکیو شہر کی زیرزمین میٹرو میں ہونے والے گیس کیمیکل حملے کے متأثرین سے اور حملے کی ذمہ دار اوم شرنکیو نامی جماعت کے ارکان سے کیے جانے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ اوم شرنکیو (جس کا مطلب ہے عظیم ترین سچائی) ایک نام نہاد مقدس نظریات کا حامل جاپانی گروہ ہے جو زندگی، کائنات اور موت کے حوالے سے مخصوص مقدس نوع کے افکار رکھتا ہے، یہ اس زیرزمین ہونے والے اور دیگر کچھ حملوں میں ملوث تھا۔ اوم جماعت کے کچھ ارکان نے ٹوکیو کی بھیڑ سے اٹی ریل گاڑیوں میں ایک خاص مائع کیمیکل سے بھری ہوئی پلاسٹک کی تھیلیاں رکھی تھیں جس کے باعث 12 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے۔

اس کتاب نے موراکامی کی بعد کی تحریروں، بالخصوص 1Q84 پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 1Q84 تین حصوں پر مشتمل ناول ہے جس میں مقدس نظریات کے حامل دو گروہوں کی کہانیوں سے پردہ اٹھایا کیا گیا ہے، یہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کتاب ’زیرزمین‘ کا افسانوی روپ ہو۔ تاہم مؤخرالذکر کتاب زیادہ عمدہ ہے اور یہ اس بات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے کہ آخر کیوں لوگ مخصوص مذہبی جماعتوں کا حصہ بنتے ہیں، اور کس طرح فرد کا ماضی، اس کے احساسات، افکار و شناخت اسے ابھارتے ہیں کہ وہ اس نوع کے اقدامات اٹھائے۔ موراکامی کو انٹرویوز کے دوران یہ معلوم ہوا کہ اوم جماعت سے تعلق رکھنے والے بہت سارے اراکین اعلی تعلیم یافتہ ہیں جو اپنے رہنما کے جاری کردہ احکامات پر کوئی سوال نہیں کرتے۔ موراکامی کے اخذکردہ نتائج سے اس خیال کی بھی تائید ہوتی ہے کہ لوگوں کے اندر گروہی وابستگی کے ساتھ گناہ کرنے کا میلان زیادہ ہوتا ہے، جبکہ اس کی بنسبت بغیر گروہی وابستگی کے انفرادی حیثیت میں اس جانب رجحان کم ہوتا ہے۔

تعلیم یافتہ نوجوان بہت سارے معاشروں میں مذہبی اداروں کی طرف مائل پائے جاتے ہیں، بشمول جنوب اور جنوب مشرقی ایشیائی معاشروں کے۔ وہ ان اداروں کے بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل اور ان کے نیٹ ورکس کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جاپانی نقطہ نظر سے موراکامی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مخصوص مذہبی نوع کے حلقوں کی طرف میلان کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں، لیکن ایک حیرت انگیز عنصر جس کی طرف انہوں نے نشاندہی کی وہ یہ تھا کہ کہ ان نوجوانوں میں سے بہت سارے زندگی اور دنیا کے فلسفے میں دلچسپی رکھتے تھے، اور یہ ایک طرح کی ’فکری برتری‘ کی سوچ کا شکار تھے۔ اس حالت نے ان کی ذات میں اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ وہ تنہائی کا شکار تھے اور اپنی اضطرابی کیفیت کو اپنے جیسے مزاج کے حامل لوگوں کے آگے بیان کرنا چاہتے تھے۔ اوم نے انہیں یہ موقع فراہم کیا۔ ایک اور دلچسپ چیز یہ بھی تھی کہ اوم جماعت کے اراکین کی اچھی خاصی تعداد نے 70 اور 80 کی دہائیوں میں اپنے تعلیمی سالوں کے دوران نوسٹراڈیمس کی پیشین گوئیوں کو پڑھ رکھا تھا۔ اس وقت نوسٹراڈیمس کی شخصیت بہت مشہور ہوگئی تھی۔ بیسویں صدی کے آواخر میں دنیا کے خاتمے کے بارے میں اس کی پیشگوئی نے بہت سے ذہنوں کو متأثر کیا تھا۔

تعلیم یافتہ نوجوان بہت سارے معاشروں میں مذہبی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں کی تشکیل اور ان کے نیٹ ورکس کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں

یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں کہ داعش نے اپنی فکر کی بنیاد ایک مذہبی پیش گوئی پر قائم کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ یہ جماعت امام مہدی کی آمد کے لیے میدان تیار کر رہی ہے جو ’قربِ قیامت‘ کے وقت میں ظہور کریں گے اور کفار سے جنگ کریں گے۔ دولت اسلامیہ نے اپنے جھنڈے کو اسی اعتقاد کی مناسبت سے تیار کیا ہے اور اپنے مجلے کا نام ’دابق‘ بھی اسی تناظر میں رکھا ہے، دابق ترک سرحد کے قریب شامی شہر ہے جس کے متعلق پیش گوئیوں میں مذکور ہے کہ اسی علاقے میں قرب قیامت کے وقت مسلمانوں اور اس کے دشمنان کے مابین معرکہ بپا ہوگا۔

اگرچہ جاپان اور پاکستان کے معاشروں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے، ان کے علاوہ مختلف دیگر عوامل پیش کیے جاسکتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان ممالک میں کچھ لوگ مذہبی اداروں سے وابستگی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں کئی مذہبی شخصیات اور ادارے ایسے موجود ہیں جو سامعین کو راغب کرنے کے لیے اپنے خوابوں اور مذہبی پیش گوئیوں کی تشریحات کو پیش کرتے ہیں۔ ماضی قریب سے ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر طاہرالقادری ایسے نمایاں علماء ہیں جو پیش گوئیوں کی تشریحات اور خوابوں کے ذکر کے حوالے سے معروف رہے ہیں۔

موراکامی نے جو انٹرویوز کیے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اوم جماعت کے ارکان اپنی متصور کی ہوئی زندگی کی لایعنیت کے خوف میں مبتلا تھے، حتی کہ 1995ء کے گیس حملے کے بعد بھی ان کی اکثریت نے جماعت سے وابستگی کو ترجیح دی کیونکہ وہ اب تک اپنے اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں مخمصے کا شکار تھے۔ اگر کوئی شخص آئیڈیالوجیکل ذہن کا گہرائی سے تجزیہ کرے تو وہ موراکامی کے اخذکردہ نتائج سے اتفاق کرے گا۔

کسی بھی مذہبی نوع کی مقدس گروہ بندی کا ناپسندیدہ پہلو دوسروں کے خلاف نفرت ہے جو اس سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں، اور یہ اس وقت مزید قابل نفرین بن جاتی ہے جب یہ تشدد کو جنم دیتی ہے۔ کتاب ’زیرزمین‘ درج ذیل پیراگراف کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے:

’’ممکن ہے وہ چیزوں کے متعلق کچھ زیادہ سنجیدگی سے سوچتے ہیں۔ شاید ان کی ذات میں کوئی درد سا ہے جسے وہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو اپنے جذبات سے آگاہ کرنے کے فن سے آشنا نہیں ہیں اور وہ کسی حد تک بے چین ہیں۔ وہ اپنے من کے اظہار کے لیے موزوں ذرائع تلاش نہیں کرسکتے، نہ اپنی ذات کو فخریہ برتری اور دبی ہوئی کمی کے احساسات کے درمیان اعتدال میں رکھ سکنے کے وسائل پاتے ہیں۔ یہ شخص میں بھی ہو سکتا ہوں، یا ممکن ہے آپ بھی ہوسکتے ہیں‘‘۔

مترجم: شفیق منصور، بشکریہ: روزنامہ ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...