ادیب نما مسخروں کا دور 

2,077

انحطاط پذیر سماج میں تحسین و تنقید، کذب و صدق، حب و بغض سمیت کوئی بھی رویہ اور فعل خالص نہیں ہوتا کہ ہر عمل کی عمارت کسی نہ کسی زاتی مفاد کی بنیادوں پر اٹھائی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے کی اکثریت مسلسل ایک خوف تلے زندگی گزارتی ہے اور وہ ہے: منکشف ہو جانے کا خوف۔

اس خوف سے منافقت، جھوٹ، فریب، غیبت، ستایشِ باہمی، بہتان تراشی، بغض اور عناد جیسی وبائیں پھوٹتی ہیں۔ ہر کوئی اپنے ننگ سے توجہ ہٹانے کے لیے دوسرے کی برہنگی کے فضائل بیان کرتا ہے اور عیب گیری کی صورت میں دادا گیری کا مظاہرہ۔ ہمارے سماج کا مسلط شدہ قاعدہ ہے: ایک دوسرے کے خاشاک کے تودوں کو کوہ دماوند کہنا کہ اسی ’’زریں اصول‘‘ کی برکت سے کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا جو حقیقت آشکار کرے۔ حقیقت کا اخفاء جب ذریعہء بقاء سمجھ لیا جائے تو اخلاقی قدریں فنا ہو جاتیں ہیں۔

ملاوٹ زدہ رویوں کے نمایندہ  معاشرے میں زندگی کا ہر شعبہ، گوشہ اور حصہ داغ دار کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ علوم و فنون اور ادب کو بھی استثنا نہیں ملتا۔ ایسے سماج میں سچ بولنا، سننا، لکھنا، پڑھنا اور سہنا خاصا کٹھن ہوتا ہے۔

ہماری معاصر ادبی تنقید بھی حقیقت کے انکشاف کی بہ جائے اس پر لحاف ڈال رہی ہے۔ ایک طرف نقاد مصلحت کی کمان پر ذاتی مفاد کا تیر کھینچے ادب کے عصری مسائل کی بجائے لاطائل نظری موضوعات کے نشانے لے رہے ہیں۔ دوسری طرف دائمی ادب فروش، جینوئن ادیبوں کے ناپ کی سِلی ہوئی پوشاکیں زبردستی ادیب نما مسخروں کو پہنا رہے ہیں۔ اپنے ناپ اور اوقات سے بڑی عبائیں پہنے یہ ادیب نما حضرات اور بھی مضحکہ خیز لگ رہے ہیں۔ ان ادھار کی قباوں میں ان کی حقیقت ایسے ہی منکشف ہوئی ہے جیسے کانچ کے منکے لعل و گہر کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں۔ لیکن کنکر کو جوہر ثابت کرنے پر بہ ضد ہمارے درشنی مبصرین اس جگ ہنسائی کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر راضی ہیں کہ اردو ادب کی یہ تذلیل، اس سے وابستہ ہر شخص کی رسوائی ہے۔ خواہ وہ تخلیق کار ہو، نقاد ہو یا قاری۔

ادب میں اپنے اپنے کیمپ کا قیام کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ ادبی حلقوں اور انجمنوں کے انتخابات کے بطن سے جنمے دھڑوں اور لابیوں کا سفر بالآخر انجمن ہائے فروغِ ادیب نما پر منتج ہوا ہے۔ یہ انجمنیں ادیب گر ہیں جہاں لکھاری آرڈر پر تیار کیے جاتے ہیں۔ بعد از تیاری ان پر اپنی اپنی کمپنی کا ٹھپہ لگایا جاتا ہے اور پھر تعریفی مضامین کی بھرپور مارکیٹنگ کے بعد یہ پراڈکٹ بازار میں لائی جاتی ہے۔ اسی دوران  کتابوں پر تبصرے لکھنے والے پیشہ ور مبصرین اور نقادوں کا دھندا بھی خوب چلتا ہے جو دہائیوں سے اس ’’زریں اصول‘‘ پر عمل پیرا ہیں کہ اپنے کیمپ کے ادیب کے تمام گناہ معاف اور مخالف کیمپ کے لکھاری کی نیکیاں بھی گناہ۔

ایک وقت تھا جب آم درختوں پر پکتا تھا۔ قدرتی طریقے سے تیار ہونے والا یہ پھل زائقے اور لذت میں بے مثال ہوتا تھا۔ لیکن آج کل اسے  کچا ہی اتار لیا جاتا ہے اور ازاں بعد مسالہ لگا کر مصنوعی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ ادیبوں کے ساتھ بھی ہے۔ پہلے ادیب اپنی ریاضت، محنت، مطالعے، اعلی تخلیقی صلاحیت اور جنون کی آنچ پر پک کر تیار ہوتا تھا۔ لیکن آج کے کئی ادیب نما حضرات مسالہ لگا کر تیار کئے گئے ہیں۔ کئی تو بالکل ہی کچے توڑ لیے گئے ہیں کہ  مسالے سے بھی نہیں پک رہے۔ اب ظاہر ہے کچے آم اور ادیب کا اچار ہی ڈالا جا سکتا ہے۔ انجمن ہائے فروغِ ادیب نما پکے آموں کا اچار تو ثواب سمجھ کر ڈال رہی ہیں لیکن اپنی ادھ کچری کیریوں کو مرتبان میں نہیں بل کہ قارئین کے اذہان میں انڈیل رہی ہیں اور انڈیلتی رہی ہیں۔

کرائے کے مبصر مسالہ لگا کر زبردستی تیار کیے گئے ان برانڈڈ ادیب نما نوٹنکیوں کی پھیکی اور بد ذائقہ تحریروں کو تعبیر و تشریح کے طلائی برتنوں میں پیش کر رہے ہیں۔  لیکن بھائی صاحب! تعبیر، تشریح اور تجزیہ اسی وقت معنی خیز ہو سکتا ہے جب تحریر میں گہرائی اور معنوی تہہ داری ہو۔ ان ادیب نما حضرات کے ناولوں اور افسانوں کے صفحات پر یک پرتی معنی ایسے تیرتے ہیں جیسے اتھلے پانیوں میں لاروا، البتہ ہمارا سہما ہوا نقاد محض اس ’’دوررس‘‘ بندوبست کے تحت کہ آج میں مصنف کی پگڑی نہ گرنے دوں تو کل وہ بھی میرا سر ننگا نہیں ہونے دے گا، حقیر کنکروں پر تعبیرو تشریح کا رنگ روغن کر کے اسے لعل و گہر کے ساتھ رکھ دیتا ہے۔ مگر زہین قاری کی قرات کی پہلی بارش ہی سے ان کا سارا رنگ روغن اتر جاتا ہے اور اپنی اصلیت میں معمولی تحریروں کے یہ کنکر، بڑے ادب کے جواہر کے سامنے اور بھی بد نما لگنے لگتے ہیں۔

سچے ادیب کو حوصلا افزائی کے قوت بخش ٹیکوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی تنقید کے سپیڈ بریکر اس کے فن کی روانی میں خلل ڈال سکتے ہیں

بھاڑے کے نقادوں کے ایسے توصیفی مضامین ان ادھ کچری تحریروں پر بم کی طرح گرتے ہیں جن میں مضمون نگار سوائے نیوندرا ڈالنے کے اور کوئی ’’مفید‘‘ کام نہیں کرتا۔ ان ’’بے نظیر‘‘ تبصروں میں زبان، کردار نگاری، فضا کاری، جزییات نگاری، ہئیت اور اسلوب پر ایک سطر لکھے بغیر ان ست ماہے ادیب نما لکھاریوں کی تحریر کو محض بے تُکی تعبیروں کی بنیاد پر ادبی شہ پارہ قرار دے کر تنقیدی بصیرت کو پارہ پارہ کر دیا جاتا ہے۔

انہی ’’فقید المثال‘‘ مضامین، تبصروں اور ادب فروشوں کی مسلسل ہلہ شیریوں نے ان ادیب نما مسخروں کو نرگسیت اور خود فریفتگی کا مریض بنا دیا ہے۔ ان کی تخلیقی ادائیں زمین بوس اور انائیں فلک بوس ہیں ۔ داد و تحسین کی بڑی بڑی دعوتیں اڑا کر خود پسندی کے لکڑ ہضم پتھر ہضم  معدوں والے درجہ سوم مصنفوں کی انائیں انہیں تنقید کا ساگودانہ بھی ہضم نہیں کرنے دیتیں اور یہ سرِ بزم ردِ عمل، مدافعت و مزاحمت کی الٹیاں کرکے ادبی فضا مزید متعفن کر دیتے ہیں۔

سچے ادیب کو حوصلا افزائی کے قوت بخش ٹیکوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی تنقید کے سپیڈ بریکر اس کے فن کی روانی میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ اصل میں ادیب نما ٹھٹھولوں اور ادب کے گھس بیٹھیوں کا ہے جن کی تحریروں کے سیکنڈ ہینڈ کابلی انجن، تحسین کے ملاوٹ زدہ پٹرول سے چلتے ہیں اور تنقید کی زرا سی ریس دینے سے ان کے رِنگ پسٹن اڑ جاتے ہیں اور یہ پہلے جھٹکے اور پھر دھواں دینے لگتے ہیں۔

اپنی تحریروں میں کڈھب، بودی اور لاغر زبان استعمال کرنے والے ادیب نما حضرات کے ’’لافانی ناولوں‘‘ پر جب تنقید کی جائے تو پھر ان کی زبان و بیان میں ’’مہارت‘‘ دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ موصوفین مع اپنے گماشتوں اور ٹیڈی پیسوں کے اپنی اپنی فیس بک والز پر اس تنقید کے ردِعمل میں ایسی ایسی ” عمدہ” تراکیب اور اصطلاحات سے اردو زبان کا دامین ’’وسیع‘‘ کرتے ہیں کہ طبیعت شاد ہو جاتی ہے کہ بہ فضلِ خدا اردو ادب کا مستقبل کتنے ’’محفوظ‘‘ ہاتھوں میں ہے۔ زبان ایسی کہ ادب سے محبت رکھنے والا ہر شخص نفرت معذرت ’’حسرت‘‘ سے دیکھتا ہے:

’دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا‘

میں مان ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص محض اپنی محنت اور لگن سے اتنی ’’عمدہ‘‘ زبان سیکھ لے جب تک کہ گھر کا ماحول سازگار اور تربیت مددگار نہ ہو۔ اور موصوفین ہی کیا اس پوسٹ پر کمنٹ کرنے والے بھی ایسے ماحول اور تربیت سے کہاں محروم رہے ہوں گے۔

قوم کی اخلاقی اور ادبی تربیت کے لیے ایسا خُلقِ عظیم رکھنے والے اشخاص کی مدد لینی چاہیے جو ایسی ہی پڑے پڑے پرانے ہو رہے ہیں۔ ایسا لوکل ٹیلنٹ استعمال میں نہ لانا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔

بھائی! کیوں اتنے کبیدہ خاطر ہو، ادب کے باغ میں اگے پودوں کی جھاڑ جھنکاڑ کرنے سے کوئی اس کا مالک تو نہیں بن جاتا۔ گلشنِ ادب پر ہم سب کا حق ہے۔ کسی کی چاند کو گرہن سے پاک دیکھنے کی خواہش اسے اس کا مالک و قابض نہیں بنا دے گی۔ گہن کے شکنجے سے آزاد چاند کی چاندنی ہر سو پھیلے گی جس سے سارا جہانِ ادب روشن ہوگا۔ وہ جہان جو ہم سب کی پناہ گاہ ہے۔

اس گالم گلوچ اور دریدہ دینی کے علاوہ بھی ان ادیب نما افراد کو حق بات کرنے والے نقادوں سے متعلق بہت سی مصروفیات لاحق ہیں۔ کھبی یہ ان کا کُھرا تلاش کرتے ہیں تو کبھی ان افراد کو جو ان ’’گستاخ مضمون نگاروں‘‘ کی پشت پناہی (ان کی دانست میں) کر رہے ہیں۔ جب کوئی دوسروں کو اپنی شخصیت کے آئنے میں دیکھتا ہے تو ایسے ہی غلط نتائج تک پہنچتا ہے۔ کسی بھی شخص کی سب سے قیمتی متاع، اس کی حریتِ فکر ہوتی ہے۔ زاتی مفادات کی دلدل میں گردنوں تک دھنسے افراد لیکن اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ خود فریفتگی کے مرض میں مبتلا ان ادیب نما مریضوں کا خیال ہے کہ ان کی تحریریں مُنَزَّہ عَنِ الخَطا ہیں اور ان کے خلاف کوئی منظم سازش ہو رہی ہے۔ خاطر نشان رہے کہ اس کور چشمی کی وجہ درباری نقادوں کے فرمائشی مضامین اور ادب فروشوں کی ہلہ شیریوں کی وہ سیاہی ہے جسے یہ ادیب نما لاف زن،  سرمہء نورِ بصارت سمجھ کر خودبینی کی سلائیوں سے مسلسل اپنی آنکھوں میں لگا رہے ہیں۔ ان حضرات نے اپنے باطن میں جھوٹی انا کی دیواریں اٹھا رکھی ہیں سو آیندہ بہتری کی راہ بھی مسدود ہے۔

سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ خود فریفتگی کے مرض میں مبتلا ان ادیب نما مریضوں کا خیال ہے کہ ان کی تحریریں مُنَزَّہ عَنِ الخَطا ہیں اور ان کے خلاف کوئی منظم سازش ہو رہی ہے

اتنی اشتہار بازی اور ہنگامہ پردازی کے باوجود خبطِ عظمت انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ کہیں دھڑا دھڑ انجمن ہائے تشہیرِ باہمی بنائی جا رہی ہیں تو کہیں ستائشِ باہمی کے ’’زریں‘‘ اصول پر عمل کرتے ہوئے ’’ٹاپ ٹین‘‘ ناولوں اور ادیبوں کی من چاہی، ’’مکمل حساب کتاب‘‘ سے تیار شدہ اور ادبی شعور کی بجائے سماجی سوجھ بوجھ کی بنیاد پر مرتب کردہ فہرستیں جاری کی جارہی ہیں۔ دلائل و براہین سے پاک اور من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو مارکہ فہرستوں اور جوابی تعریفی مضمونوں کے مرتکبین معاف کیجئے گا مرتبین، مصنفین اور متعلقین ، بساند مارتی، رد شدہ، ریستورانی اصطلاحات کی پھکیوں سے ایک دوسرے کے تخلیقی و تنقیدی سوئے تغذیہ، تبخیر اور عفونتِ جراثیمی کا اپائے کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے تشہیری ہتھکنڈوں کی کوکھ سے جنمے یہ بصارت سوز جملے ملاحظہ فرمائیں:

’’اس طرح کا ناول مغرب میں بھی نہیں لکھا گیا‘‘

’’یہ ناول ہر لحاظ سے نوبل انعام کا حق دار ہے‘‘

’’اس ناول نے جناب ۔۔۔۔۔۔۔ کو دنیا کے عظیم ترین ناول نگاروں میں کھڑا کر دیا ہے‘‘

بل کہ میرا خیال ہے: سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔

’’محترمہ ۔۔۔۔۔۔  کا یہ ناول صرف ایک تخلیقی قدم نہیں ہے، کئی نسلوں کی جدلیاتی نفسیات اور فکری مجادلے کا مونتاج بھی ہے۔‘‘

’’میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ میں نے فکشن کو بہت دل جمعی سے پڑھا ہے مگر یہ ضرور ہے کہ میں نے بہت سا رطب و یابس کھنگالا ضرور ہے اور ان میں معروف یا غیر معروف دونوں طرح کے لکھنے والے شامل ہیں۔ ان میں قاری کو جکڑ لینے والے اور اچٹانے والے کئی طرح کے فکشن نگاروں سے واسطہ پڑا مگر کم کم ہی ایسے ملے، جنہوں نے حقیقت اور فنتاسی کے متناسب ادغام سے کسی کتھا کو بنا ہو۔ کچھ نام جیسے ہرمن ہیسے، اتالو کلوینو، میلان کنڈیرا، وجے دان دتھا، پائیلو کوئیلو تو سامنے کے ہیں مگر پیٹرک سکنسڈ، اساماعیل کاردارے اور ولاس سارنگ بھی کسی سے کم نہیں اور ان کا شمار میں ان لوگوں میں کرتا ہوں جو طلسماتی اور الف لیلوی روایت کے داعی ہیں۔ …… لکھنے کے بعد میں ۔۔۔۔۔ کو بھی ان کی صف میں کھڑا دیکھتا ہوں۔‘‘

بھئی کوئی دیکھے نہ دیکھے، فاضل مضمون نگار تو دیکھ رہا ہے۔ اور ہم بہ صد حیرت موصوف کو دیکھ رہے ہیں۔

کچھ تبصروں میں تو مضمون نگار خود نہیں جانتا کہ آخر  وہ کہہ کیا رہا ہے:

’’بلا شبہ یہ حقیقت ناولائے ہوئے متن کو خاص ہیئت، یا بے ہیئت یا نو ہیئت بخشنے ہی سے وُجود پذیر ہوئی، جس میں ناول نگار کی چالاکی او دانش مندی کو کافی دخل ہے۔‘‘

یعنی تبصرہ نگار فیصلہ ہی نہ کر سکا کہ متن کی ہیئت اصل میں ہے کیا اور ناول پر پورا مضمون داغ دیا۔ ایسے تبصرے، جیسا کہ میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں، ناول پر اور ناول پڑھنے کے بعد قاری کے اعتماد پر بم بن کے گرتے ہیں۔

کوئی اور مانے نہ مانے؛ اک دوجے سے اپنا آپ منوا کر بغیر اکھاڑے میں اترے، یہ کب کے رستمِ زماں بن چکے۔  اب تخلیقی و تنقیدی ریاضت اور عمیق مطالعے سے کیا حاصل ہوگا ویسے بھی انہیں تحقیق، تدقیق اور غور و فکر سے بہتری کا زبردست خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اس اشتہار بازی میں سب سے زیادہ آسانی پروفیسر اور ڈاکٹر ادیبوں کو میسر آتی ہے۔ موصوفین کے شاگردوں کی فوج ظفر موج ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور استادِ مکرم کا ہر طرح کا اعتبار جیتنے کی دوڑ میں استادِ محترم کا ادبی اور اپنا تعلیمی کیریئر بچانے کے لیے، جناتی اصطلاحات سے مزین ایسے ایسے توصیفی مضامین لکھتی ہے کہ قلم و قرطاس ایک دوسرے سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔

ان ادیب نما خود پرستوں میں سے کچھ تو ذاتی تشہیر میں اتنے مشاق ہو چکے ہیں کہ انہیں کرائے کے مضمون نگاروں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہ اصل میں اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے قائل ہیں۔ انہی میں سے ایک حضرت، ہمارے ہمسایہ ملک میں اپنی تخلیقی عظمت کا علم خود ہی اٹھائے ہوئے ہیں۔ موصوف نے پہلے تو مارکیز کے انٹرویو سے ’’کچھ خاص غذاؤں کی بابت کولمبیا کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان کی مہک سے بلائیں آتی ہیں‘‘ والی بات چرا کر من و عن اپنے ناول کے پلاٹ میں ڈال دی اور اردو ادب میں میجیکل رئیلزم کی درآمد معاف کیجئے گا آمد کا دعویٰ کر دیا۔ اور اب حال ہی میں رومن پولنسکی کی فلم ’’knife in the water‘‘ کو چرا کر اپنے نئے ناول کا نام رکھ لیا۔ اس بین الاقوامی سرقیدگی کے بعد اگر وہ اپنی تحریر کو عالمی سطح کی “تخلیق” کہتے ہیں تو کیا غلط کہتے ہیں؟

یہ ادیب نما خود بیں، عمدہ طرزِ تحریر سے نہیں، منفرد طرزِ تشہیر سے اپنی ” نادرِ روزگار” تخلیقات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور قارئین انہیں پڑھ کر اپنا سر۔ کاش ان تشہیریوں کو ٹی ایس ایلیٹ کی یہ بات سمجھ آ جائے کہ “ادب شخصیت کے اظہار نہیں اس سے گریز کا نام ہے۔” ورنہ ادبی ماحول میں اس عجیب خود پرستی کا کھلا رجحان فروغ پاتا رہے گا اور تخلیقی شعور مزید سکڑے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...