سعودی ولی عہد کو قطر محاصرے کے متعلق یہ بات سمجھنے میں تین برس لگ گئے جس کا ہم میں سے کئیوں نے محاصرے کے ابتدائی چند دنوں میں اندازہ کر لیا تھا۔ اور وہ یہ کہ قطر محاصرہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔
ایک آزاد پڑوسی کی آواز کو دبانے کا منصوبہ تب ہی ناکام ہوگیا تھا جب اُس وقت کے امریکی ڈیفینس سیکرٹری جیمس میٹس اور سٹیٹ سیکرٹری ریکس ٹیلرسن کو یہ علم ہوا تھا کہ خلیجی اتحاد قطر کی طرف پیش قدمی کرسکتا ہے اور یہ دونوں شخصیات اس ممکنہ اقدام کے آڑے آ گئی تھیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ قطر مضبوط ہوتا گیا۔ ترکی افواج نے اسے فوجی تحفظ فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ایران نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی، جب قطر سعودی عرب کو لگنے والی فضائی حدود تک رسائی رکھتا تھا ایسے میں خلیجی اتحاد کے کامیاب ہونے کے امکانات نہیں تھے۔
قطر کو واشنگٹن میں اپنی لابی مضبوط کرنے اور سعودی اماراتی لابی کے اثرورسوخ کو کم کرنے میں فقط چند ماہ صرف ہوئے، اس دوران قطر نے اپنے لیے مضبوط جگہ بنالی تھی۔ جب 2017ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹویٹ کے ذریعے خلیجی محاصرے کی حمایت کر رہے تو انہوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی کہ قطر پینٹاگون کے اہم ترین یوجی اڈے کی اپنے ملک میں میزبانی کر رہا ہے۔
سودی ولی عہد نے صدر ٹرمپ کی طاقت اور ان کے اثرورسوخ کو ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا، جبکہ امریکی فوج کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔ میٹس اور ٹیلرسن دونوں سیاسی منظرنامے سے کافی سے غائب ہیں لیکن ان کی طرف سے خلیجی حماقت کے خلاف دباؤ کبھی کم نہیں ہوا، بلکہ وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا۔
جب اس خلیجی پالیسی کے مخالف نئے امریکی صدر جوبائڈن کا وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کا وقت آیا تو محمد بن سلمان کو یہ احساس ہوا کہ اب اپنے فیصلے پر نظرثانی کا قت آگیا ہے۔ آج تک قطر نے ان 13 مطالبات میں سے کسی کو تسلیم نہیں کیا جن کی فہرست اسے دی گئی تھی، اس نے مسلم ممالک اہم مذہبی شخصیات کی میزبانی ترک نہیں کی، نہ اس کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔ الجزیرہ چینل بند نہیں ہوا، جبکہ قطر کا ایران اور ترکی کے ساتھ تعلق مزید گہرا ہوا ہے۔
’’اب خلیجی ریاستوں میں یہ تأثر ہے کہ قطر قبیلے کی کالی بھیڑ ہے جس کے ساتھ ہم نے گزارہ کرنا ہے‘‘
داخلی سطح پہ قطری امیر تمیم بن حمد الثانی کو ملک کے دفاع کے لیے ایک باصلاحیت شخصیت کے طور پہ جانا جانے لگا ہے۔ قطری قوم پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج یہ ریاست پہلے سے زیادہ پراعتماد اور خودکفیل ہے۔
دبئی میں سیاسیات کے پروفیسر عبدالخالق عبداللہ جو محاصرے کی پالیسی کے نمایاں حمایتی تھے انہوں نے اب فائننشل ٹائمز کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ محاصرے کی سخت قیمت چکائی گئی ہے۔ اب خلیجی ریاستوں میں یہ تأثر ہے کہ قطر قبیلے کی کالی بھیڑ ہے جس کے ساتھ ہم نے گزارہ کرنا ہے۔ پچھلے ساڑھے تین سال مجلس تعاون برائے خلیجی ممالک کی تاریخ کے بدترین سال تھے۔
تاہم یہ نئی تبدیلیاں محمد بن سلمان کی ذات کی حد تک محسوس ہوتی ہیں۔ جو چیز دلچسپی سے خالی نہیں وہ یہ ہے کہ منگل کے روز ہونے ہوالے بھائی چارے اور مصالحت کی بیٹھک میں کون موجود نہیں تھا؟ مجلس تعاون برائے خلیجی ممالک کے اس اس اجلاس میں ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید اور بحرین کے بادشاہ حمد موجود نہیں تھے۔ اسی طرح مصری صدر عبدالفتاح سیسی بھی شریک نہیں ہوئے۔ بحرین کا ابھی تک قطر کے ساتھ سرحدی تنازع چل رہا ہے جبکہ مصر کو نئے اقدامات کی نتیجہ خیزی میں شکوک ہیں۔ مصری صحافتی حلقے کے مطابق حکومت کا خیال ہے کہ دوحہ کے ساتھ نئے سلسلے کے آغاز کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ قطری میڈیا مصری حکومت کے خلاف منظم تحریک چلا رہا ہے۔
فی الوقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کیا 2013ء کا انقلاب مخالف عرب اتحاد ابھی تک مضبوط ہے جس نے جنرل سیسی کو صدر بنانے کے لیے پیسے لگائے اور کوششیں کی تھیں۔ تاہم یہ واضح ہے کہ محمد بن سلمان اور محمد بن زاید کے مابین اختلافات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک یمن کا مسئلہ ہے۔ یمن میں 2015ء میں محمد بن سلمان نے اتحادیوں کے ذریعے لشکرکشی کی تھی، مگر اب اس جنگ کی قیادت کس کے پاس ہے؟ اماراتی حمایت یافتہ ملیشیا یمن کے جنوبی علاقوں پر قابض ہے اور سعودیوں کو شمال میں حوثیوں کے ساتھ مڈبھیڑ میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔
اختلاف کی دوسری وجہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ساتھ امارات نے خود کو خلیج میں اسرائیل کا مرکزی حلیف بنادیا ہے۔ امریکہ میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ کے اس بیان نے ریاض اور قاہرہ میں ناراضی پیدا کردی کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اور امارات دو ایسے ملک ہیں جن کے پاس خطے میں سب سے بہترین فوجی صلاحیتیں ہیں۔ عتیبہ نے مصالحت سے ایک سال قبل اسرائیلی اخبار میں لکھا تھا ’’امارات اور اسرائیل دو ایسے ملک ہیں جن کے پاس خطے میں بہترین فوجی صلاحیت ہے اور دونوں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ہیں، اور دونوں کی امریکا کے ساتھ طویل اور مضبوط تعلقات کی تاریخ ہے۔ لہذا دونوں ملکوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ امن وامان کے لیے مضبوط باہمی تعاون کے رشتے کو آگے بڑھائیں۔ دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی سے پورے مشرق وسطی میں استحکام اور اقتصادی شرح نمو میں بہتری آئے گی۔‘‘
امارات کے اسرائیل کے مرکزی حلیف ہونے کے دعوے سے سعودی عرب کے آئندہ بادشاہ کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ایک اور چبز جو منگل کے خلیجی اجلاس میں نمایاں تھیں وہ یہ کہ سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ سلمان بھی اس میں موجود نہیں تھے۔
امریکہ میں اماراتی سفیر یوسف العتیبہ کے اس بیان نے ریاض اور قاہرہ میں ناراضی پیدا کردی کہ مشرق وسطی میں اسرائیل اور امارات دو ایسے ملک ہیں جن کے پاس خطے میں سب سے بہترین فوجی صلاحیتیں ہیں
نئے امریکی صدر کو خوش کرنے کے علاوہ، قطر کے ساتھ سعودی مصالحت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ولی عہد کو عارضی وقت کے لیے ہی سہی، عربی طاقتور میڈیا کی تنقید سے تحفظ مل جائے گا، بالخصوص الجزیرہ جس کی کمان قطر کے پاس ہے اور عرب دنیا میں اس کا بہت نفوذ ہے۔ الجزیرہ نے ان واقعات کی کوریج میں کمی لائی ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ حتی کہ محاصرے سے قبل بھی چینل نے یمن میں خوفناک بمباری کو اتنا نہیں دکھایا جیساکہ 2011ء کے مصری انقلاب کو کوریج دی تھی۔ اگرچہ الجزیرہ میں کام کرنے والے صحافیوں کو اس سے زیادہ آزادی حاصل ہے جو سعودی عرب اور مصر کے صحافوں کو ملتی ہے مگر قطری حکومت بہرحال اس میں کنٹرول رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں سعودی سماجی کارکن لجین الہذول کی سزا پر الجزیرہ نے کوئی زیادہ بات نہیں کی۔
لہذا سعودی ولی عہد کی قطر کے ساتھ مصالحت کے اقدام سے دو مقاصد پورے کرسکتے ہیں: ایک تو اسرائیل کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اور دوسرا وہ اپنے والد پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ سعودی بادشاہت ان کے حوالے کردی جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد بن سلمان کا خیال ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ بادشاہت کے حصول کی کوششوں کے ساتھ ہی ان کے اسرائیلی وزیراعظم نتنیاھو کے ساتھ مراسم بن گئے اور یہی تعلق جیرڈ کشنر اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ربط کی بنیاد تھے۔
سعودی عرب میں اوپر سے لیے کر نیچے تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خلاف رائے عامہ پائی جاتی ہے۔ شاہی خاندان میں خارجہ پالیسی کے ماہر سمجھے جانے والے افراد واضح طور پہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ امیرترکی الفیصل جو شاہ سلمان کے قریبی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اس کے حق میں نہیں ہیں اور خود بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر یہ قدم اٹھایا جاتا ہے تو ملک کے عام شہریوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
ان اقدامات کو اٹھانے اور اس پر تنقید کی حدت کو کم رکھنے کے لیے عرب میڈیا میں کنٹرول کی ضرورت تھی جس کی مرکزی باگ ڈور قطر کے پاس ہے۔ منگل کے دن کے کے مصالحت کے اجلاس میں جیرڈکشنر کی موجودگی اس نکتے کو واضح کرتی ہے۔
اگرچہ قطر خلیجی مصالحت خوش آئند ہے لیکن اس اقدام کے پیچھے کے مضمرات سے جنم لینے والے مسائل عرب دنیا میں مزید بے بے چینی پیدا کریں گے۔
مترجم: شفیق منصور، بشکریہ: مڈل ایسٹ آئی
فیس بک پر تبصرے