مسئلہ سیاسی اخلاقیات کا ہے؟

602

پاکستان کی پارلیمنٹری کمیونٹی میں فقط 1195 سینیٹر، قومی اسمبلی کے اراکین اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین شامل ہیں۔ یہ تمام دستور کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ’’اعلی اخلاقیات‘‘ کے میزان سے گزر کر آتے ہیں۔ ان میں سے 865 جن میں 272 ایم این اے اور 593 ایم پی اے براہ راست الیکشن لڑ کر آتے ہیں۔ باقی ماندہ 330 جن میں 104 سینیٹر، 192 خواتین ایم این اے اور ایم پی اے جبکہ 34 مذہبی اقلیتوں کے نمائندے اپنی پارٹیوں کی مہربانی سے ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ پارلیمانی آبادی تقریباََ 28 فیصد ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اراکین پر مضبوط کنٹرول رکھنا چاہتی ہیں اور آج تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ 1195 افراد کے اس کلب پر  ’’ووٹ بیچنے‘‘ کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں اور سینٹ کے لیے اوپن ووٹ کی بات ہورہی ہے۔ کیا مسئلہ واقعی یہ ہے یا پھر سیاسی جماعتیں ’’نوازشات کا ٹکٹ‘‘ کسے دیتی ہیں کی بحث ہے۔ سینٹ آف پاکستان میں داخلہ کا کلچر کیسے برباد ہوا یہ سمجھنے کے لیے چند تاریخی حقائق کا تجزیہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی وفاقیت کو مضبوط کرنے کے لیے سینٹ آف پاکستان کے قیام کی بات 20 اکتوبر 1972ء کو ہونے والے دستوری معاہدے میں اہل سیاست کے درمیان اتفاق رائے میں ہوئی۔ 31 دسمبر 1972ء کو اس وقت کی قومی اسمبلی کے سامنے دستور کمیٹی کی رپورٹ رکھی گئی تو اس کے پیرا 19 میں دوایونی مقننہ کی بات کی گئی۔ سینٹ آف پاکستان کی تعداد، انتخاب کے لیے سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ اور اس کے ’’تسلسل کا ادارہ‘‘ ہونے کی بات کی گئی۔ اُس وقت سینٹ کو کوئی انتظامی اور نگرانی کا کردار عطا نہیں کیا گیا تھا بلکہ قانون سازی کے حوالے سے بھی کردار محدود تھا۔ تاہم آئینی ترمیم کے لیے سینٹ کا کردار اہم تھا۔

مارچ 1985ء میں غیرجماعتی الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کی طرح سینٹ آف پاکستان کے انتخابات بھی دولت اور وسائل کا کھیل بن گئے۔ تاہم اُس وقت یہ اچھا فیصلہ تھا کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والا کوئی شخص سینٹ آف پاکستان میں سیاسی پناہ نہیں لے سکتا تھا

5 جولائی کے مارشل لاء سے پہلے سینٹ کے تین انتخابات ہوئے۔ پہلا 1973ء، دوسرا 1975ء اور تیسرا 1977ء۔ اُس وقت سینٹ کی اراکین کی میعاد چار سال تھی۔ اگر اُس دور کے سینیٹروں کو دیکھا جائے تو یہ سیاستدانوں، ٹیکنوکریٹ، علماء، خواتین اور کم وسائل والے سیاسی کارکن تھے جو 2 ہزار روپے زرِضمانت جمع کراکر فقط پانچ ہزار روپے (قانونی حد) تک انتخابی اخراجات کرکے سینیٹر بن گئے۔ مارچ 1985ء میں غیرجماعتی الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کی طرح سینٹ آف پاکستان کے انتخابات بھی دولت اور وسائل کا کھیل بن گئے۔ تاہم اُس وقت یہ اچھا فیصلہ تھا کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہارنے والا کوئی شخص سینٹ آف پاکستان میں سیاسی پناہ نہیں لے سکتا تھا۔ غالباََ یہی وہ وقت تھا جب سینٹ کی مدت اور میعاد 6 سال کردی گئی۔ ٹیکنوکریٹ اور علماء کے لیے 5 علیحدہ سیٹیں بھی مختص کردی گئیں۔ تاہم تاریخی طور پہ آپ حیران ہوں گے کہ اُس وقت کے غیرجماعتی بندوبست میں خیبرپختونخوا (اُس وقت کے صوبہ سرحد) اور ساتھ فاٹا سے تمام کے تمام سینیٹر بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ 87 رکنی نئی سینٹ میں ماضی کے صرف تین سینیٹر: سید ذوالفقار علی شاہ (سندھ)، ایم ظہورالحق(خیبرپختونخوا) اور میر نبی بخش زہری(بلوچستان) ہی پہنچ پائے۔ 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی سینٹ میں کوئی خاتون یا مذہبی اقلیتوں کا نمائندہ اپنی جگہ نہ بنا پایا۔ اِس مرحلہ کی ایک حیران کن ڈویلپمنٹ یہ تھی کہ اسلام آباد کے 3 سینیٹروں کا انتخاب 21 مارچ 185ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہوا۔ گویا کھلے عام الیکشن کی روایت بنی جسے بعدازاں کبھی نہیں اپنایا گیا۔ اِس کھلے الیکشن میں مبجرجنرل(ر) صاحبزادہ یعقوب خان، برگیڈئر(ر) محمد حیات، اور مولانا کوثر نیازی(جن کی شاید لائن کٹنے کے بعد فٹ ہوگئی تھی) منتخب ہوئے۔ اِس الیکشن میں اُس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹننٹ جنرل غلام جیلانی خان اپنے دوست بریگیڈئر(ر) عبدالقیوم جن کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا کو سینیٹر بنوانے میں کامیاب ہوگئے۔ پنخاب ہی سے منتخب ہونے والے سینیٹر مسعود ارشد گجیال کے بڑے بھائی میجر جنرل وحید ارشد گجیال ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر لاہور تھے۔ پنجاب سے ہی لیفٹننٹ جنرل(ر) سعید وقار سینیٹر بنے۔

خیبرپختونخوا(اُس وقت کے صوبہ سرحد) سے وہاں کے گورنر لیفٹننٹ جنرل فضل حق کے سسر حاجی محمد عمر، سینئر بیوروکریٹ غلام اسخاق خان اور میجرجنرل(ر) شیردل خان نیازی بھی سینیٹر بنے۔ جبکہ لیفٹننٹ جنرل(ر) سید میاں سابقہ فاٹا سے سینیٹر بنے۔ سندھ سے پیرپگاڑہ جاوید جبار، سرحد سے سرتاج عزیز اور پنجاب سے ڈاکٹر محبوب الحق سینیٹر بنے۔ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد، جمعیت علمائے اسلام کے مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبداللطیف، مخدوم سجاد حسین قریشی بھی سینٹ میں پہنچے۔ اِس غیرجماعتی الیکشن کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ اُس کے بعد سے کم وبیش ہر الیکشن میں چمک اور دھمک کی گونج سنائی دیتی رہی۔ یہاں یہ بات کہنے کا مقصد قطعاََ یہ نہیں کہ سینیٹر میرٹ پر نہیں آئے۔ ایک نہیں درجنوں باکمال لوگ ایوان بالا میں پہنچے۔ 1985ء کی تلخ وشیریں بنیادوں پر ابھی جمہوری عمارت مکمل نہیں ہوئی تھی کہ 1999ء میں سینٹ ایک بار پھر ٹوٹ گئی۔

2003ء میں جو نئی سینٹ آئی اُس کی کہانی بھی کچھ کچھ 1985ء سے ملتی جلتی تھی۔ یہ کہانی آپ کتاب ’’سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح ’’ضمیر مطابق‘‘ ٹکٹ بانٹے گئے اور حتمی فیصلے مارگلہ روڈ پر ایک ملٹری میس میں ہوئے۔ کہانی وہی پرانی ہے اور غلام گردشیں بھی پرانی، اور فیضِ عام جاری ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...