عمرشیخ کی رہائی اور پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

500

آج سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی جانب سے رہائی کے سابقہ حکم کو کالعدم قرارد دینے کے لیے دائر کردہ اپیل کو مسترد کرتے ہوئے صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزم عمرشیخ کی فوری رہائی کا فیصلہ سنایا ہے۔ 2002ء میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینیل پرل کو اغوا کے بعد قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی، جس پر اپیل کا فیصلہ اپریل 2020ء میں سنایاگیا تھا، اس میں سندھ ہائی کورٹ نے سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے سات سال قید کی سزا میں تبدیل کردیا تھا، جو عمرشیخ پہلے ہی پور کرچکے تھے۔ تاہم سندھ حکومت نے نقص امن کے خطرے کے باعث انہیں رہا نہیں کیا اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی کہ موت کی سزا کو بحال کردیا جائے۔ مگر آج سپریم کورٹ کے بینچ نے یہ فیصلہ سنایا کہ ملزم کو فوری رہا کردیا جائے۔

پاکستان میں عمرشیخ کا مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور صحافی برادری کی خاص نظر ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کا دباؤ بھی موجود ہے۔ جب بھی ملک میں ڈینیل پرل کیس میں ملزم کی رہائی کے امکان کی بات ہوئی ہے تو پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی صحافی کا قتل ہے تاہم عمرشیخ کی عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ وابستگی اور ماضی کا کردار اسے مزید خطرناک بناتا ہے۔ اس لیے پاکستان پر ہمیشہ یہ دباؤ رہا ہے کہ اسے رہا نہ کیا جائے۔ خود پاکستان بھی اسے رہا کرنے کا متحمل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہائی کورٹ کے سابقہ رہائی کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں رجوع کیاگیا۔

عمرشیخ کی رہائی سے دہشت گرد تنظیموں کو حوصلہ ملے گا۔ حزب التحریر اور القاعدہ جیسی جماعتوں کے ساتھ ماضی کی وابستگی اسے عالمی دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھی اہمیت کا حامل اور پرکشش بناتی ہے جو پاکستان کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کا دباؤ بھی مزید بڑھے گا اور پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ عمرشیخ کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی یا رہائی تک ریاست کو ہر فورم پر عالمی برادری کے دباؤ کا مسلسل سامنا رہے گا۔

واضح رہے کہ ملزم کی رہائی کے امکان کے پیش نظر دسمبر میں امریکی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ امریکا ڈینیل پرل کے قتل میں ملوث ملزم کو انصاف کا سامنا کرنے سے بچنے نہیں دے گا اور یہ کہ وہ اپنے ملک میں عمرشیخ پر مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...