جمہوریت المیہ نہیں ہے

اداریہ روزنامہ ڈان

592

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طویل المیعاد منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات کرانے کی ضرورت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کا محور یہ ہوتا ہے کہ ان کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات کا ہونا ایک ’المیہ‘ رہا ہے، کیونکہ یہ عمل حکومتوں کے لیے کئی سال آگے سوچنے میں بڑی رکاوٹ بنا ہے۔ انہوں نے اس پر چین کی مثال دی کہ جہاں سیاسی رہنما طویل مدتی تناظر میں سوچ سکتے ہیں اور پالیسی کے تسلسل سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ہوسکتا ہے وزیراعظم نے گورننس کے ضمن میں قلیل مدتی منصوبہ بندی کو ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہو لیکن جب وہ اس کا ذمہ دار مخصوص انتخاباتی دورانیے کو گردانتے ہیں تو یہ حقیقت سے چشم پوشی ہے۔

پاکستان نے اپنی تاریخ میں کم ازکم تین بار ایسی حکمرانی کا تجربہ کیا ہے جو دہائی کے عرصے پر مشتمل تھیں۔ اگر ترقی کا واحد پیمانہ پالیسی کا طویل مدتی تسلسل ہی ہوتا تو پاکستان گورننس کی ابتری اور ترقیاتی شعبے میں بدحالی کے مسائل سے دوچار نہ ہوتا جیساکہ آج نظر آتا ہے۔ ملک کا اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے جو اکثروبیشتر نظام میں سیاسی قانونی رُوح کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور نظام میں سیاسی قانونی روح کا فقدان وہ دو مہلک عناصر ہیں جن کے سبب پاکستان میں گورننس کا ڈھانچہ تباہی کا شکار ہوا ہے، اور جو وقت کے ساتھ مختلف طریقوں سے مسائل و مشکلات کو جنم دیتے رہتے ہیں۔

وزیراعظم چین میں نظر آنے والے پالیسیوں کے مستحکم تسلسل کی توصیف کرسکتے ہیں لیکن انہیں خود کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک آئینی جمہوریت ہے اور یہاں متفقہ طور پہ تسلیم شدہ اس دستاویز کی روشنی میں حکمرانی کی جاتی ہے۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں پانچ سالہ اتخاباتی دورانیہ ہے، بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہم اس دورانیے کو تسلسل کے ساتھ چلانے میں ناکام رہے ہیں۔ سات دہائیوں کی تاریخ میں اگر صرف گنی چنی حکومتوں کو اپنا پانچ سالہ حق اقتدار پورا کرنے کی اجازت مل سکی ہے تو پھر تسلسل کے فقدان کا مسئلہ جس سے وزیراعظم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اس کا سبب طاقت کے مراکز کی جانب سے حکومتوں کو پانچ سالہ دورانیہ پورا نہ کرنے دینا ہے۔

وزیراعظم عمران خان شاید پاکستان کے آئینی ڈھانچے کی روح سے مطابقت رکھنے والے جوابات کے حصول کے لیے ان عوامل پر زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں جو طویل مدتی منصوبہ بندی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگر ہم واقعی تسلسل اور گورننس کے کسی طویل المیعاد وژن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابات اپنے وقت پر، آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے منعقد ہوں گے، تاکہ ہمارے انتخاباتی اور گورننس کے جمہوری نظم ونسق میں استحکام اور قانونی جواز کی روح شامل ہو۔

ایسا  ڈھانچہ اس تسلسل کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے جس کی طرف وزیراعظم نے اشارہ کیا ہے۔ اگر کوئی حکومت کارکردگی کا عمدہ مظاہرہ کرتی ہے تو شہری اسے اگلے مزید پانچ سالوں کے لیے منتخب کرسکتے ہیں، یوں وہ اپنی پالیسیوں کو آگے جاری رکھنے کے قابل ہوگی۔ اس کے ساتھ شاید یہ اہم ہے کہ تمام بڑے سیاسی سٹیک ہولڈرز کچھ بنیادی معاشی خطوط پر اتفاق رائے قائم کریں جن کا حکومتوں کی تبدیلی اور بعض نئی پالیسیوں کے آنے کے باوجود تسلسل قائم رہے۔ اسی طرح اسٹریٹیجک امور پر بنیادی نوعیت کا اتفاق رائے پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلی سے پیدا ہونے والے جھول کی تلافی کو ممکن بنائے گا اور تسلسل کو اس حد تک برقرار رکھنے میں مدگار ثابت ہوگا جو ملک کے لیے ناگزیر ہے

مترجم: شفیق منصور

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...