مطلق العنان اتھارٹی اور اخلاقی اقدار

489

بعض اوقات سماج کے اندر کسی نوع کی متعصب طبقاتی وابستگی انسان کی ذات سے اس کی غوروفکر کی صلاحیت کو ختم کردیتی ہے۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی لوگ اپنی جماعتی اتھارٹی کے کہنے پر ایسے اقدامات کر گزرتے ہیں جو اخلاقیات کے منافی ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال خودکش دھماکے اور کسی جہادی جماعت کی قتل وغارت بھی ہے کہ جہاں اس سے وابستہ نوجوان کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھار سیاسی اتھارٹی کے ساتھ وابستگی بھی لوگوں سے ایسے کام سرانجام دلواتی ہے جو درست نہیں ہوتے مگر وہ سرانجام دیدیے جاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ قسم کی وابستگی بھی معاشرے میں غلط اقدامات کراتی ہے۔ اسی طرح ریاست کی کرشماتی اتھارٹی بھی لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے اطاعتِ محض پہ مطمئن رکھتی ہے۔

یہ مسئلہ اخلاقی اقدار اور اتھارٹی کے مابین تعلق کی نوعیت اور توازن کی حیثیت کا ہے کہ کسی متعصب وابستگی کی وجہ سے انسان کی ذات سے سوچنے کی صلاحیت کس طرح ختم ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے افعال میں انسانی اخلاقی اقدار کو بھی توجہ نہیں دیتا۔ اس مسئلے پر ماہرین سماجیات و نفسیات نے کافی کلام کیا ہے، دوسری جنگ عظیم کے کے دوران اور اس کے بعد بہت ساری کتب لکھی گئیں۔ بالخصوص حنہ ایرنٹ کی کتب اہم ہیں۔ ایک فرد اتھارٹی کے زیراثر کس حد تک آگے جاتا سکتا ہے اس پر 1963ء میں لوگوں پر سٹینلی ملگرام کا آزمایا گیا نفسیاتی تجربہ بھی نمایاں ہے جو Milgram experiment کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم ضروری نہیں کہ اتھارٹی سے متعصب وابستگی کے مظاہر پرتشدد افعال ہی ہوں، بلکہ اس میں ایسے اقدامات بھی شامل ہیں جو پرتشدد نہیں ہوتے مگر بظاہر غیرمعقول ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ کچھ عرصہ قبل ایک مدرسہ میں زیرتعلیم طالب علم کو تنہائی پسندی اور زیادہ عبادت کے سبب انجانا سا نفسیاتی خوف سا لاحق رہنے لگا۔ تب وہ ایک مشہور پیر کے پاس حاضر ہوا تو اس نے کہا کہ تمہیں سایا ہوگیا ہے۔ بطور علاج اس نے طالب علم کو لٹا کر اس کی گردن کے قریب ہوا میں چھری چلانی شروع کی اور کچھ پڑھنے لگا۔ بعدازاں اس نے طالب علم کو مٹی دی اور کہا کہ وہ اسے نہانے سے کچھ دیر قبل اپنے جسم پر مل لیا کرے پھر نہا لے۔ یہ دونوں چیزیں طالب علم کے لیے عجیب تھیں، چھری گلے کے قریب پھرنے کے وقت اس میں خوف تھا مگر اس نے کوئی سوال کیا نہ اور نہ چہرے پر ناگواری کے احساسات آنے دیے۔ اسی طرح مٹی ملنا بھی عجیب عمل تھا مگر وہ کرتا رہا۔ یعنی کہ اس کی اپنی سوچ یا فیصلے پر اس کا گویا اختیار ہی نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے زیادہ علم نہیں، یقیناََ اس میں کوئی مصلحت ہوگی، یا پیر کا کچھ تقدس بھی دل میں تھا اور یا پھر ناگواری کے اظہار پر انجانا سا خوف کہ پیر یا خدا نارض نہ ہوجائیں۔ یہ ایک مثال ہے ایسی بہت سی مثالیں معاشرے میں موجود ہیں جو حیران کن حد تک عجیب ہوتی ہیں۔

انسان جب خود کو کسی اجتماعیت کا حصہ بنا کر اپنے لیے ایک اتھارٹی کو محترم اور رہنما بنا لیتا ہے تو اس کے اندر اطاعتِ محض کی نفسیات پختہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس ماحول میں بہت ساری چیزیں ابتدا میں عجیب محسوس ہوتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ ماحول اس کے لیے سب کچھ معقول بنا دیتا ہے اور اسے کچھ عجیب نہیں لگتا۔

مطلق العنان اتھارٹی افراد کے لیے ایک تصوراتی جہان بنا دیتی ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور اس جہان میں رہنے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے۔ مختلف طریقوں اور ہتھکنڈوں سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ان کا جہان حقیقی ہے۔ اسی لیے مطلق العنان اتھارٹی بحرانوں کو پسند کرتی ہے۔ وہ ان کا استعمال کرتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کے پیچھے چند چیزیں کارفرما ہوتی ہیں۔ عموماََ محترم و رہنما اتھارٹی کے ساتھ تعلق کے پراسس میں تین چیزیں پختہ احساس کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جو اطاعتِ محض کا محرک بنتی ہیں: تقدس، غموض اور خوف۔ اتھارٹی اور اخلاقی اقدار کا تعلق لگا بندھا نہیں ہوتا۔ اخلاقی اقدار سے انسان کی آزادانہ سوچنے کی صلاحیت یا فرد کا حق مراد ہے۔ اگر ماحول کے اندر ایسے ذرائع وادارے موجود نہ ہوں جو تنقیدی شعور کو فروغ دینے کا ذمہ اٹھاتے ہوں، یا وہ طاقتور نہ ہوں تو رفتہ رفتہ اتھارٹی اپنے اپنے مقام پر اخلاقی اقدار کی حس اور سوچنے کی صلاحیت پہ غلبہ پانے لگتی ہے۔ جب ایک فرد کسی مذہبی، سیاسی، سماجی یا ریاستی اتھارٹی کے ماتحت خود کو لے کر آتا ہے تو یہ رشتہ اخلاقی اقدار اور اتھارٹی کے مابین عدم توازن کی وجہ سے اطاعتِ محض کا بن جاتا ہے۔ اتھارٹی کی جانب سے جو کہا جاتا ہے اسے من وعن تسلیم کیا جانے لگتا ہے۔

یہ مطلق العنان اتھارٹی تین چیزوں کی وجہ سے راسخ اور فعال رہتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے گرد تقدس کا ہالہ چڑھاتی ہے جو لامحدود اعتقادی احترام کی شکل ہے۔ دوسری چیز غموض و ابہام ہے، یعنی کہ فرد عام طور پہ یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اسے زیادہ علم نہیں ہے، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی۔ غموض و ابہام اور تذبذب کا یہ ماحول اتھارٹی خود بناتی ہے کہ وہ زیادہ جانتی ہے جو عام لوگ نہیں جانتے۔ مسائل اور حالات میں کلیریٹی و شفافیت نہیں آنے دی جاتی۔ تیسری چیز خوف کا عنصر ہوتا ہے کہ پتہ نہیں اگر مخالفت کی تو کیا ہوجائے گا۔ یہ خوف سزا کا بھی ہوسکتا ہے، خدائے تعالی کی ناراضی کا بھی، وطن کے خلاف کسی سازش کے حصہ بن جانے کا بھی۔ یا کسی بھی اور نوعیت کا جو احساس جرم کو پیدا کرے۔

مطلق العنان اتھارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیروکاروں کا تعلق دوسروں سے منقطع کردے تاکہ وہ کسی بھی مرحلے پر کچھ سوچنے کے قابل نہ بن پائے۔ دوسرے فرقے کی مسجد میں جانا گناہ ہوتا ہے۔ مخالف کی کتب نہیں پڑھنیں۔ ٹی وی چینلز پر اختلاف رکھنے والوں کا بائیکاٹ کرانا۔ مخالف سمجھے جانے والے ملک سے سماجی سطح پر کسی قسم کا ربط نہیں بننے دینا۔ شناخت کی سیاست کرنا۔ وغیرہ۔

یہ روایت جب طویل عرصے تک اسی طرح چلتی ہے تو لوگ سوچنے کا عمل صرف اتھارٹی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ حکم کریں ہم وہ بجا لائیں گے۔ چونکہ یہ مطلق العنانیت فرد یا شہریوں کو تنہاپسند اور معاندانہ ذہیت کی بنا دیتی ہے اس لیے مسائل بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ غربت میں اضافہ ہوسکتا ہے یا بدامنی بھی ممکن ہے۔ مگر لوگ تقدس، غموض یا خوف کے احساسات کے زیراثر اس پسماندگی میں رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی قربانی ہوتی ہے جو وہ دے رہے ہوتے ہیں۔ ملکی مفاد کے لیے، مذہبی تقاضے کے پیش نظر، کرپٹ اشرافیہ کو نکال باہر کرنے اور انہیں سزا دینے کی خاطر۔ یا کسی اور ایسے جذبے کے تحت وہ بہرحال قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

مطلق العنان اتھارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیروکاروں کا تعلق دوسروں سے منقطع کردے تاکہ وہ کسی بھی مرحلے پر کچھ سوچنے کے قابل نہ بن پائیں

مطلق العنان اتھارٹی فرد اور شہریوں کے لیے ایک تصوراتی جہان بنا دیتی ہے جس میں وہ رہتے ہیں اور اس جہان میں رہنے کی پریکٹس کرائی جاتی ہے۔ مختلف طریقوں اور ہتھکنڈوں سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ ان کا جہان حقیقی ہے۔ اسی لیے مطلق العنان اتھارٹی بحرانوں کو پسند کرتی ہے۔ وہ ان کا استعمال کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسی مطلق العنان اتھارٹیاں نیچے سے اوپر تک کئی شکلوں میں وجود رکھتی ہیں۔ خاندانی تسلط سے لے کر مذہبی فرقہ وارانہ اور حتمیت پسند ذہنیت تک، تعلیمی نظم سے لے کر ریاستی جبر تک۔ یہ تمام اتھارٹیز مل کر ایک متشدد سماج کی تشکیل کر رہی ہیں۔ تسلط کا قیام اور بلاچون چراں اطاعت کیے جانے کی خواہش نے ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

معاشرے میں مطلق العنان اتھارٹی کا راستہ روکنے اور اس کا اخلاقی اقدار کے ساتھ متوازن تعلق قائم رکھنے کے لیے کچھ وسائل وذرائع کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے وہ وسائل و ذرائع ختم چکے ہیں یا کمزور ہیں۔ سماج میں تنقیدی شعور کو فروغ دینے کے لیے کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں رہا جس پر لوگ پوری طرح اعتبار کرتے ہوں اور جو رائے عامہ کو آزدانہ طور پہ ہموار کرسکتا ہو۔ سب سے زیادہ کردار تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے جو دن بدن ابتری کا شکار ہیں۔ طلبہ پر سڑکوں پہ تشدد ہوتا ہے، تعلیمی ادارے اطاعتِ محض سکھا رہے ہیں۔ صحافت کا شعبہ بھی یہی سکھا بتا رہا ہے۔ نظام عدل مطلق العنانیت کا دست کار ہے۔ مذہبی نمائندگان خود دو طرفہ اتھارٹی کے حامل ہیں، سیاسی بھی اور دینی بھی۔

ہمارے ہاں کوئی بھی مذہبی، سیاسی یا سماجی اجتماعیت فرد کی آزادی اور اس کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتی۔ ایسے میں یہ ایک فطری امر بن جاتا ہے کہ سماج میں یہ اجتماعیتیں مطلق العنان اتھارٹی کی شکل اختیار کرلیں اور اخلاقی اقدار بے معنی ہوجائیں۔ سوچنے کی صلاحیت ختم ہونے لگے اور تشدد معمول کی چیز بن جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...