مدرسہ اصلاحات :ایک متبادل تجویز

1,187

جب ۱۹۴۷ میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پاکستان ایک مستقل ملک کے طور پر قائم ہوا تو اس وقت بھی یہاں پر علماء نے انہی مدارس کی روایت کو برقرار رکھا اور ملک کے طول و عرض میں مدارس قائم ہوگئے، تاہم مختلف اسباب کے تحت اسی کی دہائی کے بعد ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا گیا۔

ڈاکٹر رشید احمد شیخ زید اسلامک سینٹر پشاور یونیورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں ۔بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی آپ کے خاص موضوعات ہیں ۔ تجزیات نے اس سال ایک شمارہ مدارس نمبر شائع کیا تھا ۔جس میں مدارس کے مسائل اور ان میں اصلاحات کے حوالے سے مختلف موضوعات زیر بحث آئے تھے ۔یہ بحث ہنوز جاری ہے ، ڈاکٹر رشید احمد نے ا س بحث میں چند نئے در وا کیے ہیں ۔(مدیر )
اسلام میں مدرسہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اسلام کی تاریخ ہے۔ کیونکہ مدرسہ کا تعلق پڑھنے پڑھانے سے ہے اور سب سے پہلی وحی ہی پڑھنے کے بارے میں ہے۔ اس حوالے سےمتعدد آیات اور احادیث موجود ہیں جو اہل علم سے مخفی نہیں ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمایا تو آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں”صفہ” کے نام سے ایک اقامتی مدرسہ قائم فرمایا جن میں متعدد صحابہ کرام صرف حصول علم کی خاطر ٹھہرتے تھے۔ اس مدرسہ میں پڑھنے والوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی تھیتاہم یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر قائم رہا۔ان میںعبد اللہ بن مسعودؓ اور ابو ہریرۃ ؓجیسے جلیل القدر صحابہ کرام بھی شامل تھے۔
خلفائے راشدین کے دور میں بعض اکابر صحابہ نے اپنے مدرسے قائم کیے ان میں عبداللہ بن عباسؓ، ابی ابن کعبؓ، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے مدارس نے بہت شہرت پائی اور ہزاروں تشنگان علم نے یہاںعلم کی پیاس بجھائی۔ اسی طرحدور تابعین میں فقہائے سبعہ نے نہایت شہرت حاصل کی اور ہزاروں تلامذہ نے آپ سے استفادہ کیا۔
بعد کے ادوار میں جب فقہی مسالک کا ظہور ہونے لگا تواما م ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ،امام داؤد ظاہریؒ، امام جعفر صادقؒ، امام اوزاعیؒ، امام جریر الطبریؒ وغیرہ نے مدارس کے ذریعےاسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی۔ ان میں ہر ایک نے ذاتی حیثیت میں مدارس قائم کیے جن میں دور درازسے طلباء آکر علمی استفادہ کیا کرتے تھے۔
بنو عباسکے دور میں ایک علمی ا دارہ” بیت الحکمۃ”کے نام سےسرکاری سرپرستی میں قائم کیا گیا جس میں بڑےبڑے علماء تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں مثلا یونانی اور فارسیکتب کا ترجمہ بھی کیا کرتھےتھے۔ پھر انہی بنو عباس کے دور میں نظام الملک طوسی نے” مدرسہ نظامیہ” قائم کیا جس میں امام غزالیؒ جیسے علماء نے پڑھایا۔
یہی صورت حال اندلس میں تھی جہاں تفسیر، حدیث،فقہ، لغۃ اور فلسفہ کے ایسےایسے نامورعلماء پیدا ہوئے جن کی آراء سے آج بھی نہ صرف مسلمان بلکہ مغرب بھی استفادہ کررہاہے۔
اسی طرح اگر برصغیر کی تاریخ پر ڈالی جائے تو اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہیہاں پر بھیمسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ہندوستان کے مسلمدور میں مسلمان حکمران علم اور علماء کی بہت قدر کیاکرتے تھے۔ہندوستان کے طول و عرض میں سینکڑوں مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انہوں نے باقاعدہ ان کے لیے جائیدادیں وقف کیں تاکہ یہ مدارس کسی کے دست نگر نہ رہیں۔ تاہم جب سے انگریز استعمار نے یہاں اپنے پنجےگاڑنا شروع کیےتو مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ علمی زوال بھی شروع ہوا اور خاص کر ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد تو حالات بہت دگر گوں ہوگئے ان حالات میں ایک طرف سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لیے علی گڑھ میں جدید علوم کا ایک ادارہ قائم کیا تو دوسری طرف مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے مسلمانوں کی دینی حالت سدھانے کے لیے دیوبند میں ایک عظیم الشان ادارہ کی بنیاد رکھی جس میں ملا نظام الدین سہالویؒ کے ترتیب شدہنصاب” درس نظامی”پڑھانے کا اہتمام کیا گیا۔
تاہم اس وقت بھیدرد مند اور صاحب علم افراد نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جن میں دینی اور عصری تعلیم دونوں کا بندوبست ہو تاکہ مسلمان ہر لحاظ سے خودکفیل ہوں اسی مقصد کے لیے جامعہ ملیہکا قیام عمل میں لایاگیا۔
جب ۱۹۴۷ میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پاکستان ایک مستقل ملک کے طور پر قائم ہوا تو اس وقت بھی یہاں پر علماء نے انہی مدارس کی روایت کو برقرار رکھا اور ملک کے طول و عرض میں مدارس قائم ہوگئے، تاہم مختلف اسباب کے تحت اسی کی دہائی کے بعد ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا گیا۔
جس طرح کہ عرض کیا گیا روز اوّل سے ہی مدرسہ میں اصلاحات کی آوازیں وقتاً فوقتاً اٹھ رہی ہیں۔عموما ًحسب ذیل اصلا حات پربحث و تمحیص کی جاتی ہے۔
۱:         نصاب کا مسئلہ۔
۲:         ہم نصابی سرگرمیوں کا مسئلہ۔
۳:         جدید مضامین کو شامل کرنے کا مسئلہ۔
۱:         سب سے پہلا مسئلہ نصاب کا ہے عام طور پر اس پر زور دیا جاتا ہے کہ مدارس کے نصاب میں جزوی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نصاب ہماری ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔
اس بات میں کوئی شک نہیںکہ مدارس کے نصاب میں اصلاح کی ضرورت ہے اور شایداہل مدرسہ کو بھی اس بات کا احساس ہے تاہمیہاں مسئلہ اعتماد کے فقدان کا ہے کیونکہ جب بھی کوئی نصاب میں تبدیلی کی بات کرتا ہے تو اہل مدرسہ کو اس سے سازش کی بومحسوس ہوتی ہےاس لیے اس قسم کی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتیں۔
۲:         جہاں تک ہم نصابی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو اپنی جگہ پر یہ بات صحیح ہے کہ ہم نصابی سرگرمیوں پر مدارس میں اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی ہونی چاہئے، تاہم اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو یہ بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ عام طورپر نمازعصر کے بعد اکثر مدارس میں طلباء کو نماز مغرب تک اجازت ہوتی ہے کہ باہر جاکر کھیلیں یا چہل قدمی کریں اس مسئلہ کو ایک ایشو کے طورپر پیش کرناکچھ زیادہ مناسب نہیں ہو گا۔ اسی طرح اکثر مدارس میں جمعرات کی رات تقریری مقابلے ہوتے ہیںجن میں طلباء کوتقاریر وغیرہ کے ذریعے اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے مواقع ملتے ہیں۔
۳:         جدید مضامین کو نصاب کا حصہ بنانا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مدارس کے نصاب میں دو قسم کی تبدیلیاں ہو نی چاہیں ایک قسم کی تبدیلیاں وہ ہیں جن کا تعلق مدارس کے اصل مضامین یعنی نصاب سے ہےجب کہدوسری قسم کی تبدیلیوں کا تعلق نئے مضامین کی شمولیت سے ہے اس حوالے جب اصحاب مدارس سے بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی یہ کام سرانجام دیا ہے۔اور انگریزی، کمپیوٹر وغیرہ کو نصاب کا حصہ بنایا ہے۔ اس لیے اصلاح پسندوں کے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں رہ جاتاجس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسئلہجوں کا توں اپنی جگہ پر برقرار ہے۔
اس حوالے سے عرض یہ کرنا ہے کہ واقعی اگر مدارس میں اصلاحات مطلوب ہیںتو حسب ذیل اقدامات اٹھانا ناگزیر ہوں گے۔
۱:         سب سے پہلے حکومت نے مصمم ارادہ کرنا ہے کہ وہ واقعی تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ تمام حکومتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر قوم کے اجتماعی مفاد میں ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کے لیے تیار ہے۔کیونکہاس راستہ میں حائل رکاوٹوں کو ناممکن سمجھ کر چھوڑنا اس کام کو کلیتاً چھوڑنے کے مترادف ہوگا۔
۲:         اس کے بعد ملک کے تمام مدارس کی ایک دفعہ پھر صحیح تعداد معلوم کرنے کا اقدام ہے جس میں نہ صرف مدارس کی تعداد معلوم کرنا مقصود ہو بلکہمندرجہ ذیلمعلومات بھیجمع کی جائیں۔
۱:         طلباء کی تعداد کتنی ہے؟
۲:         طالباتکے مدارس کتنے ہیں؟۔
۳:         اساتذہ کی تعداد کتنی ہے۔؟
۴:         اساتذہ کا تعلیمی معیار کیا ہے؟ اس حوالے ان سے ان کی تعلیمی اسناد اکھٹی کی جائیں۔
۵:         سہولیات کی حالت کیا ہے؟
ان ابتدائی معلومات کے بعد حکومت یہ فیصلہ کرے کہ جن مدارس میں طلباء، طالبات کی تعداد سو سے زیادہ ہو ان کو نیم سرکاری ادارہکی حیثیت دے۔
۳:         اس کے بعد اسی مدرسہ کو طلباء و طالبات کی عمروں کے حساب سے پرائمری، مڈل،ہائی سکول یا کالج کا درجہ دیا جائے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
جن مدارس میں بارہ سال تک کے بچے پڑھتے ہیں ان کو پرائمری سکول کا درجہ دیا جائے۔
جن مدارس میں چودہ اور سولہسال تک کے بچے پڑھتے ہیں ان کو بالترتیب مڈل اور ہائی کا درجہ دیا جائے۔
اور جن مدارس میں سولہ سال سے اوپر کے طلباء اور طالباتہیں اور تعداد بھی معقولہے ان کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا جائے۔
۴:         ان اقدامات کے بعداسی مدرسہ میں نماز ظہر کے بعد جدید تعلیم دینے کا لازمی بندوبست کیا جائے اور جس جس مرحلہ کا طالب علم ہے اسی مرحلہ میں داخل کیا جائے۔
یہاں یہ ملحوظ رہے کہ مدارس کے نصاب کو قطعاً نہ چھیڑا جائے اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح اسے اصحاب مدارس پڑھانا چاہتے ہیں۔
تاہم نماز ظہر کے بعد وہی تعلیمی سلسلہ شروع کرے جو کہ دیگرسرکاری سکولوں کا ہے۔
۵: اساتذہ کا انتخاب:
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کو وہی اساتذہ پڑھائیں جو صبح کے وقت بچوں کو مدرسہ میں پڑھاتے ہیں بشرطیکہوہ درس نظامی کے ساتھ جدید تعلیم کے بھی حامل ہوں یعنی اساتذہ کا معیاروہی ہوگا جوسرکاری سکولوں کا ہے۔
اگر مدارس میں یہ اساتذہ میسر نہ ہوں تو اس مقصد کے لیے اساتذہ کا انتخاب کیا جائے۔ ان اساتذہ کا تقرر کل وقتی ہو گا اور یہ سرکاری اساتذہ کی طرح تمام مراعات کے مستحق ہوں گے۔
اس اقدام سے ایک طرف مدارس میں موجود اساتذہ کی مشکلات میں کمی ہوگی اور دوسری طرف بے روزگاری کے مسئلہ کو قابو کر نے میں بھی مدد ملی گی۔
۵:         امتحانات کا طریق کار: ان مدارس میں امتحانات کے طریقہ کار اور سرکاری اداروں کے  امتحانات کے طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں ہو گا اور مدرسہ جس بورڈ کے دائرہ اخیتار میں آتا ہے وہی بورڈ اس کا امتحانبھی لےگا۔
۶:         جب مدرسہ کا طالب علم نویں جماعت میں پہنچتا ہے تو اس کومضامین کے اختیار میں آزادی حاصل ہوگی۔اگر طالب علم سائنس کے مضامین لینا چاہتا ہے تو کوئی اس کے راستہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرےگا اور میٹرککےبعداگر وہ پری میڈیکل یا پری انجنیئرنگ میں داخلہ لینا چاہتا ہے تو اسےاسی مدرسہ کے ہائر سیکنڈری سکول میں داخلہ دیا جائے گا تا کہ اس کا میڈکل اور انجینئر نگ کے شعبہ میں جانے کا موقع موجود ہو۔
۷:         ان تما م اقدامات سے حکومت کو یہ بڑا فائدہ حاصل ہوگا کہ کروڑوں روپیہ جو سکول بنانے پر خرچ کرتی ہے، اس کی بچت ہوجائے گی اور ان کو مفت میں تعلیمی مقاصد کے لیے عمارت مل جائی گی۔
۸:         مدارس کو یہفائدہ ملے گا کہصبح کے نصاب میں جن تبدیلیوںپر زور دیا جاتا ہے اب اس سے ان کو چٹھکارہ مل جائے گا۔ اور ساتھ ان میں پڑھانے والے اساتذہکو روزگار کا بندوبست بھی ہوجائے گا۔

دىنى مدارس كے نظام اور نصاب كے بارے مىں مولاناابوالكلام آزاد كى آراء كا جائزہ
ڈاکٹرقبلہ ایاز

پاکستانی مدارس میں اصلاحات کی بحث تجزیات کے صفحات پر جاری ہے ،اسی سال ہم تجزیات کا مدارس نمبر بھی شائع کر چکے ہیں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد اس حوالے سے کیا رائے رکھتے تھے ؟ آج سے کم وبیش ۷۰سال پہلے وہ جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ آج بھی ہمیں پوری شدت کے ساتھ درپیش ہیں ۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ان کی یہ تاریخی تقریر اور اس پر اپنی آرا پیش کر کے اس مضمون کی اہمیت دو چند کر دی ہے ۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نامور مفکر اورپشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ہیں ۔(مدیر) 
دىنى مدارس كا نصاب (درسِ نظامى) اور ان كا مجموعى نظام اس وقت قومى اور عالمى سطح پر اہلِ علماور ماہرىنِ تعلىم كے درمىان اىك زبردست علمى مباحثہ كا موضوع بناہواہے۔اس بحث كو تقوىت اس وقت ملى جب اسلامى دنىا مىں اسلامى نظام كے نفاذكى تحرىكوں كو مقبولىت حاصل ہوناشروع ہوگئى،جس كو مغربى ذرائع ابلاغ مىں سىاسى اسلام (Political Islam) كى اصطلاح سےمتعارف كرانا  شروع كردىاگىا۔تاہم دىنى مدارس كے موضوع كو اس وقت بہت زىادہ اہمىت حاصل ہوناشروع  ہوگئى،جب روسى مداخلت كے بعد افغان تحرىك ِ مزاحمت اپنے عروج پر تھى۔لىكن اس كا مطلب ہرگز ىہ نہىں كہ اس سے قبل كبھى ىہ موضوع زىرِ بحث نہىں رہا۔
ذىل مىں مولانا ابوالكلام آزاد كى اىك تقرىر ’’قندمكرّر‘‘ كے طور پر پىش كى جارہى ہے جس سے ىہ اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا كہ درس نظامىمىںبہتر تبدىلى كى سوچ كتنى پرانى ہے۔مولانا آزاد نے ىہ تقرىر ۲۲ فرورى ۱۹۴۷ء لكھنؤ كونسل ہاؤس مىں عربى وفارسى نصاب تعلىم كى اصلاحى كمىٹى كے جلسے مىں كى تھى۔
دىنى حلقوں (بالخصوص دىوبندى مكتب ِ فكر)مىں مولانا ابوالكلام آزاد كو انتہائى احترام حاصل ہے۔تقسىم ِ ہند سے قبل فرنگى استعمار كے خلاف آپ كى علمى اورعملى جدّوجہد برّصغىر كى تارىخ كا تابناك باب ہے۔ترجمان القرآن كے نام سے آپ كى تفسىر قرآن فہمى كے لیے اساسى علمى سرماىہ ہے۔
دىنى تعلىم كے بارے مىں آپ كى اس تقرىر سے چند اہم نكات سامنے آتے ہىں،جن كا ذىل مىں مختصرًا ذكر كرنا مفىد رہے گا:

  • مولانا ابوالكلام آزاد كے مطابق تىسرى صدى ہجرى كا زمانہ اسلامى علوم كا دورِتدوىن تھا۔ پانچوىں صدى ہجرى تك علوم اسلامىہ نوك وپلك كى درستى (تہذىب) كے مراحل سے گزرے۔ اس كے بعد كا زمانہ اسلامى علوم كے بلوغ وتكمىل اور ان كى اشاعت كا دورتھا۔ ىہ مدّت ساتوىں صدى ہجرى تك ہے۔ ساتوىں صدى ہجرى كے بعد علوم اسلامىہ كا دورِ تنزّل قراردىاجاسكتاہے۔اس دور مىں تخلىق واجتہاد كى بجائے جمود كا ماحول چھاگىا۔ اكا دکا عظىم شخصىات كےعلاوہ كوئى عبقرى دماغ سامنے نہىں آىا۔ ىہ وہ دورہے جس مىں كتابوں كى شروح اور تلخىص كى تىارى پر زىادہ زوردىاگىااور تخلىقى كاموں كى رفتار سست پڑگئى۔ علّامہ ابن خلدون جىسی نابغہء روزگار شخصىات كو اس افسوسناك صورت حال كا ادراك ہواتھا،لىكن انكااثروقت كى عام رفتار پر نہىں پڑا۔
  • دورِتنزّل كا اىك اثرىہ ہو ا كہ متقدّمىن كا طرىقہ تعلىم بدلنے لگا۔قدما كے طرىقۂ تعلىم كے مطابقاستاد كسى موضوع پر زبانى تقرىر كرتاتھا اورطلبا اس كے نوٹس ىعنى املا لىتے تھے۔عظىم علماء كے ىہ نوٹس(امالى ) آج ہمارے پاس قارى كى كتاب اور شرىف مرتضٰىكى كتاب كى صورت مىں دستىاب ہىں۔ ساتوىں صدى ہجرى كے بعد دورِتنزّل مىں املاكى جگہ كتاب نے لے لى۔ ماہرىن موضوع كے عمىق نكات جو املا كى صورت مىں محفوظ كئے جاتے تھے،علمى استعداد مىں اضافے كا سبب بنتے تھے، لىكن وہ طرىقہ مفقود ہوگىا اور محض كتاب فہمى پر زوردىاجانے لگا۔

چنانچہ كچھ كتابوں كا علم توحاصل ہونا شروع ہوگىا، لىكن علوم كاعلم عنقا ہوتاگىا۔ تفسىر بىضاوى اورتفسىر جلالىن كى عبارتىں سمجھنا تو شروع ہوگئىں،لىكن تفسىر شناسى مفقود ہوگئى۔

  • اس رحجان كے تسلسل مىں اىسى كتابىں سامنے آنا شروع ہوگئىں كہ جن مىں كوشش كى گئى كہ عبارت كو سخت بناىاجائے اوركوئى بھى دروازہ اور كھڑكى كھلى نہ چھوڑى جائے،جس سے دماغ اپنى راہ پر آجائے۔ كتابوں كو معمّا اورچىستان بناىاگىا۔ مثلاً علم منطقمىں اىسى كتابىں لكھى گئىں كہ طالب علم كے دماغ كى سارى قوت اس كتاب مىں صرف ہوئى،بجائے اس كے كہ طالب علم مىں منطقى سوچ اور منطقى استدلال كى صلاحىت پىداہو۔ عبارت كے حل كى مشق اصل مقصد بن گىا، جب كہ اصل ہدف ىعنى علمى استعداد پس منظر مىں چلاگىا۔
  • ہندوستان مىں مسلمانوں كے درس وتدرىس كى بنىاد دورِ تنزّل كانتىجہ تھى۔
  • اسلامى تعلىم كے موجودہ نظام مىں طالب علم پر بىك وقت متعدّد بوجھ ڈالے جاتے ہىں،ىعنى غىر مادرى زبانىں (عربى اورفارسى) اورمغلق عبارتىں۔علوم آلىہ (مثلاً صرف ونحو ومنطق) كو سمجھانے مىں كافى مدّت صرف كى جاتى ہے۔ضرورت اس امر كى ہے كہ عربى علم اور تعلىم مىں جس فن كى تعلىم بھى شروع كى جائے،اس كى پہلى رونمائى مادرى زبان مىں ہو تاكہ طالب علم بنىادى باتوں كا بہتر ادراك حاصل كرلے۔عربى كتابىںپڑھنے كے باوجود ہمارے فارغ التحصىل صحىح عربى بول سكتے ہىں،نہ لكھ سكتے ہىں۔علم بدىع مىں لفظى كارىگرىوں پر زوردىاجاتاہے،جس كا كوئى فائدہ نہىں۔ضرورت ہے كہ عربى كى تعلىم كا تصور نئے سرے سے قائم كرىں۔ اس كے لیے بہترىن اورمؤثر موادموجودہے۔
  • معقولات كے نام سے جو مواد دىنى مدارس مىں پڑھاىاجارہا ہےان سے دنىاكا دماغى كارواں كئى صدىاں پہلے گزرچكاہے۔آج كى دنىا مىںان كى كوئى جگہ نہىں۔ قدىم فلسفہ سے آگاہى مفىد ہے، لىكن جدىد فلسفے سے بھى طلباء كى آگاہى ضرورى ہے۔ تارىخ سے ہمىں ىہى سبق ملتاہے كہ قدامت پرستى بالآخرہارجاتى ہے اور وقت جىت جاتاہے۔ وقت سے لڑنا ناممكن ہے۔وقت اور زندگى كى چال كے متعلق كوئى تعلىم كامىاب نہىںہوسكتى، اگر وہ وقت اور زندگى كى چال كے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔
  • ىہى دىنى تعلىم سابقہ ادوار مىں نتىجہ خىز تھى، كىوں كہ اس وقت اس تعلىم اوروقت مىں رشتہ تھا۔دونوں اىك دوسرے كے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔ نتىجہ ىہ تھا كہ ان مدرسوں سے جو لوگ پىداہوئے، زمانہ ان كا استقبال كرتاتھا۔ اب وہ زمانہ گزرگىاہے۔

اب ذىل مىں مولانا آزاد كى پورى تقرىر پىش ِخدمت ہے:
’’اگرآپ حضرات اجازت دىں تومجھے جو كچھ عرض كرنا ہے،وہ بىٹھے بىٹھے عرض كروں۔ مىں كمىٹى كى طرف سے آپ تمام حضرات كا شكرىہ اداكرتاہوں كہ آپ نے كمىٹى كى دعوت منظوركى اور اس موقع كے لیے وقت نكالا۔اس سلسلے مىں سب سے پہلى بات جس پر مىں آپ حضرات كى توجہ دلاؤں گا وہ اس كمىٹى كے كاموں كى نوعىت ہے۔ىہ كمىٹى جس كام كے لیے مقرركى گئى ہے،وہ كام اپنے دائرے كے لحاظ سے نہ توكوئى بڑاوسىع دائرہ ركھتاہے،نہ اس كى وىسے كوئى خاص اہمىت ہے۔آپ كو معلوم ہے كہ ىہ كمىٹى اس غرض سے بنى تھى كہ اس صوبے كے جوعربى فارسى كے قدىم مدارس اىسے ہىں جن كو گورنمنٹ امداددے رہى ہے ان مدارس كے نصاب تعلىم كے اصلاح كے مسئلہ پر غوركىا جائے۔ىہ دائرہ بہت محدودہے۔گورنمنٹ جن مدرسوں كو امداددے رہى ہے، ان كى تعداد بہت زىادہ نہىں ہے۔جوامداد دى جارہى ہے،اس كى مقداربھى بہت محدودہے۔ مىں سمجھتاہوں كہ سالانہ ۶۰ ىا ۷۰ ہزاركى رقم نہىں ہے،جو كہ دى جارہى ہے۔ اس اعتبار سے دراصل كوئى بڑاكاموں كا دائرہ نہىں آتاكہ جس كے لیے ىہ كمىٹى مقرركى گئى ہوتى۔ اگرىہ كمىٹى مقرركرنا تھى،تو بہرحال اس كى نوعىت اىسى نہ تھى كہ مىں اپنے كو مجبورپاتاكہ اس كے لیے وقت نكالوں۔لىكن مىں نے وقت نكالا۔ جب آپ كے صوبے كے قابل وزىر تعلىم سمپورنانندجى نے پچھلى مرتبہ اس بات كى تحرىك كى۔ انہوں نے سنسكرت كى تعلىم كى اصلاح كے لیے اىك كمىٹى مقرركى تھى،اس كمىٹى كى رپورٹ مىں نے راستے مىں ہوائى جہاز مىں پڑھى۔اس كمىٹى نے قابل ِقدرطرىقہ سے اپنا كام پوراكىا۔مجھے اس كمىٹى كى رپورٹ پڑھ كر تعجب ہوا كہ علمى حقىقت كا مىدان كس طرح اىك دوسرے سے جُڑتاہواچلتاہے۔سنسكرت كى تعلىم، اس كا طرىقۂ تعلىم،نصابِ تعلىم كے جو نقائص تھے،اور اصلاح كے جو طرىقےتجوىز كىے گئے، مجھے ىہ محسوس ہوا كہ اگروہاں سنسكرت كے بجائے عربى كا لفظ ركھ دىا جائے، تومعاملہ بالكلىكساں ہے۔ بہرحال وہ كمىٹى مقرركى گئى اور اس سلسلے مىں ىہ چىز سامنے آئى كہ عربى مدارس كى اصلاح كے لیے بھى اىك كمىٹى مقرر ہونى چاہىئے۔ ىہ مىں آپ سے كہہ رہاہوں كہ ۱۹۳۸ء كى بات ہے۔خط كتابت ہوئى۔ ىہ كمىٹى تو مقررہوجاتى، مگر چىزىں كچھ اىسى مىرے سامنے آئىں كہ خود مىں نے اىسى تحرىك كى كہ اس كمىٹى كا كام مىرى نگرانى مىں ہوناچاہئے۔ اسكى وجہ ىہ تھى كہ مىں نے محسوس كىا كہ اگرچہ اس كمىٹى كا كام محدودہے، صرف ان مدرسوں كے لئے،جنہىں سركارى امدادمل رہى ہے، لىكن تاہم جو اس كمىٹى كا مقصد ہے ىا جس كام كو ىہ انجام دىنا چاہتى ہے، وہ كام اپنى نوعىت مىں اتنااہم ہے اور اس درجہ اہمىت ركھتاہے كہ نہ صرف ہندوستان مىں بلكہ تمام اسلامى ممالك اس خواب كى تعبىر ڈھونڈنے مىں بىزارہوچكے ہىں اور مىں نے ىہ محسوس كىا كہ اگر نصاب كے پہلوسے مىں قدم اُٹھاسكتاہوں اصلاح كا، تو ىہ اىك عظىم الشان خدمت ہوگى۔ ىہ چىز مىرے سامنے آئى۔ اور قدرتى طورپر ىہ كمىٹى اس وقت جوسفارشىں كرے گى،وہ صرف ان مدرسوں كے لیے كرے گى جن كو سركارى امدادمل رہى ہے۔ وہ مدرسے مجبورہىں جو گورنمنٹ سے امدادلىتے ہىں كہ تعلىم كى اصلاح كے متعلق گورنمنٹ جو بھى نقشہ ان كے سامنے ركھے وہ اسے منظوركرلىں كىونكہ امدادكى ضرورت ان كو مجبوركرے گى۔لىكن اگر كسى طرح ىہ گتھى اىك مرتبہ سلجھائى جاسكتى ہے،اوركم ازكم محدود مىدان مىں اگر اىك بہتر نمونہ ہم پىش كرسكتے ہىں،تو اس كے معنى ىہ ہوں گے كہ اس كے اثرات پھىلىں گے اور وہ تمام دائرے كو اپنے اندرلے سكتے ہىں۔ ىہ چىزىں مىرے سامنے آئىں۔ اور اس وجہ سے مىں نے خود ىہ تجوىز پىش كى كہ مىں اس كمىٹى مىں رہوں گا اور صدركى حىثىت سے كام كروں گا۔ لىكن آپ كو معلوم ہے كہ ملك كے حالات نے اس طرح كروٹىں لىں كہ وزارت مستعفى ہوگئىاور ىہ تمام كام ملتوى ہوگىا۔ اب پچھلے سال پھر جب نىا نقشہ بنا اور كانگرىس نے فىصلہ كىا كہ وہ وزارتوں كو قبول كرے گى اور اس سلسلے مىں لكھنؤ آىا اور آپ كے وزىر تعلىم سے ملاقات ہوئى تو انہوں نے ملتے ہى،باوجود اس كے كہ اس وقت تك كوئى منسٹرى نہىں بنى تھى اور صرف گفتگو ہى ہورہى تھى،انہوں نے سب سے پہلى بات ىہى ىاددلائى جس سے پتاچلتاہے كہ خود ان كى طبىعت اس بات پر لگى ہوئى تھى۔ انہوں نے كہا كہ كمىٹىپورے طور پربنى نہىں تھى كچھ نام تجوىز كئے گئے تھے اوراس وقت وہ چىز ادھورى رہ گئىتھى تو سب سے پہلے اس كام كو ہاتھ مىں لىنا چاہىئے۔ مىں نے ان سے كہا كہ ىہ چىز خود مىرے سامنے ہے اور مىں كوشش كروں گا كہ جلد سے جلد اس كام كو شروع كردىاجائے۔ چنانچہ وہ كمىٹى بنى اور اس نے كام شروع كردىا اور اس كا ابتدائى جلسہ بھى ہوچكاہے اور اس سلسلے مىں كچھ كمىٹىاں بنى ہىں۔ كاموں نے قدم آگے بڑھاىاہے۔لىكن پھر بھى جو چىز ہمارے سامنے آئىوہ ىہ تھى كہ اس كمىٹى نے اپنا كام شروع كردىا اور بہرحال كسى نہ كسى شكل مىں ىہ اپناكام كرے گى۔اپنى رپورٹ پىش كرے گى اورگورنمنٹ اس رپورٹ كوىقىنًا منظوركرے گى۔اس سلسلے مىں جو بھى اصلاح كے مقاصد سامنے ہىں ان كا نقشہ بنے گا اور اس كى اُمىد كى جاسكتى ہے كہ اس نقشہ كااثر دوسرے حلقوں پر بھى پڑے گا اور آئندہ مزىد اصلاح كے دروازے كھلىں گے۔لىكن پھر بھى ىہ بہت دوركى چال ہے۔ اورنتىجے مىں كافى انتظاركرناپڑے گا۔كىوں نہ اس امركى كوشش كى جائے كہ براہِ راست اس مىں اىساقدم اُٹھے كہ جسكى وجہ سے بجائے اس كے كہ اس دھىمى چال سے كسى نتىجے كا انتظاركىا جائے ہم فورًا كسىنتىجے پر پہنچ سكىں۔ تب مجھے ىہ خىا ل پىداہوا كہ مىں آپ حضرات كو دعوت دوں اور زحمت دوںاور اىك اىسى كانفرنس بلائى جائے كہ اس صوبے كے جو اہم اورقدىم ترىن مدارسموجودہىں، اور جن كے حلقہ ٔاثر مىں سىنكڑوں نہىں، بلكہ ہزاروں انسانوں كے دماغ ہىں، انہىں زحمت دى جائے اور ان كے آگے ىہ مسئلہ ركھا جائے اور اس امر پر غوركىا جائے كہ ىہ كمىٹى جس غرض سے بنى ہے اس كوہم اورپھىلائىں اور خودكمىٹى مىں مزىد اضافہ كرىں اور جوطرىقہ بھى گفتگواورمشورے كے بعد قرارپائے اور جس سے اس معاملے مىں اصلاحى صورت ہوناچاہیے ىعنى بجائے اس كے كہ اس كوكسى محدوددائرے مىں پكڑاجائے اورمعاملے كى جو اصلى نوعىت ہے ىعنى نصاب تعلىم كى اصلاح كى مستقلًا ضرورت كامسئلہ، اس مسئلے كوہم كسى نہ كسى طرح ازسرِنواُٹھاسكىں اورا س كے متعلق كسى نتىجے پر پہنچ سكىں۔چنانچہ بعض دوستوںسے مىں نے اس بات مىں مشورہ كىا اور انہوں نے اس سے اتفاق كىا اورآپ حضرات كو زحمت دى گئى۔ىہ زحمت دہى مؤثر ثابت ہوئى تو مىں شكرگزارہوں گا۔ اورامىد ہے كہ ىہ زحمت دہى مؤثر ثابت ہوگى۔مىں پھرآپ كاشكرىہ اداكرتاہوں كہ آپ نے اىك اہم مقصد كے لیے زحمت گوارافرمائى اورمجھے امىد ہے كہ ىہ زحمت سودمندہوگى۔ اب مجھے آپ بزرگوں سے جو كچھ بھىعرض كرنا ہے، ابھى ہوائى جہاز مىں راستہ مىں آتے ہوئىكوشش كى كہ مىں اپنے خىالات مىں ترتىب پىداكروں۔معاملہ بہت وسىع ہے۔ىہ اىكطوىل داستان ہے۔علوم عربىہ كى تعلىم كامسئلہ،اس كى پچھلىتارىخ، درمىانى عہد كے تغىرات اور اصلاح كى تحرىك۔اس تحرىك كے سلسلے مىں جوقدم اُٹھائے گئے ہىں ان كى كہانى اورپھر آج جو معاملہ منزل پر پہنچ كررُكاہواہے، اس كى سرگزشت، ىہ اىك بڑى كہانى ہے۔ نہ تو اس كانفرنس كے حصے مىں اتنا وقت آىاہے جو اس كا متحمل ہوسكتاہے اورنہ مىں سمجھتاہوں كہ اس كے جو بہت سے پہلو ہىں،آپ حضرات علم كے سامنے ان كوپىش كركے وقت كو ضائع كىاجائے۔مىں كوشش كروں گا كہ جو اہم نكات ہىں، جو اہم پوائنٹس (Points)  ہىں، جن پر ہمىں جلد سے جلد پہنچ جاناچاہىے،ان كى طرف آپ دوستوں كى توجہ دلاؤں گا۔لىكن تاہم  مشكل ىہ ہے كہ وہ داستان اىسى ہے كہ اس كو شروع كرنے كے لیے كوئى نہ كوئى ابتدائى مقدمہ سامنے لاناپڑتاہے۔ اور اس لیے چند منٹ ضرور اس مىں صرف ہوں گے۔ىہ چىز تو آپ حضرات كے سامنے ہے كہ قدرتى طورسے ہرعلم تىن مختلف دوروں سے،تىن مختلف منزلوں سے گذرتاہے۔پہلا دور جو اس كى پىدائش كاہوتاہے، جس كو عربى مىں كہىں گے تدوىن كا دور۔ توعلم كا بحىثىت علم مدون ہونا؛ وہ اىنٹىں جو فى الواقع متفرق دماغوں مىںپڑى تھىں،ان اىنٹوں كا اىك كے اوپر اىكركھا جانا اوراىك دىواربننا، اس كوكہتے ہىں تدوىن۔ توپہلا دور توعلم كى تدوىن كاہوتاہے، اس كى بناوٹ كاہوتاہے۔لىكن اس پر كام ختم نہىں ہوجاتا۔دىوارچن دى گئى، لىكن ابھى اسكے نقش ونگاربہت كچھ باقى ہىں۔ تب دوسرا دورآتاہے،جس كو ترقىكى منزل كہناچاہئے،تنقىح ِ علوم كا۔پہلادورتدوىن كا ہے، دوسر ا دورتہذىب كا ہے اب اس كى كاٹ چھانٹ كرنا، اس كو سنوارنا،اس كو بڑھانا، اس كى نوك وپلك كا بنانا، ىہ تہذىب ہے۔ تو قدرتى طورپر پہلے دوركے بعد ہر علم پر دوسرادورجوگذرتاہے وہ اس كى تنقىح وتہذىب كا ہوتاہے۔ تنقىح كا لفظ زىادہ موزوں نہىں ہے۔ بلكہ تہذىب كا لفظ زىادہ موزوں ہے۔ تہذىب كے معنى چھانٹنا، سنوارناہىں۔ تودوسرادورتہذىب كا ہوتاہے۔ تو اب نہ صرف دىواربن گئى،بلكہ اس دىواركے نقش ونگاربھى بن گئے۔ نوك وپلك درست ہوگئے۔ تب تىسرادورآتاہے،جس كو آپ بلوغ اور تكمىل كا دوركہتے ہىں۔ ىعنى وہى چىز اب اپنے كمال تك پہنچ گئى۔ اور اب اس مىں كوئى چىز اىسى باقى نہىں رہ گئى ہے،جس كى نوك وپلك درست كى جائے۔ اب اس كى اشاعت،اس كا پھىلانا اور بڑھاناہے۔ درس و تدرىسسے اس كو زىادہ استواركرنا ہے۔ توتىسرادوربلوغ وتكمىل كاآتاہے۔ قدرتى طورپر ىہ تىن دوراسلامى علوم پر بھى گزرے۔پہلا دورتدوىن كا دورتھا۔دوسراتہذىب كااور تىسرابلوغ وتكمىل كا۔ اگر ان تىن دوروں اور زمانوں كى جستجوكى جائے تو مىں سمجھتاہوں كہ تىسرى صدى ہجرى كا زمانہ تدوىن علوم كا زمانہ تھا۔تىسرى صدى ہجرى كے بعد سے پانچوىں صدى تك كا زمانہ اگر آپ تارىخ كے اوراق الٹائىں گے تو معلوم ہوگا كہ پانچوىں صدى كازمانہتہذىبعلوم كا زمانہ ہے۔ ان دوصدىوں كے اندر جو علوم پچھلى تىن صدىوں كے اندرمدوّن ہوچكے تھے، ان كى تہذىب،ان كى مزىد نقش آرائىان كى ترتىب ىہ داستان ہوئى۔ آپ كوپانچوىں صدى ہجرى تكنماىاں دكھائى دے گى اس كے بعد كا زمانہ اسلامى علوم كے بلوغ وتكمىل كا اور ان كى اشاعت كا زمانہ تھا۔ ىہ اگر دقّت ِنظر كے ساتھ تارىخ كے صفحات پر نظر ڈالى جائے تو مىں سمجھتاہوں ساتوىں صدى ہجرى تك پہنچتاہے۔ىعنى ساتوىں صدى ہجرى تك،ہم كو اىسے
آئمۂ فن نظر آتے ہىں جن كا كام اگر چہ بنىادى طورپر نہىں كہا جاسكتاہے كہ وہ علوم كى تہذىب كا تھا،لىكن اس مىں شبہ نہىں ہے كہ بہت سے تہذىب كے كام تھے،جن كو انہوں نے پوراكىا۔نام ان كے مىرى زبان پر ہىں،مگر مىں اس كے آگے نہىں بڑھنا چاہتاہوں،اوراس ٹكڑے كو جلد سے جلد ختم كرنا چاہتاہوں۔ساتوىں صدى كے بعد آپ دىكھىں گے كہ اچانك اسلامى تارىخ كا اىك نىا باب شروع ہوتاہے،اىك نىاورق الٹتاہے، اورىكاىك آپ كو معلوم ہوگا كہ ىہ پچھلى صدىاں جن علوم كى تدوىن مىں،ان كى تہذىب مىں، اور ان كى درس وتدرىس مىں اور بلوغ وتكمىل مىں صرف ہوچكى ہىں،اچانك اب اىك نئے دور سے آشنا ہوتى ہىں۔ اب اىك نئے دورسے دوچارہوتى ہىں۔ اس دوركو مىں دورِ تنزّل اورذہنى تنزّل كا دورقراردىتاہوں۔ علموفن كے ہرگوشے مىں ىہ چىز آپ كو نظر آئے گى كہ جو درخت تہذىبوتدوىن كا پھل پھول رہا تھا اس كى شاخىں ساتوىں صدى تك كمال مرتبہ تك پہنچ گئىں اوربجائے اس كے كہ پھلتاپھولتا، اچانك آپ كو نظر آئے گا كہ اب پت جھڑشروع ہوگئى اوردرخت بڑھنے كے جگہ گھٹ رہاہے۔چنانچہ ساتوىں صدى ہجرى كے بعد اسلامى علوم پر اىك عالمگىر تنزّل كا دورشروع ہوگىا۔ سب سے پہلى چىز جو نماىاں نظر آتى ہے،وہ ىہ ہے كہ علم كى ترقى كے لیے جو بنىادىچىز ہے، جس كو عربى مىں نظر واجتہاد سے تعبىر كىا جاتاہے،اچانك غائب ہوجاتى ہے۔ اورساتوىں صدى كے بعد جمودہرگوشے پر چھاگىا۔ چنانچہ اس كے بعد سے كسى علم وفن مىں الّاىہ كہ كسى گوشے مىں كبھى كبھى كوئى نادرشخصىت پىداہوگئى، جىسے علّامہ ابن تىمىہ پىداہوئے ساتوىں صدى ہجرى مىں۔مگر عام رفتارتنزّل كى شروع ہوچكى تھى اوراب كوئى قوت اىسى باقى نہىں رہى كہ علم كے كسى زاوىے مىں،كسى نئے گوشے كو اُبھارے۔ اب جو كچھبھى سرماىہ رہ گىاہے،وہ ىہ ہے كہ جو دىوارىں اُٹھ چكى ہىں،اُن كى لىپاپوتى كى جائے۔ چنانچہ ىہ دوروہ پىداہوتاہے،جس كو شروح كا دور كہاجاسكےلىكن اس سے پہلے بھى شرحىں لكھى گئى تھىں جو علمى جگہ ركھتى تھىں مگر ابدماغى قوت ختم ہوچكى تھى۔ چنانچہ آپ كو معلوم ہوگا كہ بڑےبڑےآئمۂ فن جو پىداہوتے ہىں،ان كى زندگى كن كاموں مىں ختم ہوتى ہے؟ وہ تلخىص مىں مصروف ہوتے ہىں،وہ خلاصہ كرتے ہىں،ىا شرح نوىسى۔لىكن كسى علم وفن مىں نظر واجتہاد كے ساتھ قدم اُٹھے،ىہ چىز ختم ہوچكى تھى۔ اورلازمى طورپر اس كا نتىجہ ىہ نكلا كہ اسلامىعلم وفن كے جو كارخانے قائم ہوئے تھے، وہ اىك بنىادى انقلاب سے زائل ہوگئے اور درس وتدرىس بجائے اس كے اس ڈھنگ پر چلے،جس ڈھنگ پر چھ صدىوں تك چلا تھا،اىك نىا ڈھنگ شروع ہوگىا۔ ىہ ڈھنگ دورِ تنزّل كى پىداوارتھا اور روزبروز ىہ تنزّل بڑھتاگىا۔ اب ىہ جو انقلاب ہوا، اس كى تفصىل مىں نہ جاؤں گا اور مىں ىہ سمجھتاہوں كہ آپ حضرات علم وفضل كے لیے اس كى ضرورت بھى نہىں ہے كہ مىں تفصىل مىں جاؤں۔ اس تنزّل كا نتىجہ جو كچھ نكلا، اس نے علم وفضل كے مختلف صىغوں پر كىا اثرڈالا، اس كى داستان بہت طول طوىل ہے۔ معلوم ہوتاے كہ اس عہد مىں اىسے اربابِ نظر موجودتھے كہ جنہوں نے اس چىز كو محسوس كىا۔اس چىز كو جسے چھ صدىاں گذرنے كے بعد آج ہم محسوس كررہے ہىں اوراس پر ماتم كررہے ہىں۔معلوم ہوتاہے كہ اىسى گہرى نظرىں جو باہر كى تمام سطحوں سے گذركر حقىقت كے اندرونى گوشوں تك پہنچنے والى تھىں، اىسى نظرىں اس وقت پىداہوئىں جنہوں نے اس صدى مىں اس حقىقت كو محسوس كىا جىسے علّامہابن خلدون۔ معلوم ہوتاہے كہ علّامہ ابن خلدون نے ىہ حقىقت محسوس كى جىساكہ اس نے اپنے مقدمے مىں اشارہ كىا۔ بہرحال ىہ خال خال نظرىں تھىں۔ ان كااثر وقت كى عام رفتارپر نہىں پڑا۔ تنزّل كا دورشروع ہوچكاتھااور وہ برابرآگے بڑھتاگىا۔ اب اس دورمىں آكر ہمىں جو تبدىلىاں معلوم ہوئىں، وہ بھى اتنى مختصر نہىں ہىں كہ مىں چند منٹوں مىں سمجھانے كى كوشش كرسكوں۔ سب سے بڑابنىادى انقلاب جو پڑھنے پڑھانے كے طرىقے مىں ہم كو نظر آتاہے،وہ ىہ ہے كہ اس وقت تك قدماء ىعنى پچھلوں كے طرىقہ ٔ تعلىم كا اىك خاص ڈھنگ تھا۔ وہ طرىقہ ٔ تعلىم آہستہ آہستہ بدلنے لگا۔ ساتوىں صدى كے بعد ہم دىكھتے ہىں كہ وہ بالكل مبدّل ہوگىا۔ متقدمىن كے طرىقہ ٔتعلىم مىں آپ كو معلوم ہے كہ علوم وفنون عالىہ كے درس مىں اىك قسم ہے آلات كىاور اىك قسم ہے نفسِ علوم كى۔ عربى مىں دوقسمىں كردى گئى ہىں : اىك فنونِ عالىہ اور اىك ہے نفسِعلوم۔ توپچھلوں كا جوطرىقہ ٔ تعلىم تھا وہ آپ كو معلوم ہے كہ وہ طرىقہ تھا املا كا۔ املا عربى كى خاص اصطلاح ہے۔ تعلىم كى وجہ سے ىہ اصطلاح اس شكل مىں اُبھرى۔ املا كے جو طرىقے متقدمىن كے تھے،وہ آپ كو معلوم ہے كىا ہوئے؟ آج كچھ كتابوں كى نقل نكل آئى ہے۔ اور اس سے آپ اندازہ كرسكتے ہىں كہ املا كسے كہتے ہىں۔مثلاً شرىف مرتضٰى كى كتاب ہے امالى۔املاكے معنى ٹھىك وہى ہىں جىسے آج آپ كسى كالج مىں چلے جائىں، وہاں پروفىسر جس طرىقے پر تقرىركرتاہے لكچردىتاہے، ٹھىك اسى معنى مىں املاہے۔اىك صاحبِ علم كوئى خاص كتاب اپنے سامنے نہىں ركھتاتھا۔ وہ بىٹھتاتھا اورطالب علم اس كے سامنے بىٹھتے تھے۔ طالب علم كاغذركھ لىتے تھے اورجوموضوع اس كے پىش نظر ہوتاتھا مثلاً اس نے علم ادب،حدىث، تفسىر لے لىا، اس كے اوپر وہ زبانى تقرىر كرتاتھااور جوطلبا اس كے حلقہ ٔ درس مىں بىٹھے ہوتے تھے وہ سنتے تھے،اور اس كے نوٹس (Notes)لىتے تھے اور ىہ نوٹس جمع كرلىتے تھے۔ جو كتابىں آج آپ كو مل گئى ہىں مثلاً قارى كى كتاب، شرىف مرتضٰى كى كتاب، ىہ وہى نوٹس ہىں جو لكچركے وقت مستعد طالب علموں نے لیے ہىں۔ اس سے ہم اندازہ كرسكتے ہىں كہ اس طرىقہ ٔتعلىم كى بلندى كتنى تھى اور آج كل كا جو موجودہ سسٹم ہے، وہ ٹھىكاسى كے مطابق چلتاتھا،لىكن بنىادى فرق آپ كو ساتوىں صدى كے بعد نظر آئے گا، اگرچہ ىہ اس سے پہلے شروع ہوچكاتھا اوراگرہم اس كى كھوج مىں نكلىں، تومعلوم ہوگا كہ ساتوىں صدى ہجرى كے بعد كا جو زمانہ آتاہے، تو املاكا طرىقہ عربى اور اسلامى مدرسوں مىں بالكل مفقود اورناپىدہوجاتاہے اوركہىں اس كى پرچھائىںنظر نہىں آتیں اور بدقسمتىسے املا كى جگہ كتابىں لے لىتى ہىں۔ىادرکھیےكہ قدماء كےطرىقہ ٔ تعلىم مىں كىا تھا! ان كا اعتماد املاكے اوپر تھانہ كہ كتابوں كے اوپر، حتى ٰ كہ اگر مىں آپ سے كہوں كہ علوم ِعالىہ اورصرف ونحو ىعنى گرامر اىسى چىز ہے كہ آپ اس كے لیے كہىں گے كہ كتابىں ہونا چاہئیں آج بھى طرىقہ ٔ تعلىم ىہ ہے كہ ان چىزوں كا دارومداركتابوں پر ہے لىكن آپ كو تعجب ہوگا كہ متقدمىن اورمسلمانوں كا جو طرىقہ رہا تھا، اسلامى علوم اورصرف ونحو اورادب ىا اس قسم كى جو چىزىں ہىں، اس مىں اعتماد املا پر تھا۔ كتابىں بن چكى تھىں ، دوسرى صدى ہجرى سے كتابىں مرتّب ہوچكى تھىں، وہ كتابىں اس زمانہ مىں مل سكتى تھىں لىكن اعتماد جو كچھ تھا وہ املا پر تھا۔ آپ غوركىجئے كہ كتنى مسافت استنزّل كے دورمىں اسلامى دماغ نے طے كى ہے۔ اس نكتے سے جہاں اعلىٰ علوم كى تعلىم ہى نہىں بلكہ علوم ِ عالىہ ىعنى صرف ونحو (گرامر) وغىرہ كىتعلىم بھى زبانى درس كے ذرىعے سے ہوتى تھى،جس كو املا كہتے ہىں۔ وہاں سے تنزّل كے كارواں كا سفر شروع ہوتاہے۔ ساتوىں صدىمىں آپ ىہاں تك پہنچ گئے۔جو اعلىٰ علوم ہىں جىسے كہ حدىث، تفسىر اورفلسفہ،ان كى تعلىم تمام تر كتاب پر ہوتى ہے،كتابوں كے ورق پڑھنے والے كے سامنے ہىں اوردماغ كے سارے دروازے جو اس موقع پر كھلنا چاہئیں،اىك صاحبِ نظر وعلم كے،وہ اس موقع پر بندہوگئے اوپر قفل چڑھادىاگىا۔ اس طرىقہ ٔ تعلىم كو رائج كىا گىاتھا۔ بظاہر آپ كہىں گے كہ ىہ اىك نہاىت معصوم تبدىلى ہے جس مىں كوئى حرج نہىں ، قدماء كے پاس اتنى كتابىں كہاں تھىں! قدماء كے پاس ىہ عجىب وغرىب طرىقہ متون وشروح كا كہاں تھا! متن نوىسى كا طرىقہ نكلا اور شرحىں لكھى گئىں اورحواشى لكھے گئے۔ىہ تمام سرماىہ پچھلوں كے پاس كہاں تھا!وہ محض تقرىر كے ذرىعے اپنا كام چلاتے تھے۔كتابىں بن گئى تھىں۔ وہ مرتّب اورمدوّنہوگئى تھىں لىكن نہىں۔ كاش معاملہ اس تك ہوتا۔ لىكن معاملہ ىہاں تك نہىں ہے۔ بلكہ اس كے پىچھے،اس ظاہرى پردے كے پىچھے، اىك بڑى دماغى تبدىلى بىٹھى ہوئى ہے۔ چىز ىہ تھى كہ جس علم كو آپ حاصل كرنا چاہتے ہىں،اس علم كے لیے آپ كے دماغ كو كسى اىك معىّن كتاب كے اوراق مىں بندكرناچاہئے،مقفل كرنا چاہئے۔ىاكہ اىك كتاب سے مددلىتے ہوئے پڑھنے والے كا دماغ اورپڑھانے والے كا دماغ علم وفن كى وادىوں مىں كھلے طورپڑھ سكے۔ اس مىں كوئى شبہ نہىں ہے كہ تعلىم كے لیے اىك خاص حدتك كسى معىّن كتاب كا ركھنا ضرورى ہے۔وہ پڑھنے والے كو مدددىتى ہے۔وہ اس كے دماغ كو عبارت كے حل كرنے كى مشق كراتى ہے۔ آپ جانتے ہىںكہ ہر حقىقت اس وقت تك حقىقت ہے جب تك اعتقاد كے درجے مىں ہو۔وہاں سے جہا ں وہ ادھرادھرہوئى،اس كے بعد وہ گرگئى۔ىہ چىز اس حدتك صحىح تھى جس حدتك اسے جانا چاہىئے تھا لىكن جبكتابوں كا راستہ كھل گىا،تو اب تمام تر دارومدارہوگىا كتاب پر۔ جس كا نتىجہ ىہ نكلا كہ ۱۲ برس سے ۱۴ برس تك آپ اپنا دماغ صرف كرتے رہىں مگر نتىجہ كىانكلتاہے؟ مجھے معاف كىاجائے ىہ كہنے كى مىں جرأت كروں كہ چند كتابوں كا علم حاصل ہوجاتاہے اورعلوم حاصل نہىں ہوتے ہىں۔ آپ جانتے ہىں كہ چند كتابوں كا علم حاصل كرنے مىں اور نفسِ علم حاصل كرنے مىں بڑافرق ہوتاہے۔نتىجہ ىہ نكلا كہ اس تبدىلى سے روزبروز تمام تراعتماد كتابوں پر ہوتاگىا۔ اوروہ جو پچھلا طرىقہ املا كاتھا اورزبانى درس كا تھا،وہ روزبروزختم ہوگىا۔ ىہ اىك عجىب مصىبت ہے كہ دنىا ان منزلوں سے گزرچكى ہىں اورصدىوں كا فرق ہوگىا۔ آپ كو تعجب ہوگا اگر آپ كے سامنے اس چىز كو پىش كروں۔مثلاً آپ علمِ تفسىر كا درس لے رہے ہىں اور آپ كا دارومداربىضاوى اورجلالىن پر ہے۔كىاہوگا كہ بىضاوى اورجلالىن كى لفظى عبارت، اس كے مرجع اور ضمائر كا علم حاصل ہوجائے گا، نہ كہ علم تفسىر كا، بلكہ اس كى پرچھائىں تك نظر نہ آئیں گى۔نتىجہ ىہ نكلا كہ درس وتدرىس مىں علمى قوت كمزورہوگئى۔ ىہ داستان بہت طوىل ہے۔ مىں اس كے پھىلاؤ كو سمىٹ نہىں سكتا۔ اس لیے كچھ چىزىں نظراندازكرناپڑىں گی۔ اس كانتىجہ ىہ نكلاكہ روز بروزتعلىم كا ڈھانچہ بگڑتاگىا۔ تعلىم گرتى گئى۔اىك بڑى غلط چىزجو پىداہوئى وہ تھا متون وشروح كا حداعتدال سے آگے بڑھ جانا۔ متن وشرح لكھنے كا طرىقہ فى نفسہٖ صحىح تھا ىہ چىز ہرعلم وفن مىں اور ہر زبان مىں اچھى ہوتى ہے لىكن ىہ چىز جب حد سے بڑھ جائے گى تب ظاہر ہے كہ اس سے نفسِ علم كو سخت نقصان پہنچتاہے۔ بجائے اس كے آپ كسى علم مىں كوئى اىك كتابجچى تلى زبان مىں وضاحت كے ساتھ مرتّب كرىں اور وہ اىك طالب علم كے آگے ركھىںتاكہ اس كو موقع ملے كہ وہ پورے طورپر اس كتاب پر چھاجائے آپ نے ىہ طرىقہ اختىاركىا كہ آپ نے اىك چىز لكھى كہ جس كا نام متن ،اور گن گن كر اتنے الفاظ ركھ دىے كہ كم سے كم الفاظ ہوں اوروہ اىك معما اورچىستان بن سكے۔ جوشرح جو لكھنى چاہىے تو اس شرح مىں مبحث آگئے،مثلاً اس نىك بخت نے اىك متن لكھا اور اس امر كى كوشش كى كہ عبارت كو سخت بنانے مىں كوئى بھى دروازہ اوركھڑكى كھلى نہ چھوڑى جائے جس سے دماغ اپنى راہ پر آجائے۔اگراس كوعبارت مىں اشارہ كرنا تھا،تو وہ ان ذرىعوںسے كام لىتا۔اگر وہ ان ذرىعوں كو ىعنى مرجع اورضمائر كو اس عبارت مىں ركھ دىتا، تومعاملہ صاف ہے۔ مثلًا اس كوىہ كہنا ہے كہ اىسى صورت مىں اس سے نتىجہ ىہ نكلے۔ اگروہاں وہ اس چىز كا نام بھى ركھ دے توىہ بحث غىر ضرورى ہوجاتىہے مگر وہ نىك بخت نہىں ركھتاہے۔ اور ىہ ناممكن ہے۔ اب اس سے اىك اہم بحث پىداہوئى كہ ’’اس سے‘‘ جو لفظ آىاہے، وہ كس طرف جاتاہے۔چنانچہ اس پر بحث چلى۔ قىاس ىہ چاہتاہے كہ ىہ طرىقہ جو اختىاركىا گىا،توىہ اس لیے كىا گىاكہ اس سے دماغ كو عبارت كے حل كرنے اورسمجھنے كى قوت پىداہو۔ حل ِعبارت بہر حال ضرورى چىزہے۔ اس مىں شك نہىں كہ اىك طالب علم كے لیے تو ىہ بہت ہى ضرورى ہے كہ وہ كسى كتاب كو پڑھنے اور اس كى عبارت كو سمجھنے مىں اورمباحث كو قابومىں لانے كے لیے اپنے اندرصلاحىت پىداكرسكے۔ لىكن اس كےلیے آپ بہت سے طرىقے اختىاركرسكتے ہىں۔اس كى كىاضرورت ہے كہ تمام علوم وفنون كى جو آپ تعلىم دىں ان كى تمام كتابوں كو آپ اسى طرىقے سے غارت كرىں اوردماغى قوت كا بڑاحصہ اصلى علم كوحاصل نہ كرسكے بلكہ وہ بىكار كى بحث مىں خرچ ہو۔ آپ غوركىجئےكہ اىك شخص كو منطق پڑھارہے ہىں۔آپ كے لیے جو چىز ضرورى ہے، وہ ىہ ہے كہ آپ منطق مىں اس شخص كے دماغ مىں زىادہ سے زىادہ جوبراہ راست رشتہ پىداكرسكتے ہىںپىداكرىں۔ ىہ رشتہ جتنا زىادہ مضبوط ہوگا، اتناہى دماغ اس كے لیے تىارہوگااور منطق اورلاجك(Logic) كوپكڑ مىں لے گا۔ لىكن آپ نے طرىقہ كىا اختىاركىاہے؟وہ اىك كتاب شروع كرتاہے اس كے  دماغ كى سارى قوت اس كتاب مىں صرف ہوتى ہے۔دماغ كو صرف كىا جاتاہے منطق كے  مبادىات، مسائل،مباحث، مقاصدكے اوپر۔ كس چىز پر جو اىك خاص نام كى كتاب ہے، اس كا اىك خاص نام كا مصنّف ہے، اس نے اىك متن لكھا ہے، اس كى جو اىك خاص سطر ہے، اس كا كىا مطلب ہے؟ آپ خىال كىجئےكہ اس كے اصلى موضوع سے،آپ اس كے دماغ كو بھٹكاكر كہا ں سے كہاں لے گئے! ىہ سب كچھ آپ اس لیے كررہے ہىں كہ عبارت كے حل كرنے كى اسے مشق ہو۔ مگر ىہاں معاملہ اس كے بالكل برعكس ہے۔ آپ اس كے دماغ كو غارت كرتے ہىں۔مصىبت ىہ ہے كہ ہرعلم كے لیے گرامر بہت زىادہ ضرورى ہے اوربیک وقت آپ دوبوجھ اس پر لادتے ہىں، اورہندوستان مىں تىن بوجھ۔ پہلا بوجھ ہے، اصل علم كا۔ دوسراحل عبارت كا۔ اس كى سارى قوت عبارت كے حل كرنے مىں صرف ہوجاتى ہے۔ نتىجہ ىہ نكلتاہے كہ دماغ كى پكڑ مىں چىز نہىں آتى ہے۔پھر آپ شكاىت كرتے ہىں كہ لوگ كوڑھ مغز ہىں لىكنجو طرىقہ ہم نے اختىاركىا ہے،وہ ان كو كوڑھ مغز بنانے كے لیے مجبوركرتاہے۔مىں اس چىز مىں زىادہ وقت نہىں لوں گا۔طرىقہ ٔ درس مىں جو تبدىلى ہوئى اس سے اسلامى علوم كو بہت سخت نقصان پہنچا۔ قدماء كے طرىقہ ٔ املا كو ترك كردىا۔ اعلىٰ علوم كى تعلىم زبانى درس كے ذرىعے سے اور لكچرز (Lectures)  سے دى جاتى تھى، ىہ بالكل ناپىد ہوگىا۔اور تمام تر كتابوں پر اعتماد ہوگىا۔  اورجوطرىقہ اختىاركىا گىاوہ اصولى تعلىم كے لحاظ سے بالكل غلط طرىقہ اختىاركىاگىا۔ اب اس سلسلے مىں جو بہت سى چىزىں ہىں، ان سب كو بىان كرنے كى ضرورت نہىں ہوگى۔آپ سب حضرات علم وفضل كى موجودگى مىں۔برسوں سے مىراخىال ىہ ہے، تىس برس سے مىراخىال ہے كہ علامہ تفتازانى اىك غىرمعمولى شخصىت كے مالك تھے اور تىس برس سے مىرى ىہ رائے ہے كہ انہوں نے جو متن وشرح لكھے،وہ ان كى زندگى مىں بہت مقبول تھے اور ان كے علم وفضل كاسكّہ سب پر جما ہوا تھا اورجو چىز ان كے قلم سے نكلتى تھى وہ تمام ملك مىں چھاجاتى تھى اور بعض تصنیفات ان كى زندگى مىں داخل درس ہوگئىں اور آج تك ہم سب منّت گزارہىں، ان كى تصنىفات كے۔ كوئى صاحب ىہاں پر اىسے نہ ہوں گے جنہوں نے علامہ موصوف كى تصنىفات نہ پڑھى ہوں۔علامہ تفتازانى كى كتابوں كى مقبولىت اس زمانے مىں اس لیے ہونے لگى تھى كہ اسلامى علوم كادماغى تنزّل شروع ہوچكاتھا اور ترقى كا دورختم ہوگىاتھا۔ اور ان كى كتابوں سے بجائے اس كے كہ آگے چل كر ترقى كے دروازے كھلے ہوں،اىك حد تكنقصان پہنچا۔ىہ مىں ڈرتے ڈرتے اىك لفظ آپ حضرات سے كہہ رہاہوں تاكہ آپ حضرات كو گراں نہ گزرے۔ ىہ بھى مىراعقىدہ كہ ادب عربى اور عربى بلاغت كو مطول نے سخت نقصان پہنچاىا۔ قدماء كى كتابىں نكل آئى ہىں،جىسے دلائل الاعجاز، اور اسرارالبلاغت۔ اس كے علاوہ اوربھى چىزىں نكل آئى ہىں،جن سے ہم اندازہ كرسكتے ہىں كہ بلاغتِ عربى كى تعلىم كہاں تك تھى۔ ہم بدقسمتى سے كہاں سے گر كر كہاں آگئے۔ جرجانى كى تصنىفات كو چھوڑدىجئے۔ سكا كى اس دوركى پىداوارتھا۔ دراصل ترقى كا دورختم ہوچكاتھا، اس نے مفتاح لكھى۔ كاش وہ اصلى شكل مىں رہتى لىكن نہىں ركھى گئى۔ بہرحال ىہ داستان طولانى ہے۔ مىں جس چىز كى طرف آپ كى توجہ دلانا چاہتاہوں،وہ ىہ ہے كہ ساتوىں صدى ہجرى مىں اىك بنىادى تبدىلى ہوئى اور اس نے اسلامى علوم اور اس كى بنىاد كو ہلادىا۔ اس سلسلے مىں ىہ بات آپ ىادركھئے كہ ترقى اورتنزّل كامعاملہ اىك عجىب معاملہ ہے۔ كتنى كھلى ہوئى اس تنزّل كى باتىں ہوں، ىاترقى كى باتىں ہوں،ان كو آپ ىا آپ كا زمانہ فورًا نہىں پكڑسكتاىامحسوس نہىں كرسكتا۔ ترقى اور تنزّل حقىقتًا دونوں بڑى دھىمى چال چلتے ہىں۔ اىسى دھىمى چال چلتےہىں كہ آپ كوپتاہى نہىں چلتا كہ كوئى چل رہاہے۔لىكن كافى وقت گزرجاتاہے اور كافى مسافت جب زمانہ طے كرلىتاہے،تب آپ چونكتے ہىں،مورخ چونكتاہے اورلكھتاہے كہ حقىقت ىہاں سے ىہاں آگئى، لىكن وہ اچانك نہىں آئى ہے۔ پچاس ساٹھ ىاسوبرس مىں ىہاں آئى ہے۔ لىكن اس سو برس مىں اس كى چال اتنى دھىمى تھى كہ اس چال كو كوئى پكڑ نہىں سكتاتھا۔منٹوں كو آپ پكڑسكتے ہىں،گھنٹوں كو آپ پكڑسكتے ہىں كىونكہ ساٹھ منٹ كا گھنٹہ ہوتاہے مگر اس كو آپ نہىں پكڑسكتے۔ اس كى چال اتنى

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...