کیا میانمار کو جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک اور سانحے کا انتظار کرنا ہوگا؟
بارہ سال پہلے مئی 2008ء میں آنے والے ’طوفان نرگس‘ سے جنوبی میانمار میں 140،000 جانیں ضائع ہوئیں اور 800،000 افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ 700،000 سے زیادہ مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ تقریبا 75 فیصد صحت کلینک بھی تباہ ہوگئے تھے۔ درجہ 4 کا طوفان میانمار کے نشیبی علاقے اراواڑدی ڈیلٹا، جو عام طور پر بڑے طوفانوں سے بچ جاتا تھا، پر کہر بن کر نازل ہوا۔ تیز ہواؤں اور 12 فٹ سے اونچی لہروں نے پورے علاقے کو تباہ کر دیا اور لاکھوں افراد کو متأثر کیا۔
پُرتشدد تاریخ سے دوچار میانمار، جو پہلے برما کے نام سے جانا جاتا تھا، نے 1948ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اپنے ابتدائی سالوں میں بڑے پیمانے پر اندرونی تنازعات کا سامنا کیا۔ 1962ء اور 1988ء میں فوجی بغاوتوں نے میانمار کو آمرانہ راستے پر ڈالا جہاں سے وہ کبھی نہیں واپس نہ آسکا۔ حالیہ برسوں میں مسلم روہنگیا عوام کے خلاف تشدد اور تنازعات نے میانمار معاشرے کو شدید متأثر کیا۔
طوفان نرگس کے وقت میانمار میں برما کے فوجی حکمرانوں کا مکمل کنٹرول تھا۔ تقریباََ 70 سالوں کے دوران متعدد داخلی شورشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے فوج نے ملک کا پیسہ صرف سیکیورٹی پر ہی خرچ کیا تھا جس کی وجہ سے سماجی بہبود کے پروگراموں کی نشوونما کو نقصان پہنچا اور آفات سے نمٹنے کے لیے تیاری موجود نہیں تھی۔ ملک میں نہ صرف موسمی ریڈار نیٹ ورک کا فقدان تھا جو طوفانوں کی پیش گوئی کرسکتا تھا بلکہ ابتدائی انتباہی نظام، طوفان میں پناہ گاہوں کی دستیابی اور لوگوں کے لیے انخلا کو ممکن بنانے کے منصوبے بھی نہیں تھے۔ تعمیر شدہ مکانات کی ایک بڑی تعداد بانس اور چھچھ سے بنی ہوئی تھی جو شاید درجہ 2 کے طوفان کے لیے بھی ناکافی تھے۔ آبادی کے صرف 3 فیصد کے پاس موبائل فون تھے جس سے بروقت معلومات پہچانا اور بھی مشکل کام تھا۔
قومی سلامتی کے خود ساختہ خدشات کا شکار میانمار کی حکومت نے طوفان کے بعد بین الاقوامی مدد لینے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے امداد اور بچاؤ کی سرگرمیوں میں رکاوٹوں کی وجہ سے مشکلات مزید پیچدہ ہوتی گئیں۔ بین الاقوامی امدادی سرگرمیوں کو داخلی سلامتی کے لیے ایک ممکنہ خطرہ کے طور پر دیکھا گیا۔ فوجی جرنیلوں نے بین الاقوامی امدادی عملے کو ویزے دینے سے انکار کر دیا۔ امدادی سامان لے جانے والے جہازوں کے داخلے میں تاخیر اور یہاں تک کہ اپنے شہریوں کو مقامی امدادی سرگرمیاں شروع کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ جب کچھ بہادر رپورٹرز نے خفیہ رپورٹنگ کر کے تباہی کے پیمانے کی معلومات بیرونی دنیا تک پہچائیں تو ریاستی زیرانتظام پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کونسل نے متأثرہ علاقے اراواڑدی ڈیلٹا تک غیر ملکی اور برمی میڈیا کی رسائی بھی روک دی۔ حکومت کی جانب سے قائم کردہ سڑکوں اور ندیوں پر چوکیوں اور سیکیورٹی فورسز نے ہر شخص کو گرفتار کرنا شروع کیا جس نے بغیر منظوری کے امداد کی کوشش کی۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے اور رضاکارانہ سرگرمیوں میں تاخیر سے لاکھوں زخمی، بھوکے اور بے گھر افراد ہفتوں امداد سے محروم رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات ایسے شاکس ہیں جن کی وجہ سے سیاسی نظام کو جوابدہ بننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی قسم کی تباہی کا سانحہ سیاسی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ میانمار فوج کی طوفان نرگس کے دوران امداد اور بحالی کے کاموں میں کوتاہیوں نے یقیناََ فوجی حکام پر اندرونی اور بیرونی دباؤ ڈالا. اس طوفان کے بعد میانمار میں کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونی شروع ہوئی تھیں۔ 50 سال کے بعد فوجی آمریت کے تحت میانمار نے نومبر 2010ء میں ایک جمہوری حکومت کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے دورے کے بعد ہی حکومت نے متاثرہ علاقوں تک رسائی اور مربوط امدادی کوششوں کے معاہدے پر اتفاق کیا۔ طوفان نرگس کے تین ہفتوں بعد اقوام متحدہ، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان اور برمی حکومت کے اشتراک سے امدادی اور تعمیرنو کا ایک سہ رخی کور گروپ تشکیل دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت بین الاقوامی تنظیموں کو ملک میں امدادی سرگرمیوں کے لیے داخلے کی اجازت دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق 1.1 ملین سے زیادہ افراد کو خوراک کی امداد اور دیگر امداد ملی فراہم کی گئی۔
کیا طوفان نرگس میانمار میں جمہوریت بحالی کی واحد وجہ تھا؟ یہ کہنا کچھ مشکل ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات ایسے شاکس ہیں جن کی وجہ سے سیاسی نظام کو جوابدہ بننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی قسم کی تباہی کا سانحہ سیاسی تبدیلی کا ایک اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ میانمار فوج کی طوفان نرگس کے دوران امداد اور بحالی کے کاموں میں کوتاہیوں نے یقیناََ فوجی حکام پر اندرونی اور بیرونی دباؤ ڈالا. اس طوفان کے بعد میانمار میں کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہونی شروع ہوئی تھیں۔ 50 سال کے بعد فوجی آمریت کے تحت میانمار نے نومبر 2010ء میں ایک جمہوری حکومت کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا۔ طوفان نرگس کے بعد ہونے والے ریفرنڈم نے شہریوں کو دہائیوں کے بعد ووٹ ڈالنے کی اجازت دی۔ ریفرنڈم کا مقصد جمہوریت کے لیے روڈ میپ کے سب سے اہم پہلو نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا اور 2010ء میں انتخابات کا انعقاد تھا. دو سال بعد سیاسی تبدیلی نے میانمار کو بیرونی دنیا کے لیے کھولنا شروع کیا۔
اس سیاسی عمل کے آغاز نے ملک کو ممکنہ آفات کی تیاری کے لیے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی مجبور کیا۔ میانمار نے آسیان (ASEAN) کے ساتھ طوفان کے خطرے سے نمٹنے کے متعدد پروگراموں پر کام کیا، اس نے تباہی سے نمٹنے کے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015ء پیرس معاہدے میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے امریکی، جاپان، میانمار ریڈ کراس، امریکی اور دیگر امدادی ایجنسیوں کے تعاون سے قومی، ریاستی اور مقامی طور پر تباہی کے بعد ردعمل کے میکانزم کی تشکیل کا بھی قانون منظور کیا۔
اگرچہ 2010ء کے الیکشن میں آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) شریک نہیں تھی مگر 2015 ء کے انتخابات میں این ایل ڈی کو ملک بھر میں بھاری کامیابی ملی۔ آخر کار طوفان نرگس کے بعد سے شروع ہونے والا ہائبرڈ جمہوریت کا سفر بارہ سال بعد اپنے انجام کو پہنچا۔ سوال یہاں یہ ہے کیا میانمار کو جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک اور سانحے کا انتظار کرنا ہوگا؟ جواب صرف وقت ہی بتا پائے گا۔
فیس بک پر تبصرے