اسلام کیوں فرائض پر زور دیتا ہے؟

522

اسلام نے فرائض پر زور دیا ہے کیونکہ جب فرائض ادا کئے جائیں تو حقوق خود بخود دوسروں تک پہنچتے ہیں۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے اگر حقوق پر زور دیا جائے تو اس سے بھی تو فرائض خودبخود ادا ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو دونوں سے دو مختلف نفسیات اور رویے وجود میں آتے ہیں۔ فرض کی ادائیگی کا احساس پیدا ہونے سے انسان میں سماج کو Deliver کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ انسان دینے کے مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ اسے محرومی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ اس فکر میں ہوتا ہے کہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے ادا کروں۔ اسے جواب دہی کا احساس ہوتا ہے کہ میں دنیا و آخرت میں جوابدہ ہوں۔ اس سوچ اور رویے سے معاشرے کا اخلاقی معیار بھی بلند ہوتا ہے اور لوگوں میں ایک دوسرے سے شکوہ شکایت کی عادت بھی نہیں رہتی۔

اگر فرض کی ادائیگی پر اجر و ثواب رب تعالی سے پانے کا یقین ہو تو اس میں سکون و اطمینان دو چند ہو جاتا ہے۔ اگر حقوق پر زور ہو تو اس سے محرومی کا احساس جنم لیتا ہے۔ حقوق کا تقاضا کرنے والوں اور حقوق مانگنے والوں کو ہمیشہ ناشکرا پایا ہے۔ وہ اس ڈر سے اطمینان کا اظہار نہیں کرتے کہ کہیں حقوق سے ملنے والی آسائش و عیاشی نہ چِھن جائے۔ حقوق طلب کرنے کی نفسیات ہمیشہ کمی اور محرومی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ انسان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس پر شاکر اور قانع رہنے کے بجائے، جو نہیں ہے اس کی ہوس اور لالچ میں بےچین رہتا ہے۔

فرائض ادا کرنے والے کی نفسیات بہادری، حوصلہ اور کچھ کرتے رہنے میں مصروف رہنے پہ آمادہ رکھتی ہے

محض حقوق کی تکرار فرائض سے غافل کرتی ہے۔ مختلف اداروں میں تشکیل دی جانے والی یونینز کے کارکن اور ملازمین کا رویہ بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اکثر طور پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بجائے حقوق کے نعرے بلند کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ عالٙم  یہ ہوتا ہے کہ وہ مہینے بعد، دفتر تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں۔ حقوق کی نفسیات دوسرے کو کٹہرے میں کھڑی کرتی ہے۔ لیکن خود کبھی حقوق مانگنے والا کٹہرے میں کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ہر کسی سے شکوہ کرتا ہے لیکن اپنے فرائض پر غور نہیں کرتا کہ کیا وہ ان لوگوں کے حقوق ادا کر رہا ہے جن کی ذمہ داری اللہ اور ریاست نے اس کے کندھوں پر ڈال رکھی ہے؟

فرائض ادا کرنے والے کی نفسیات بہادری، حوصلہ اور کچھ کرتے رہنے میں مصروف رہنے پہ آمادہ رکھتی ہے۔ صرف حقوق کا وظیفہ پڑھنے والا شخص بزدل، بے حوصلہ اور فارغ رہنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام ہر انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے۔ وہ والدین ہیں یا میاں بیوی، بہن بھائی ہیں یا دوست و ہمسایہ، سب کے فرائض ہیں اور ان پر  آخرت میں جوابدہی کا پہرہ ہے۔ جو شخص واقعی جواب دہی کا احساس رکھتا ہے وہ ضرور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے گا کیونکہ یہ بارگاہ رب العزت میں سرخروئی کا ذریعہ ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...