پاکستان میں عوامی سطح پر دانشور کا کردار

690

ترقی یافتہ معاشروں میں دانشور کا عوامی سطح پر ایک کردار ہوتا ہے۔ یہ کردار دو دہائیاں قبل تک زیادہ وسیع اور مؤثر تھا کہ دانشور سیاسی اور سماجی منظرنامے میں مقتدرہ اور عوام کے مابین ایک ربط کی حیثیت سے موجود تھے۔ مگر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد عوام مقتدرہ سے براہ راست ربط میں آگئے ہیں اور ایک غیرمنظم مگر پراثر طریقے سے وہ مقتدرہ و ریاست سے بات چیت کر رہے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ معاشروں میں دانشور کے اس کردار کے قدرے کم ہونے کے باوجود وہاں بے یقینی اور بے چینی کی وہ فضا پیدا نہیں ہوئی جو ہمارے ہاں نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہ ان معاشروں میں شہریت، جمہوریت اور انسانی اقدار کا پہلے سے رسوخ ہے جو مجموعی طور پہ اس سماج کی ایک خاص فطری تشکیل کرچکا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سوشل میڈیا نے ایک بے یقینی اور بے چینی کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ یوں یہاں جذبات کے ساتھ کھیلنا زیادہ آسان ہے، پروپیگنڈے کا کامیاب ہونا زیادہ ممکن محسوس ہوتا ہے۔

پاکستان میں دانشور کے کردار کی بات کی جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس کا کردار عوامی سطح پر اپنے ثمرات و نتائج کے اعتبار سے بہت زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ جبکہ اس کے مقابلے مذہبی طبقے کا کردار زیادہ وسیع اور مؤثر ہے۔ یوں تو جدید تناظر میں دانشور کی تعریف یہ نہیں ہے کہ وہ مذہبی طبقے کا مخالف کوئی کردار ہے اور نہ اس طرح کا تأثر ملنا چاہیے کیونکہ یہ تأثر مذہبی طبقے کا پیدا کردہ ہے جس نے دانشور کو سماج میں ایک غیر سا بنا دیا ہے۔ تاہم واقعاتی معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دانشور عوامی سطح پر یہ تأثر نہیں بنا سکا کہ وہ عوام کے ساتھ وابستگی رکھتا ہے۔ بلاشبہ اس کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں جن میں سے ایک ریاست کا عمل دخل بھی۔

دانشور کو ناراض تبصرہ نگار کے کردار سے باہر نکلنا چاہیے

عوامی ربط کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارا دانشور طبقہ ایک ’ناراض تبصرہ نگار‘ محسوس ہوتا ہے۔ جہاں تک حقیقی عوامی ترجمانی اور اس کے صحت مند عوامی تعلق کی بات ہے تو اس حوالے سے اس کا کردار کچھ دھندلا ہے۔ اس کی مثال ملک میں پچھلے کچھ عرصے سے اٹھنے والی حقوق کی تحریکیں ہیں۔ یہ تحریکیں خالص نوجوانوں کی ہیں، جو خود کھڑے ہوئے ہیں، جو اپنی آواز بھی خود پہنچا رہے ہیں، جو اپنے فیصلے سے قربانی بھی دے رہے ہیں۔ ان تحریکوں میں دانشور کا کوئی جاندار کردار نہیں ہے۔ یہ نوجوان مقتدرہ کے مقابل بھی کھڑے ہیں اور مذہبی شدت پسندی کے بھی اعلانیہ طور پہ دوبدو آئے ہیں۔ جبکہ دانشور انتہائی ’محتاط‘ ہیں۔

ہمارے ہاں دانشور مجموعی طور پہ عوام کے ساتھ اپنا اعتماد کا رشتہ قائم نہیں کرسکا، نہ عوام انہیں اپنا نمائندہ تصور کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو مذہبی رہنما زیادہ عوامی ہوتے ہیں اور ان کا باہمی تعلق بھی مضبوط ہے۔ ریاست کے کردار سے ہٹ کر شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو یہاں کہ دانشور کا اپنا رویہ بھی عوامی نہیں ہے، وہ عوام کے ساتھ ویسا ربط بناتا بھی نہیں ہے۔ وہ ان سے ایک گونہ فاصلہ قائم کیے ہوئے ہے۔ اس کو سوشل میڈیا کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مذہبی طبقے کا اثرورسوخ زیادہ ہے۔ حالانکہ یہ طبقہ ٹیکنالوجی سے دور تھا، ان کے پاس سوشل میڈیا کے استعمال کے ذرائع کم تھے، مگر آج وہ ادارہ جاتی اور تنظیمی حیثیت میں بھی اس پر نمایاں نظر آتا ہے۔ جبکہ اس کے بالمقابل دانشور طبقہ سوشل میڈیا کے استعمال میں پہلے ہچکچاتا رہا۔ شاید اسے عوامی ہوجانے کا احساس اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ باجود اس کے کہ انہیں مستقبل میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور طاقت کا اندازہ تھا مگر وہ عوام سے اس میڈیم پر براہ راست ربط بنانے میں تذبذب کا شکار تھا۔

بلاشبہ دانشور گروہی و طبقاتی حیثیت نہیں رکھتا ہوتا نہ اسے یہ تأثر دینا چاہیے، نہ ہی اس کا یہ کردار ہے کہ وہ بس مقتدرہ کا مخالف ہوتا ہے یا مذہبی اجتماعیت کا۔ مگر اسے عوام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے۔ اسے تبصرہ نگار کے کردار سے باہر نکلنا چاہیے۔ بھارت میں سیاسی یا سماجی استحصال کے خلاف اکثروبیشتر دانشور کا ایک مضبوط کردار نظر آتا ہے۔ ایک مجموعی ردعمل جس ایک وزن ہوتا ہے۔ وہ کردار اور وزن ہمارے ہاں نہیں ہے۔ یہاں دانشور یہ توقع رکھتا ہے حکومت اس کے افکار پہ کان دھرے یا عوام اس کی فکر سے روشنی پاکے کوئی انقلاب لے آئیں، یہ طبقہ مجموعی حیثیت میں خود کسی تبدیلی کے پراسس کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ اس کی عملی مثال موجودہ حقوق کی تحریکیں ہیں جہاں دانشور کا کردار کہیں کہیں موجود تو ہے مگر دھندلا اور ’محتاط‘ ہے یا پھر محض تبصرہ نگار کا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...