ویژن-2047ءکے لیے ڈائیلاگ
اگلے سال پاکستان اپنے قیام کی گولڈن جوبلی منائے گا۔آزادی موہوم کے اِن پچھتر سالوں پر بہت کچھ لکھا اور بولا جائے گا۔یقیناََ بہت ساری تقریبات ہوں گی۔کامیابیوں کا خوب چرچا ہوگا۔آدھے ادھورے خوابوں کا بھی شمار ہوگا۔ میری نظر میں یہ ایک نادر موقع ہے کہ ہم ایک منفرد قومی ڈائیلاگ کا اہتمام کریں۔مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ اِس ڈائیلاگ کا اہتمام کون کرے گا؟لیکن اس میں کسے شریک ہونا چاہیے میں نے ایک فہرست مرتب کی ہے۔
اِس وقت پاکستان میں چار سابق صدور،چھ سابق وزرائے اعظم ،چار سابق نگران وزیراعظم،چھ سابق قائدینِ اختلاف (قومی اسمبلی)پانچ سابق چیئرمین سینٹ،آٹھ سپیکر قومی اسمبلی، دس سابق چیف جسٹس آف پاکستان اور پانچ سابق آرمی چیف حیات ہیں۔ان سب کو اکٹھے بٹھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگاکیونکہ بعض ملک سے باہر ہیں اور ان کی واپسی کی قیمت ہوگی ،اور بعض ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں۔تاہم یہ سچ ہے کہ اِن اہم مناصب پر کام کرتے ہوئے اُن کے پاس تجربات کی دانش کا وسیع خزانہ ہےاُنہوں نے اقتدار میں خود دیکھا کہ کیا کیا ہمارے معروضی حالات میں اہم ترین اور مؤثر ہےاور کون کونسی غلطیاں ہیں جن کا دہرانا زہر ہے۔
ہم نےدنیا کے کئی ممالک میں دیکھا ہے کہ اہم عہدوں پر قوم کے لیے خدمات سرانجام دینے والوں کے تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔امریکہ کے سابق صدور اہم قومی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔نیز وہاں ہر صدر کے دور پر تحقیق کے لیے صدارتی لائبربیری بھی بنائی جاتی ہے تاکہ اُن کے کاموں اور خدمات کا مطالعہ کیا جاسکے۔ ہندوستان میں بھی وزرائے اعظم کی لائبریری ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسی روایات بنائی نہیں جاسکتیں۔
اس احساس سے بھی چھٹکارا ممکن نہیں کہ ہم ایک منقسم سماج ہیں جہاں سیاسی مخالفت اکثر ذاتی اور دائمی دشمنیوں میں ڈھل جاتی ہے۔ چونکہ سیاست ممکنات کا کھیل ہوتی ہےاس لیے اس ڈائیلاگ کا خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور شاید یہی راستہ ہو کہ ہم ایک نارمل سوچنے اور مل کر کام کرنے والی قوم بن جائیں۔دوسرا یہ بھی اہم ہے کہ یہ ڈائیلاگ اپنی اپنی خدمات کی گردان اور بعداز ریٹائرمنٹ سچائیوں کے اظہار کا فورم نہ ہو،بلکہ پاکستان کو درپیش مسائل کی جامع فہرست تیار کی جائے اور ہر کوئی اپنا اپنا حل تجوز کرے۔اس ڈائیلاگ میں سامنے آنے والے نکات پر اتفاقِ رائے ہمارے مستقبل کا روڈمیپ ثابت ہوسکتا ہے۔یعنی ویژن-2047ء۔
مجھے احساس ہے کہ زندگی ایک فانی حقیقت ہے اور ممکنہ مہمانوں کی اس فہرست میں بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جو آجکل صاحبِ فراش ہیں،لہذا اُنہیں تحریری تجاویز کے لیے کہا جاسکتا ہے۔آج ویژن-2047ء کے لیے مہمانوں کی فہرست درج ذیل بنتی ہے:
سابق صدور میں 92 سالہ محمد رفیق تارڑ، 81 سالہ ممنون حسین،78 سالہ پروزیرمشرف اور 66 سالہ آصف علی زرداری شامل ہیں۔سابق وزرائے اعظم میں 75 سالہ چوہدری شجاعت حسین، 72 سالہ شوکت عزیز،69 سالہ سید یوسف رضا گیلانی،71 سالہ راجہ پرویز اشرف،72 سالہ میاں محمد نوازشریف، اور 63 سالہ شاہد خاقان عباسی شامل ہیں۔نگران وزرائے اعظم میں 92 سالہ میر ہزار خان کھوسو،93 سالہ میر بلخ شیر مزاری، 71 سالہ میاں محمد سومرو اور 71 سالہ جسٹس ناصرالملک شامل ہیں۔سینٹ آف پاکستان کے سابق چیئرمینوں میں 80 سالہ وسیم سجاد،71 سالہ میاں محمد سومرو،74 سالہ فاروق نائک،68 سالہ نیر حسین بخاری اور 68 سالہ میاں رضا ربانی شامل ہیں۔جبکہ قومی اسمبلی کے سابق سپیکرز میں 84 سالہ گوہر ایوب ،79 سالہ سید فخر امام ، 77 سالہ حامد ناصر چٹھہ،95 سالہ الہی بخش سومرو، 69 سالہ سید یوسف رضا گیلانی،79 سالہ چوہدری امیر حسین،65 سالہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزااور 67 سالہ سردار ایاز صادق شامل ہیں۔
سابق قائدین حزبِ اختلاف میں 68 سالہ مولانا فضل الرحمان،69 سالہ سید خورشید شاہ،67 سالہ چوہدری نثار علی خان،76 سالہ چوہدری پرویز الہی، 79 سالہ سید فخر امام اور 72 سالہ میاں محمد نوازشریف شامل ہیں۔سینٹ آف پاکستان میں قائد حزبِ اختلاف کی فہرست میں اعتزاز احسن، شیری رحمان،راجہ ظفرالحق ، اسحاق ڈار،مولانا عبدالغفور حیدری،کامل علی آغااور میاں رضا ربانی شامل ہیں۔
سابق چیف جسٹس کی فہرست میں 67 سالہ جسٹس آصف سعید کھوسہ،68 سالہ میاں ثاقب نثار،70 سالہ انور ظہیر جمالی،71 سالہ جواد ایس خواجہ،71 سالہ ناصرالملک،74 سالہ تصدق حسین جیلانی، 75 سالہ افتخار محمد چوہدری اور 84 سالہ جسٹس ارشاد حسن خان شامل ہیں۔یہاں یہ اعتراف بھی لازمی ہے کہ میرے پاس جسٹس ناظم حسین صدیقی اور شیخ ریاض احمد کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ اس فہرست میں اقتدار کے روایتی ٹرائیکا کے چند ناموں پر کئی لوگوں کو اعتراض ہوگا لیکن پاکستان کے حالات میں سول-ملٹری توازن اہم ہے۔اِس لیے 90 سالہ جنرل اسلم بیگ، 84 سالہ جنرل عبدالوحید کاکڑ،80 سالہ جنرل جہانگیر کرامت،78 سالہ جنرل پرویز مشرف،69 سالہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور65 سالہ جنرل راحیل شریف کو دعوت دی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں ہر شعبہ میں حیات سابقہ سربراہوں مثلاََ چیف الیکشن کمشنر،انٹیلی جنس کے سابق سربراہوں کو بھی دعوت دی جاسکتی ہے۔
ہم باوجود ڈھیروں مطالبات کے آج تک ’’سچائی اور مفاہمت کا کمیشن‘‘ نہیں بناسکےلیکن قومی ڈائیلاگ کا یہ طریقہ آزمایا جاسکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے