حفیظ خان کا ناول ” انواسی”: اردو ناول کی بدقسمتی کا تسلسل

2,397

گزشتہ ہفتہ، حفیظ خان صاحب کا ناول ” انواسی” مطبوعہ ” بک کارنر” جہلم پڑھنے کا آغاز کیا۔ کتاب کھولی۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ:

‘ بے طرح توصیفِ “انواسی” کا تھا دفتر کھلا
دے رہے تھے باری باری دھوکا بازی گر کھلا ‘

کتاب کے دونوں فلیپ اور پہلے سات صفحات ” مفتیانِ ادب” اور مفت برانِ ادب کی ستائشی آرا کے لیے مختص ہیں۔ ان تبصروں کو پڑھ کر لگتا ہے قاری ” انواسی طیارہ” نامی بس میں بیٹھا ہے۔ مصنف اور دیگر قارئین بھی بغلوں میں ” انواسی” کے نسخے دابے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہیں۔ باری باری مختلف افراد ناول کی پروموشن کا سودا بیچنے کی غرض سے اس میں سوار ہوتے ہیں اور مال بیچتے ہی رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد اسٹیشن پر افتخار عارف صاحب بس میں تشریف لاتے ہیں۔ وہ کچھ جلدی میں نظر آرہے ہیں لہذا آتے ہی کھانس کر مصنف کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ناول کے فضائل بیان کرنے لگتے ہیں۔ قارئین اس “بیانِ عالی شان” کو سن کر بغلیں بجانا چاہتے ہیں لیکن وہاں کتابیں داب رکھنے کی وجہ سے انھیں فوری طور پر یہ سہولت میسر نہیں ہوتی لہذا وہ بغلیں جھانک کر گزارا کر لیتے ہیں۔ اس” کارروائی” کے فوری بعد موصوف تشریف لے جاتے ہیں۔ اگلے اسٹیشن پر مسعود اشعر صاحب گاڑی میں داخل ہوتے ہیں۔ سرکار، مصنف کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں اور پھر ناول اور ناول نگار کی شان میں خطبہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ قارئین اس دوران جمائیاں لینے لگتے ہیں کیوں کہ اس سے پیشتر بھی وہ موصوف کی، ناولوں سے متعلق کئی ایسی باتیں سن چکے ہیں جو بعد از قرآتِ ناول حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئیں۔ تاہم مسعود اشعر صاحب کئی سادہ لوح سواریوں کو جل دے کر اپنا سودا بیچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گوجرنوالہ اسٹیشن پر خالد فتح محمد صاحب بس میں سوار ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ ” انواسی” کی ستائش کا چورن بیچنے کی عظیم زمہ داری انھیں سونپی جاتی ہے جسے وہ کمپنی کی مشہوری کے لیے فوری قبول کر لیتے ہیں اور فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر ناول کو تاریخی قرار دے بیٹھتے ہیں جس پر قہقہوں کا طوفان اٹھتا ہے اور وہ کھسیانے ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں لیکن اس دوران کچھ بھولے بھالے مسافروں کو جھانسا دے کر کچھ نہ کچھ مال بیچ ہی لیتے ہیں۔

ناول پڑھتے ہی قاری کو پتہ چل جاتا ہے کہ مذکورہ حضرات اس سے ایک مرتبہ پھر ہاتھ کر گئے ہیں۔ یہ ہرگز وہ مال نہیں ہے جو اسے دکھایا گیا تھا۔ ان کہنہ مشق کاری گروں نے عین وقت پر شاپر بدل کر اسے دھوکا دیا ہے۔ ہر شاپر میں سے پتھر برآمد ہوتے ہیں۔ انھیں غور سے دیکھنے پر قاری کو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو وہی پتھر ہیں جو مسلسل اردو ادب کی بیڑی میں ڈالے جا رہے ہیں۔ ان پیشہ ور مبصرین کا تو پتہ نہیں تاہم قاری کا سر ضرور شرم سے جھک جاتا ہے۔

درشنی مبصروں کے ہوم میڈ تبصرے پڑھ کر ہی قاری کو اندازہ ہو گیا تھا کہ انواسی کس قماش کا ناول ہوگا کیوں مذکورہ حضرات ہمیشہ سے مبتذل تحریروں کے وکلاء صفائی رہے ہیں بل کہ اب تو انھیں ناقص تحریروں کے برینڈ ایمبسڈرز سمجھا جاتا ہے۔ بایں ہمہ ” انواسی” پڑھنے کے بعد قاری على رؤوس الأشهاد یہ اعتراف کرتا ہے کہ ناول اس کے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب اور ردی نکلا ہے۔

تفصیلی تبصرہ سے پیشتر اس” عدیم النظیر” ناول کی” حیرت انگیز ” کہانی کی جانب بڑھنے ہیں۔ انگریز سرکار کراچی سے لاہور تک ریلوے ٹریک بچھا رہی ہے۔ اس دوران دریائے ستلج پر ایمپریس پل کی تعمیر کا پراجیکٹ بھی روبہء عمل ہے۔ اس سلسلہ میں ریلوے ٹریک بستی آدم واہن کے صدیوں پرانے قبرستان سے گزارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر بستی والوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا کہ ان کے نزدیک سرکار اس عمل سے ان کے بزرگوں کی قبروں کی بے حرمتی کر رہی ہے۔ حکومت کو اس منصوبے سے باز رکھنے کے لیے نگھیرو کا بیٹا سیدا اپنے ساتھیوں کے ہم راہ مزاحمتی کردار ادا کرتا ہے ۔ اس مزاحمت کے حق میں بستی کے سب سے با اثر شخص، مولوی جار اللہ نے فتویٰ بھی دے رکھا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار سنگری، سیدے کی منکوحہ ہے لیکن ہنوز اس کی رخصتی نہیں ہوئی۔ یاد ہے کہ سنگری کو سیدے کا دودھ شریک بھائی منگر بھی پسند کرتا ہے۔

سیدا ایک دن سنگری کا مکلاوہ لینے اچانک اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ وہ نہ صرف مکلاوے سے انکار کرتی ہے بل کہ جھگڑا بڑھنے پر اس کے منھ پر تھوک بھی دیتی ہے۔ کچھ روز بعد سیدا اسے اغوا کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور ازاں بعد طلاق دے کر اس کے گھر کے قریب چھوڑ آتا ہے جہاں وہ انگریز فوج کے نرغے میں آ جاتا ہے لیکن اپنے گھوڑے جگری کی جولانی اور مصنف کی مہربانی سے وہ ان کا گھیرا توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ صفحہ نمبر 93 اور 94 کی یہ سطور ملاحظہ فرمائیں:

” سیدا واپس گھوما تو اس کے دونوں ساتھیوں کو انگریز فوجی نہایت خاموشی سے گرفتار کر چکے تھے۔ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا تھا۔ ایک ہی ساعت میں موت کا سایہ اس کی آنکھوں کے سامنے کیا لہرایا اس کا پورا وجود ہی سن ہو کر رہ گیا۔ موت تو آنی ہی تھی مگر اتنی جلدی؟ یہ اس کی سوچ میں بھی نہیں تھا۔ مایوس ہو چکے سیدے نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اور زمین پر آلتی پالتی مارے بیٹھی سنگری کو دیکھا۔ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ ” عجیب طرح کی حرام زادی ہے تو ۔۔۔۔ طلاق کے بعد ہی میرے لیے منحوس ہی رہی۔”
یہ کہہ کر اس نے جگری کو ہوا ہو جانے والی ایڑ دکھائی ( ہوا ہو جانے والی ایڑ دکھانے کا جواب نہیں) ، اس طرف کہ جہاں سے گھیرا توڑ کر نکل جانے کا کچھ تو امکان ہو سکتا تھا۔ سیدے کو اس جانب جاتا دیکھ کر انگریز فوجیوں کا پورا جتھا بھی اپنے برق رفتار گھوڑوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے اسی طرف لپکا۔”

سیدا گھیرا توڑنے میں کیسے، کب اور کیوں کر کامیاب ہوا؟ اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے بہ ہر حال مسلمانوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ سیدا فرار ہو جاتا ہے۔ یہاں قاری سوچتا ہے کہ ٹرینڈ برٹش آرمی کے گھیرے سے اس طرح کسی شخص کا تنہا نکل جانا بھلا کیسے ممکن ہے۔ فوجیوں نے بندوقیں کیا چھتوں سے جالے اتارنے کے لیے پکڑی ہوئی تھیں یا پھر یہ واقعہ اس دور کا ہے جب فوجیں ہتھیاروں کی بجائے چپیڑوں سے لڑتی تھیں۔ شاید سیدے تک قاری کے یہ خدشات پہنچ جاتے ہیں اور وہ غیور شخص دوبارہ پورے ناول میں کہیں نظر نہیں آتا۔

کہانی کے اگلے حصے میں انگریز فوج سیدے کے بیس ساتھیوں کو قتل کر کے باقیوں کو گرفتار کر لیتی ہے۔

محولہ بالا واقعات کے متوازی چیف انجینئر جان برنٹن کی کہانی بھی چل رہی ہے جسے ریلوے ٹریک بچھانے اور ایمپریس برج بنانے کی زمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کے مقامی انتظامیہ سے اختلافات ہیں۔ اس کے علاوہ جان گالوے، برنٹن کے خلاف اس کے بیٹے ولیم کے ساتھ مل کر سازشیں بُننے میں مصروف ہے۔ ولیم اپنی ماں میری کی وجہ سے اپنے باپ سے نالاں ہے۔ برنٹن سگار اور شیواز وہسکی کا رسیا ہے اور ناول میں خوشی، غمی، اطمینان اور پریشانی ہر حالت میں ان اشیاء کا تقاضا کرتا ہے۔ صرف ایما اسے ان چیزوں سے مستغنی کرتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو بےطرح چاہتے ہیں۔

سروے ٹیم کے دو جونئیر افسران، پکھی واسوں کی ایک لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ لڑکی حاملہ ہو جاتی ہے جس پر علاقے کے پکھی واس ریلوے سائٹ آفس کا گھیراؤ کرتے ہیں۔ افسران کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اقبالِ جرم کے بعد انھیں نوکری سے برخاست کر کے لندن بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی دوران، برنٹن، انڈس ویلی ریلوے کے منتظمین اور مقامی انتظامیہ سے اختلافات کی بناء پر استعفی دے دیتا ہے جو نامنظور کیا جاتا ہے۔

ادھر سنگری جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد حاملہ ہو چکی ہے، سیدے اور اس کے ساتھیوں کے انجام کے بعد مولوی جار اللہ نے اپنے فتوے سے رجوع کر لیا ہے۔ وہ بستی والوں کو ہر حال میں سرکار کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ قاری کو نہ تو مولوی صاحب کے فتوی دینے کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی اس سے رجوع کرنے کی لیکن وہ مولوی صاحب اور مصنف کے احترام میں خاموش رہتا ہے۔

جار اللہ انگریز فوج کے ہاتھوں مرنے والے بیس افراد کو باغی قرار دے کر ان کے جنازے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ وہ بستی والوں کو انگریز سرکار کا ایک حکم بھی سناتا ہے جس کے تحت انھیں پرانے قبرستان سے اپنے بزرگوں کی باقیات نئے قبرستان میں منتقل کرنے کے لیے محض ایک گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے۔

بستی کے لوگ روتے ہوئے، اپنے بزرگوں کی باقیات پرانے قبرستان سے نکال کر نئے قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔ انگریز فوج کے ہاتھوں مرنے والے افراد کی تدفین بھی وہیں کی جاتی ہے۔ پرانے قبرستان میں سات لاوارث قبروں کی کھدائی بھی کی جاتی ہے جس سے پورے علاقے میں خوشبو پھیل جاتی ہے۔ قبروں سے تازہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں جن کے کفن تک میلے نہیں ہوتے۔ ان لاشوں کو ایک میل دور ستلج کے شمالی کنارے پر دفن کیا جاتا ہے۔

سیدے کے روپوش ہو جانے پر منگر کی سنگری کے لیے محبت جاگ اٹھتی ہے لیکن وہ اس کی بجائے مولوی جار اللہ سے نکاح کرلیتی ہے جو اس کے ہونے والے بچے کو اپنا نام دینے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ تاہم مندرجہ ذیل سطور پڑھتے ہوئے قاری کا ماتھا ٹھنکتا ہے:

” ادھر سکندرے کی لاش ملنے کے بعد بھی سنگری کو تِل برابر بھی یقین نہیں تھا کہ سیدا زندہ ہے۔ نکاح پر نکاح کی بات ہی کیا۔ اگر کوئی نکاح ہوا بھی تھا تو مرنے سے پہلے سیدا خود اسے طلاق دے چکا اور اب تو عدت بھی پوری ہو چکی تھی۔” ( صفحہ نمبر 158)

حاملہ عورت کی عدت کی مدت وضع حمل ہوتی ہے۔ بچہ جنے بغیر سنگری کی عدت کیسے پوری ہوگئی اس بابت ائمہ بھی پریشان ہیں۔ شرعی طور پر تو عدت اس دن پوری ہوئی جس دن سنگری کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے نکاح پر نکاح کیا جو محولہ بالا اقتباس کے بیانیے کی تکذیب کرتا ہے۔ لیکن مصنف محض سنگری کی حرمت کا دھیان رکھتے ہوئے اجتہاد کرتا ہے اور حاملہ عورت کی عدت میں جدت پیدا کرتے ہوئے اسے وضع حمل سے قبل ہی پوری کروا کر فوری طور پر ثوابِ دارین حاصل کر لیتا ہے۔

دوسری طرف برنٹن کو بہاول پور آفس سے ایک ٹیلی گرام موصول ہوتا ہے جس میں اسے مس ایما سے ملنے کا کہا جاتا ہے۔ وہ اس خدشے کے ہم راہ اس کے پاس پہنچتا ہے کہ شاید جان گالوے کی سازش کامیاب ہو گئی ہے اور اسے نوکری سے برخاست کیا جا رہا ہے۔ لیکن بعد از جماع ایما اسے بتاتی ہے کہ وہ اس کی سازش ناکام بنا چکی ہے:

” مجھے یہ مشکل کام اس لیے سونپا گیا کہ انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے کی پوری مینجمنٹ جان چکی ہےکہ میں اور تم بہت جلد شادی کرنے والے ہیں۔۔۔۔ کل یعنی جو آج ہو چکی۔۔۔ اتوار صبح گیارہ بجے بہاول پور کے چرچ میں۔”

سازش سے یک دم شادی برآمد ہونے سے قاری پریشان ہو جاتا ہے کہ ناول کے گزشتہ صفحات میں اس بابت، دونوں کرداروں کا کوئی ایسا وعدہ، نیت، طلب، تمنا، خواہش یا ارادہ بیان نہیں ہوا اور ٹھاہ کرکے ان کی شادی کروائی جا رہی ہے لیکن یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو جاتا ہے ک

جب ایما، برنٹن راضی ۔۔۔ تو کیا کر سکتا ہے قاری

پریشانی رفع ہوتے ہی قاری مصنف کی نکتہ آرائی اور اس کے تخیل کی نکاح خیز انگڑائی کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔

مولوی جار اللہ سے شادی کے چھ ماہ بعد سنگری کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام امانت رکھا جاتا ہے۔ شرعاً اسی روز سنگری کی عدت پوری ہوتی ہے جس پر اوپر بات ہو چکی ہے۔

چھ ماہے بچے کی پیدائش پر بستی آدم واہن کے شریف لوگ مصنف کے حکم پر چوں تک نہیں کرتے بل کہ مولوی صاحب کی مردانگی کے معترف ہو جاتے ہیں۔ صفحہ نمبر 172 کی یہ سطور دیکھئیے:

” سنگری کی مولوی صاحب سے شادی کو چھ مہینے گزرے تو اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ باقی چھ ماہے بچوں سے یکسر منفرد وضع کا، تگڑا اور تنومند۔ مولوی صاحب کی مردانگی کے ہر سُو چرچے کہ پہلے ہلے میں بیچاری ملوک چھوہر کو گھبن کر بٹھایا اور بیج اتنا خالص کہ پیٹ میں چھ ماہ سے زیادہ اٹھا رکھنا اس کے لیے ممکن ہی نہ رہا۔”

بستی آدم واہن کے قبرستان سے ریلوے ٹریک گزرنے کے سانحے کو ایک سال ہو چکا ہے اور پیر زندہ کرامت کا میلہ بھی لگنے والا ہے۔ میلے کے پہلے روز اجودھن سے چالیس سبز چغے والے درویش بستی کے قبرستان میں ( بہ حوالہ صفحہ نمبر 180, ہر سال کی طرح، حالاں کہ اس سے پیشتر پورے ناول میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے) پہنچتے ہیں اور سات شہیدوں کی قبریں وہاں نہ پا کر خوب روتے پیٹتے ہیں۔ اس موقع پر قاری بھی رونے پیٹنے لگتا ہے کہ بھائی صاحب! کون سے درویش اور کون سی شہیدوں کی قبریں۔ رنج و الم کے ان گمبھیر لمحوں میں قاری کو اچانک ایک زوردار جھٹکا لگتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ صفحہ نمبر 120 میں جن قبروں کی کھدائی کے دوران پورے علاقے میں خوشبو پھیل گئی تھی ہو نہ ہو وہ قبریں انہی اچانک شہیدوں کی تھیں۔ اس سے ایک نیا مخمصہ جنم لیتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو مصنف نے اس وقت یہ بتانا کیوں نہ پسند فرمایا اور اب یہ راز افشا کرکے کون سے فیوض و برکات سمیٹنا چاہ رہا ہے۔ سوچتے سوچتے قاری کا سر چکرانے لگتا ہے لہذا وہ اپنی صحت کو صحتِ بیان پر فوری ترجیح دیتے ہوئے واقعات کو من و عن تسلیم کر لیتا ہے اور یہ سوچ کر آگے بڑھ جاتا ہے کہ اگر اس کی کوئی وجہ ہوگی تو مصنف خود ہی بتا دے گا۔ مصنف اسے قطعی مایوس نہیں کرتا اور جلد ہی اس پر منکشف کرتا ہے کہ دراصل شہیدوں کی قبریں، ان کا غیاب، چالیس درویشوں کی یک دم آمد اور قبروں سے ان کی اچانک عقیدت مندی، علاقے سے مولوی جار اللہ کی بالادستی ختم کرنے کا ” فکشنی” بہانہ ہے۔ اس رازِ سربستہ کو جانتے ہی قاری فوری طور پر شکرانے کے نوافل ادا کرکے مصنف کی مزید ترقی کے لیے دعا کرتا ہے۔

بہر کیف، درویشوں کی آہ و فغاں سن کر آس پاس کی بستیوں سے بھی سینکڑوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں، بستی کے ہم مسلک لوگ تو پہلے ہی درویشوں کے ساتھ پرانے قبرستان میں موجود ہوتے ہیں۔ درویش بستی والوں کو کوستے ہیں کہ جن شہدا نے تمھیں ستلج کے عذاب سے بچانے کے لیے یہاں دفن ہونے کی وصیت ( بہ حوالہ صفحہ نمبر 181) کی تھی؛ تم ان کی قبروں کی حفاظت بھی نہ کرسکے۔ اس مقام پر قاری اپنی یادداشت پر پورا زور دیتا ہے لیکن اسے گزشتہ صفحات میں ایسی کسی وصیت کا زکر نہیں ملتا۔ تاہم اس مرتبہ وہ پریشان ہونے کی بجائے اسے درویشوں کی کرامت سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

سبز چوغوں والے درویشوں کی آہ و بکا سن کر پرانے قبرستان میں جمع لوگوں کا غم اب شدید غصے میں ڈھل چکا ہے۔ اسی دوران کوئی خبر اڑاتا ہے کہ شہیدوں کی قبروں کو مسمار کروانے میں مولوی جار اللہ کا ہاتھ ہے اور وہ پیر زندہ کرامت کے میلے کو بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ سنتے ہی غصے سے بپھرا مجمع اینٹوں اور پتھروں سے لیس ہو کر جار اللہ کے گھر کا رخ کرتا ہے۔ اس کے گھر کے راستے میں ( بہ حوالہ صفحہ نمبر 182) مائی نوانی کا تندور بھی آتا ہے۔ حالاں کہ پورے ناول میں اس سے پیشتر اس تندور کا کہیں تذکرہ نہیں ہے لیکن قاری چوں کہ مصنف کے تخلیقی تخیل کا قائل ہو چکا ہے لہذا وہ جانتا ہے کہ یہ تندور محض اس دوراندیشی کے تحت فوری بنایا گیا ہے کہ بپھرے ہوئے ہجوم کو مولوی صاحب کا گھر جلانے کے لیے بر وقت آگ فراہم کی جا سکے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے تندور تازہ کرنے کی غرض سے اس میں ڈالی گئی لکڑیاں لوگوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں جو پہلے مولوی کے گھر پر خشت باری کرتے ہیں اور پھر اسے نذرِ آتش کر دیتے ہیں۔ جار اللہ اپنے شاگردوں سمیت اس آگ میں جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔

اس دوران منگر اپنی جان پر کھیل کر سنگری کو وہاں سے نکال لاتا ہے۔ دیگر ملانیاں گھر کے پچھواڑے بنی ہوئی کچی دیوار توڑ کر ( بہ حوالہ صفحہ نمبر 184 ) وہاں سے نکلتی ہیں۔ اس مقام پر قاری مصنف کی انسان دوستی کو سلام پیش کرتا ہے جس نے محض ملانیوں کی جان بچانے کے لیے مولوی جار اللہ کے گھر کے پچھواڑے فوری کچی دیوار تعمیر کروائی حالاں کہ اس سے پیشتر پورے ناول میں اس دیوار کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔

اتنا فساد برپا کر کے بھی لوگوں کا اشتعال کسی طرح کم نہیں ہوتا۔ اچانک ( اس ناول کے بیشتر واقعات اچانک ہی رونما ہوتے ہیں) ایک شخص چیخ چیخ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور بہ دقت موقع ملنے پر انھیں شہیدوں کی جائے تدفین سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن لوگ بروقت یہ اطلاع نہ دینے کے جرم میں اسے بھی قتل کر دیتے ہیں۔ پولیس کے پہچنے پر مجمع منتشر ہو جاتا ہے۔ ان تمام واقعات کو پڑھ کر قاری بار بار ناول کے گزشتہ صفحات پڑھتا ہے لیکن اسے ان سبز چوغوں والے چالیس درویشوں کا کوئی کُھرا نہیں ملتا اور نہ ہی بستی والوں یا آس پاس کے علاقوں کے لوگوں کی ان اچانک دریافت شدہ شہدا سے عقیدت کا کوئی سراغ ملتا ہے۔

اس دوران داروغہ تفتیش کا آغاز کرتا ہے اور سنگری کو وہاں نہ پا کر بےچین ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی قاری کو اچانک پتہ چلتا ہے کہ

‘ یہ بھی موصوف ہیں سنگری کے طلب گاروں میں ‘

داروغہ کو منگر پر شبہ ہے۔ وہ اس کے پیچھا کرتے کرتے قبرستان میں موجود مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ جاتا ہے جو اسے بے دردی سے قتل کر دیتا ہے۔ ان واقعات کو پڑھتے ہوئے قاری استغفار بھی پڑھتا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کی یادداشت کے مطابق، پرانے قبرستان میں قبروں کی کھدائی کے وقت؛ شہدا سے اچانک منسوب ان قبور کا تو کوئی وارث ہی نہیں مل رہا تھا۔ تو پھر یہ غیض و غضب سے بپھرے ہوئے عقیدت مندانِ قبورِ شہدا اچانک کہاں سے امپورٹ کیے گئے ہیں:

” ٹریک کے راستے میں چھ کچی قبریں اور ایک نیم پختہ تعویز والی قدرے بڑی قبر ابھی تک موجود تھی۔ سرسری معلومات کی رو سے بستی کا کوئی بھی زندہ شخص ان قبروں سے اپنا نسب جوڑنے کے لیے تیار نہ تھا اور نہ ہی ان قبروں کو ہٹائے بغیر ریلوے ٹریک کی تعمیر ڈیزائن کے مطابق ممکن تھی۔” ( صفحہ نمبر 119)

مزید برآں، قبروں کے غیاب کا واقعہ ایک سال پرانا ہے۔ بہ وقتِ غیابِ قبورِ شہدا تو بستی والوں نے، جن میں درویشوں کے ہم مسلک بھی شامل تھے، چُوں تک نہیں کی بل کہ پورا سال ستو پی کر سوئے رہے اور اب محض مصنف کے حکم پر غم کا دمامہ بجا رہے ہیں اور اس واقعہ کے رنج میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس وقوعے سے پیشتر پورے ناول میں شہدا یا ان کی قبور سے بستی والوں یا آس پاس کی آبادیوں کے لوگوں کی عقیدت کا زکر تک نہیں ہے اور نہ ہی کہیں سبز چوغے والے ان چالیس امپورٹڈ درویشوں کا کہیں تذکرہ ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ واقعات اپنے دائرہء احوال میں یکسر ناقابلِ اعتبار ہیں۔

اِدھر برٹش سیکورٹی فورسز بھی فسادیوں کی سرکوبی کے لیے نکل پڑی ہیں۔ برنٹن طاقت کے استعمال کے حق میں نہیں۔ وہ اس بابت اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ستلج کے جنوبی کنارے چلا جاتا ہے جہاں وہ اسی پکھی واس لڑکی کو اپنی گود میں بچہ اٹھائے دیکھتا ہے جسے جونئیر افسران نے جنسی تشدد کا۔نشانہ بنایا تھا۔ اس کا بیٹا ولیم اور جم اسے وہاں دیکھ لیتے ہیں۔

اُدھر مشتعل ہجوم ستلج کی طرف بڑھتا ہے تا کہ شہیدوں کی قبریں تلاش کی جا سکیں۔ جلد ہی برٹش سیکورٹی فورسز اسے گھیر لیتی ہیں۔ اچانک ۔۔۔۔ جی بالکل اچانک قاری کو پتہ چلتا ہے کہ ان میں پچاس مسلح اجنبی شخص بھی موجود ہیں جنہیں وہاں موجود حضرات میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ یہی افراد فسادات کا باعث بنتے ہیں اور باقی لوگ فقط کمپنی کی مشہوری کے لیے ان کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ یہ مسلح افراد انگریز فوج پر حملہ کرکے کئی فوجیوں اور گھوڑوں کو زخمی کر کے چور راستے سے فرار ہو جاتے ہیں:

” ہجوم کے وسط میں سے پچاس کے قریب ایسے اجنبی لوگوں نے سرکاری فورسز پر حملہ کر دیا جو پہلے ہی تلواروں اور تلوار نما برچھیوں سے مسلح تھے۔ اگرچہ سرکاری فورسز کے واسطے مشتعل ہجوم کی طرف سے یہ ردعمل غیر متوقع نہیں تھا مگر اتنا بھی متوقع نہیں تھا۔ اس جہاں بہت سے گھوڑے گھائل ہوئے وہاں کچھ سپاہیوں کو بھی زخم لگے۔ ایسے میں سرکاری فورسز کے لیے طاقت کا فوری استعمال نہ صرف منطقی تھا بلکہ ضروری ہو کر رہ گیا۔ لیکن جونہی سپاہیوں نے ان مسلح حملہ آوروں کو نشانے پر لیا وہ سب کے سب یوں سوچے سمجھے طریقے سے دریا کا کنارہ چھوڑ کر چور راستے سے بھاگے کہ جیسے وہ پہلے سے کسی منصوبے کا حصہ رہے ہوں۔” ( صفحہ نمبر 219)

اس مقام پر قاری، مصنف کے تخیل اور نکتہ آرائی پر کامل ایمان رکھنے کے باوجود پریشان ہو جاتا ہے۔ اول تو اسے ان پچاس اجنبی افراد کی اچانک آمد کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں اور کہاں سے درآمد کیے گئے ہیں، نیز ان کی آمد اور کارکردگی کا کہانی کے مرکزی مضمون یا اس کی پیش رفت سے کیا ربط ہے۔ دوم، ان افراد کا یوں ایک سپر پاور کی ٹرینڈ اور پروفیشنل فوج کے کئی سپاہیوں کو زخمی کر کے بغیر کسی نقصان کے یوں فرار ہو جانا ہضم نہیں ہوتا۔ سوم، ستلج کے کنارے ایسا کون سا چور راستہ تھا جس کا زکر کرنا بھی ناول نگار نے مناسب نہیں سمجھا۔ چہارم، یہ پچاس پا پیادہ افراد ایک ٹرینڈ آرمی کے تین گھڑ سوار مسلح دستوں سے کیسے بچ کر نکل گئے۔ پنجم، اگر فوج نے ان افراد کو نشانے پر لے لیا تھا تو کون سی دیوارِ چین ان کے درمیان حائل ہو گئی تھی جو وہ بچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ابھی قاری ان پریشان کن سوالوں پر غور کرنا شروع ہی کرتا ہے کہ غیب سے آواز آتی ہے:

” اے نادان قاری! سیدا بھی تو تنہا پورے فوجی دستے کے گھیرے کو توڑ کر نکل گیا تھا۔ وہ واقعہ محض تمھارا مائنڈ بنانے کے لیے تھا کہ اس ناول میں کہیں بھی، کبھی بھی، کچھ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی اچانک لیکن افسوس کہ تم نے اس سے کوئی سبق نہ سیکھا اور ابھی تک گھٹیا گھٹیا اعتراض کر رہے ہو”۔

یہ سن کر قاری کو اپنی کوتاہ اندیشی پر سخت غصہ آتا ہے اور وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے۔

انگریز فوج ہجوم پر حملہ اور ہوتی ہے جس میں ستر افراد مارے جاتے ہیں۔ زندہ بچ جانے والے زخمی درویش واپسی پر ستلج کو خشکی کی بدعا دے کر جاتے ہیں۔ یہ مردانِ صفا کیش، انگریز کو بدعا نہیں دیتے جو شہیدوں کی قبروں کی بے حرمتی اور ستر افراد کے قتل کا زمہ دار ہے۔ سچ ہے کہ عفو و درگزر ہی درویش کی شان ہے۔

جان برنٹن کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس پر پروفیشنل مس کنڈکٹ، بحرانی حالات میں ایک بد کردار خانہ بدوش لڑکی کے ساتھ وقت گزارنے، سرِ عام مخرب الاخلاق حرکات اور کردار کی کم زوری جیسے الزامات ہیں۔ اس کا بیٹا اس کے خلاف بہ طور گواہ پیش ہوتا ہے اور اس کی بیوی ایما پراسیکیوٹر کی حیثیت سے اس کارروائی میں شریک ہوتی ہے۔ الزامات ثابت ہونے پر اسے نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔ وہ سرکاری رہائش گاہ خالی کرکے اکاؤنٹس آفس پہنچتا ہے جہاں اسے اچانک ایما کا پیغام ملتا ہے کہ وہ اس سے مل کر جائے۔ وہ ایما کے گھر اسے ملنے جاتا ہے اور وہیں رات گزارتا ہے۔ رات بھر دونوں نشاط انگیز لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن صبح ہوتےہی ایما اچانک اس سے طلاق لے لیتی ہے:

” یہ کیا ہے؟…..جان نے کافی کا کپ ایک طرف رکھ کر کاغذات ہاتھ میں اٹھا لیے۔
کچھ خاص نہیں بس طلاق نامہ ہے ۔۔۔۔ نہ میں نے آپ کا کچھ دینا ہے نہ آپ نے میرا کچھ دینا ہے ۔۔ بس آج سے ہم میاں بیوی نہیں رہے۔ یہ سب کہتے ہوئے ایما کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔” ( صفحہ نمبر 314)

ٹھاہ کر کے ہونے والی شادی ٹھاہ کر کے ختم ہو جاتی ہے۔۔۔۔ اور اچانک۔ جان برنٹن ایما کے گھر سے اپنا سامان اٹھائے باہر آ جاتا ہے جہاں جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی پکھی واس لڑکی ایک بچہ گود میں اٹھائے کھڑی ہے۔ وہ بچہ برنٹن کو دے دیتی ہے جو اسے لے کر انگلینڈ جا رہا ہے۔

یہاں برنٹن کی کہانی ختم ہو جاتی ہے لیکن قاری کی بےچینی ختم نہیں ہوتی۔ اسے ایما کا برنٹن کے خلاف پراسیکیوٹر بننا، اچانک اس سے بدگمان ہو جانا، نوکری سے برخاست ہو کر انگلینڈ واپس جاتے ہوئے برنٹن کو اچانک ملنے کا کہنا، اس سے اچانک جماع کرنا اور پھر صبح اٹھتے ہی اچانک طلاق لے لینا ہضم نہیں ہوتا۔ وہ انواسی میڈیکل سٹور سے تفہیم کی ہاجمولا لینے جاتا ہے لیکن ہاجمولا کی شیلف پر جلی حروف میں آؤٹ آف اسٹاک لکھا دیکھ کر مایوس واپس لوٹتا ہے اور مصنف پر اندھے اعتماد کی پھکی سے کام چلانے کی کوشش کرتا ہے۔

ادھر، جار اللہ کا بیٹا بخشو اپنے چچا مولوی رکھے کو مات دے کر بستی کی سیادت سنبھال لیتا ہے۔ حالات بہتر ہوتے ہی سنگری بھی گھر لوٹ آتی ہے۔ مولوی بخشو اسے اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس کی ہر کوشش ناکام بنا دیتی ہے اور اپنے تحفظ کے لیے مولوی رکھے کو اپنی جانب ملتفت کرکے اس سے نکاح کر لیتی ہے۔ رکھا کسی اناڑی حکیم کا تیار کردہ شنگرف کا کچا کشتہ کھانے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ دورانِ تفتیش سنگری منگر کو اس کی موت کا زمہ دار ٹھہراتی ہے کہ اس نے سنکھیا کھلا کر میرے خاوند کو قتل کیا ہے۔ منگر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ٹرائل کورٹ اسے پھانسی کی سزا دیتی ہے تاہم عدالتِ اپیل اسے بری کر دیتی ہے۔

آخر میں بستی آدم واہن سیلابی پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ لوگ ریت کے ٹیلوں پر چڑھ کر اپنی جان بچاتے ہیں۔ ژالہ باری سے ان کی حالت اور بھی ناگفتہ بہ ہو جاتی ہے۔ ایک بزرگ کے یاد کرانے پر بستی والوں کو اچانک یاد آتا ہے کہ انھیں تیراکی بھی آتی ہے۔ بستی کے جوان تیر کر جاتے ہیں اور پتن پر بندھی ہوئی کشتیاں کھول کر لے آتے ہیں۔ خستہ حال بستی والوں کو باری باری کشتیوں میں بٹھا کر ملتان روڈ لایا جاتا ہے جہاں امدادی کیمپ لگایا گیا ہے۔ سنگری سیلابی پانی میں ڈوب کر مر جاتی ہے۔ منگر اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے تاہم دروازے کی نیچے آئی سنگری نہیں بچ پاتی۔وہ اس کے بیٹے امانت کو بچا لاتا ہے اور اسے مولوی بخشو کے حوالے کر دیتا ہے۔ لیکن بچشو کے اہل و عیال بچے کو قبول نہیں کرتے:

” لاؤ مجھے دو!۔۔۔۔ مان گیا یہ تمھارے خاندان کا خون نہیں ہے۔۔۔۔ اگر تھا بھی تو اب نہیں رہا”

یہ کہہ کر منگر، بچہ واپس لینے کے لیے اپنے بازو ( ناول میں بازو بڑھانے ہی کا تذکرہ ہے) آگے بڑھاتا ہے اور ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

انواسی” کی کہانی لکڑی کے کرداروں، بے ہودہ مکالموں اور اوٹ پٹانگ واقعات کی مدد سے دریائے ستلج پر ایمپریس برج کی تعمیر، بستی آدم واہن کے قدیمی قبرستان سے ریلوے ٹریک گزارنے کے خلاف کی گئی مقامی لوگوں کی مزاحمت، اس کا مابعد منظر نامہ، عقیدت، ضد، انا، مشرق اور مغرب کے تہذیبی و تمدنی افتراق، مذہبی منافرت، جبلتِ بقا سے جنمتے عورت کے طور طریقوں اور طاقت ور کے ہاتھوں کم زور کی پامالی کو بیان کرنے کی انتہائی بھونڈی کوشش ہے۔

ناول کی کہانی ایسی بیزارکن ہے کہ اگر شہرزاد ایسی سر دھڑ کے بغیر کہانی سے آغاز کرتی تو پہلی رات ہی قتل ہو جاتی۔ ناول پڑھتے ہوئے مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر یہ ہے کیا چیز؟ کم از کم یہ ادب تو ہرگز نہیں جو گنجینہء معارف ہے، فکر و نظر، بصیرت و بصارت، احساس کی نازک آفرینی اور جذبات کی شیرینی ہے، نیرنگیء آئینہء جہان اور سرچشمہء مسرت ہے۔ آرٹ تو کیا اس ناول پر تفریح کی سطح پر بھی کوئی معنی خیز بات نہیں ہو سکتی۔

ناول بے لوچ، غیر تخیلی، بے رس، جمالیات سے مکمل پاک، بے رنگ اور پیکر سازی سے محروم, ایک ایسی کڈھب منشیانہ زبان میں لکھا گیا ہے جو بیانِ یک شہرِ آرزو تو کیا حکایتِ من و تو سنانے سے بھی معذور ہے۔ یہ زبان حساب کتاب کے رجسٹروں میں نفع نقصان کا اندراج تو کر سکتی ہے ودیعتِ مژگانِ یار اور تماشائے سرود و گل کا بیان نہیں۔ بیانیے کے جواہر پارے ملاحظہ فرمائیں:

” پاخانے کا ذہن میں آتے ہی سنگری کی حاجت بھی پیٹ سے نکل کر سر چڑھ کر بولنے لگی” ( صفحہ نمبر 159)

” وہ ایک ساعت، وہ ایک پل جو اس کی آنکھوں میں ستلج کے متلاطم پتن کی طرف جاگا تھا، فہم و ادراک کی کئی منزلیں اچھالتا ہوا آگے چلا گیا۔” ( صفحہ نمبر 74)

” سیدے کی جانب سے مسلسل لگائی گئی اندھی ٹھوکروں کی وجہ سے اس کا بدن اندر و اندری اگر کٹا ہوا نہیں تھا تو پھٹا ہوا ضرور تھا۔ بے بسی کے اس عالم میں سنگری اگر خود نہیں رو رہی تھی تو اس کی آنکھیں ضرور پانی بہا رہی تھیں۔” ( صفحہ نمبر 89)

” سنگری کو ماں کی آنکھیں پھٹتی ہوئی پو کی روشنی میں بھی پھٹی پھٹی سی لگ رہی تھیں۔” ( صفحہ نمبر 114)

” بستی آدم واہن کے قبرستان سے ریلوے ٹریک گزرنے کا سانحہ گزرے سال گزرا تو پیر زندہ کرامت کا میلہ پھر سے آن پہنچا۔” ( صفحہ نمبر 177)

مختصر سے جملے میں تین بار گزرا پڑھ کر قاری پر کیا گزرا معاف کیجئے گا گزری ہوگی۔

” داروغہ چھوٹی ملانی کے دروازے پر پہنچا تو اس کا دل دھڑکنا چھوڑ کر ایک دم بیٹھ گیا۔” ( صفحہ نمبر 190)

” جوں ہی اس کا شکار اپنے سینئرز کی نگاہوں میں ڈس کریڈٹ ہوتا وہ فوری طور پر اس پر جھپٹتا اور پھر ہر لحاظ سے لہو لہان کرنے کے بعد باہر نکال پھینکتا نشانِ عبرت بنا کر ماتھے پر داغتے ہوئے جس پر اس کا تحریف شدہ نامہ اعمال درج ہوتا۔” ( صفحہ نمبر 316)

” منگر نے ہجوم کے درمیان کھڑے کھڑے آنکھیں بند کر لیں اور اپنی یادداشت کو دماغ ہی دماغ میں پیچھے کی طرف گھمانے لگا۔” ( صفحہ نمبر 202)

” منگر کا دل بھر آیا تو آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں۔ ( صفحہ نمبر 206)

” ایما نے حیرت اور افسوس سے بھری دونوں آنکھیں اس کے چہرے پر مرکوز کر دیں۔” ( صفحہ نمبر 307)

” جس طرح وہ ماں بیٹیاں اپنی طبع کے ہاتھوں اپنی آنکھوں بدلتے رہنے پر مجبور تھیں اسی طرح منگر بھی اپنے دل کے ہاتھوں یا شاید سنگری کے مسلسل انکار کے سبب ذہن میں چبھی پھانس کے کارن وہی کچھ کرنے پر مجبور تھا کہ جو اس سے چاہا جا رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 207)

” مولوی صاحب کے قتل کے بعد لوگوں کا ٹھنڈا ہو چکا جنون ایک بار پھر سر چڑھ کر بول رہا تھا اتنا کہ گھبرا کر نرغے کے اندر دوڑتے ہوئے گھوڑے کو نرغے سے نکالنے کے بجائے تلوار نما برچھیوں سے اس کی قونچیں کاٹ دی گئیں اور وہ زمین پر گر کر دوبارہ اٹھنے کے لیے تڑپنے لگا۔” ( صفحہ نمبر 212)

” چونکہ غسل کے بعد اس کے بدن پر سوائے تولیے کے اور کوئی لباس نہیں تھا لہذا جان لباس تبدیل کرنے کی بجائے لباس پہننے میں بھی معمول سے زیادہ وقت لے رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 290)

” اس قسم کے طومار باندھنے سے جب وہ اخلاقی اور اعصابی طور پر ادھ موا ہو جاتا تو اس کی رہی سہی زندگی کو جذباتی کچوکوں سے اس طرح پٹخنیاں دیتی ہے کہ ترکِ تعلق اور علیحدگی کی زمہ داری بھی اسی مرد پر آتی ہے عورت پر نہیں۔” ( صفحہ نمبر 309)

” مرد کی پوری کیمسٹری اس کے مزاج کے گرد گھومتی اور طواف کرتی ہے۔” ( صفحہ نمبر 393)

” زاروقطار روتی ہوئی سنگری کے ہاتھوں کا لمس ملا کے پاؤں اور پنڈلیوں میں اترا تو اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کی اثر انگیزی ضرب در ضرب ہوتی چلی گئی۔ وہ اسے اٹھنے اور جانے سے روک رہی تھی اور خود بھی اٹھنے کی کوشش میں نہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 270)

” اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سے مدھرے قد کا ملا رکھا اپنی توند کی بے راہ روی کے سبب عجیب سی ہئیت کذائی بن بیٹھا۔” ( صفحہ نمبر 267)

” سنگری نے لاکھ مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے چہرے سے زچگائی ک تاثر مٹائے نہیں مٹ رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 256)

” سنگری کی عدت گزرنے کا دورانیہ بستی کے واسطے بھی اجتماعی بیوگی کا تاثر لیے ہوئے تھا۔” ( صفحہ نمبر 236)

” یہ وہ لمحہ ہوتا جب ڈھلتی عمر کے انجینئر کو اپنے دل کی دھڑکن ان حدوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی جس کے بعد اس کے خون کے بہاؤ میں مادر ہارمونز اپنی اپنی سرمستیوں کو گھولنا شروع کرکے اس کے جسمانی تلذذ کو ان منزلوں کا شناور کر دیتے جہاں سے اپنی خبر کا آنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ جب کسی شب یہ مکاشفہ نہ ہو پاتا تو جان کا بدن اس کھلاڑی کی طرح ٹوٹنے لگتا جس کی رگوں میں یہ منتہی ہارمونز اپنی راہ بنانے کی حد تک نہ جا سکے ہوں۔ آج جان کے ادھ موئے جسم کو اسی غذائی قلت کا سامنا تھا۔ سر سے پاؤں تللک درد اور پچیڑ کچھ ایسا کہ جسم کے مسام مسام سے جان نکالی ہی نہیں کھینچ کھانچ کر نکالی جا رہی تھی۔” ( صفحہ نمبر 234, 235)

” امکانات تو یہ بھی تھے کہ یہ سبھی بد گمانیاں جو سنگری اور ملوکان کے سابقہ رویوں کے سبب اس کے ذہن میں دھرنا دے کر بیٹھ گئی ہوں۔” ( صفحہ نمبر 214)

” اس نے نگاہ بھر کر اس چھوٹی سی بچی کو دیکھا جو پیدا ہونے سے پہلے ہی اپنا باپ نطفے کے مغالطوں اور سماجی تعین کی تہذیبی بھول بھلیوں میں کھو چکی تھی۔” ( صفحہ نمبر 223)

” اسے بیک وقت کافی، تمباکو اور شراب کی طلب نے شدت سے گھیر لیا جن میں سب سے بالا طلب ایما کے قرب کی تھی۔” ( صفحہ نمبر 234)

” ایما کی طرف سے لذت آفرینی میں روا رکھی گئی جارحیت نے اسے اس قدر فزوں کار کیا کہ جان کو اپنے اپنے جسم کے ریشے ریشے سے انزال ہوتا ہوا محسوس ہوا۔” ( صفحہ نمبر 313)

” اس رویے نے بستی کے ہر گھر کی زنانی اور مردانی مخلوق کے بیچ نفرت اور لاتعلقی کی ایسی دیوار کھڑی کردی تھی جو سجھائی تو دیتی تھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔” ( صفحہ نمبر 322)

” اسے یقین تھا کہ وہ بے غیرتی کی حدوں کو چھوئے گا ضرور مگر پار نہیں کرے گا لیکن اس نے تو خلاف توقع پہلی ہی جست میں ان حدوں کو چھونے کے بجائے پار کرنے کی ٹھان لی۔ اس پر سوا وہ جسمانی تشدد جو جب جب سنگری پر حد سے گزرا تب تب اس کے مسام مسام میں گھسا جنون بھی آمادہء شورش ہوا۔” ( صفحہ نمبر 264)

” سیدے کے گھر میں چونکہ اسے رونے والا کوئی نہیں تھا اس لیے سوائے سنگری، سنگری کی ماں اور کچھ دور پار کے رشتے داروں کے اور کسی کو اس کی یاد کا آنا بھی کوئی کرنے والا کام نہیں رہا تھا۔” ( صفحہ نمبر 128)

” ایمپریس برج پر ریلوے انجن کی رفتار سے اس کا وابستہ جنون، ہذیان آفرینی کے دائرے سے بھی نکل چکا تھا۔” ( صفحہ نمبر 277)

” منگر نے پریشان ہو کر دور جاتی ہوئی سنگری کو دیکھا جو دو ساتھی لڑکیوں کی جوگنوں جیسی چال میں بھی اپنے چوتڑوں کے نرم گھماؤ کے سبب صاف پہچانی جا رہی تھی۔ منگر نے آنکھ بھر کر اسے دیکھا مگر فورا ہی گڑبڑا گیا۔ اسے یوں لگا کہ سنگری اپنی گردن گھمائے بغیر بھی اسے دیکھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔” ( صفحہ نمبر 75, 76)

” بستی آدم واہن کے آسمان پر تنے ہوئے تناؤ کو بیس دن گزر چکے تھے۔” ( صفحہ نمبر 49)

پورا ناول اس طرح کے مضحکہ خیز جملوں سے اٹا ہوا ہے۔ مصنف عام جملوں کو اقوالِ زریں بنانے کے چکر میں انھیں خام بنا دیتا ہے۔ سادہ حقائق بیان کرنے سے قاصر زبان پر پیچیدہ خیالات و کیفیات کے اظہار کا شوق فالج کی طرح گرتا ہے جو اس کی معمولی صلاحیت بھی سلب کر لیتا ہے۔

ناول میں نہ تو منفرد اسلوب کی کارفرمائی ہے نہ ہی ایجازِ بیان کی حسن آرائی۔ بے ہودہ تشبیہوں، بے سروپا تمثیلوں، پوچ استعاروں اور اٹکل پچو مکالموں کے طوفان نے اس ناول کو زبان و بیان کا شمشان بنا دیا ہے۔ ” انواسی” کے ہر صفحے پر صرف و نحو، قواعدِ انشاء، موضوع و منشا، فصاحت و بلاغت، آرٹ، تاریخی و سماجی شعور، مکالمہ سازی، جزئیات نگاری، زندگی کے المیہ احساس سے بنتے ٹوٹتے رشتوں کے بیان اور تمثیل و تشبیہ کی چتائیں جل رہی ہیں۔

” انواسی” کا ایک اور عیب اس کے بیانیے میں وحدتِ سخن کا نہ ہونا ہے۔ جس سے گمان ہوتا ہے کہ واقعہ دو راوی بیان کر رہے ہیں حالاں کہ راوی ایک ہی ہے۔ موصوف کہیں اردو میں بلا ضرورت پنجابی اور سرائیکی ملاتا ہے اور کہیں شُدھ اردو کی خاک اڑاتا ہے۔ صفحہ نمبر 72 کی یہ سطور ملاحظہ فرمائیں:

” لوگوں کی کوشش تھی کہ شام کا اندھیرا ہوتے ہی دریا عبور کر لیا جائے کہ بہتے پانی کی کیا خبر کب بپھر جائے۔ اس کے واسطے جہاں وہ اپنے زاتی شناسائی کو منت ترلے کی بنیاد بنا رہے تھے وہاں کشتی بان کو چوکھیرا کرایہ دینے پر بھی از خود آمادہ دکھائی دے رہے تھے۔ منگر حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگ اگر ویلے سرمیلے سے نکل آئیں تو نہ ملاحوں کے ترلے کرنے پڑیں اور نہ ہی وادھو کرایہ دینا پڑے۔”

” سیدے کا یہ مکان چونکہ ابھی گھر نہیں ہوا تھا اس لیے مولوی جار اللہ سے لے کر سیدے کے دور پار کے سوتر مساتوں تک کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئیں مگر ایسے میں سنگری کی ماں نے سمجھ داری کی اور ایک روز اپنا جندرہ لگا کر سالہہ پر قبضے کو یقینی بنا لیا۔” ( صفحہ نمبر 129)

” جان کے ذہن میں گڑدھال برپا کرتے تفکرات نے جہاں اس کی یادداشت پر چکڑ مٹی کا پوچا پھیر رکھا تھا وہیں اس کی فہم سے جڑی سبھی حسیات کو اس طرح رگیدا ہوا تھا کہ سمجھ میں آنے والے اشارے بھی ناسمجھی کی نذر ہو رہے تھے۔” ( صفحہ نمبر 146)

” دریا میں پانی تو تھا مگر مچھلیاں نہ رہیں اور عورتیں گھبن تو ہوتیں مگر حمل گر جاتا۔ وڈکوں نے بتایا کہ یہ سب ان کے گناہوں کے سبب ہے۔” ( صفحہ نمبر 50)

محض دو سطور کے بعد مصنف اردو ادب کو ایک ایسی مہتم بالشان ترکیبِ لفظی دان کرتا ہے جو ناول کے بیانیے کو خطرناک حد تک بلیغ بنا دیتی ہے۔ وہ لفظی ترکیب کیا ہے؟ درج زیل سطور میں تلاش کیجئے، دیکھئیے یہ گوہرِ شہوار کس کے ہاتھ لگتا ہے:

” کسی نے کہا سات کنواری لڑکیاں سات دن الف ننگی دریا میں نہائیں تو یہ ٹونہ بھی کرلیا مگر سب کچھ ویسے کا ویسے۔ الٹا کئی حرامیوں کی بُنڈ کُٹائی جھونگے میں ہو گئی جو ان باکرہ دوشیزاؤں کو نہاتے ہوئے تاڑنے کے واسطے اِدھر اُدھر جھاڑیوں میں چھپ جایا کرتے تھے۔” ( صفحہ نمبر 50)

محولہ بالا اقتباسات میں پنجابی اور سرائیکی کے الفاظ ورتنے والا راوی، اپنی تھاں وقتی طور پر ایک ” اردو دان” راوی تعینات کر کے عارضی رخصت پر چلا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ دونوں راویانِ مختلف بیان لسانی تجربے کی آڑ میں پورے ناول میں آنا جانا لگائے رکھتے ہیں اور ان کی اس لُکن میٹی سے قاری کی سِٹّی گم ہو جاتی ہے۔ تاہم مصنف نے موخر الذکر زبان میں بھی وہی غلطیاں دہرا کر جن سے وہ اول الذکر زبان کا ” حسن” بڑھاتا ہے، اردو ادب میں عدل و انصاف اور مساوات کے نئے اصول متعارف کرائے ہیں۔ مندرجہ زیل سطور میں سرائیکی یا پنجابی کا کوئی اظہاریہ موجود نہیں:

” ایما کے پاس شاید کہنے کو الفاظ کم تھے یا اس کی اظہار جان برنٹن کے روبرو کم مائیگی کا شکار ہو جاتی، بہرحال جو بھی تھا اس کے سبب جان برنٹن اپنے آپ کو سہولت میں محسوس نہیں کر پاتا تھا ( سہولت میں محسوس کرنے کا جواب نہیں)۔ شروع شروع میں وہ اکثر ایما کی موجودگی کو اپنے کام میں مخل ہونا خیال کرتا۔ مگر دو تین مہینوں کے بعد اس طرح کایا کلپ ہوئی کہ ایما کی موجودگی اس کی تخلیقی فکر کو شیواز سے زیادہ مہمیز رکھتی۔ کچھ عرصہ بعد تو ایما کی خاموش موجودگی نے کچھ ایسا جادو جگایا کہ اس کا ہفتہ بھر نہ ہونا جان برنٹن کی قوتِ متخیلہ کو معکوس اعتبار سے ( معکوس اعتبار سے کا بھی جواب نہیں) متاثر کرنے لگا۔ ” ( صفحہ نمبر 80)

یہ بھی دیکھیے:

” یہ بوسہ طلب، تفہیم اور طلاطم کے مراحل سے گزرتا ہوا باہمی تشفی اور تسکین پر منتج ہوا۔” ( صفحہ نمبر 81)

” لیکن آج کی اس اعصاب شکن کیفیت میں ایما کے لبوں کی محض اس کے لبوں تک رسائی اسے ان تمامی عذابوں سے نجات دلا چکی تھی جن میں وہ گرفتہ چلا آ رہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ اپنے منصب، اپنی حیثیت، اپنی پروقار سنجیدگی اور پیشہ ورانہ انا کو خاطر میں لائے بغیر ایما کو آواز دے کر واپس بلالے اور اپنے ساتھ کچھ وقت اور گزارنے کو کہے۔ پہلی بار اسے کسی عورت کی صحبت کی طلب اپنی پسندیدہ شراب شیواز اور کیوبن سگار سے کہیں سوا ہو رہی تھی۔” ( صفحہ نمبر 83)

ماحول، کہانی اور کردار کے پس منظر میں اردو کے ساتھ پنجابی اور سرائیکی الفاظ کا استعمال قطعاً قابلِ اعتراض عمل نہیں ہے لیکن بیانیے میں اسلوب کی وحدت نہ ہونا، مصنف کے فکشن کے تقاضوں سے لاعلم ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ ” انواسی” کا راوی ایک ایسا ریڈیو ہے جو بہاول پور اسٹیشن سے جاری پروگرام کے دوران اچانک لکھنؤ ریڈیو سے بھی نشریاتی رابطہ قائم کر لیتا ہے۔ یا پھر واقعہ بیان کرتے ہوئے راوی سر پر چوٹ لگنے کے سبب عارضی طور پر اپنی یادداشت کھو بیٹھتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ وہ اس سے پیشتر کس زبان میں مخاطب تھا۔ اس دوران اس کی یادداشت آتی جاتی رہتی ہے سو اسلوب بھی بدلتا رہتا ہے لیکن مصنف فقط راوی کی عزت کی خاطر اس حادثے کو صیغہء راز میں رکھتا ہے۔

ناول یا کردار کی جغرافیائی و ثقافتی ضرورت کے بغیر بیانیے میں مقامی زبان کے الفاظ کا استعمال تحریر کو پامال کر دیتا ہے۔ نو آموز ادیب، اردو میں اپنے احساس و خیال کی ترجمانی کے لیے مناسب الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے مقامی زبان کے الفاظ اس میں منڈھ کر لسانی تجربے کا سوانگ رچاتے ہیں۔ اور اپنی نااہلی کو ماننے کی بجائے اس کے فضائل بیان کرتے ہیں. زبان کی ترقی و ترویج کے لیے لسانی تجربہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے زبان کی روایت کا ادراک ہو۔ بھائی ون ویلنگ بھی کر لینا پہلے دو پہیوں پر موٹر سائیکل چلانا تو سیکھ لو۔ اصل میں زبان کی روایت کا شعور نہ ہونے کا کامل شعور ۔۔۔۔۔۔۔ آپ سے ایسی آؤٹ پٹانگ حرکتیں کرواتا ہے۔

زبان کا لہجہ، آہنگ اور اسلوب اپنے آپ نہیں بدلتا بل کہ تخلیق کار کے تجربات و احساسات، ایک نئی سطح اور نئے زاویے سے کسی جدید لفظ کو متشکل کرتے ہیں، کسی تازہ اصطلاح میں منتقل ہوتے ہیں، نئے اظہارئیے بُنتے ہیں ۔ اظہار کی یہ نئی اشکال، زبان کے اسالیب، لہجے اور آہنگ کے ارتقا کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بڑے جوکھم کا کام ہے جس کے لیے لکھاری کو بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ زبان کا تجربہ لسانی تخریب کاری نہیں ہوتا اور نہ ہی محض اصطلاحی تماشے بازی، اس کے سوتے تخلیق کار کی شخصیت، تجربے اور احساس کی پیش کش کے تازہ اظہاری سانچوں سے پھوٹتے ہیں۔ لسانی تجربہ، تخلیق کار کی مجموعی فکر اور نظام احساس سے الگ اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ لکھاری کے تجربات و احساسات کی لفظوں کے ساتھ تعلق کی نوعیت لسانی تجربے کی بنیاد بنتی ہے۔

ہر مبتذل، رکیک اور بازاری قسم کی تحریر کو تجربے کے نام پر قبول کرنا اور حوصلہ افزائی کے اعتذار پر سراہنا جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنے کے مترادف ہے، سو ہم دھڑلے سے کر رہے ہیں۔ لیکن حضور، لکھاری کا ذہنی افلاس محض چرب زبانی سے نہیں چھپایا جا سکتا۔

کسی بھی ناول میں کرداروں ہی کے زریعے واقعات کی تخلیق ہوتی ہے اور انہی کی بدولت قصہ ارتقائی منازل طے کرتا ہے۔ یہ جس قدر فطری ہوں گے کہانی اتنی ہی ارضی، مانوس اور سماجی زندگی سے ہم آہنگ ہوگی۔ کیریکٹر اور اس کے عمل میں فطری مطابقت ہی کردار کے طور طریقوں کو معنی خیز بنا کر اس کے نفسیاتی عمل و رد عمل کو واضح کرسکتی ہے۔ اور یہی تصنیفی وصف انھیں متحرک اور جان دار بناتا ہے۔ کردار اصل میں فنکار کے تخلیقی شعور کی مختلف کیفیتوں کا اعلانیہ ہوتے ہیں۔ بہ قول ای ایم فورسٹر:

” ناول کی ادبی اہمیت اس کی کردار نگاری پر منحصر ہے اور اگر کوئی ناول نگار کردار نگاری کی قوت نہیں رکھتا تو وہ صحیح معنوں میں ناول نگار کہلائے جانے کے لائق نہیں ہے۔ کردار کی زندگی عام زندگی نہیں ہوتی بلکہ ناول نگار کی قوت متخیلہ اس کو ایسی نئی زندگی بخش دیتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ پر کیف اور پر اثر ہوجاتی ہے۔“

ناول نگار اس میدان میں بری طرح پِٹا ہے۔ وہ پورے ناول میں ایک بھی ایسا کردار تخلیق نہیں کر سکا جو اپنی انفرادیت کے ساتھ زندہ اور متحرک ہو، جو کسی اخلاقی الجھن یا نفسیاتی کش مکش کا مرکز بنے، جو قاری کے ذہن پہ نقش ہو کر اسے حیات کے دکھ، سکھ، محرومی، زندگی کے بے معنی المیے یا کسی دیگر تجربے سے روشناس کرے۔ مصنف اپنے کرداروں کی ایسی ذہنی کہکشائیں تخلیق کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے جو بھرپور اور حقیقی ہوں۔

سیدے کا کردار انتہائی غیر حقیقی اور گھٹیا قسم کی لو کاسٹ پنجابی فلموں سے ماخوذ لگتا ہے۔ اسے بڑا جی دار اور اکھڑ بیان کیا گیا لیکن وہ ہر وقت خدشات کا شکار نظر آتا ہے، گھڑی گھڑی چونکتا ہے، موت کے تصور سے اسے ٹھنڈے پسینے آتے ہیں اور لاش ہونے کے احساس سے کانپنے لگتا ہے اور سوائے مجبور و لاچار سنگری کے بلات کار کے کوئی ” دلیری” نہیں دکھاتا۔ اسی طرح سنگری کا کردار بھی سر تا پا مصنوعی اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ اسے بہت مضبوط اور اکھڑ عورت بیان کیا گیا ہے لیکن قدم قدم پر اس کے طور طریقے اس دعوے سے متناقض نظر آتے ہیں۔

فکشنی حقیقتیوں میں ربطِ باہم ناگزیر ہوتا ہے۔ یعنی بیان کردہ شے اپنے دائرہِ احوال میں درست ہونی ضروری ہے۔ کسی وقوعہ میں واقعاتی تضاد، ربطِ باہم کی کمی اور اپنے دائرہِ احوال میں غلط ہونا ناول کی موت پر منتج ہوتا ہے۔ ” انواسی” میں جگہ جگہ ایسے مقامات آتے ہیں جہاں یہ اپنے بیان کردہ حقائق سے مربوط نظر نہیں آتا۔ واقعات کے اعتبار سے بھی اور کرداروں کے اوصاف کے بیان کے حوالے سے بھی، ناول میں بےشمار تضادات ہیں۔

مصنف نے بلاوجہ کی سنسنی پیدا کرنے کی کوشش میں کرداروں سے ان کی نفسیاتی گہرائی چھین لی ہے۔ ان کا اندرون، ان کے جذباتی ہیجان، محسوسات، نفسیاتی کش مکش اور انفرادی پندار کا بیان اتنا بچکانہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک فن کار انہیں اتنی بے ہودگی سے کیسے بیان کر سکتا ہے۔ کسی کردار میں گیرائی، گہرائی اور پہلوداری پیدا نہیں ہوتی اور وہ کسی سنجیدہ مطالعے کا موضوع نہیں بن پاتے۔ اور نہ ہی اپنے دور کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے آئینہ دار بن پاتے ہیں۔

سنگری کی شبیہ میں مصنف کوئی ایسا رنگ نہیں بھر سکا جس سے وہ جاگ اٹھتی اور اس کا جھلملاتا حسن قاری کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا۔ مصنف اس کے حسن و جمال کا محض اعلان کرتا رہتا ہے۔ سنگری ناول کے صفحات سے ابھر ہی نہیں پاتی۔ یہی عالم اس کے طور طریقوں کے بیان کا ہے۔ اس کا کردار نفسیاتی فکر انگیزی سے محروم ہے، سنگری زندگی کو کسی بھی پہلو سے سمجھانے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ یہی حال سیدے کے کردار کا ہے جس کے پاس غصے اور جسمانی طاقت کے سوا کچھ نہیں۔ سیدا آپ کو کسی بھی نفسیاتی تجربے سے گذارنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

ناول کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں مصنف نے حالات و واقعات کو اپنے کرداروں کی بجائے اپنی نظروں سے دیکھا ہے۔ ان مقامات پر مکالموں میں کردار کی بجائے مصنف بولتا محسوس ہوتا ہے۔ صفحہ نمبر 161 پر سنگری کا منگر سے یہ مکالمہ دیکھیے:

” لڑکیاں منت ترلوں سے آتی ہیں نہ شرط شرائط رکھنے سے۔۔۔ لڑکیوں کو فتح کرنا پڑتا ہے اس طرح کہ تاج مرد کے سر پر ہو اور تخت پر وہ بیٹھے۔۔۔ لڑکیاں پُوچھ ہلانے والے کتوں کے پیچھے نہیں جاتیں وہ تو جاتی ہیں ان کے پیچھے جو گردن میں دانت گاڑیں اور سارے بدن سے روح نکال لیں ۔۔۔ تمھیں تو چج سے چھوہر کا ہاتھ پکڑنا بھی نہیں آتا کہ اسے کلائی سے جکڑ کر پکڑا جاتا ہے یا اس کے ہاتھ کو اپنی پولی پولی انگلیوں سے کسی کینچوے کی طرح! یہ جو عورت زات ہے ناں یہ طاقت سے آتی ہے، طاقت سے رہتی ہے اور کمزوری بن کر طاقت پر راج کرتی ہے اس طرح کہ ہر طاقت ور، مزید طاقت کی خواہش میں دولت سے بھی پہلے عورت پر جھپٹتا ہے اور دولت کو اسی کے قدموں میں نچھاور کیے رہتا ہے۔۔۔ تم کیا جانو اصیل عورت کا سواد، جاؤ، اور جا کر کسی ہیجڑے کے سامنے منت ترلے کرو۔”

اس ناول کے سبھی کردار ایک ہی طریقے سے سوچتے ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ ان کی خوش گمانی بد گمانی میں اور حسنِ ظن سوئے ظن میں منقلب ہوتا ریتا ہے۔ سبھی کردار لحظہ لحظہ خدشات و امکانات کے رد اور قبولیت کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ مسلسل پینترے بدلتی رہتی ہے سنگری، سیدا، برنٹن، منگر، بخشو وغیرہ ایک ہی کردار کے مختلف نام ہیں۔ ان کے محسوسات، خدشات اور ذہنی الجھنوں کی یکسانیت بتاتی ہے کہ یہ سبھی ایک ہی ڈائی پر تیار کیے گئے ہیں۔ یہ یکسانیت ناول نگار کی انسانی محسوسات، نفسیاتی حرکیات اور فکر کے تنوع سے نابلد ہونے کی چغلی کھاتی ہے۔ صفحہِ نمبر 36 پر سیدے کے اندیشے اور ان کا فوری رفع ہونا، صفحہ نمبر 67 پر اس کا مولوی جار اللہ کے فتوے سے متعلق اندیشوں کا شکار ہونا اور اگلے ہی لمحے مطمئن ہو جانا، کچھ دیر بعد پھر بدظن ہونا اور لیکن چند ساعتوں بعد ہی حسنِ ظن کا مظاہرہ کرنا۔ صفحہ نمبر 147 تا 153 میں برنٹن کا بار بار ایما سے متعلق خدشات کا شکار ہونا اور ساتھ ہی انہیں رفع بھی کرتے جانا۔ اس کی زرا سی بے رخی سے سمجھنا کہ اس کے دن کمپنی میں گنے جا چکے لیکن چند لمحات بعد ہی ایما کو اپنی نجات دہندہ سمجھنے لگنا اور تھوڑی دیر بعد ہی اسے محسوس ہونا کہ ایما شاید اس کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیل رہی ہے لیکن یہ کیفیت بھی زیادہ دیر قائم نہ رہنا۔ اسی طرح صفحہ نمبر 205 تا 207 منگر کے سنگری سے متعلق بدلتے موقف اور صفحہ نمبر 260 تا 263 اس کی نفسیاتی قلابازیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سبھی ایک ہی ڈائی پر تیار کیے گئے ہیں۔ ہر کردار اپنے آپ سے سوالات کر کے مختلف خدشات کا اظہار کرتا رہتا ہے اور پھر زاتی تیار کردہ جوابات سے ان خدشات کو رفع بھی کرتا جاتا ہے۔ ان سب کے طور طریقے سراسر میکانکی ہیں جن کی بنیاد کسی مستحکم احساس اور مابعد الطبیعیات کے توافق پر استوار نہیں۔اس پر طرہ یہ کہ مصنف، ناول کے کرداروں کی نفسیاتی کشمکش کا بیان کچھ ایسے نایاب بھونڈے پن سے کرتا ہے کہ ان کی ذہنی الجھنیں، کسی نفسیاتی عارضے کی واضح علامات کے طور پر سامنے آتی ہیں۔

اول تو ناول نگار المیے کا کوئی احساس ہی پیدا نہیں کر سکا، اور اگر فقط بات کو آگے بڑھانے کے لیے اس رائے سے عارضی طور پر رجوع بھی کر لیا جائے تو ” انواسی” کے کردار اس المیہ شعور کو اپنے کندھوں پر اٹھانے سے یک سر معذور نظر آتے ہیں۔ اس صورت میں بھی ناموزونیت کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔ اس غیر متناسب اور بے جوڑ حالت کو موزوں بنانے کے چکر میں مصنف طرح طرح کے حیلے کرتا ہے لیکن صورتِ حال موزوں ہونے کی بجائے مزید مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔

انواسی” اپنے دور کی تہذیبی فضا بندی اور تمدنی جزئیات نگاری سے کاملاً تہی دامن ہے۔ کسی بھی دور کے رنگ اور آہنگ کے بیان کے لیے انتہائی تخلیقی زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہاں حالت یہ ہے کہ مصنف؛ لفظوں کے رنگوں سے ایک پورے عہد، تہذیب اور تمدن کی قوسِ قزح کیا بکھیرے گا اس کی زبان تو اپنا مدعا بیان کرنے پر بھی قادر نہیں۔ یہ تخیل کی حدت نہیں بل کہ بیگار کی شدت ہے کہ ناول کے تقریباً ہر صفحہ پر منشیانہ تدوین و تصنیف کی ناقابلِ تردید شہادتیں ملتی ہیں۔ جگہ جگہ لفظوں کے پہاڑوں اور بے رحم دہرائی سے مصنف نے قارئین کی جو حجامت بنائی ہے ملاحظہ فرمائیں:

” اس کے ساتھ ہی ملا بخشو کے کانوں میں بچاؤ بچاؤ کی آوازوں کا شور سیلاب کہ لہروں کی مانند بلند ہوتا چلا گیا۔ دیگر ماؤں کے چہروں کے ساتھ چپکا ہوا اس کی ماں کا چہرہ، بہنوں کے چہرے، بھائیوں کے چہرے، انھیں پیچھے دھکیلتے ہوئے بیوی اور بچوں کے چہرے اور ان سب کے عقب میں اچھل اچھل کر ابھرتا سنگری کا چہرہ، آپس میں گڈ مڈ ہوتے چہرے، ایک دوسرے کے اوپر مکھوٹوں کی مانند لگتے اترتے چہرے، پریشان چہرے، حیران چہرے، روتے چہرے، چیختے چلاتے چہرے اور آہیں بھرتے چہرے، چھوٹے چہرے، بڑے چہرے کبھی ظاہر اور کبھی معدوم ہوتے چہرے ملا کی آنکھوں میں دھرتال ڈال کر بیٹھ گئے تھے۔” ( صفحہ نمبر 335)

چہروں کے ” دھرتال” کا رنگا رنگ کاری کرم سماپت ہونے کے بعد مصنف سیدے کی سرگم پیش کرتا ہے:

” بہرحال منگر کو یقین ہو چلا تھا کہ اس کا گھوم پھر کر سیدے کے راستوں پر آنا ” سیدا” بننا نہیں تھا بلکہ سنگری تک پہنچنے کا بہانہ تھا اس کے باوجود کہ وہ اسے قدم قدم پر بری طرح مسترد کرتی چلی آ رہی تھی۔ جہاں تک خلق خدا کا تعلق تھا وہ بھی اسے سیدے والی حیثیتوں میں قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ ” سیدے” کہ جگہ لینے کے لیے بھی نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی طور پر ” سیدا” ہو نا ضروری تھا۔ اب بھلا منگر کو سیدے کا متبادل تسلیم کر لیا جانا ان لوگوں کے لیے عقلی طور پر ممکن نہیں تھا جنہوں نے سیدے کو دیکھ رکھا تھا۔” ( صفحہ نمبر 179)

محولہ بالا سطور میں سیدے کے بے دریغ استعمال سے سوال یہ سیدا معاف کیجئے گا پیدا ہوتا ہے کہ ضمائر کا استعمال اگر ان موقعوں پر نہیں کیا جانا تو اور کب کیا جانا ہے۔

صفحہ نمبر 178 پر سیدے، صفحہ نمبر 336 پر تیرنا، صفحہ نمبر 90 130, 160, 174, 175, 256,261 اور 263 پر سنگری، صفحہ نمبر 298, 299 اور 325 پر منگر، صفحہ نمبر 60 پر حیرت، صفحہ نمبر 85 پر کوٹھے، صفحہ نمبر 119 اور 181 پر قبروں، صفحہ نمبر 181 پر شہیدوں، صفحہ نمبر 233 پر ایما، صفحہ نمبر 261 پر تشدد اور صفحہ نمبر 271 پرحق کے اندھا دھند استعمال سے ناول نگار نے قارئین کے ذوق سخن کو پامال کر دیا ہے۔ اسی طرح صفحہ نمبر 122 پر خاص اور عام کی بے دریغ جُگل بندی سے قارئین کی انتہائی کامیاب جمالیاتی ناکہ بندی کی گئی ہے۔

” انواسی” ایک تاریخی ناول ہے جو 1872 تا 1875، بستی آدم واہن کے قبرستان سے ریلوے ٹریک گذرنے، اس کے خلاف مقامی لوگوں کی مزاحمت اور اس کا مابعد منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ تاریخی ناول لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ناول نگار، ماضی کو حال کے پس منظر میں بیان کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ وہ جس دور کی تاریخ کو اپنا موضوع بنائے اور جن مسائل کی ترجمانی کرے، اس میں اس کے اپنے عہد کے فکری اور جذباتی تقاضوں کی کارفرمائی بھی ہو۔ مصنف کا اپنا عہد اس سوال کا جواب دینے میں مدد کرے کہ اس نے کسی مخصوص دورکا انتخاب کیوں کیا۔ محولہ بالا جواز کے بغیر تاریخی ناول لکھنا کارِ لاحاصل ہے۔ بہ قول علی عباس حسینی:

” جہاں تاریخ خود مواد اگل رہی ہو وہاں اس پر ناول لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔”

اگر ان اصولوں کو درست مان لیا جائے تو مصنف نے ” انواسی” لکھ کر محض اپنا اور قارئین کا وقت ضائع کیا ہے۔

ناول کے آخری حصے میں سیلاب کی ہولناکی بیان کی گئی ہے۔ یہاں بھی ناول نگار کا تخیل نہایت بچکانہ اور اسفل سطح پر نظر آتا ہے۔ سیلاب کے عذاب کا ایک ایک منظر تخلیقی تخیل کی گرفت سے مطلقاً آزاد ہے۔ آفت کے بیان میں ناول نگار نے وہ آفت ڈھائی ہے کہ الامان الحفیظ۔ محض مصیبت کا بیان آرٹ نہیں ہے اصل کام اسے آرٹ کے حقائق میں بدلنا ہے۔ اور یہ فن کاری صرف اسی وقت پیدا ہوتی ہےجب مصنف کی زبان ثروت مند ہو اور وہ خود واقعے میں غیر موجود ہونے پر راضی ہو۔ لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ ہر جگہ نظر ہی مصنف آتا ہے۔ زبان ہو ، بیان ہو، خودکلامی ہو یا شخصی تاثرات؛ مصنف کی ذاتِ با برکات سے ملاقات لازمی ہے۔

ناول میں قانون سے متعلقہ واقعات کو بڑے نادر اناڑی پن سے بیان کیا گیا ہے جس نے مصنف کے قانونی شعور کو مشکوک بنا دیا ہے۔ مولوی رکھے کے قتل کے جھوٹے الزام میں منگر کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سنگری بہ طور چشم دید گواہ اس کے خلاف بیان دیتی ہے کہ اس نے سنکھیا کھلا کر مولوی رکھے کو قتل کیا ہے۔ یہ سن کر منگر اقبالِ جرم کر لیتا ہے۔ بل کہ اس سے بھی پیشتر داروغہ محض سنگری کا بیان لے کر اس مقدمے کو حل کر چکا ہے:

” سب کچھ صاف صاف بتا دیا عورت نے کہ مولوی صاحب کو کس نے قتل کیا ہے۔ ملا بخشو کا چہرہ ایسے اترا کہ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قتل کا یہ مقدمہ پہلی تفتیش میں اتنی جلدی حل ہو جائے گا کہ چشم دید گواہ کو بھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مولوی اللہ رکھا تھا نیک تھا کوئی نیک روح کہ اپنا مجرم قبر میں اترتے ہی اس طرح پکڑوایا کہ کسی بے گناہ کو لتر پولے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔” ( صفحہ نمبر 287)

ٹرائل کورٹ اس پھانسی کی سزا دیتی ہے جب کہ عدالتِ اپیل اسے بری کر دیتی ہے۔

خدا کی پناہ، برصغیر پاک و ہند میں جدید اور منضبط فوجداری قوانین متعارف کرانے والی گورا سرکار کا داروغہ نہ تو قبر کشائی کرواتا ہے اور نہ ہی پوسٹ مارٹم کے زریعے وجہء موت کا تعین کرتا ہے۔ اور یہ بات بھی نہیں کہ طبی تفتیش کا یہ طریقہ کار اس دور میں متعارف ہی نہیں ہوا تھا۔ یہ ناول 1872 تا 1875 کے واقعات بیان کرتا ہے جب کہ برطانوی ہندوستان میں ان سے ایک سو انہتر سال قبل 1693 میں سرجن بکلے، جیمز وہیلر نامی شخص کا پوسٹ مارٹم کر کے طبی تفتیش کے اس طریقے کا آغاز کر چکا ہے۔ نیز، اس دور میں پینل کوڈ، ضابطہء فوجداری اور قانونِ شہادت بھی نافذ العمل ہیں۔ برطانوی عہد کے داروغہ سے تو ہماری پنجاب پولیس زیادہ چوکس نظر آتی ہے۔

محض اقبالِ جرم کی بنیاد پر پھانسی کی سزا تھرڈ کلاس فلموں میں دی جاتی ہے۔ قانون صرف ملزم کے اعترافِ جرم پر اکتفا نہیں کرتا بل کہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ کیا دیگر شہادتیں ملزم کے بیان کی تصدیق کر رہی ہیں۔ لیکن ناول میں منگر کے اقبالِ جرم پر صفحات کے صفحات کالے کرنے والا مصنف، مقدمہ کی تفصیلات بیان کرنے کی بجائے منگر کی پھانسی اور بریت کا معاملہ نصف نصف سطر میں نمٹا دیتا ہے۔ اول تو یہ پورا واقعہ ناول میں کہیں فٹ ہی نہیں ہوتا اور نہ اس کے مرکزی خیال کو معنی خیز طریقے سے آگے بڑھاتا ہے۔ اسے صرف و محض خوامخواہ کی سنسنی اور ڈرامائی صورتِ حال پیدا کرنے کے لیے اس میں ٹھونسا گیا ہے۔ اگر یہ واقعہ اتنا ہی اہم تھا کہ اسے بیان نہ کرنے سے ناول کا لینٹر گرنے کا خدشہ تھا تو پھر اس کے بیان میں مطلوبہ سلیقہ مندی کیوں نہ برتی گئی اور اس کی تفصیلات کے زکر میں بخل سے کام کیوں لیا گیا۔

اسی طرح مولوی جار اللہ اور اس کے شاگردوں کے قتل اور گھر جلانے کی تفتیش کرنے والے داروغہ کے طور طریقے بھی قطعاً ناقابلِ اعتبار ہیں۔ موصوف موقع ملاحظہ کرتے ہوئے ان بنیادی قانونی ضروریات کا خیال بھی نہیں رکھتا جو تھانے کا منشی بھی جانتا ہے۔ موقع سے کسی بھی قسم کی شہادتیں اکٹھی کرنے کا تذکرہ نہیں ہے۔ انتہائی بیہمانہ طریقے سے مولوی اور اس کے شاگردوں کو قتل کرنے والوں کا سراغ لگانا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ بھائی صاحب! ایسی اندھیر نگری تو انگریز کے بنائے قانون سے مسلسل کھلواڑ کرتے ہندوستان اور پاکستان میں بھی نہیں ہے۔ شاید مصنف نے ستلج کے کنارے برٹش آرمی کے ہاتھوں درویشوں سمیت جو ستر افراد مروائے ہیں، قاتلینِ جار اللہ بھی انہی باغیوں میں شامل ہوں۔ قس علی ہذا۔

یہ ناول اپنے سوء تعمیر سے قاری کو تکلیف دہ حد تک بیزار کرتا ہے۔ اس کا ایک ایک جملہ،مکالمہ، منظر اور وقوعہ بتاتا ہے کہ مصنف کو ناول نگاری کی سوجھ بوجھ نہیں، زبان پر قدرت نہیں، فکشن کے بیانیے کا شعور نہیں، کردار نگاری کے تقاضوں کا ادراک نہیں، مکالمہ سازی کے فن کا علم نہیں اور جزئیات نگاری کے گُر سے واقفیت نہیں۔ فکشن کے فن کے بنیادی عناصر سے ایسی کامل بے خبری کے بغیر ” انواسی” جیسا ناول لکھا ہی نہیں جا سکتا۔

زبان، بیان، کہانی، پلاٹ، غنائیت، شعریت، معنویت، فضا بندی، نکتہ آفرینی، موضوع، تخیل؛ ہر محاذ پر اس ناول نے شکست کھائی ہے۔ ناول نگار ایک ایسی فوج کے ساتھ کارزارِ فن میں اترا ہے جس کا ایک ایک سپاہی، طبلِ جنگ بجتے ہی شہادت کے رتبے پر فائز ہوا ہے۔

کسی اہم فن پارے کی پہچان یہ ہے کہ اس کی تعمیر میں ایک بصیرت، ایک فکر اور ایک مابعدالطبیعیات مضمر ہو۔ یہی عناصر اس کی گہرائی کا تعین بھی کرتے ہیں۔ ناول میں یہ گہرائی اس کی علامتی اور اساطیری جہت سے پیدا ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ فن کار شعوری طور پر اس پہلو سے لاعلم ہو لیکن اگر وہ سچا فن کار ہے تو اس کے فن سے اس گہرائی کا صدور اپنے آپ ایسے ہی ہوگا جیسے سورج سے روشنی کا اجراء۔ کبھی احساس اور شعور کے توافق کے ساتھ، کبھی ان میں تصادم کی صورت میں۔ اس تہ داری کے بغیر ناول مقالے اور ناول نگار صحافی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس ناول کی خراب نثر، سطحی و پیش پا افتادہ موضوع، ادب شکن لفاظی، خام بغاوت اور تعقیدی اسلوب؛ آرٹ پیپر اور اعلا سرورق کے ڈبل شاپر میں بھی اپنی بد نمائی چھپانے میں ناکام رہا ہے۔

قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا خاصا کٹھن ہے کہ ناول کی کہانی زیادہ بے ہودہ ہے یا اس کا بیان کیوں کہ ایک کے حق میں فیصلہ دوسرے کے ساتھ صریحاً زیادتی ہوگی۔ خیال اور بیان کی ایسی یکساں سطحیت بہت کم تحریروں کے حصے میں آتی ہے۔ کم از کم اس اعتبار سے ” انواسی” ناقابلِ فراموش ناول ہے۔

خالد فتح محمد صاحب نے اسے ایک تاریخ ساز ناول کہا ہے۔ شاید ان کے ذہن میں تاریخ ساز کا تصور ایسا ہی ہے جیسا رنگ ساز یا گھڑی ساز کا ہوتا ہے۔ موصوف کی ” تخلیقی صلاحیت” تو پہلے ہی الم نشرح ہے؛ ایسی آراء سے “تنقیدی شعور” کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔

مسعود اشعر صاحب نے اسے نئی دنیا سے معنون کیا ہے جو ادب میں اپنی پہچان بنا رہی ہے۔ موصوف نے ایڈوانس ہی میں ایسے ہر شخص کو کندہء ناتراش قرار دے کر اس کی عقل پر پیشگی ماتم بھی کر لیا ہے جو ایسے ناولوں کی موجودگی میں اردو ادب کو زوال کا شکار سمجھتا ہے۔

مسعود اشعر صاحب کا تو خیر زکر ہی چھوڑئیے، وہ تو عرصہ دراز سے ایسے تبصروں کی بدولت، مسلسل اپنی عاقبت اور ہماری دنیا خراب کر رہے ہیں۔ افسوس تو افتخار عارف صاحب جیسے زی علم پر ہوتا ہے جو اپنے تبصروں میں مسعود اشعریاں دکھانے لگے ہیں۔ ” انواسی” کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس ناول نے مصنف کو اردو ادب کی تاریخ میں ایک بڑے نام کے طور پر نمایاں کیا ہے اور یہ کہ ” انواسی” ناول کے اس عہد میں ایک روشن باب کی طرح سامنے آیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

افتخار عارف صاحب ایسے تبصرے کرتے وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس دیگر تبصرہ نگاروں کی طرح لاعلمی کی سہولت بھی موجود نہیں ہے ( یہ عذر تو خیر مسعود اشعر صاحب کے پاس بھی نہیں) ۔ ارٹ، زبان و بیان اور دیگر فنی امور سے آگاہ شخص جب ایسی غیر ذمے دارانہ رائے دیتا ہے تو نہ صرف خراب ادب کی ترویج جیسے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے بل کہ اپنی ساکھ بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ گروہ بندی اور تعصب انسان کو کہاں لا کر پھنساتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...