فاٹا میں تعلیمی حالت زار،اندازوں سے بھی بدتر

1,025

دہشت گردی اور انتہاپسندی کی سوچ کو اگر شکست دی جاسکتی ہے تو وہ تعلیم کے ذریعے دی جاسکتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کو جتنی اہمیت دینے کی ضرورت تھی ہم نے اس کو اُتنا ہی نظر انداز کیا

تعلیم جہاں ملک کے معاشی مسائل کے سدِ باب کا ذریعہ ہے وہاں دہشت گردی جیسے لعنت سے چھٹکارے  کی ضامن بھی  ہے  تاہم پاکستان میں تعلیم کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ۔فوجی آمریتوں سے لے کر سیاسی حکومتوں تک ہر کسی نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں نچلی ترین ترجیح پر رکھا۔

  پاکستان کے قبائلی علاقے جوگزشتہ کئی دہائیوں سے بدترین  دہشت گردی کے زد میں ہیں اور  جس سےقبائلی عوام کا نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔دہشت گردی اور انتہاپسندی کی سوچ کو اگر شکست دی جاسکتی ہے تو وہ تعلیم کے ذریعے دی جاسکتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم کو جتنی اہمیت دینے کی ضرورت تھی ہم نے اس کو اُتنا ہی نظر انداز کیا۔ فاٹا  میں تعلیمی اصلاحات اور سرکاری سکولو ں پر اگر طائرانہ نظر  ڈالی جائے تو سکولو ں میں مسائل کا انبار نظر آتا ہے ۔ کہیں سکول کی بلڈنگ ہے تو اساتذہ اور عملہ غائب ہے اور کہیں  پر بلڈنگ اور اساتذہ دونوں غائب ہیں تو کہیں سکولوں میں بچوں کے بجائے جانور اور  پڑھائی کی جگہ  حجرے کی گپ شپ دکھائی دیتی ہے۔

فاٹا سیکرٹریٹ کی حالیہ کارکردگی رپورٹ کے مطابق فا ٹا کے سات  ایجنسیوں اور چھ نیم قبائلی علاقوں میں مجموعی طور پر پانچ ہزار994 سرکاری تعلیمی ادارے ریکارڈ میں درج ہیں جن میں اٹھارہ فی صد تعلیمی ادارے غیر فعال ہیں  جبکہ 53فی صد میں بجلی اور لیٹرین  جیسی بنیادی  سہولتیں میسر نہیں ۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ تین ہزار سے زیادہ تعلیمی اداروں میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں اور  2ہزار256 تعلیمی اداروں کی چاردیواری نہیں (حالانکہ فاٹا جیسے دہشت گردی سے متاثرہ علاقے میں سکولوں کی کسی قلعے کی طرح مضبوط چاردیواری بنیادی ضروریات سے بھی زیادہ ضروری ہے)۔ خیبرپختونخوا  حکومت کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی اور وفاقی حکومت کی جانب سے فاٹا کے لئے ترقی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود  آج بھی فاٹا  میں کالج پرنسپلز  سے لے کر  لائبریرین تک کی تقریبا3368 آسامیاں خالی ہیں۔

رپورٹ  کے مطابق قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں 6 لاکھ 71 ہزار طلباء زیرتعلیم ہیں  جن میں  صرف 7.8 فیصد طلبہ مڈل،3.1 فیصد ہائی جبکہ 2.2 فیصد ہائیرسیکنڈری سکولز تک پہنچ پاتے ہیں اور محض 1.3 فیصد طلباء گریجویشن تک پہنچتے ہیں جبکہ ڈراپ آوٹ کی تعداد تشویشناک حد تک زیادہ  ہے۔

اسی  طرح فاٹا میں خواتین کی شرح خواندگی بھی تشویشناک حد تک کم ہے جو رپورٹ میں صرف 3 فیصد بتائی گئی ہے تعلیم نسواں کے لحاظ سے مہمند ایجنسی 1.92 فیصد کی شرح کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے  جبکہ ایف آر بنوں محض صفر اعشاریہ 64فیصد  کے ساتھ سب سے کم ترین  سطح پر ہے ۔اسی طرح  اورکزئی ایجنسی میں 1.28 فیصد، ایف آر ڈیرہ آسماعیل خان 1.43، شمالی وزیرستان 1.47 اور  ایف آر لکی مروت میں خواتین کی تعلیمی شرح 1.54فیصد ریکارڈ کی گئی ہے  جو فروغ تعلیم میں حکومت کی دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔حکومت کی بے حسی کا انداز ہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ2009 میں فاٹاکیلئےیونیورسٹی کا اعلان کیا گیا تاہم سات سال بعد  ایک کالج میں یونیورسٹی  کے لئے ایک عارضی بلڈنگ  بنا دی گئی ہے۔

کارکردگی رپورٹ میں ایک قابل ذکر نقطے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں دی گئی ۔ فا ٹا میں ہزاروں کی تعداد میں یسےاساتذہ جو گزشتہ  کئی سالوں سے مسلسل تنخواہ تو لیتے ہیں لیکن ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ذرائع کے مطابق  کچھ اساتذہ تو پچھلے  پندرہ  ،  بیس سالوں سے  ڈیوٹی پر نہیں گئے۔ بہت سے اساتذہ  ایسے ہیں جو ملک کے دیگر شہروں سمیت  دوبئی میں اپنے کاروبار یا نوکریاں  کرتے ہیں  تاہم سرکار سے اپنی پوری تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ کچھ اسکولوں  کو مقامی  لوگ حجرے کے طورپر استعمال کرتے ہیں تو کچھ دوکانوں یا مال مویشی پالنے کی جگہ کے طور پر۔ ایف آر ٹانک سےتعلق رکھنےوالے صحافی عصمت شاہ گروکی کا کہنا ہے  کہ چیک اینڈ بیلنس کا موثرنظام نہ ہونے کے وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ سکولوں سے مسلسل غیرحاضر رہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا  کہ قبائلی علاقوں میں  تعلیم کو  اتنا نقصان  طالبان  نے نہیں دیا(حالانکہ طالبان تعلیم دشمن سمجھتے جاتے ہیں ) جتنا حکومت کے مجرمانہ رویے  نے تعلیم کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اگر چہ طالبان نے فاٹا میں  اور خاص کر مہمند ، باجوڑ ایجنسی میں بہت سے اسکولوں کو باردوی مواد سے اڑایا لیکن وزیرستان میں کبھی  بھی اسکولوں کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔

آپریشن ضرب عضب سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت کی رٹ بحال ہونے کے بعد  تعلیم پر   ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے گی تاکہ  فاٹا کی نوجوان نسل کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے  اور دہشت گردی کے طرف مائل ہونے سے بچایا جا سکے تاہم  گذشتہ دو سالوں سے فاٹا بھر میں حکومتی رٹ بحال  ہونے کے باوجود محکمہ ایجوکیشن، فاٹا سیکرٹریٹ، پولیٹیکل انتظامیہ کی کارکردگی  اور مرکزی حکومت کی  توجہ لمحہ فکریہ ہے۔

تمام حکمرانوں  نے اپنے دور حکومت میں فاٹا میں تعلیمی اور سیاسی اصلاحات کے وعدے کئے لیکن توجہ کسی نے نہیں دی۔ بجائے اس کے کہ فاٹا میں تعلیم پر خصوصی تو جہ دی جاتی  اور  فاٹا  میں انتہاپسندی کی سوچ  کو شکست دی جاتی تاکہ وہ لوگ جو کم علمی کی وجہ سے دہشت گرد بنتے ہیں اور دہشتگردوں کے کاز کو آگے  بڑھاتے ہیں ان کو تعلیم یافتہ کرکے دہشت گردی کے ناسور سے دور رکھا جاتا ۔

دوسری  جانب اگر دیکھا جا ئے تو تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہےاور سکولوں ، کالجوں  پر خرچ ہونے کی  بجائے ان رہزنوں کی جھولی میں چلاجاتاہے جن کو ہم ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں۔فاٹا میں تعلیمی شرح  میں اضافے کے لئے  حکومت کو چاہیے کہ ایک ایسا نظام بنا یا جائے جس سے اساتذہ  اور طلباء کی  حاضری چیک کی جا سکے ۔(جس طرح خیبر پختونخوا حکومت نے  سکولوں  میں اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانا کے لئے جو اقدامات کئے ہیں اور جو اساتذہ مسلسل اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہے ان کو برخاست کرکے  نئی بھرتیاں کی گئیں )

 جب تک ہم نظام تعلیم، سکولوں کی حالت زار اور اپنے نصاب میں تبدیلی نہیں کریں گے اور معیاری تعلیم کے لئے اقدامات نہیں کریں گے تب تک ہماری  تعلیمی اصلاحات کامیابی سے ہمکنار  نہیں ہوسکتیں ۔ا گر آج ہم تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کی تربیت یہ سوچ کرکریں کہ کل کویہی بچے اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک ہوں گے اور یہی بچے کابینہ اور پارلیمنٹ کے رکن ہوں گے اور مختلف وزارتوں کے قلم دان سنبھال کر اہم ملکی امور کافیصلہ کریں گے تو ہمارا ملک کرپشن ،رشوت ،بدامنی، فساد اور دہشت گردی جیسے مسائل سے نجات پاکر  ایک پرامن معاشرہ اور ترقی یافتہ ملک  بن سکتا ہے ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...