حیاتیات اور جینیات کے جدید مسائل اور فقہاء اسلامی

1,316

کرونا کے حوالے سے پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں اس کے علاج کے بارےمیں بہت سے خدشات پر بحث جاری ہے۔ اس وبا سے حفاظت کی ویکسین اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بعض حلقوں میں مزاحمت کا ذکر بھی رہتاہے۔ علما کی اکثریت ان احتیاطی تدابیر کے حق میں ہے۔ تاہم بہت بڑی تعداد میں لوگ اس کے فقہی اور شرعی احکام کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ عدم اطمینان افواہوں کی وجہ سے بھی ہے جن کی کوئی حقیقت نہیں لیکن زیادہ تر مذہبی احتیاط کا رویہ بھی ہے جوعلاج معالجے میں جدید ٹیکنالوجی اور ادویات کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔ ادویات میں استعمال ہونے والے مرکبات کے بارے میں شکوک سے لے کرانسانی اعضا کی پیوند کاری تک بہت سے مسائل ہیں جن پرعوام شرعی احکام معلوم کرنے کے لیے مفتیان کرام سےرجوع کرتے ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کی وجہ سے علم طب کے تحقیق اور تفتیش کے شعبے میں، ادویات کی تیاری اور علاج معالجے میں حیرت انگیزآسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ علاج کی ٹیکنالوجی اور خصوصاً جینیٹک انجینیرنگ تو محیرالعقول کارنامے سر انجام دے رہی ہےتاہم نئی دریافتوں اور تجربات نے بہت سے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ حیاتیات اور جینیات یعنی جینیٹک انجینیرنگ کے طبی مسائل کے بارے میں فقہا کے فتاویٰ بھی موجود ہیں اور مختلف کانفرنسوں کی قرار دادیں بھی دستیاب ہیں[1]۔

۱۹۹۳میں ’’جینیات کے میدان میں جدید تحقیقات کے اخلاقی مضمرات‘‘ کے عنوان سےجامعہ قطر میں ایک مذاکرےکی صدارت کرتے ہوئے جینیٹک انجینیرنگ کے ماہرین سے خطاب میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر عبداللہ جمعہ الکبیسی نےتوجہ دلائی کہ جدید تحقیقات اور اکتشافات میں بعض امور اسلامی عقائد اور اقدار کے منافی ہیں۔

’’علوم جینیات میں ترقی سےایک بہت بڑا سائنسی انقلاب آیا ہے۔ ایسا انقلاب جو جوہری انشقاق یعنی ایٹمی فیژن یا برقیات میں حیرت انگیز پیش رفت سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ جدید دریافتیں اور انسانی جین کے لیے ان کے مضمرات، خصوصاًجین کی ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقلی میں کامیابی اور جینیاتی طریق علاج کے امکانات نے بے شمار اخلاقی مضمرات کی نشان دہی کردی ہے۔ ان مضمرات سے ہماری موجودہ روایات اور اقدار میں دور رس تبدیلیاں آئیں گی۔ اگرچہ ان سائنسی اکتشافات سے استفادہ ہماری ضرورت ہے تاہم ہماری اسلامی اقدار،  عرب ثقافت، روایت اور رسم و رواج کا تقاضا ہے کہ ہم اتنی ہی توجہ اس بات کو بھی دیں کہ ان اکتشافات کا انتخاب کرتے وقت اسی نقطہ نظر سے ترجیحاتبھی طے کریں۔ ہم صرف اسے اختیار کریں جو ہمارے لیے مفید ہے اور جو چیز ہمارے اسلامی عقائد کے خلاف ہو اسے رد کردیں‘‘[2]۔

فقہاکے نزدیک نئے مسائل عموماً ’نوازل‘، ’حوادث‘،’جدید‘، اور ’نوادر‘ کے درجے میں آتے ہیں۔ طبی اخلاقیات کے حوالے سےگذشتہ فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہےکہ دور جدید میں فقہ اسلامی کو دو اہم بنیادی مسائل درپیش رہے ہیں۔ ایک طرف توفقہا کو حیاتیات، جینیات اور دیگر جدیدعلوم میں مطلوبہ معلومات اورمہارت حاصل نہیں تھی۔ دوسری طرف مفتیان کرام کے لیےطبی مسائل میں صریح نصوص یا نظائر کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے قیاس کی بنیاد پرحکم کا استنباط مشکل رہا۔ چنانچہ انفرادی رائے کافی نہیں بلکہ ماہرین سےمشاورت بھی لازمی ہے۔ ان تمام کو ششوں کے بعد بھی آرا میں اختلاف رہتا ہے۔ تاہم ان جدید علوم اور اکتشافات پر عدم اعتمادی کی بنا پر انتہائی احتیاط برتتے ہوئے فقہا ابتدا ممانعت اورعدم جواز سےہی کرتے ہیں۔ اصل میں دوسرے علوم کے ماہرین سے صحیح مشورے کے لیے صحیح سوال اور صحیح سوال کے لیے اس علم کی مبادیات سے مکمل واقفیت ضروری ہے۔ غلط یا نامکمل سوال سےمطلوبہ معلومات کی دستیابی یقینی نہیں ہوتی۔ ماہرین سے مشوروں میں ان ترجیحات کو اپنانے سے سوال کی علمی نوعیت بدلے جانے کا امکان ہے اور ماہرین کی رائےسے درست استفادہ بھی متاثر ہو تا ہے۔ محض احتیاط کی بنیاد پر صحیح اور مستندفتویٰ  ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔ اس ضمن میں حالیہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب مسلم اطبا نے اصول فقہ کا اور مفتی حضرات نے ان نئے علوم کا مطالعہ کیا۔

یہ مختصر مضمون نہ تو کروناکے شرعی احکام کے بارےمیں ہےکہ یہ ہمارامیدان نہیں اور نہ ہی ان جدید علوم پر بحث مقصود ہے کہ ان تمام مسائل کا احاطہ ممکن نہیں۔ ہم نے یہاں صرف تین یعنی انسانی اعضا کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگنز، مصنوعی تنفس یا آرٹیفیشل ریسپیریشن اور یوتھا نیسیا اور مصنوعی تولید یا آرٹیفیشل انسیمی نیشن یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا التلقیح الصناعی کے بارے میں گذشتہ فتاویٰ کاخلاصہ بیان کیا ہے اور وہ بھی اس سوال کے ساتھ کہ ان طبی معمولات کے جواز یا عدم جواز کے لیےفتاویٰ میں شرعی حکم کے استنباط کا طریقہ کیا ہے۔  آج کی گفتگو کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

1۔ روایتی طبی اخلاقیات

2۔ حیاتیاتی اخلاقیات

3۔ جینیات اور اخلاقیات

4۔ طبی اخلاقیات میں فقہی استنباط کے مسائل کا جائزہ

5۔ قانون اور اخلاقیات

ان مسائل پر فقہی مباحث[3] کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ تقلیدی فقہی تناظر جدید مسائل کو استثنائی اور اضطراری حیثیت دیتا ہے۔ اس تناظر میں نہ ان مسائل کی حیثیت اصولی ہےاور نہ ان کےحل کے لیے اصول فقہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ تا ہم فتاویٰ اور مختلف مجالس کی قراردادوں سے جو فقہ واقع یعنی عملی احکام ترتیب پائے ہیں،ان سے نہ تو فقہ کے مکمل اور جامع ہونے کی تائید ہوتی ہے نہ اصول استنباط کے حتمی ہونے کی۔

۱۔ روایتی طبی اخلاقیات

روایتی طبی ضابطہ اخلاق علم طب میں چوتھی صدی قبل مسیح کے حکیم بقراط ( م ۳۷۰ قبل مسیح) کے حلف کے نام سے معروف ہے۔ اس حلف میں مریض کی بھلائی، ضرر سے گریز، بلا امتیاز خدمت اورمریض کی خود مختاری کا احترام کے اصول شامل ہیں۔ ان میں سے ایک اصول مریض کی عزت نفس اور اس کی مذہبی اقدار اور عقائد کی پاسداری کا متقاضی تھا۔ یہ حلف بنیادی طورپر مذہبی تھا جس میں یونانی دیوتاؤں کے نام سے قسمیں اٹھائی جاتی تھیں۔ بعد میں اسے دوسرے مذاہب کی اخلاقیات میں ڈھالاجاتا رہا۔ طبی اخلاقیات کے ان ضابطوں کا تعلق زیادہ تر اطبا کے پیشہ ورانہ معاملات سے رہاہے۔ اور گاہےبگاہے اس میں طبیب کی غلطی اور لا پروائی کو جرم قرار دیتے ہوئے قانون سازی بھی ہوئی۔

مسلمان اطبا بھی طبی اخلاقیات کی پابندی پر زور دیتے ہیں۔ دسویں صدی کے حکیمابو بکر محمد بن زکریا الرازی(م ۹۲۵) کے مطابق جسمانی صحت اخلاقی صحت سے وابستہ ہے۔ انسانی جسم اور جان کا علم طبیعیات،حیاتیات اور معاشرت اور ثقافتی اقدار سےبنیادی تعلق ہے۔ علاج معالجے کے طریقے اور صحت کے تصورات فطرت کے قوانین، حیاتیات اور اخلاقیات کو نظر انداز نہیں کر سکتے[4]۔ بارہویں صدی میں لکھی ادب الطبیب میں اسحق بن علی الرحاوی[5]نےاطبا کے لیے اخلاقیات کےجو ضابطے تجویز کیے ان میں طبیب کے لیے لازم قرار دیاکہ وہ مریض کی جسمانی صحت کے ساتھ اس کی اخلاقی صحت کا بھی خیال رکھے۔ وہ ایسے طبیب کے لیے سزائیں بھی تجویز کرتے ہیں جو پیشے کی اخلاقیات سے غفلت برتے۔ ان کی رائے میں طب کو کاروبارنہیں سمجھناچاہیے [6]۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نےبھی طب اسلامی ” اسلامی روایت میں صحت اور علاج ” میں واضح کیا کہ اسلامی علمی روایت میں بدن کی صحت اور اخلاقی صحت باہم لازم و ملزوم ہیں۔ [7]

فقہی طبی اخلاقیات

انسانی اعضا کی پیوند کاری کے بارے میں فتاویٰ کے مختصر جائزہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ طبی فقہی مسائل میں بہت سی پیچیدگیاں سامنے آئیں اور مسئلہ محض آداب اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کا نہیں رہا۔ یوں فقہی طبی اخلاقیات الگ حیثیت سے فقہ اسلامی کا موضوع بنتا گیا۔

انسانی اعضا کی پیوند کاری: فقہی طبی استنباط کے مسائل

اعضا کی پیوند کاری کے بارے میں علما میں اختلاف کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا سیف اللہ خالد رحمانی[8]اور شیخ الشنقیطی[9]نے تو فقہا کو باقاعدہ دو گروہوں قائلین اور مانعین میں تقسیم کیا ہے۔  شیخ شنقیطی نے مانعین کے استنباط کے چار مصادر بتائے ہیں:

۱۔ نصوص۔ ان میں قرآنی آیات ( اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو (۲:۱۹۵)،شیطان اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے کا حکم دیتا ہے (۴: ۱۱۹)، خود کو قتل نہ کرو ( ۴:۲۹) اور بنی نوع انسان کو اللہ نے کرامت بخشی ( ۱۷: ۷۰)۔ احادیث نبوی سے حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایت کہ مدینہ میں ایک شخص نے مرض کی شدت میں اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور مر گیا۔ تو کاٹے ہوئے ہاتھ کو بخشش نہیں ملی۔

۲۔ عقلی دلائل کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں اس لیے اسے تصرف کا حق نہیں۔

۳۔ اصول قیاس: نبی ﷺنے لوگوں کے کرائم یعنی اموال کی حفاظت کا حکم دیا تو نفس یا جسم کی حفاظت تو اور بھی اہم ہے۔

۴۔ فقہی قواعد :ضرر اور ضرار سے ممانعت کا قاعدہ: اضطرار کی حالت میں بھی تکریم انسان کا اصول مردہ انسان کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں دیتا[10]۔

مولانا رحمانی کے نزدیک مانعین کے اہم دلائل یہ ہیں : انسان اپنے وجود کا مالک نہیں۔ جسم الله کی امانت ہے۔ انسانی جسم پاک ہے لیکن جو عضو جسم سے الگ ہو وہ نجس اور حرام ہے۔ کرامت انسانی کا اصول اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ زندہ یا مردہ انسانی جسم سے اعضا الگ کیے جائیں[11]۔ دو احادیث بھی نقل کی ہیں۔ ایک صحیح بخاری سے کہ رسول اللہ نے بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ اور دوسری یہ حدیث کہ مردہ کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔

شیخ الشنقیطی نے قائلین کےدلائل میں قرآنی آیات میں اضطرار کی حالت میں محرمات کے جواز (۲:۱۷۳،۶:۱۱۹)، تخفیف (۲:۱۸۵، ۴:۲۷)، انسانیت (۵:۳۲) اور عدم حرج (۵:۷، ۲۲: ۷۸) کے اصول اور قیاس کے لیے احادیث اور فقہ کےنظائر میں انسانی اعضا سے بعض بیماریوں کا علاج، دوا کے طور پر سونے کا استعمال، اور حاملہ میت کے پیٹ کی چیر پھاڑ سے بچے کو نکالنے کی اجازت کے نظائر شامل ہیں۔ اسی بنیاد پر فقہی قواعد (ضرر اور ضرار کی ممانعت، ضرورت میں ممنوعات کاجائز ہونا، مقاصد کا لحاظ) شامل ہیں۔ عقلی اور منطقی دلائل میں خرابی کا دور کرنا، تغیر زمان اورطب کی ترقی کے حوالے ہیں[12]۔ مولانا رحمانی کی نظر میں قائلین کے دلائل میں اہم اصول ضرورت کا فقہی قاعدہ ہے جس کے تحت ناجائز اشیا جائز ہو جاتی ہیں۔ اور مشقت کی حالت میں آسانی کی راہ اختیارکی جا سکتی ہے۔ یہ استثنا کی صورت ہے۔ قرآن کریم میں جان بچانے کے لیے حرام چیزوں کے کھانے کی اجازت ہے۔ اعضا کی پیوند کاری سے مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے اور اہم جسمانی منفعت کو بحال کیا جا سکتا ہے یہ طریق علاج توہین انسانیت نہیں۔ مزید برآں غیر مسلم کے اعضا بھی مسلمان کے جسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ عضو کا عطیہ کرنے والے کے لیے زندگی میں نقل اعضا کی اجازت دینا ضروری ہے۔ اعضا کی بینکنگ بھی درست ہے لیکن خرید و فروخت کے بارے میں فقہا میں اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک خرید و فروخت کی اجازت ہے۔ احناف کے نزدیک فروخت کی اجازت نہیں، صرف بدرجہ مجبوری خرید کر سکتے ہیں [13]۔

اس ضمن میں فقہا نے جن جزئیات اور تفصیلات کا ذکرکیا ہے ان سے جہاں قیاس کی تنگنائی اور افتراضی نوعیت کھل کر سامنے آتی ہے، وہاں قیاس پر قیاس کے اصول سے تخریج کی کمزوری بھی ظاہر ہوتی ہے۔

مولانا رحمانی اور شیخ الشنقیطی نےاعضا کی پیوند کاری کے جوازمیں فقہا کا جو استدلال پیش کیا ہے وہ قیاس پر قیاس کی واضح لیکن اخلاقی لحاظ سے تکلیف دہ مثال ہے۔ فقہا نے اعضا کی پیوند کاری کو مضطر کے لیے مردہ جانور اور انسان ہی نہیں بلکہ زندہ انسان کا بھی گوشت کھانے کی اجازت کا ذکر اوراس پر قیاس کی مثالیں دی ہیں۔ امام شافعی مضطر کو انسانی گوشت کھانےکی اجازت دیتے ہیں اور شوافع کی کتابوں میں اس بات پربھی بحث ہے کہ کیا انبیا کا گوشت کھانا جائز ہے[14]۔ ہم ان غیر ضروری جزئیات پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے لیکن چونکہ نقل اعضا کے جواز میں فقہا کی اس متفقہ رائےکو قیاس کی بنیاد بنایاگیا ہےاس لیے اس بات کی طرف توجہ دلاناضروری سمجھتے ہیں کہ قانونی جزئیات کی افتراضی بحثوں میں اخلاقی اقدارکیسے بے معنی ہوسکتی ہیں۔ فقہا نے زندہ انسان کا گوشت کھانا صرف اسی صورت میں جائز بتا یا ہےجب وہ انسان مباح الدم ہو۔ بعض فقہاکے نزدیک مضطر مباح الدم زندہ انسان کو قتل کرکے بھی اس کا گوشت کھا سکتا ہے۔ مباح الدم کی فہرست میں گیارہویں صدی کے شافعی امام الحرمین الجوینی کے نزدیک زانی محصن، حربی اور تارک الصلوة تیرہویں صدی کےشافعی فقیہ نووی کی رائے میں حربی اور مرتد اور چودھویں صدی کے حنبلی فقیہ عز الدین عبد السلام کے نزدیک زانی محصن اور قاطع الطریق شامل ہیں۔ امام جوینی کے نزدیک قصاص کے حکم کے بعد قاتل مباح الدم ہو جاتا ہے[15]۔ البتہ فقہا میں اس بات پر اختلاف ہے کہ مباح الدم کو سلطان کی اجازت سے قتل کیا جائے گا یا اس کی اجازت کے بغیر بھی مضطر کی جان بچانے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ جزئیات قیاس کے اس استدلال کو ثابت کرنے کے لیے ہیں کہ چونکہ اضطرار کی حالت میں انسان کا گوشت کھانے کی اجازت ہے اس لیے اضطرار کی حالت میں ایک انسان کا عضو دوسرے انسان کے جسم میں پیوند کرنا بھی جائز ہے۔

قیاس کی اس افتراضی بحث کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قواعد فقہیہ بجائے خود کافی نہیں سمجھے گئے۔ ان کو قیاس کی شکل دینا ضروری سمجھی گئی۔ اگرچہ انسانی جان کی حفاظت اورعلاج معالجہ قانون اور اخلاقیات کا بنیادی اصول ہے۔ لیکن پیوند کاری کے طریق کو محظورات متصور کرنے سے الضرور اتتبیحا لمحظورات کا فقہی قاعدہ بنیادی ضرورت کی بجائےاستثنائی اصول ٹھہرا۔ آگے چل کرہم ذکر کریں گے کہ ابو اسحق الشاطبی کے نزدیک انسانی جان کی حفاظت اسلامی قانون کا سب سے بنیادی مقصد ہے۔ اس لیے مقاصد شریعت بنیادی مقاصداور ضروریات کےاور استثنائی احکام حاجیات کے درجے میں آتے ہیں[16]۔

ان مسائل پر قائلین اور مانعین دونوں کےدلائل سے واضح ہوتا ہے کہ نصوص سے اعضا کی پیوند کاری کا جواز اور ممانعت قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں ہوتے۔ اضطرار کا فقہی قاعدہ اگرچہ نصوص سے لیا گیا ہے لیکن قواعد فقہیہ سےاستنباط قیاس کے طریقے سے کیا گیا ہے۔ اسی لیے یہ قیاس بھی تہہ در تہہ استدلال پر مبنی ہے۔

۲۔ حیاتیاتی اخلاقیات

انتقال خون، اعضا کی پیوند کاری، پوسٹ مارٹم، مصنوعی تنفس، تولید کی تحدید اور اس طرح کے مسائل بہت جلد علم حیاتیات کا موضوع بن گئے۔ اس صورت حال میں قدیم فتاویٰ پر نظر ثانی ضروری ہو گئی۔ مثلاًقدیم طب دوران خون کی قائل نہیں تھی۔ فقہا کے نزدیک خون جب تک بدن میں ہے پاک ہے لیکن بدن سے خارج ہوجائے تو نجس ہے اور دم مسفوح کا استعمال نصاً حرام ہے۔ بدن سے خون نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہےکیونکہ اس پر نجاست خارج ہونے کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر انتقال خون اور متعلقہ طبی معمولات کی اجازت نہیں دی گئی۔ بعد میں جوں جوں فقہا کے رابطے دوسرے علوم کے ماہرین سے بڑھے تو ان کی رائے بدلتی گئی۔

ڈاکٹر محمد غالی نے ۲۰۱۲ میں “اسلامی حیاتیاتی اخلاقیات”کے تحت لکھا ہے نئےعلمی میدان میں مذہبی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں۔ اعضا کی پیوند کاری میں مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز قابل عمل نہیں۔ عاصم پاڈیلا، سٹیونفربر، محمد خلواڈیا اور ابراہیم موسی (۲۰۱۴)کا کہنا ہے کہ اسلامی حیاتیاتی اخلاقیات کا علم عالمگیراخلاقی معیارات سےاورسماجی علوم کے منہج سے مدد لیتا ہے۔ اسلامی حیاتیاتی اخلاقیات کے اطلاق میں مقاصد شریعت کا استنباط اور طبیب، مریض، اور صحت سے متعلق اداروں کے رویوں کے شماریاتی جائزےمفید ثابت ہو رہے ہیں[17]۔

مصنوعی تنفس:فقہی طبی استنباط کے مسائل

حیاتیاتی اخلاقیات میں مصنوعی تنفس، مصنوعی تنفس کے آلات کو ہٹا کر مریض کی موت کو آسان کرنےیا یوتھانیسیا جیسے اہم مسائل پر تحقیقات میں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ موت کی طبی تعریف کیا ہے، کب واقع ہوتی ہے؟ شیخ بکربن عبداللہ کے نزدیک فقہا اور اطباکے مابین موت کے وقت کے تعین میں اختلاف ہے۔ اطبا عام طورپر دماغ کی موت کو یقینی قرار دیتے رہے ہیں اور ماہرین طب کی بڑی تعداد اب دل کی حرکت بند ہونے پر موت کے یقین ہونے کی قائل ہے۔

قدیم فقہی کتب میں حقیقی موت کی حتمی تعریف نہیں ملتی۔ زیادہ تر کتابیں موت کی علامات میں سانس کا رک جانا، جسم کے اعضا کا ڈھیلا پڑجانا،اور جسم کا ٹھنڈا پڑ جانا وغیرہ کا ذکر کرتی ہیں۔ موت کی عمومی تعریف بدن سے روح نکل جانا ہے۔ فقہا نے قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ بھی دیا ہے کہ روح اللہ کے حکم سے ہے (۱۷:۸۵)، اللہ نے اس میں روح پھونکی (۲۱:۹۱) اور پھر اس کی دل کی رگ کاٹ دی (۶۹:۴۶)۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ذکر ہے کہ روح کے نکلنے بعد سب سے پہلے آنکھیں بند ہوتی ہیں اور صحیح بخاری میں حدیث عائشہؓ دل کی رگ کٹنےکو موت کاوقت بتا یا گیا ہے[18]۔ ان نصوص کی روشنی میں بعض فقہااطبا کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ موت در اصل دل کی موت ہے۔

مصنوعی تنفس کی ٹیکنالوجی کے بعد اس بحث میں دو اور اہم سوالات بھی شامل ہو گئے۔ اول یہ کہ مریض کو کب تک مصنوعی تنفس پر رکھا جا سکتاہے اور ان آلات کے ہٹانے سے موت واقع ہوتی ہو تو اس کے فیصلے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اعضا کی پیوند کاری میں عضو کو زندہ نکالنا لازمی ہے تو دوسرا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ کیایقینی موت سے پہلے عضو نکالا جا سکتا ہے؟

شیخ الشنقیطی لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں مسلم فقہا اور اطبا دو گروہوں میں منقسم ہیں شیخ بکر بن عبداللہ ابو زید، شیخ عبداللہ البسام، ڈاکٹر توفیق الواعی، شیخ محمد المختارالسلامی، شیخ بدر المتولی عبد الباسط،اورشیخ عبد القادر محمد العمادی اور وزارت اوقاف کویت کے فتاویٰ کی رو سےدماغ کی موت اور شعور نہ رہنے سے موت واقع نہیں ہوتی۔ یہ فقہا سورہ کہف کی آیت جس میں اصحابِ کہف کے ایک مدت سوئے رہنے کے بعد جاگ اٹھنے کا حوالہ دیا جاتا ہے(۱۸:۱۲) نص قطعی شمار کرتے ہیں۔ اس آیت میں موت سے مراد ارد گرد کا شعور نہ رہنا اور جاگنے کا مطلب شعور کالوٹنا ہے۔ فقہی قاعدے “شک سے یقین زائل نہیں ہوتا” کی رُو سے بھی جب تک موت یقینی نہ ہو روح کی بقا اور زندگی کے جاری رہنے کا فتویٰٰٰ ہے۔ ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ فقہا نے موت کی جو علامات بیان کی ہیں اچانک موت کی صورت میں ان علامات پر بھی شک رہتا ہے۔ چنانچہ ان ماہرین کی رائے میں دماغ کی موت یقینی موت نہیں ہے[19]۔

اس کے بر عکس ڈاکٹر عمر سلیمان الا شقر، ڈاکٹر محمد سلیمان الاشقر، ڈاکٹر محمد نعیم یاسین، ڈاکٹر احمد شرف الدین اور مجمع الفقہی الاسلامی کا فتویٰ دماغ کی موت کو فیصلہ کن قرار دیتا ہے۔ ان کا استدلال ہےکہ جب جسم روح کی خدمت بند کردے تو اسے موت قرار دیا جائے۔ بارہویں صدی کے شافعی فقیہ الغزالی اور چودھویں صدی کے حنبلی فقیہ ابن قیم[20] بھی روح کی جسم سے علیحدگی کو ہی موت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اکثرفقہا کے نزدیک مقتول کے جسم میں حرکت موجود ہو تب بھی اسے مردہ قرار دے کر قصاص کا حکم دیا جا سکتا ہے[21]۔

مجمع الفقہی الاسلامی کی قرارداد کے مطابق دماغ کی یا دل کی موت دونوں میں سےکسی ایک کی علامات ظاہر ہونے سے شرعی طور پر اس شخص کو مردہ قرار دیا جائے گا۔ ان دونوں صورتوں میں مصنوعی تنفس کے آلات ہٹانا جائز ہے۔ جب اطبا اور ماہرین کا فیصلہ ہو کہ دماغ نےمکمل طور پر کام بند کر دیا ہےاور یہ کہ اب اس کی بحالی ممکن نہیں تووفات کے شرعی احکام جاری ہو جاتےہیں[22]۔ بہت سےفقہا نےدماغ کی موت کے وقت عطیہ کردہ عضو کو انسانی جسم سےنکالنے اور منتقل کرنے کا فتوی ٰدیا ہے کیونکہ مردہ عضو کی منتقلی سے مریض کی جان نہیں بچائی جا سکتی۔

حیاتیاتی اخلاقیات نے علم حیاتیات کے اکتشافات اور تجربی علم کو مصدرتو شمار کیا ہے لیکن فیصلہ کرتے وقت تک مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے دماغ کی موت کو ہی حقیقی موت شمار کیاہے۔ فقہا کے ہاں مصادر صرف دو ہیں قرآن اور سنت۔ بتدریج اجماع کو بھی مصدر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تاہم جدید مسلم فقہا کے نزدیک جو مقاصدی اجتہاد کے قائل ہیں قیاسی اجتہاد مخصوص نص سے استنباط کرتا ہے تو در حقیقت اسے بھی قطعیت کادرجہ حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ اصول استقراء اور قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ مریض کی جان بچانا مقاصد شریعت میں سے ہے۔

۳۔ جینیات اور اخلاقیات

علم حیاتیات میں جینیات کی ٹیکنالوجی یا جینیٹک انجینئر نگ نے بہت ہی گہرے اخلاقی سوال اٹھائے ہیں تاہم طبی معمولات میں ٹیسٹ ٹیوب بےبی، جین میں صنفی تبدیلی، ڈی این اے میں تبدیلی، اور حیاتیاتی خلیوں سے مصنوعی طریقے سے جانور اور انسانوں کی پیدائش کے بارے میں فقہا کی طرح طبی اخلاقیات کے علما نےبھی تحفظات کا اظہار کیا ہے[23]۔ ہم ان مسائل میں سے صرف ایک مصنوعی تولید، آرٹیفیشل انسیمی نیشن، التلقیح الصناعی یا عام زبان میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے بارے میں اطبا اور فقہا کی آرا کا تجزیہ پیش کریں گے۔

مصنوعی تولید: فقہی طبی استنباط کے مسائل

مصنوعی تولید کے بارے میں متعدد فتاویٰ اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں[24]۔ عام طور پر فقہا اور مفتی حضرات اس کی مشروط اجازت دینے لگے ہیں۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے تولید کے طریقے میں قباحتوں او مفاسد کے پیش نظر مصنوعی تولید کی دو شکلیں بیان کی ہیں۔ ایک شکل یہ ہے کہ مرد یا عورت یا دونوں اجنبی ہوں یعنی باہم شادی شدہ نہ ہوں اوران کے مادے خلط کرکےمصنوعی تولید عمل میں لائی جائے تو یہ عمل ناجائز ہے۔ چاہے یہ عمل کسی ٹیوب میں ہو یا اسی عورت کے رحم میں یا کسی دوسری عورت کے رحم میں رکھا جائے،یہ شکل ہر صورت میں ناجائز ہے۔ اس کی ممانعت کی بنیادی وجہ اختلاط نسب کی ممانعت ہے۔ دوسری وجہ زنا سے مشابہت ہے لیکن یہ دوسری وجہ قابل استدلال نہیں، کیونکہ اگر عورت کسی مرد کی زوجیت میں رہتے ہوئے کسی اجنبی کے مادے سے حاملہ ہو تورحمانی کے قول کے مطابق فقہا کے نزدیک مولود کا نسب اس کے حقیقی شوہر سےہی ثابت ہوگا[25]۔

دوسری شکل یہ ہے کہ شوہر کا مادہ انجکشن وغیرہ کے ذریعے اس کی شرعی بیوی کے رحم تک پہنچایا جائے۔ یا شوہر اور بیوی دونوں کے مادےایک مخصوص مدت تک ٹیوب میں رکھ کر واپس اسی عورت کےرحم میں منتقل کردیے جائیں۔ یا انہی مادوں کو اسی شوہر کی دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے۔ اس دوسری شکل پر اعتراضات تو ہیں لیکن عموماً اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس کا جواز ضرورت کا اصول ہے۔ مولانا رحمانی نے اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ: ” ٹیسٹ ٹیوب کی مدد لا ولد افراد کے لیےدراصل ایک ذریعہ علاج ہے۔ فقہا نے ممنوعات کو صرف اس وقت جائز رکھا ہے جب کہ ضرورت یا حاجت اس کی اجازت کا تقاضا کرے۔ لیکن فقہی جزئیات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج و معالجہ کے باب میں فقہا نے ایک گونہ زیادہ وسعت سے کام لیا ہے اور یسر و سہولت کو راہ دی ہے”[26]۔

بکر بن عبد الله نےمصنوعی تولید کے موضوع پر متعدد کتابوں کا ذکر کیا ہے جن میں مصنوعی تولید کی شکلوں اور ان کے جواز اور عدم جواز پر بحث کی گئی ہے[27]۔ ان کتابوں میں حفظ نفس کے ساتھ ساتھ چھٹے مقصد حفظ عرض یعنی عزت و غیرت کی حفاظت کو بھی مقاصد شریعت میں شامل کیا ہے[28]۔ مصنوعی تولید کے طریقے، اور جینیٹک انجینیرنگ اور کلوننگ جیسے نئے طبی معمولات کے بارے میں قیاس کے لیے نصوص اور نظائر نہیں ملتے تھے۔ محمد غالی (۲۰۱۳)کی رائے میں ” اسلامی حیاتیاتی اخلاقیات نے ایک علم اور فن کی حیثیت سے الگ حیثیت منوائی ہے” [29]۔ اس ضمن میں عمر کسولے (۲۰۰۴)،عاصم پادیلا اور شعیب رشید (۲۰۱۳)[30]، اور سیف الدین (۲۰۱۴)[31]کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ کسولے نےشاطبی کی مقاصد الشریعہ کی بنیاد پر اسلامی طبی اخلاقیات کا خاکہ تیار کیا ہے جو طبی علاج، ادویات، اور پیشے کی اخلاقیات کا ضابطہ تجویز کرتاہے [32]۔

۴۔ طبی اخلاقیات میں فقہی استنباط کے مسائل کا جائزہ

اس مختصر تجزیے سے دو اہم نکات سامنےآئے ہیں:اول یہ کہ کہ علم طب نے اسلامی طبی اخلاقیات کے کردار کو سراہا ہے۔ پروفیسر وردیت ریسپلرخائم(۱۹۹۳)[33]اور ڈاکٹرفرحت معظم(۲۰۱۱)[34]نے لکھاہے کہ خاندانی منصوبہ بندی، ماحولیات، اور جینیات کے مسائل اخلاقی اصولوں کو مدنظررکھے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے۔ دوم گذشتہ تین دہائیوں میں اسلامی حیاتیاتی اور طبی اخلاقیات میں بہت تیزی سے پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم جہاں بہت سے علما ءکا خیال ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیےقدیم اصول فقہ ناکافی ہیں وہاں مولانا رحمانی کا اصرار ہے کہ یہ اصول ناکافی نہیں ہیں۔ لکھتے ہیں کہ” اصولی اعتبار سے زمانہ اور حالات کی تبدیلی کا شریعت اسلامی پر کوئی ایسا اثر نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کو دور از کار اور غیر عصری بنا دے، تاہم یہ ضرور ہے کہ اس تہذیبی اورصنعتی انقلاب کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا”[35]۔ وہان لوگوں کے سخت خلاف ہیں”جو محض اپنی تجدد پسندی میں پورے دین کا بخیہ ادھیڑنے میں مصروف ہیں”[36]۔ کیونکہ مولانا کا موقف ہے کہ انسان کا بنایا ہوا نظام بدلتا ہے لیکن اسلام کاقانون نہیں بدلتا۔ [37] ان کے نزدیک شریعت کے احکام تین طرح کے ہیں: قطعی، اجتہادی اور مصلحتی۔ قطعی میں تغیر کی اجازت نہیں، اجتہادی میں اختلاف رائے کی صورت میں کسی ایک رائے کی طرف عدول جائز ہے۔ مصلحتی احکام اپنے زمانے کے مصالح پر متعین ہوتے ہیں ان مسائل میں عرف اور عادات کی تبدیلی کی صورت میں رائے تبدیل ہو سکتی ہے[38]۔ بر صغیر میں مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی محمد شفیع ا ور مفتی کفایت اللہ نے ان جدید مسائل کے حل پیش کیےہیں[39]۔

5۔         قانون اور اخلاقیات

شیخ عبداللہ درازکے مطابق جب علوم کی تدوین ہوئی تو ہر علم کی تعریف، موضوع، مقاصد، مسائل اورمبادیات میں فرق بیان کرتے ہوئے فقہا نےعلم الفقہ کو علم الاخلاق سے الگ کردیا[40]۔ علم الاخلاق کا مقصد اخلاقی رویوں کی تربیت تھا اور علم الفقہ مکلفین کے افعال کے بارے میں ان احکام شرعیہ کا علم قرار پایا جو مصادر احکام یعنی قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت ہوں[41]۔ علم الاخلاق انسانی رویوں کی اصلاح کے لیے فضائل اور رذائل میں تمیز کی صلاحیت پیدا کر کے ایک فرد کو اچھی صفات کا حامل بنانا ہے۔ قانون اوامر و نواہی اور سزا کا نظام ہے۔ جو جزا اور سزا کے ذریعے نیکی پرآمادہ اور بدی سے روکتا ہے۔

فقہی تناظر کی اس بحث میں اختلافات کے دو زاویے سامنے آئے۔ ایک زاویہ تو اخلاقیات اور قانون کی تعریف اور تحدیدسے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے کاتعلق اخلاقی اور قانونی احکام کے مصادر سے تھا۔ سوال یہ تھا کہ نیک و بدعلم اخلاق کا موضوع ہے یا قانون کا۔ اخلاق اور قانون میں فرق کی ایک دلچسپ کہانی آٹھویں اور نویں صدی میں مصر، کوفہ اور بصرہ کے پانچ قاضیوں کی عدالتوں میں متعةالطلاق کے انیس مقدمات ہیں[42]۔ ایک مقدمہ کی شنوائی کے دوران خاوندنے قاضی کے سامنے بیوی کو طلاق دے دی۔ قاضی نے قرآن کی آیت وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّاعَلَى الْمُتَّقِينَ(۲:۲۴۱)تلاوت کی اورخاوندسےکہاکہ وہ مطلقہ بیوی کو متاع یا جائدادمیں سے حصہ ادا کرے۔ خاوند نے انکار کردیا کہ آیت میں یہ حکم صرف متقین کے لیے ہے۔ قاضی خاموش رہے لیکن بعد میں جب کسی اور مقدمے میں یہی خاوند گواہ کے طور پر پیش ہوئے تو قاضی نے اس کی گواہی قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس نے گذشتہ مقدمے میں خود اقرار کیا تھا کہ وہ متقی نہیں ہے۔ فقہ تدوین ہوئی تو فقہا میں بھی اس مسئلے پر اختلاف ہوا۔ شافعی فقہا کے نزدیک متاع واجب ہے۔ مالکی اسےمندوب بتاتے ہیں اور حنفیاسے مہر کے مسائل میں شمار کرتے ہیں[43]۔

استنباط احکام کے طریقوں میں اختلاف اسی تناظر میں پیدا ہوا اور اب بھی جاری ہے۔ یہ اختلاف ساتویں اور آٹھویں صدی میں شروع ہوا۔ علم الکلام میں معتزلہ کا کہنا تھاکہ انسان کو علم وحی اور عقل دونوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اشاعرہ کا عقیدہ تھا کہ انسان کو نیک و بد کا پتا صرف وحی سے چلتا ہے۔ ماتریدیہ کا ماننا تھا کہ نیک و بد کا علم عقل اور وحی دونوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو وحی سے پہلے نیک و بد کی تمیز نہ ہونے سے انسان سے خدا اور وحی کی پہچان بھی متوقع نہیں۔ مسلم فلاسفہ میں سےابن سینا(م ۱۰۳۷)اور ابن طفیل نے (م ۱۱۸۵) اس مسئلے کو سمجھانے کے لیے ایک انسانی بچے حی بن یقظان کی کہانی سنائی جوجنگل میں جانوروں کے سا تھ پلا بڑھا۔ انسانی تربیت نہ ہونے کے باوجود جب وہ بڑا ہوا اور شہر کی معاشرت سے واسطہ پڑا تواس کی اخلاقی اقدار انسانی معاشروں میں پلے بڑھے بچوں سے مختلف نہیں تھیں۔ اہل فلسفہ کاکہنا تھا کہ اچھے برے کا علم انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ نیکی اور بدی کی تمیز میں معاشرتی تجربے اور وحی کے ذریعےحاصل علم میں تضاد نہیں[44]۔ نویں صدی میں یہ اختلاف فقہ پر اثر انداز ہوا اور گیارہویں صدی تک اصول فقہ کا حصہ اور بنیادی جز بن گیا۔

فلسفیانہ روایت جس میں اخلاق، تصوف،طب اور ادب کے علوم شامل ہیں انسانی فطرت اور مزاج کا مطالعہ توجہ کا مرکز رہا۔ ابن مسکویہ (۱۰۳۰)کی تہذیب الاخلاق، ابن قتیبہ(م ۸۸۹) کی ادب الکتاب، اور اسحق بن علی الرحاوی کی ادب الطبیب اورمحاسبی (م ۸۵۷) کی آداب النفوساخلاق کی اسی فلسفیانہ روایت کی تصنیفات ہیں جو اخلاق کو فلسفہ اور ادب کی اطلاقی صورت شمار کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ابن حزم(م ۱۰۶۵)[45]الغزالی اور دیگر مفکرین کے نزدیک فلسفے سے اخلاق کی اصلاح ممکن نہیں یہ نبوت کا دائرہ کار ہے۔ غزالی کے مطابق علم الاخلاق علم الباطن ہےجو دل کو اخلاق رذیلہ سے پاک کرنے کا نام ہے[46]۔ غزالی اسے سیاست کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ان دونوں کے نزدیک یہ تربیت نبی ہی کرسکتاہےکیونکہ اس کو اللہ کی تائید ہوتی ہے۔ انسان، انسان کی اطاعت نہیں کر تا۔

ابن خلدون کی رائے میں اسی اختلاف کے نتیجے میں اصول فقہ یا فقہی استدلال میں استنباط احکام کےدو طریقےوجود میں آئے:حنفی طریقہ اور متکلمین کا طریقہ[47]۔ ابن خلدون کے زمانے میں متکلمین سے مراد عموماًاشعری متکلمین تھے جو وحی کے لفظی اور حقیقی معانی پر زور دیتے تھے۔ شافعی اور حنبلی فقہا کا بھی یہی موقف تھا۔ حنفی موقف ماتریدی متکلمین کے قریب تھاجن کے مطابق نصوص کے لفظی اور حقیقی معنی پر اصرار سے تجسیم اور تشبیہ لازم آتی ہے۔ اس لیے تاویل کے لیے مجازی معنی کو شامل استدلال کرنا ضروری ہے۔ حنفی اور مالکی فقہا عرف اور عادات کو بھی قانون کا مصدر مانتے تھے۔ معتزلی متکلمین نے بھی اصول فقہ میں دلچسپی لی۔ لیکن وہ کسی ایک فقہی مذہب سے وابستہ نہیں رہے۔

اصول فقہ کے زاویے سے اہم بات یہ ہےکہ شروع میں اصول کی اصطلاح مصادر اور منابع کے علاوہ قواعد اور ضوابط کے معنوں میں بھی استعمال ہوتی تھی۔ مثلاًآٹھویں صدی کے حنفی فقہا کے ہاں اصول سے مراد وہ مجموعی قاعدے یا کلیات ہیں جوآئمہ کی فقہ یاآراء سے ماخوذ ہیں۔ بعض فقہی کتا بوں میں فقہ کے مخصوص موضوعات اور ابواب سے ماخوذ قواعد کو ضوابط اور اصولی عبارات مثلاً الضرور اتتبیحا لمحظورات ( اضطرار کی حالت میں حرام بھی مباح ہو جاتا ہے)کوبھی قواعد فقہیہ کا نام دیا جاتا تھا۔ البتہ استنباط کے بعض مخصوص طریقوں میں اختلاف رہا۔ مثلاًحنفی طریقہ استنباط استحسان کونویں صدی کے عظیم فقیہ امام شافعی نےجنہیں اصول فقہ کا بانی مانا جاتا ہےتلذذ[48]اور مالکی طریقےاستصلاح کو بارہویں صدی میں امام الغزالی نےنئی شرع کہہ کر رد کردیا[49]۔ امام شافعی کے رسالہ کے بعد فقہ کے چار مصادر کانظریہ زیر بحث آیا اور بتدریج اس پر اتفاق ہو تاگیا۔ اس نظریے میں قرآن و سنت کو بطورنصوص اولین درجہ حاصل تھا۔ قیاس اور اجماع بظاہرطریق استنباط تھے لیکن عملاًانہیں بھی مصادر میں شمار کیا جانے لگا۔ اس سے نئے مسائل کے حل کرنے میں مشکلات آئیں اور قیاس ناکافی ٹھہرا۔

ابن خلدون نے اصول فقہ کے مختلف طریقوں اور فقہی مذاہب کے اصول اور قواعد میں جمع، توفیق اور تلفیق کی مسلسل کوششوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ چودھویں صدی میں ابو اسحاق الشاطبی نے مالکی اور حنفی اصول فقہ کو نئی تشکیل دے کر مقاصد الشریعہ کا نام دیا اور اپنی اس کوشش کو الموافقاتکا نام دیا۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوا،جدید دور میں مقاصد الشریعہ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور اس طریق استنباط نے طب، فقہ اور قانون کے علاوہ دیگرعلوم مثلاً انتظامیات[50]، علم اقتصاد[51]، ترقیات[52]، سیاسیات[53]،ماحولیات[54]، تجارت، سرمایہ کاری[55] اور معاشی منصوبہ بندی[56]کےمسائل کے حل کے لیے ضابطے مہیا کیے۔ انیسویں صدی میں خیر الدین تونسی کی آئینی (م ۱۸۹۰)[57]،مفتی محمد عبدہ(م ۱۹۰۵) اوررشید رضا (م1935)[58]کی احیا اور اصلاح کی، محمد خضری (م ۱۹۲۷) کی افتا اور عدل کی تنظیم نو، محمد اقبال (م۱۹۳۸)[59]کی حقوق نسواں کی، اور ابن عاشور (م ۱۹۷۰)[60]کی تجدید کی تحریکوں کے بنیادی حوالے بھی شاطبی کےمصلحہ اور مقاصدکے نظریات تھے۔

حاصل بحث بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ احادیث میں قرون اولی میں وبا کے بارے میں اصولی تعلیمات موجود ہیں اور کرونا کے حوالے سے آج کےمفتیان کرام نے انہی کو بنیاد بنایا ہے۔ لیکن نصوص قطعیہ کی تعبیر میں اور نظائر میں حصرکے لیے چونکہ قیاس اور اجماع پر انحصارکیا جاتا ہےاس لیے اکثر ان فتاویٰ کو کافی نہیں سمجھا جارہا۔ یہ قدیم اصول اور قاعدے جدید مسائل، خصوصاً طبی اور حیاتیاتی اخلاقیات اور بالخصوص جینیات کے طبی معمولات کے بارے میں سوالات کے حل میں مددگار ثابت نہیں ہو رہے۔ قواعد فقہیہ بھی ایک حد تک ہی ساتھ دے پائے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مقاصد شریعت کے اصول زیادہ مفید اور موثر پائے گئے۔ لیکن روایت پسندی اور احتیاط کے مطالبے مقاصد سے استنباط کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسلامی حیاتیاتی اخلاقیات میں استنباط کے نئے اصولوں کی وجہ سے پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک بڑی مشکل یہ ہےکہ اس علمی پیش رفت میں یہ خدشہ حاوی رہتا ہے کہ نئے اصولوں کے تتبع میں مسلمان مغرب کی تقلید میں مبتلا ہو کر اپنی اسلامی فقہی روایت سے دور نہ چلے جائیں۔ شاطبی کے نظریہ مقاصد پر تنقیداس بنیاد پر نہیں ہوئی کہ وہ مغربی فکر سے متاثر ہو گئے تھے۔ اعتراض یہ نہیں تھاکہ ان کی فکر قرآن اور سنت پر مبنی نہیں تھی بلکہ اختلاف یہ تھاکہ وہ اپنے ہم عصر علما اور فقہا کے راستے سے ہٹ گئے تھے۔ شاطبی کو اپنے ہم عصر علما اور فقہاسے یہ اختلاف تھاکہ اصول فقہ کی روایت مقاصد شریعت کو نظر انداز کرتے ہوئے فقہی مذاہب میں محصورہو گئی تھی۔ شاطبی قرآن کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ مصلحہ ہی مقصد شریعت ہے۔ انہوں نے مصلحہ کا معنوی اور اصولی تجزیہ ہی پیش نہیں کیا۔ بلکہ مقاصد کےپانچ پہلوؤں اور مصلحہ کی سہ گونہ تقسیم کی بنیاد پر انہوں نے مصلحہ اور مقاصد میں ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کے مدارج کو حمی یاتین ہم مرکز دائروں کی شکل میں پیش کیا جو ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں اور اس طرح فقہی قوانین کا اخلاقیات اور سماجیات سے تشکیلی تعلق ثابت کیا۔ اخلاقی اقدار کو انفرادی، معاشرتی اور عالمی قوانین اور اخلاقیات سے جوڑتے ہوئے اور استنباط کے اصولوں کو زبان اور منطق کے تفہیم، استدلال اورتعبیر کے قواعدسے،اور طبعی اور نفسیاتی عوامل کو دینی پہلوؤں سے مربوط بنا کر اجتہاد کو وسیع مفہوم دیا ہے۔ اصول فقہ میں قیاس سے بڑھ کر انسانی زندگی اور اخلاقیات کو بلند تر مقاصد کے اصول موجود ہیں، ان سے استفادےکورواج دینا ضروری ہے۔

[1]شیخ محمد تقی عثمانی، بحوث فی قضایافقھیہ معاصرہ،دمشق: دار القلم، ۲۰۰۳ ؛ ا حمد بن ابراہیم بن عبداللہ التویجری، مختصر الفقہالاسلامی، فیضوء القرآن و السنہ، مملکة العربیہ السعودیہ، ۲۰۱۰موسوعة الفقہالاسلامی، بیت الافکار، ۲۰۰۹،کویت، الموسوعہ الفقھیہ الکویتیہ، ۱۴۲۷ ھ

[2]Islamic Educational, Scientific and Cultural Organization, Ethical Implications of Modern Research in Genetics, Rabat, 1993, p. 3.

[3]بحث کو آسان اور مختصر رکھنے کے لیے ہم نے مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کیا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی جدید فقہی مسائل (لاہور: پروگریسوبکس، ۱۹۸۳)، شیخ بکر بن عبداللہ کی فقہ النوازل( بکر بن عبداللہابوزید محمد، فقہ النوازل، موسسةالرسالہ، ۱۹۹۶موسسةالرسالہ، ۱۹۹۶) اورشیخ محمد بن محمد المختار الشنقیطی، “احکام الجراحة الطبیة و الآثار المترتبة علیھا” (جدہ: مکتبةالصحابہ، ۱۹۹۴)۔ ان کتابوں میں تائید اور تردیددونوں جانب کی آرا کا تجزیہ موجود ہے۔ جہاں ضرورت تھی وہاں دوسری کتابوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سنین اور صدیوں کے ذکر میں آسانی کے لیے عیسوی سن کو اختیار کیا ہے۔

[4] Tamara Sonn, “Health and Medicine in Islamic Tradition: Fazlur Rahman’s View”. Journal of Islamic Medical Association. 1996, 28, 189- 194۔

[5] Sahin Aksoy, “The Religious Tradition of Ishaq b. Ali al- Ruhawi, the Author of the First Medical Ethics Book in Islamic Medicine”. Journal of the International Society for the History of Islamic Medicine 2004, 3: 9- 11.

[6]۔ Tamara Sonn,“Health and Medicine in Islamic Tradition: Fazlur Rahman’s View”. Journal of Islamic Medical Association. 1996, 28, 189- 194۔

[7] Fazlur Rahman, Health and Medicine in the Islamic Tradition. New York: Crossroad, 1989, 70.

[8]خالد سیف اللہ رحمانی، جدید فقہی مسائل، لاہور: پروگریسو بکس،۱۹۹۰

[9]محمد بن محمد المختارالشنقیطی، احکام الجراحةالطبیة و الآثارالمترتبةعلیھا، جدہ: مکتبةالصحابہ،۱۹۹۴

[10]۔ شنقیطی۱: ۳۵۴

[11]۔ رحمانی، ۲: ۳۸۳۔ ۴۔

[12]الشنقیطی۱: ۳۵۴

[13]رحمانی ۲: ۴۰۲.

[14] (رحمانی ۲: ۳۹۲۔ ۳۹۵.

[15]الشنقیطی۱: ۳۵۴

[16]Muhammad Khalid Masud, Islamic Legal Philosophy. Islamabad: Islamic Research Institute 1977

[17] Aasim I Padela, Steven W. Furber, Mohammad A. Kholwadia, and Ebrahim Moosa. “Dire Necessity and Transformation: Entry‐points for Modern Science in Islamic Bioethical Assessment of Porcine Products in Vaccines.” Bioethics 28, no. 2 (2014): 59- 66.

[18]بکر بن عبداللہ ۱:۲۳۲۔

[19]۔ الشنقیطی

[20]ابن قیم، مفتاح دار السعادہ و مشھورولایةالعلم و الارادہ، بیروت: دار الکتبالعلمیة، ت۔ ن.

[21]الشنقیطی

[22]ابو عمر دبیان،المعاملاتالمالیہاصالة و معاصرة، ریاض: مکتبةالفھدالوطنیہ، ۱۴۳۲ھ، ۳:۳۹۳

[23] ISESCO. Ethical Implications of Modern Researches in Genetic. Rabat: ISESCO, 1993

[24]دیکھئے حاشیہ نمبر ۲۷

[25]رحمانی ۲: ۳۷۱

[26]رحمانی ۲: ۳۷۷

[27]ڈاکٹر حسان حتحوت، اطفال الانابیب، ابراہیم القطان، الاکجاب فی ضوءالاسلام، مصطفی زرقاء، طفل اانابیب، شیخ بدر المتولی، آراء فی التلقیحالصناعی، شیخ طنطاوی، آراء فی التلقیحالصناعی

[28]بکر بن عبداللہ۔ ۱: ۲۵۰۔

[29] Mohammed Ghaly, Islamic Bioethics in the Twenty- first Century”. Zygon, 48, 3 (September 2013), 592- 599.

[30] Shoaib A.Rasheed, and Aasim I. Padela, “The Interplay between Religious Leaders and Organ Donation among Muslims”, Zygon, vol. 48, no. 3 (September 2013), 635- 654.

[31]S. Saifuddeen, N. Rahman, et al. “Maqāṣid al- Sharīah as a Complementary Framework to Conventional Bioethics.” Science and Engineering Ethics, 20 (2014), 2: 317- 327.

[32] O. H.Kasule, “Medical ethics from Maqāṣid al- Shari’at”. Arab Journal of Psychiatry. 2004, 15(2):75- 86.

[33]VarditRispler- Chaim, Islamic Medical Ethics in the Twentieth Century, Leiden: Brill, 1993.

[34] Farhat Moazzam, “Sharia Law and Organ Transplantation: through the lens of Muslimjurists.” Asian Bioethics Review 3.4 (2011): 316- 332; Also, Farhat Moazzam, Bioethics and organ transplantation in a Muslim society: A study in culture, ethnography, and religion. Indiana University Press, 2006

[35]رحمانی،1990سخنہائےاولیں۱۹۸۳ ھ، ص ۱۴۔

[36]رحمانی، ۱۹۹۰، سخنہائےاولیں۱۹۸۳ص ۱۹۔

[37]رحمانی جلد ۲، سخنہائے گفتنی۱۹۹۰، ص ۱۲

[38]رحمانی، ۱۹۹۰، سخنہائے گفتنی، ص ۱۴

[39]رحمانی، ۱۹۹۰، سخنہائےاولیں۱۹۸۳ص ۱۵

[40]ابو اسحاق الشاطبی، الموافقات، تحقیق محمد عبداللہ دراز، بیروت: دار المعرفہ، ۱۹۷۵، ۱:۸

[41]الغزالی، المستصفی، دار الکتبالعلمیہ، ۱۹۹۳، ۱: ۶

[42] Muhammad Khalid Masud, “The Award of mata‘in the Early Muslim Courts”, in Muhammad Khalid Masud, Rudolph Peters and David S. Powers (Eds.,), Dispensing Justice in Islam, Qadis and their Judgments (Leiden: Brill, 2006), pp. 347 – 380, 353.

[43] Muhammad Khalid Masud, “The Award of mata‘ in the Early Muslim Courts”, 374- 6.

[44]A.- M. Goichon, “Ḥayy b. Yaqẓān,” in Encyclopedia of Islam, New Edition, Leiden: Brill, 1986, 3: 330- 34.

[45]ابن حزم۔ رسائل ابن حزم، بیروت: موسسة العربیہ، ۱۹۸۳،۴:۲۶

[46]الغزالی،المستصفی۱: ۶

[47]ابن خلدون، مقدمہ،تہران: انتشارات استقلال، ۱۹۸۹، ص۔ ۴۵۹۔

[48]“من استحسنفقد شرع “، محمد بن ادریسالشافعی، الرسالہ، تحقیق محمد شاکر، القاھرہ: مکتبةالحلبی، ۱۹۴۰، ۱: ۵۰۷، محمد بن ادریسالشافعی، الام، بیروت: دار المعرفہ، ۱:

[49]“من استصلحفقد شرع”، الغزالی، المستصفی،بغداد: مثنی، ۱۹۷۰، ۱: ۳۱۵

[50] Jasser Auda, Maqāṣid al- Shariah as Philosophy of Islamic law: A Systems Approach. Herndon: International Institute of Islamic Thought, 2008.

[51] Muhammad UmerChapra, The Islamic Vision of Development in Light of Maqāṣid al Shari’ah. Herndon P: International Institute of Islamic Thought, 2008

[52] Salman Syed Ali, and Hamid Hasan. “Towards a Maqasid al- Shariah based Development Index”, Islamic Research and Training Institute Working Paper 1435- 18. Jeddah: Islamic Research and Training Institute, 2014.

[53] Halim Rane, “The Impact of Maqāṣid al- Sharīʿah on Islamist Political Thought: Implications for Islam–West Relations”, Islam and Civilisational Renewal, 2.2 (2011): 337- 357.

[54] S.W. Ahmad Husaini, Islamic Environmental Systems Engineering. London: The Macmillan Press Ltd., 1980

[55] Zubair Hasan, “Sustainable Development from an Islamic Perspective: Meaning, implications and policy concerns”. Islamic Economics. 2006, 19 (1): 3- 18

[56]A. W.Dusuki, & N. I. Abdullah, “Maqāṣid al- Shariah, Maṣlaḥah, and Corporate Social Responsibility”. The American Journal of Islamic Social Sciences. 2007, 24(1), 25- 45.

[57]Muhammad Khalid Masud, Shatibi’s Philosophy of Islamic law, Islamabad: Islamic research Institute, 1995, 163.

[58] Muhammad Khalid Masud, Shatibi’s Philosophy of Islamic Law, Islamabad: Islamic research Institute, 1995 [1977, 110.]

[59] Muhammad Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore: Ashraf Publishers, 1965. Iqbal’s appeal to this doctrine led finally to the enactment of Dissolution of Muslim Marriages Act 1939, allowing right of judicial divorce amending Ḥanafī fiqh

[60]Masud, 1995, 110.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...