ڈوپامین اور ہماری قوتِ متخلیہ کے مابین تعلق کیا ہے؟

عابد سیال

1,288

ڈوپامین دماغ سے نکلنے والا ایک کیمیائی ذرہ ہے۔ اس سے ہماری خواہشات جنم لیتی ہیں، متخیلہ کو توانائی ملتی ہے اور مستقبل کے عزائم تحرک پذیر ہوتے ہیں۔ یہ محبت، علّت، تخلیقیت اور حتیٰ کہ سیاست تک میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ کسی شخص کا ڈوپامین کا نظام جتنا مستعد ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ ندرت کا متلاشی، خطرات مول لینے والا اور متجسّس ہو گا۔ لیکن ڈوپامین کی زیادہ مقدار لطف کے حصول کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔ بھرپور زندگی جینے کے لیے، ہمیں مستقبل گیر ڈوپامین اور حال پر مرتکز ڈوپامین کے درمیان ایک توازن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

کیا شے ہے جس سے آپ کا انسان ہونا طے ہوتا ہے؟ کیا یہ آپ کے خواب اور امنگیں ہیں، آپ کا تخیل ہے، آپ کی تمنائیں ہیں، آپ کے عزائم یا جذبات ہیں؟ یہ کوئی آسان سوال نہیں۔ لیکن ایک چیز یقینی ہے۔ اس کا جواب جو بھی ہو، یہ آپ کے دماغ کے پیداکردہ اس ننھے سے ذرے کا مرہونِ منت ہے جسے ڈوپامین کہتے ہیں۔

دماغ کے دو ہزار خلیوں میں سے ایک ایسا ہوتا ہے جو یہ معجزاتی ذرہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کے خیالات اور رویے پر اس کے اثرات غیرمعمولی ہوتے ہیں۔ علتوں سے لے کر صحت یابی تک اور محبت میں مبتلا ہونے سے لے کر دیوانگی اور فطانت تک، ڈوپامین کی عمل داری انسانی زندگی کے ہر پہلو پرہے۔

اس کتاب میں نفسیات، نیوروسائنس اور سماجی سائنسوں میں موجود تازہ ترین علمی پیش رفت کو جمع کیا گیا ہے تاکہ اس حیرت انگیز ذرے کی طاقتوں اور نقصانات کا کھوج لگایا جا سکے۔

کتاب کی اس تلخیص میں آپ جان پائیں گے کہ

  • جنونی عشق ہمیشہ کیوں نہیں رہ سکتا؛
  • آزاد خیال اور قدامت پسند لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے میں اس قدر مشکل کا سامنا کیوں ہوتا ہے؛ اور
  • ہمیں تھوڑی دیر کے لیے ڈوپامین کی اس کولہو نما مشین سے نیچے کیوں اتر جانا چاہیے۔

ڈوپامین امکانات سے معمور ذرہ ہے۔ اگر آپ نے اس سے پہلے ڈوپامین کا تذکرہ سنا ہے، تو امکان ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ یہ دماغ کا ایک خوش کن کیمیائی مادہ ہے۔

درحقیقت جب محقق کیتھلین مونتاگو نے 1957 میں ڈوپامین کو پہلی مرتبہ انسانی دماغ میں شناخت کیا، سائنسدانوں نے فی الفور اس کی دریافت کو “لطف کا مالیکیول” کا نام دے دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ڈوپامین دماغ میں فعال ہوتا ہے تو جو شے لوگ محسوس کرتے ہیں وہ لطف کے سوا کچھ نہیں۔

چوہوں پر کی گئی مزید تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ڈوپامین کی سرگرمی اس وقت اپنے عروج پر تھی جب ان جانوروں کو مزے دار خوراک فراہم کی گئی۔ دماغ کے جو حصے اس ردِعمل میں شریک کار تھے، سائنسدانوں نے انھیں مجموعی طور پر ‘ڈوپامین ریوارڈ سرکٹ’ کا نام دیا۔

جیسا کہ سائنسی اصطلاحات ہوا کرتی ہیں، یہ نام بھی بہت سادہ ہے، لیکن یہ مغالطہ انگیز بھی ہے۔ ڈوپامین اس تحریک اور صلے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

یہاں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ڈوپامین ایسا ذرہ ہے جو امکانات سے معمور ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈوپامین کا سروکار دراصل مزے دار خوراک کے ساتھ نہیں۔ اصل میں اس کا سروکار کسی بھی ایسی چیز سے نہیں جس کا پہلے سے اندازہ کیا جا سکے۔ اس کی بجائے ڈوپامین اس وقت خارج ہوتا ہے جب ہم ایسی اشیا کا سامنا کرتے ہیں جو نئی، غیرمتوقع اور لطف انگیز ہوتی ہیں۔

حیرت جس قدر زیادہ اور بہتر درجے کی ہو گی، ہمارا دماغ بھی زیادہ ڈوپامین خارج کرے گا اور ہم زیادہ لطف محسوس کریں گے۔ بلند درجہ، بلند ترین ہو جاتا ہے جب ہم صلے کے بارے میں غلط اندازہ لگاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں جب ہم لطف کی ایسی منزل کو پہنچتے ہیں جو اس سے بہتر ہوتی ہے جتنا ہم نے سوچا تھا۔

ایک لمحے کواس جذباتی کیفیت کا اندازہ کیجیے جب آپ اپنا بینک اکاؤنٹ چیک کریں اور دیکھیں کہ اس میں رقم اس سے زیادہ ہے جتنی آپ کے خیال میں ہونی چاہیے تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب آپ کی ڈوپامین ایک غیرمتوقع خوشخبری کے باعث بلند سطح پر ہوتی ہے۔

حال ہی میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ ہمارا دماغ دنیا کو دو حصوں میں بانٹتا ہے: نزدیک اور دور۔ ہر وہ چیز جو ہم سے قریب ہے، یعنی وہ اشیا جنھیں ہم چھُو سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں اور کسی بھی خاص لمحے میں انھیں محسوس کر سکتے ہیں، اس ‘نزدیک’ کے زمرے میں آتی ہیں۔ کوئی چیز جو ہماری فوری دسترس سے دور ہوتی ہے، حقیقی یا مجازی معنی میں ‘دور’ کے زمرےمیں آتی ہے۔

ڈوپامین ان چیزوں کے بارے میں آپ کا جوش ابھارتی ہے جو ‘دور’ کے زمرے میں آتی ہیں اور آپ کو ان کی جستجو کرنے پر راغب کرتی ہے۔ یہ کسی شکاری کا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ وہ ایک موہوم جانور کا تعاقب کرے، کسی دفتری ملازم کو مائل کرتی ہے کہ وہ اپنی ترقی کے لیے درخواست دے، اور کسی خریدار کی ہمت بڑھاتی ہے کہ وہ ایک بڑی طاقت کی کار خرید لے۔

ارتقائی زاویہ نظر سے یہ نکتہ قابلِ فہم بھی ہے۔ کچھ بھی ہو، وہ خوراک جو پہلے سے ہمارے پاس ہے، وہ تو یہیں سامنے رکھی ہے۔ اس امر کا فیصلہ کہ اب ہمیں مزید زندہ رہنا ہے یا مر جانا ہے، وہی خوراک کر سکتی ہے جو تاحال ہمیں میسر نہیں۔ اسی باعث ڈوپامین وجود میں لائی گئی کہ ہم اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے رہیں۔

ڈوپامین کے باعث ہم کسی کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اسی کے باعث اس سے نکل بھی آتے ہیں۔

اگر کبھی آپ کسی کی محبت میں گرفتار ہوئے ہیں تو ممکن ہے آپ جانتے ہوں کہ اس میں ارتفاع کا سا ایک احساس ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس وقت آپ کی ڈوپامین کی سطح بلندتھی۔ کسی رومانوی تجربے کے آغاز میں، آپ کا ذہن تمام تر اس نئے تعلق کے ولولہ خیز امکانات کو محسوس کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ڈوپامین کا اخراج دیوانہ وار ہوتا ہے اور اسی باعث ہم بشاشت، دیوانگی اور محبت کے نشے جیسے احساسات سے گزرتے ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ تعلقات کا نیا پن ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتا۔ اور جیسے ہی نیا پن رخصت ہوتا ہے، ڈوپامین بھی جاتی رہتی ہے۔ ماہرِ بشریات ہیلن فشر کا اندازہ ہے کہ نئی محبت کا جوش 12 سے 18 ماہ تک رہتا ہے۔ اس کے بعد بہت سے جوڑے ایک طرح کے صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ انھیں کچھ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس باہمی تعلق میں سے کوئی شے کھو گئی ہے۔ اور ان کا احساس صحیح ہوتا ہے؛ دراصل ڈوپامین کھو چکی ہوتی ہے۔

کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ڈوپامین کے باعث ہم کسی کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اسی کے باعث اس سے نکل بھی آتے ہیں۔

جب ڈوپامین کا جوش ٹھنڈا پڑتا ہے، کچھ لوگ علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں اور اگلی محبت کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جبکہ دیگر نئی محبت کی سنسنی خیزی کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ڈوپامین ہمیشہ نئی سے نئی، چمکیلی سے چمکیلی اور بہتر سے بہتر چیزوں کی تمنا کرتی ہے۔ درحقیقت، یہ ثابت شدہ ہے کہ وہ لوگ جن میں ڈوپامین کے سرگرم ہونے کی سطح قدرتی طور پر بلند ہوتی ہے، ان کے جنسی شریکِ کار بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے شادی کرنے والے کم اور دھوکا دینے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

تاہم ان لوگوں کے لیے بھی جن میں ڈوپامین کی سرگرمی کی سطح معمول پر ہوتی ہے، کسی قائم شدہ تعلق میں پرجوش رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔

تو کیا محبت کے لیے امید کی کوئی کرن باقی نہیں؟ کیوں نہیں، بالکل ہے۔ جو بھی ہو طوفانی محبت، محبت کا محض ایک مرحلہ ہے۔ جب ہم کسی شخص سے ایک مضبوط تعلق استوار کر لیتے ہیں تو ہم اس سے اگلے مرحلے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں رفیقانہ محبت کی عمل داری شروع ہوتی ہے۔ اس کی بنا اس روزمرہ باہمی تحسین پر ہے جو ایک فریق سے دوسرے کو ملتی ہے۔ اس قسم کی محبت میں طوفانی محبت کی نسبت بے قراری کم ہوتی ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ مستحکم اور اطمینان بخش ہوتی ہے۔ رفیقانہ محبت مستقبل گیر ڈوپامین پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کی بجائے یہ دماغ میں پیدا ہونے والے کچھ اور طرح کے کیمیائی مادوں کی مرہونِ منت ہے۔

مصنفین ان کیمیائی مادوں کو “here and now” یا “H&N” کا نام دیتے ہیں۔ آپ نے ان میں سے بعض جیسا کہ سیریٹونین(serotonin)، اینڈورفنز(endorphins)، آکسیٹوسن (oxytocin)اور اینڈوکینابینائیڈز(endocannabinoids) جیسے کیمیائی مادوں سے متعلق سنا ہو گا۔ یہ سب لمحہ موجودمیں چیزوں سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اس وقت سرگرم ہوتے ہیں جب آپ جنسی اختلاط میں ہوتے ہیں، عمدہ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں، یا غروبِ آفتاب کا خوبصورت منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دماغ کے وہ سرکٹ جو H&N پیدا کرتے ہیں، ڈوپامین کے اخراج کا مقابلہ کرنے حتیٰ کہ اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب آپ خود کو ایک مستحکم اور دیرینہ تعلق میں بندھا پاتےہیں، آپ کے دماغ سے ڈوپامین کا اخراج کم ہوتا ہے اور H&N کیمیائی مادے زیادہ نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس جب آپ کسی دیوانہ وار محبت میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ کے سیریٹونین(serotonin)کی سطح معمول سے کم ہو جاتی ہے۔

نشے کا عادی بنانے والی چیزیں ہمارے ڈوپامین کے نظام پر حاوی ہو جاتی ہیں جن کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔

کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ آپ خریداری سے واپس گھر آ کر اپنے شاپنگ بیگ کھول رہے ہوں اور اس بات پر حیرت زدہ ہوں کہ ایک بار پھر کس شے نے آپ کو مجبور کیا کہ آپ ایسا ایک اور سویٹر خرید لائے ہیں جو آپ کبھی نہ پہنیں گے۔ خوب، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی شے کی خواہش کرنے کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کو پسند بھی ہے۔

یہ اس لیے ہے کہ، جیسا ہم نے پچھلی سطور میں دیکھا، ہمارا دماغ خواہشات اور لطف اندوزی پیدا کرنے کے لیے ایک بالکل مختلف نظام کا استعمال کرتا ہے۔

خواہشات کا نظام ڈوپامین چلاتی ہے۔ یہ ہمیں مختلف چیزوں کی خواہش پر ابھارتی ہے چاہے وہ اچھا کھانا ہو، جنسی ترغیب ہو یا وہ فضول خرچی پر راغب کرنے والاسویٹر جو دکان میں نظر آیا۔ لیکن ڈوپامین کو اس سے کچھ سروکار نہیں کہ ہم اپنی خواہش کی گئی اشیا کو واقعی پسند بھی کرتے ہیں کہ نہیں۔ اور یقینی طور پر اس کو اس سے بھی کچھ غرض نہیں کہ وہ آگے چل کر ہمارے لیے اچھی بھی ثابت ہوں گی کہ نہیں۔

کلیدی نکتہ یہ ہے کہ نشے کا عادی بنانے والی چیزیں ہمارے ڈوپامین کے نظام پر حاوی ہو جاتی ہیں جن کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔

نشہ آور اشیا جیسے شراب، کوکین اور افیون، ڈوپامین کے نظام کو اتنا انگیخت کر دیتی ہیں کہ کوئی فطری محرک اتنا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں لطف اندوزی کا احساس بہت شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی لَت بھی شدت کے ساتھ پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے جب آپ ڈوپامین کی سرگرمی کو غیرفطری حد تک بلند کر دیتے ہیں، تو لازمی طور پر یہ بھی ہوگا کہ یہ غیرفطری حد تک کم بھی ہو جائے۔ اور اس کا احساس ایسا ہولناک ہے کہ ہمارے دماغ بے قابو ہو جاتے ہیں۔ اور یہ ہر جواز کو پس پشت ڈال کر ایک بار اور ڈوپامین کی بلند سطح کو چُھونے کی دُہائی دیتے ہیں۔

عام معلومات کے برعکس، وہ لوگ جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں،کسی خاص نشہ آور شے کے کیمیائی اثرات کی لت میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اصل میں کیمیائی اثرات بہت جلد کمزور پڑ جاتے ہیں۔ یہ ڈوپامین کے اثرات کی بلند سطح ہے جس سے وہ نکل نہیں پاتے۔ جب وہ اپنے دوستوں، گھر والوں، معاش اور رشتوں پر کسی تباہ کن نشے کی عادت کو ترجیح دیتے ہیں، تو ان کے ڈوپامین کی لت میں مبتلا دماغ کا یہ انتخاب قابلِ فہم ہے۔

نشہ آور اشیا کے معاملے میں ہمارے لیے ضرر رساں امر یہ ہے کہ خواہشات کا نظام ہمارے یادداشت کے نظام سے بہت گہری جُڑت رکھتا ہے۔ ہمارے دماغ ڈوپامین کی بلند سطح کی کیفیات کی ہر مہین تفصیل یاد رکھنے میں زبردست ہیں۔

ہمارے ارتقائی ماضی میں یہ امر فائدے کا باعث تھا۔ ایک متلاشی انسان کا تصور کیجیے جو کھانے کی چیزیں چُن رہا ہےاور اس نے خوش ذائقہ بیروں کی ایک جھاڑی ڈھونڈ لی ہے۔ یہ خوشگوار حیرت تھوڑی سی ڈوپامین کے اخراج کا باعث بنتی ہے۔ اگلی بار جب وہ اسی طرح کی کوئی جھاڑی دیکھتا ہے تو اس کا دماغ پیشگی طور پر تھوڑی سی ڈوپامین خارج کر دے گا۔ اس سے ہمارا وہ متلاشی انسان خوراک کے متوقع ذریعے کے بارے میں چوکس اور خوش ہو جائے گا۔

یہی کچھ ہوتا ہے جب منشیات کے عادی لوگ کسی ایسی حالت کا سامنا کرتے ہیں جس کا کوئی ربط وہ منشیات کے ساتھ جوڑ سکیں۔ یہ ربط اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ Alcoholics Anonymous نامی تنظیم اپنے ممبران کو خبردار کرتی ہے کہ مریضانہ بلانوشی سے چھٹکارے کے بعد دوبارہ اس کا شکار ہو جانے کے بڑے محرکات تین ہیں: افراد، مقامات اور اشیا۔

اگر ڈوپامین اس قدر اپنی لت میں مبتلا کر لینی والی شے ہے تو ہمارے دماغ ہمیشہ اس کی طلب کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ خوب، جیسا کہ ہم آئندہ سطور میں دیکھیں گے، وہ ایسا کرتے ہیں لیکن مزید ڈوپامین کے استعمال کے ساتھ۔

‘کنٹرول ڈوپامین ‘ ایسی ہے جو ہماری ڈوپامین کی خواہشات پر روک لگاتی ہے۔

ہمارا دماغ ڈوپامین کا استعمال کئی مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ ہمارے اندر کھانے، جنسی عمل یا منشیات کی خواہشات بیدار کر دے۔ خوش قسمتی سے یہ ڈوپامین کا واحد مقصد نہیں ہے۔ ہمارے اندر ایسا نظام بھی موجود ہے جو ہماری ڈوپامین کی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے اور ان پر روک لگاتا ہے۔ آپ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے یہ ایک سیفٹی والو ہے اور یہ بھی اسی کیمیائی ذرے یعنی ڈوپامین سے فعال ہوتا ہے۔ اسے ڈوپامین کے کنٹرول کا سرکٹ کہتے ہیں۔

اس نظام میں ہمارے دماغ کا سامنے کا حصہ کام کرتا ہے یعنی دماغ کا وہ حصہ جس کے اندر سوچنے کا عمل منطقی ہوتا ہے۔ چونکہ خواہش اور اس پر کنٹرول کا نظام بالکل ایک ہی ذرے کے زیرِاثر اپنا کام کرتے ہیں، ان کے افعال میں زیادہ فرق نہیں ہو سکتا۔ خواہش پیدا کرنے والی ڈوپامین ہمارے اندر چیزوں کی تمنا بیدار کرتی ہے اور کنٹرول کرنے والی ڈوپامین ان چیزوں کے حصول میں ہماری مددگار ہوتی ہے۔

یہاں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ‘کنٹرول ڈوپامین ‘ ایسی ہے جو ہماری ڈوپامین کی خواہشات پر روک لگاتی ہے۔

فرض کریں کہ آپ ایک کار خریدنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ خواہش کرنے والی ڈوپامین کو مکمل طور پر خود پر حاوی ہونے دیتے ہیں تو آپ قریب ترین ڈیلر کے پاس جائیں گے اور جو بھی پہلی کار آپ کو نظر آئے گی، اسے خرید لیں گے۔ یہ کنٹرول ڈوپامین کی طاقت ہے جس کی بنا پر آپ اس نوع کی غیرمفید تمناؤں پر روک لگاتے ہیں۔ کنٹرول ڈوپامین آپ کو اس قابل بناتی ہے کہ رقم خرچ کرنے سے قبل آپ قیمتوں اور گاڑیوں کی خصوصیات کا تقابل کرتےہیں۔ اور یہ آپ کو مستقبل کی منصوبہ بندی کے اس عمل سے لطف اندوز ہونے کے قابل بناتی ہے۔

تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارے دماغ سے جتنی زیادہ ڈوپامین گزرتی ہے، ہم اپنی خواہشات کے حصول کے لیے اتنی ہی زیادہ تگ و دو کرتے ہیں۔

کیا آپ کو یاد ہے سائنسدانوں نے چوہوں پر جو تحقیق کی تھی؟ اچھا تو محققین کو معلوم ہوا کہ ایک صحت مند جانور اس مشین کا لیور تیس منٹ میں ایک ہزار مرتبہ دبائے گا جس سے اسے خوراک حاصل ہوتی ہے۔ ایسے چوہے جنھیں ڈوپامین کی سطح کم رکھنے کی دوا کھلائی گئی تھی، انھوں نے معمول سے تقریباً نصف مرتبہ لیور دبایا۔

اور کچھ اس کے علاوہ بھی تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ہر مرتبہ مشین لیور دبانے سے خوراک فراہم کر دیتی تھی۔ نہیں، چوہوں کو اس کے لیے باقاعدہ کام کرنا پڑتا تھا۔ اور خوراک کے ایک نوالے کے حصول کے لیے جتنی زیادہ بار لیور کو دبانا پڑتا تھا، ڈوپامین سے محروم جانوروں کے حوصلے اتنے ہی پست ہوتے تھے۔ جب ایک نوالےکے لیے لیور دبانے کی تعداد 64 تک پہنچ گئی تو چوہوں نے ہمت ہار کر کوشش چھوڑ دی۔

سائنسدانوں نے کبھی انسانوں کو ان کی ڈوپامین سے محروم نہیں گردانا۔ لیکن وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں میں ڈوپامائن کنٹرول سسٹم کم فعال ہوتے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ Attention Deficit Hyperactivity Disorder یا ADHD کا شکار ہوتے ہیں، اس زمرے میں آتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، انھیں خواہشات اور خلفشار پر قابو پانے میں اور توجہ مرکوز رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

دوسری طرف وہ لوگ جن کے ڈوپامین کنٹرول سسٹم بہت فعال ہیں، دانشور، پرجوش اور زیادہ کامیابیاں سمیٹنے والے ہوتے ہیں۔ وہ کم جذباتی ہوتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دباؤ کی حالت میں بھی اپنا دماغ ٹھنڈا رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک برعکس پہلو بھی ہے: ڈوپامائن کا زیادہ کنٹرول انہیں اپنی کامیابیوں سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے سے روکتا ہے۔

آئندہ سطورمیں ہم بہت زیادہ ڈوپامائن کے فوائد اور خطرات کے بارے میں مزید جانیں گے۔

ڈوپامین تخلیقی ذہانت بھی پیدا کر سکتی ہے اور نفسیاتی بیماری بھی، یا یہ دونوں بھی۔

ہمارا دماغ منصوبہ بندی، تخیل اور حکمت عملی کے لیے ‘کنٹرول ڈوپامین ‘کا استعمال کرتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ چیزیں ہمارے مستقبل کو ہمارے حال سے بہتر بنانے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔ لیکن اس مقصد کے حصول کا مطلب اکثر یہ ہوتا ہے کہ معمول سے ہٹ کر سوچا جائے اور بظاہر مختلف چیزوں کے درمیان نیا ربط و تعلق دریافت کیا جائے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں تخلیقیت اپنا کام کرتی نظر آتی ہے۔ یہ معمول سے ہٹ کر ربط و تعلق دریافت کرنے کی مہارت ہے۔

فنکاروں، موسیقاروں اور لکھاریوں کے دماغ ایسے ہوتے ہیں جو ڈوپامین سے مالا مال ہوتے ہیں۔ یہ انہیں نئے، غیر روایتی طریقوں سے سوچنے کی گنجائش دیتی ہے اور ایسے ربط تلاش کرنے پر جو اس سے پہلے کسی نے نہ سوچے ہوں۔

لیکن ڈوپامین کی تخلیقی طاقت کا ایک برعکس پہلو بھی ہے۔ جب ڈوپامین کی سرگرمی بے قابو ہو جاتی ہے تو لوگ وہم، خبط یا جنون کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ صورت حال ان لوگوں میں عام ہے جو شیزوفرینیا یا ذہنی دباؤ کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ڈوپامین تخلیقی ذہانت بھی پیدا کر سکتی ہے اور نفسیاتی بیماری بھی، یا یہ دونوں بھی۔

اگر ہم پیشہ ور فنکاروں، موسیقاروں اور لکھاریوں کا موازنہ دیگر پیشوں کے لوگوں سے کریں تو ہم دیکھیں گے کہ تخلیق کاروں میں شیزوفرینیا اور دیوانگی کے عارضے کے خطرے والے جینز کا حامل ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اور شیزوفرینیا اور دیوانگی کے عارضے والے لوگ اکثر بیماری کے دوران حیرت انگیز فن پارے تخلیق کرتے ہیں۔

تو تخلیقیت اور ذہنی بیماری کے درمیان کیا تعلق ہے؟ خوب، لگتا ہے کہ جواب پھر وہی ہے یعنی ڈوپامین۔

مثال کے طور پر شیزوفرینیا کی ایک بہت عام علامت وہم ہیں۔ شیزوفرینیا کے شکار لوگوں کو اکثر ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے یا ان کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ ڈوپامین اس طرح کے حیرت انگیز توہمات کیسے پیدا کرتا ہے؟

اس سوال کے جواب کا تعلق نمایاں ہونے کے نفسیاتی تصورکے ساتھ ہے۔ یہ اس درجے کو بیان کرتا ہے جس سے کوئی چیز ہمیں بطور فرد ذاتی طور پر اہم محسوس ہوتی ہے۔ ڈوپامین نمایاں ہونے کا یہ تصور پیدا کرنے میں بہت اچھی ہے۔ آپ کو خوراک کی متلاشی وہ عورت یاد ہے جس نے بیریاں دریافت کی تھیں؟ اسے جس قدر زیادہ بھوک لگی ہو گی، جھاڑی کو دیکھ کر اس کا دماغ اتنی ہی زیادہ ڈوپامین خارج کرے گا۔ یہ ڈوپامین اسے اس بات پر قائل کرے گی کہ ڈوپامین اس کی بقا کے لیے کتنی ضروری ہے۔

لیکن جب کبھی ڈوپامائن میں خرابی پیدا ہو جائے، ہو سکتا ہے کہ اچانک سب کچھ انتہائی اہم نظر آنے لگے۔ فرض کریں کہ آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹر ایٹمی پروگرام کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ اچانک، آپ کی نمایاں کرنے والی ڈوپامین متحرک ہو جاتی ہے، اور آپ کا دماغ ایک ربط تشکیل دے ڈالتا ہے۔ اس سے آپ کو یقین ہو جائے گا کہ یہ ایٹمی پروگرام ذاتی طور پر آپ کے لیے کوئی بہت اہم شے ہے۔

ڈوپامین کی مقدار بہت زیادہ ہو جائے تو لوگ اس پر بات پر قائل ہو سکتے ہیں کہ بظاہر عمومی سی چیزیں ان کے لیے کتنی زیادہ متعلقہ ہیں۔ یہ ان توہمات کی بنیاد ہے جو جو شیزوفرینیا سے پیدا ہوتے ہیں۔

ہم میں سے بیشتر لوگ ڈوپامین کی عجیب تخلیقی طاقت کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں۔ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو یہ کیمیکل بہت فعال ہو جاتا ہے – اور اس کے نتیجے میں ہمارے خواب اکثر بظاہر غیر منسلک چیزوں کا ایک عجیب و غریب ہجوم ہوتے ہیں۔

ڈوپامین نے انسانوں کو دنیا فتح کرنے کا موقع دیا۔

ڈوپامین ہمیں نت نئے تجربات کا متلاشی بناتی ہے۔ اور ہمارے دماغ اس کیمیکل کے لیے جتنے زیادہ رسیپٹر رکھتے ہیں، اس کا اثر ہمارے رویے پر اتنا ہی مستحکم ہوتا ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہDRD4 یعنی وہ جین جو ڈوپامین ریسپٹر کے لیے کوڈ بناتے ہیں، کا ایک مخصوص ورژن رکھنے والے افراد خطرپسند، بہادر اور نئی چیزیں سیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریبا 20 فیصد افراد اس جینیاتی انحراف کے حامل ہوتے ہیں جسے DRD4-7R کہا جاتا ہے۔

لیکن یہیں آکر یہ امر دلچسپ ہو جاتا ہے: دنیا کے مختلف خطوں میں اس جین کی موجودگی بہت مختلف ہے۔ شمالی امریکا میں 32 فیصد لوگ اس کے حامل ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر 69 فیصد مقامی جنوبی امریکیوں میں بھی یہ جین موجود ہے۔

ایسا کیوں ہے، یہ جاننے کے لیے آئیے نسل انسانی کی ماخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

یہاں کلیدی نکتہ یہ ہےکہ ڈوپامین نے انسانوں کو دنیا فتح کرنے کا موقع دیا۔

جدید انسان کا ارتقا تقریبا 200،000 سال قبل افریقہ میں ہوا۔ اس کے کئی ہزار سال بعد وہ باقی دنیا میں پھیلنا شروع ہوا۔ وہ تقریبا 75،000 سال پہلے ایشیا پہنچا اور اس کے تقریباً 30،000 سال بعد یورپ میں وارد ہوا۔ اور شمالی امریکا کے آخری کونے میں آباد ہوئے اسے 14،000 سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا۔

جب محققین نے انسا ن کی اس ہجرت اور آبادکاری کے ان نمونوں کا موازنہ 7R جین کی تغیر سے کیا تو حیران کن نتائج سامنے آئے: جو انسانی آبادی افریقہ سے ہجرت کر کے نکلی ہے، ان کے لوگوں میں 7R کی شرح فیصد زیادہ ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا فتح کی ان کا تحرک ڈوپامین کی سرگرمی کے زیادہ ہونے کی دین ہے۔ یہ بات یوں بھی سمجھ میں آتی ہے کہ بالآخر خطرپسندی اور مہم جوئی کا جذبہ ہی آپ کے کام آتا ہے جب آپ کوئی نیا کام کرنے جا رہے ہوں۔

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ امریکہ میں ایشین یا یورپی معاشروں کے لوگوں کے مقابلے میں ڈوپامین کی سطح زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، دنیا میں دماغی خلل کی شرح سب سے زیادہ امریکا میں ہے۔ اس وقت یہ آبادی کے 4 فیصد سے زیادہ ہے۔ دماگی خلل ایک نفسیاتی بیماری ہے جو براہ راست ڈوپامین کی سرگرمی سے منسلک ہوتی ہے۔ جاپان میں، جو ایک ایسی قوم ہیں جن کے ہاں کوئی ہجرت نہیں ہوئی، صرف 0.7 فیصد آبادی اس حالت کا شکار ہوتی ہے۔

تو امریکہ ڈوپامین کی زیادہ شرح والے لوگوں سے کیوں بھرا ہوا ہے؟ خوب، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا تارکین وطن کی قوم ہے، یعنی ایسے لوگ جو ایک نئی دنیا کا سفر کرنے کے لیے خاطرخواہ مہم جوئی کرتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ بیرونی لوگ اکثر امریکیوں کو ضرورت سے زیادہ پُرجوش، کاروباری اور اَن تھک دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر انیسویں صدی کی کلاسیکی کتاب ‘ڈیموکریسی ان امریکا’ میں، فرانسیسی مصنف الیکسس ڈی ٹوک ویل نے ایک پورا باب امریکیوں کے “جنونی جوش” کے لیے مختص کیا ہے۔

ہمارے ڈوپامین کی سطح ہمارے سیاسی عقائد پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

2002 میں، ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کے محققین نے شخصیت اور سیاسی عقائد پر ایک تحقیق شائع کی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تحقیق بھی اس کی تائید کرتی ہے جیسا زیادہ تر ماہرین تعلیم عام طور پر سوچتے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ روشن خیال لوگ سخی اور ملنسار ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف قدامت پسند وں کا جھکاؤ آمریت اور استبداد کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن اصل حقیقت اس کے برعکس تھی۔ چودہ برس بعد محققین نے اعتراف کیا کہ حادثاتی طور پر ان سے ڈیٹا ادل بدل ہو گیا۔ یہ روشن خیال لوگ تھے جو اصل میں آمرانہ اور سنسنی خیزی کے دلدادہ تھے اور قدامت پسند سخی اور ملنسار تھے۔ لیکن ڈیٹا کے ادل بدل کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو ایک بڑا سوال یہ سامنے ہے کہ ان میلانات کی وجہ کیا بیان کی جا سکتی ہے۔ یہاں جواب ایک بار پھر ڈوپامین ہے۔

سو کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ڈوپامائن کی سطح ہمارے سیاسی عقائد پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

روشن خیال لوگ اکثر نیاپن تلاش کرتے ہیں،وہ ترقی چاہتے ہیں. یہ دونوں خوبیاں ڈوپامین سے جڑی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف، قدامت پسند موجود کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ وہ عملی انسان ہوتے ہیں اور نئے پن سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ خوبیاں ان کیمیائی ذرات کا نتیجہ ہیں جن پر ہم نے پہلے بحث کی تھی۔

ایک اور نتیجہ بھی جو اس ربط کے حق میں جاتا ہے یہ ہے کہ روشن خیالی کا انسلاک زیادہ آئی کیو لیول کے ساتھ ہے۔ ایک مطالعے میں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو “انتہائی لبرل” قرار دیا، نے 106 کا اوسط آئی کیو رجسٹر کیا۔ اور جن لوگوں نے خود کو قدامت پسند کہا ان کا آئی کیو لیول اوسطاً 95 رہا۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روشن خیال لوگ زیادہ چست اور ذہین ہوتے ہیں۔ ایک آئی کیو ٹیسٹ ذہانت کی صرف ایک صورت کی پیمائش کرتا ہے یعنی تجریدی سوچ۔ فنکارانہ تخلیقی صلاحیتوں کی طرح یہ بھی ڈوپامین کی عملداری کا علاقہ ہے۔ قدامت پسندوں کے دماغ ان دیگر دماغی کیمیکل کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں جو ان چیزوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو ان کے سامنے ہیں۔ وہ تصوراتی منصوبوں پر فوری حل کو ترجیح دیتے ہیں اور تبدیلی کے بارے میں شبہات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس سے اس امر کی وضاحت ہو سکتی ہے کہ قدامت پسند اکثر ایسی روشن خیال پالیسیوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں جو غریبوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی فلاحی کاموں میں بہت زیادہ مالی امداد بھی کرتے ہیں۔

اس سے اس امر کی وضاحت بھی ہو سکتی ہے کہ قدامت پسندوں میں شادی کا امکان زیادہ کیوں ہوتا ہے اور وہ ڈوپامین کی بلند سطح رکھنے والے روشن خیالوں کی نسبت کم جنسی میلان کیوں رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے دماغ میں ڈوپامین اور H&N کیمیائی ذرات کی سطح ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔ سائنس دان اور سیاستدان جانتے ہیں کہ اس میں جوڑتوڑ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سی سیاسی مہمات خوف کو ہوا دے کر قدامت پسند ایجنڈوں کو فروغ دیتی ہیں۔ خوف، جو ایک ایسا شدید جذبہ ہے جو ‘روشن خیال ڈوپامین ‘ کو دبا دیتا ہے۔ دوسری طرف، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب لوگ ڈوپامین پر منحصر تجریدی سوچ کا استعمال کرتے ہیں تو وہ روشن خیال افکار کے لیے زیادہ کشادہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی عقائد، بالکل ہماری دماغی کیمسٹری کی طرح، کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہیں۔

خوشی کا مطلب ہے ڈوپامین کی یورش اور H&N کیمیائی ذرات کے مابین توازن پیدا کر لیا جائے۔

ڈوپامین ہماری خواہشات، ہماری استقامت، ہماری تخلیقی صلاحیتوں اور یہاں تک کہ ہمارے سیاسی عقائد کا ماخذ ہے۔ ہم میں سے بیشتر کے لیے، یہ وہ خصوصیات ہیں جو ہمیں ہماری شناخت عطا کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے تمام مختلف دماغی کیمیکلز میں سے، ہماری شناخت کا زیادہ تر انحصار ڈوپامین ہی پر ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدار کے لحاظ سے ہمارے دماغ کے کیمیائی ذرات میں سے ایک چھوٹاسا حصہ ڈوپامین پر مشتمل ہوتا ہے۔ درحقیقت، آپ کے کردار کی بہت سی خصوصیات کا ڈوپامین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے باوجود ہم اکثر اپنی زندگی کو ڈوپامین کے آئینے ہی میں دیکھتے ہیں۔

ڈوپامین ہمارے لیے باعث تقویت ہو سکتی ہے۔ یہ ڈوپامین ہی ہے جس سے ہم زیادہ کی طلب کرتے ہیں، یہ ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت دیتی ہے۔ ہزاروں سال پہلے یہ ہماری بقا کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل تھی۔ تاہم اس جدید دور میں ضروری نہیں کہ ہر مرتبہ افراط ہی فائدہ مند ہو اور آگے بڑھنا ہی ہر مرتبہ خوشی کا باعث ہو۔

سو کلیدی نکتہ یہ ہے کہ خوشی کا مطلب ہے ڈوپامین کی یورش اور H&N کیمیائی ذرات کے مابین توازن پیدا کر لیا جائے۔

جدید معاشرہ ایک ایسے طرز زندگی کو بڑھاوا دیتا ہے جس میں ڈوپامین کی کارفرمائی زیادہ ہو۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ زیادہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے، زیادہ کامیابیاں، زیادہ تفریح ​​، زیادہ خرچ۔ عالمی سطح پر، اس نقطہ نظر کے پہلے ہی تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری پیداوار اور کھپت کی رفتار نے موسمیاتی تبدیلی کو ایک خوفناک حقیقت بنا دیا ہے۔

فرد کی سطح پر بھی یہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ گھنٹوں تک کام کرنے سے، بے تکا خرچ کرنے سے اور جو کچھ پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے، اس کی مناسب تحسین نہ کرنے سے خوشی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بدقسمتی سے ہمارے دماغ کا ارتقا اس طرز پر ہوا ہے کہ یہ ہمیں خوش رکھنے کےلیے نہیں بلکہ زندہ رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈوپامین پر، جو زیادہ کی خواہش پیدا کرنے والا ذرہ ہے، اس کا ردِعمل زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خوشی ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل کوشش چاہتا ہے۔

ایک پُرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مستقبل گیر ڈوپامین کے تقاضوں اور H&N کے کیمیائی ذرات کے مابین توازن تلاش کر لیا جائے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں لامتناہی ڈوپامین کے تحرک کے کولہو سے اترنے کی ضرورت ہے

اور شعوری طور پر یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ H&N کے کیمیائی ذرات کی کارفرمائی سے لطف اندوز ہوا جائے جو زیادہ امن پسندی اور بشاشت کی طرف لے جاتا ہے۔

زیادہ متوازن رہنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کوئی ایسا شوق تلاش کیا جائے جو دونوں قسم کے دماغی کیمیکلز کو متحرک کرے۔ مثال کے طور پر کھیل، کھانا پکانا، باغبانی اور دستکاری، دونوں قسم کے دماغی کیمیکلز کو استعمال میں لا کر منصوبہ بندی اور اس پر پیش رفت کا سامان کرتے ہیں۔ تو پھر اگر ہم ڈوپامین اور H&N کے کیمیائی ذرات کے درمیان صحیح توازن تلاش کر سکتے ہیں، تو ہم خواہش اور اطمینان، تمنا اور لطف اندوزی، پیش رفت اور امن کے مابین موثر اور تسلی بخش ربط استوار کر سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...