میں ہوں نجود

514

 

طلاق

15 اپریل 2008

عدالت کی دی ہوئی تاریخ کا دن توقع سے بھی جلدی آپہنچا تھا۔ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میرے خدا اتنے زیادہ لوگ! کیا ہال میں جج کے سامنے بیٹھےیہ سب لوگ صرف میری وجہ سے آئے ہوئے ہیں ؟  شدا باجی پہلے ہی مجھے بتا چکی تھیں کہ بسا اوقات کیس کی تیاری میں بہت وقت لگ جاتا ہے، لیکن میڈیا کے ذریعےان کی چلائی ہوئی مہم رنگ لائی تھی۔ شدا باجی بھری عدالت میں تیزی سے نمودار ہوئیں۔ میں دوسری بار انہیں دیکھ رہی تھی۔ پچھلی ملاقات کو شاید ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ یہ ایک ہفتہ وہ صحافیوں، نیوز رپوٹرز اور حقوق نسواں کی تنظیموں سے رابطے کرتی رہیں اور ایک معجزہ برپا کر دکھایا۔ پوری زندگی میں میں نے کبھی اتنے کیمرے نہیں دیکھے تھے۔ مجھے تو سانس چڑھ گیا،یہاں آکسیجن کی کمی ہے یا پھر پہلے پہلے ایسا ہوتا ہے؟سیاہ حجاب کے اندر ہی اندر میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

“تھوڑا سا مسکرائیے،نجود!”ایک کیمرہ مین اونچی آواز میں بولا۔ وہ کہنی سے لوگوں کو دھکے دیتا ہوا میری طرف راستہ بناتا ہوا آرہاتھا۔

ابھی وہ میرے قریب نہیں پہنچا تھا کہ میرے سامنے کیمرے اور دوسرے آلات کی لائن سی لگ گئی۔ یہاں تو ویڈیو کیمرے بھی تھے !میں شرم سے سرخ ہوگئی۔ فلیش لائٹس کی چمک مجھے خوف زدہ کیے دے رہی تھی۔ مجھے اس ہجوم میں کوئی جانا پہچانا چہرہ نظر نہیں آیا۔ کتنے سارے لوگ ہیں !۔ ۔ ۔ میں شدا باجی کے ساتھ چپک رہی تھی۔ ان کے پاس ہونے سے مجھے اطمینان ہورہا تھا۔ ان کا چنبیلی کا پرفیوم اب مجھے مانوس لگتا تھا اورمجھے ان سے ممتاکی خوشبو آتی تھی۔

” شدا باجی !”

“بولو نجود!”

“مجھے ڈر لگ رہا ہے!”

“ہم لوگ ہیں نا تمہارے ساتھ،ہم ہیں۔ “وہ دھیمی آواز میں بولیں۔

میں نے تو کبھی سوچا نہیں تھا کہ میری وجہ سے اتنا کچھ ہوجائے گا۔ وہ لڑکی جو مہینوں کچھ بولی نہیں تھی آج اسے ایک اسٹیج پر کھڑے ہوکر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دینا تھے۔ شدا باجی نے تو کہا تھا کہ کوئی نہیں آئے گا صرف ہم دونوں ہوں گے۔ اگر ان لوگوں نے سوالات شروع کردیے تو میں انہیں کیا بتا ؤں گی ؟مجھے تو کسی نے سکھا یا ہی نہیں تھا کہ ایسے موقع پر کیا کرنا ہے۔

” شدا باجی!”

“بولو نجود ! کیا بات ہے؟”

“اس چکا چوند کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں امریکی صدر جارج بش جیسی ہوں وہ لمبے سے جن کو اکثر ٹی وی پہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ”

شدا باجی مسکرا کر بولیں:”زیادہ نروس مت ہو۔ ۔ ”

میں بظاہر تو مسکراتی دکھائی دینے کی کوشش کررہی تھی مگر اندر ہی اندر شل سی ہورہی تھی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں حرکت نہیں کرسکتی اور میرے پیر زمین میں گڑ گئے ہوں۔ ایک بات جس کا خوف میرے دل میں جاگزیں تھا اور وہ میں شدا باجی سے پوچھنا بھول گئی تھی کہ آخر یہ طلاق ہوگی کیسے؟مجھے کبھی سکول میں کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا،حالانکہ میں اور میری سہیلی ملاک ایک دوسرے سے ہر قسم کی باتیں کرتے تھے مگر اس بارے میں کبھی بات نہیں ہوئی،شاید ہم نے یہ سوچا ہو کہ یہ چیز بڑوں سے متعلق ہے اور ہم تو ابھی بہت چھوٹی ہیں، ہمارا بڑوں کےمعاملات سے کیا لینا دینا؟اور تو اور ہماری استانیاں شادی شدہ یا طلاق یافتہ تھیں کبھی ان سے بھی اس بارے میں پوچھنے کی طرف دھیان نہیں گیا۔ اسی وجہ سے تو اپنے آس پڑوس کی خواتین کی جو کہانیاں سننے کو ملتیں میں ان سے اپنا موازنہ نہیں کر پارہی تھی۔

یکا یک ایک خوفناک خیال سے میرا دماغ جھلا اٹھا کہ اگر اس وحشی نے طلاق دینے سے صاف انکار کردیا تو پھر کیا ہوگا؟اگر وہ ضد میں آکر ہماری مخالفت پہ اڑ جائےاور ججز کے خلاف اپنے دوستوں،رشتہ داروں اور گاؤں والوں کو کھڑا کردے تو ؟کیا پتہ کچھ بھی تو ہو سکتا ہے!۔ ۔ ۔

“تم بے فکر رہو،کچھ نہیں ہوگا۔ ۔ ۔ “شدا باجی میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولیں۔

میں نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا،یوں لگ رہا تھا کہ وہ گزشتہ رات سو نہیں پائی ہوں۔ ان کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نظر آرہے تھے اور وہ تھکی تھکی دکھائی دے رہی تھیں۔ میرا دل بھر آیا کہ یہ سب میری وجہ سے ہورہا ہے۔ باوجود تھکاوٹ کےاس کی تازگی اور حسن پہ کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ سچ میں وہ کسی شہزادی سے کم نہیں تھی ! میں دیکھ رہی تھی کہ انہوں نے اب اپنی قمیض سے ملتی جلتی گلابی رنگت کی چادر لی ہوئی تھی۔ گلابی رنگ میر ے پسندیدہ رنگوں میں سے تھا!آج میں نےلمبا خاکستری پیٹی کوٹ اور اونچی ہیل والے سینڈل پہنے ہوئے تھے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ آج شدا باجی یہاں میرے ساتھ تھیں۔

اچانک میں نے ہجوم میں ایک ہاتھ کو اپنی طرف ہلتے دیکھا،یہ تو یمن ٹائمز کے نامہ نگار حامد ثابت تھے! آخر کوئی تو ملا جسے میں پہچانتی تھی۔ حامد بھائی سے میری نئی نئی دوستی ہوئی تھی،وہ میرے لیےسگے بھائی کی طرح تھے۔ وہ شدا باجی کے جاننے والوں میں سے تھے اور مجھے شدا باجی نے ہی ان سے ملوایا تھا۔ لمباقد،گندمی رنگ،گول سا چہرہ اور چوڑی ہتھیلیوں والے حامد بھائی اپنے نرم برتاؤ سے فوراً میرے دل میں جگہ بنا چکے تھے۔ پتہ نہیں کتنی عمر تھی ان کی،میں نے پوچھنے کی جرات نہیں کی۔ ہم چند دن پہلے ہی عدالت کے احاطے میں ملے تھے تقریباً اسی جگہ جہاں اس سے کچھ ہی دیر پہلے شدا باجی مجھ سے ملی تھیں۔

سب سے پہلے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ میری ایک تصویر کھینچ سکتے ہیں ؟پھر ہمیں عدالت کے قریب ہی ایک ہوٹل میں لے گئے۔ وہاں قلم اور ڈائری سنبھالی اور مجھ سے میرے گھر والوں،میری شادی،میرے گاؤں خارجی،سہاگ رات اور نہ جانے کس کس چیز سے متعلق ڈھیروں سوالات کیے۔ میں انہیں اپنی کہانی سناتے ہوئے مارے شرم کے سرخ ہوگئی تھی۔ جب میں انہیں بیڈ کی چادر پر سرخ نشان کا بتارہی تھی تو میں نے اس وقت ان کی تیوریاں چڑھتی دیکھیں،مجھےیقین سا ہونے لگا کہ وہ میرا ساتھ دیں گے۔ میں دیکھ رہی تھی کہ وہ پریشانی کے عالم میں قلم کو ٹیبل پر مار رہے تھے۔ اگر چہ وہ اپنے تاثرات چھپانے کی کوشش کررہے تھےلیکن ان کا دکھ دکھائی دے رہا تھا۔ میں بس انہیں دیکھتی رہی۔ وہ میرے دکھ میں برابر شریک لگ رہے تھے۔ معاملہ واضح تھا کہ یہ لوگ میرا ساتھ دیں گے۔ آخر کا ر وہ ہکلا کر بولے:

“لیکن تم تو بہت چھوٹی ہو ! وہ تمہارے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیسے کر سکتا ہے؟”

عجیب بات یہ تھی کہ اس بار مجھے رونا نہیں آیا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں گویا ہوئی:

“میں اپنی ہمجولیوں کی طرح باہر کھیلنا چاہتی تھی مگر وہ مجھے مارتا اور زبردستی اپنے ساتھ کمرے میں لےجاتا اور گھناؤنے کام کراتا۔ ۔ ۔ میرے ساتھ بات کرتے ہوئے وہ بہت ہی غلیظ الفاظ استعمال کرتا۔ ”

جب حامد بھائی ہمیں رخصت کررہے تھے تو ان کا دفتر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،انہوں نے تمام تر تفصیلات جمع کیں اوراسی کے بدولت جیل جاکر میرے والد اور شوہر کی تصویریں اپنے موبائل سے کھینچ کر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مجھے کئی دن بعد شدا باجی نے بتایا کہ اس کا وہ کالم شائع بھی ہوچکا تھا اوراس نے پورے یمن میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ حامد بھائی پہلے صحافی تھے جو میری اس کہانی کو لوگوں کے سامنے لے آئے تھے،یہ بات توتھی کہ میں بہت تنگ آگئی تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ مجھے آج انہی کی کئی باتیں ماننی ہوں گی۔

ہال کے داخلی راستے پہ کیمرےدھڑا دھڑ کھڑکھڑانے اور فلیش چمکنے لگے۔

میراجسم کانپ اٹھا،اب مجھے اپنے والد اور شوہر کا سامنا کرنا تھا! وہ دونوں سبز لباس میں ملبوس پراگندہ حال دو سپاہیوں کے پہرے میں لائے جارہے تھے۔ میرے شوہر نے میرے سامنے سے گزرتے ہوئے نظریں جھکالیں،مگر اچانک وہ گھوما اور شدا باجی کی طرف دیکھ کر چلایا :

“بہت فخر ہورہا ہوگا ناں تمہیں اپنے اوپر ؟اپنی شادی پر میں اچھی طرح ولیمہ نہیں کرپایا تھا تو تم نے یہاں یہ اہتمام کرڈالا !واہ کیا کارنامہ کردکھایا ہے! ”

وہ کیسے ان سے اس طرح بات کر سکتا ہے؟وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے شدا باجی کو دیکھا مگر وہ پرسکون دکھائی دے رہی تھیں، اس نے اپنی نظریں تک نہیں جھکائی تھیں۔ اس عورت کی کمال کی یہ ہمت مجھے حیرت زدہ کررہی تھی۔ اس کے جذبات کا اندازہ لگانے کے لیے کہیں اور دیکھنے کی ٖضرورت نہیں تھی،اس کے اس دیکھنے سے ہی اندازہ لگا یا جاسکتا تھا کہ اسے میرے شوہر کی جانب سے کس توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میں اسے دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ اس پر کیا گزری ہے۔ ان آخری چند دنوں میں، میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا تھا۔

“اس کی باتوں پر دھیان نہ دو”وہ مجھ سے کہنے لگیں۔

میں شدا باجی کی طرح اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ کم از کم اب تک تو نہیں، میرے پاس کوئی حل نہیں تھا، میرا دل گھبرا رہا تھا۔ اس نے جو میرے ساتھ کیا تھا اس کے بعد مجھے اس سے سخت نفرت ہوگئی تھی۔ میں نے نظریں اٹھائیں تو میری آنکھیں میرے والد کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ وہ بہت ہی غضبناک دکھائی دے رہےتھے، مجھے سمجھداری سے کام لینا ہوگا مگر میری یہ حرکت تاعمر ان کی سینے میں غصے کی آگ بھڑکاتی رہے گی۔ عزت! ناموس! آج ان کا چہرہ دیکھ کر مجھے معلوم ہوا کہ اس پیچیدہ لفظ سے ان کی کیا مراد ہوا کرتی تھی۔ مجھے ان کی آنکھوں میں بیک وقت غصہ اور احساس ذلت صاف نظر آرہے تھے۔ میرے دل میں ان کے لیے بے انتہا تاؤ کے باوجود میں خود کو ان پر ترس کھانے سے نہ روک سکی۔ جو بھی تھا بہر حال معاملہ سنگین تھا اور مردوں کی عزت واحترام کی یہاں اہمیت تو ہے۔

“کیا ہڑبونگ مچی ہوئی ہے!میں نے کبھی عدالت کو ایسےکھچا کھچ بھرا ہوانہیں دیکھا!”ایک سیکورٹی گارڈ چلایا۔

ایک اور اہم شخصیت کی آمد ہوئی تو کیمروں کے فلیش پھر سے چمکنے لگے۔ چیف جسٹس محمد غازی پہنچ گئے تھے۔ آج انہوں نے سفید پگڑی پہنی ہوئی تھی جس کو سر کے پیچھے باندھ رکھا تھا۔ اپنے سفید کرتے پر انہوں خاکی رنگ کی چادر لی ہوئی تھی۔ ان کی مونچھیں اٹھی ہوئیں اورداڑھی چھوٹی سی تھی۔ ان کے پہلو میں بڑی شان سے ایک خنجر لٹکا ہوا تھا جو ان کے قبیلے کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھا۔

میری نظریں ان پر گڑ گئی تھیں، اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت پہ میری نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ پھر وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے،ان کے سامنے ٹیبل پر ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے مائیکوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھے اور اپنی فائلیں سامنے رکھ لیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی وزیر اعظم خطاب کرنے والا ہو۔ ان کے پاس ہی صوفے پر جج عبدو بیٹھ گئے۔ میری خوش قسمتی تھی کہ ان دونوں کی ہمدردیاں میرے ساتھ تھیں!مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہیں آرہا تھا۔

“بسم اللہ الرحمن الرحیم “جسٹس غازی صاحب نے کارروائی کا آغاز کردیا اور ہمیں قریب قریب ہونے کا اشارہ کیا۔ شدا صاحبہ نے مجھے اپنے ساتھ آگے ہونے کا اشارہ کیا اور ہمارے بائیں طرف میرے والد اور شوہر بھی آگے ہوگئے۔ ہمارے پیچھے ہجوم بھی حرکت میں آگیا۔ میں ایک طرف تو بے پناہ تقویت محسوس کررہی تھی اور دوسری طرف ایک بے قابو سی کمزروی کا احساس بھی ہورہا تھا کہ کہیں اچانک ہی پانسہ پلٹ نہ جائے۔ میں دونوں ہاتھ بغلوں میں دے کر کھڑی ہوگئی اور خود کو ثابت قد م رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔

اب جج عبدو بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا ” اس وقت ہمارے پاس ایک چھوٹی سی بچی کا کیس آیا ہے جس کی جبری شادی کرادی گئی ہے اور نکاح فارم پہ دستخط لیے گئے ہیں،پھر اس کی رخصتی بھی کروادی گئی اور وہاں اس کے شوہر نے اس سے جنسی تعلق قائم کیا حالانکہ وہ ابھی تک سن بلوغ کو بھی نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی ایسے کسی جسمانی تعلق کے لیے تیار تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس کو مارتا اور ذلیل بھی کرتا رہا ہے۔ آج وہ بچی یہاںموجود ہے اور طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ ”

وہ گھڑی آگئی جس کا میں مدت سے انتظار کررہی تھی۔ جب مجرموں کو ان کےکیے کی سزا ملنی تھی،جیسے سکول میں ہوا کرتا تھا کہ مس ہمیں ایک کونے میں بھیج دیا کرتی تھیں۔ میرے لیے اس کی سزا سے زیادہ اہمیت اس بات کی تھی کہ مجھے اس کے خلاف کامیابی ملے اور وہ طلاق وینے پر راضی ہوجائے۔

جسٹس محمد غازی نے اپنے ہتھوڑے کو سامنے رکھے ٹیبل پہ مارا اورمیرے شوہر سے مخاطب ہوکر بولے”میری بات سن لیں،آپ پہ الزام ہے کہ دو ماہ پہلے آپ نے اس بچی سے شادی کی ہے اور اس کےساتھ سوتے رہے ہیں اور مار پیٹ کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ہاں یا نہ میں جواب دیں!

وہ کچھ دیر پلکیں جھپکاتا رہا پھر بولا”ہر گز نہیں !یہ سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے تو اس کی اور والد کی مرضی سے اس سے شادی کی ہے۔ ”

دیکھا کیسی ڈھٹائی سے جھوٹ بول دیا ؟کتنا جھوٹا انسان ہے ! مجھے نفرت ہے ا س سے !

“کیا تم اس کے ساتھ سوئے ہو؟”جسٹس غازی نے اپنا سوال دہرایا۔

ہال میں چھائی خاموشی میں اس کی آواز گونجی:

“ہر گز نہیں!”

“کیا تم نے اسے مارا پیٹا ہے؟”

“بالکل بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں نے تو کبھی اس پر سختی کی ہی نہیں”

میں نے شدا کی چادر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ زرد دانت،طنزیہ مسکراہٹ اور بکھرے بال لیے یہ آدمی کیسے اس حد تک یقین سے یہ بات کہہ سکتا ہے۔ ایک جھٹکے میں اس نے اتنے سارے جھوٹ کیسے بول لیے؟ میں  اس کو یوں نہیں چھوڑ سکتی۔ مجھے کچھ کہنا ہوگا۔ “یہ جھوٹ بول رہا ہے”

جج صاحب نے جلدی جلدی ایک صفحے پر کچھ لکھا پھر میرے والد کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:

“کیا یہ شادی تمہاری رضامندی سے طے پائی تھی؟”

“جی،ہاں”

“تمہاری بیٹی کی عمر کیا ہے؟”

“تیرہ سال کی ہے”

کیا! تیرہ سال ؟مجھے تو آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ میں تیرہ سال کی ہوں ! میری عمر تیرہ سال کب سے ہوگئی َ؟زیادہ سے زیادہ نو دس سال سے اوپر میری عمر تو ہرگز نہیں!خود کو پرسکون رکھنے کے لیے میں اپنی انگلیوں سے کھیلنے لگی اور پھر سے ان لوگوں کی باتیں سنناشروع کیں۔

میرے والد کہہ رہے تھے”میں نے اس کی شادی اس وجہ سے کی کہ مجھے خوف تھا۔ ۔ ۔ “ان کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ خوف؟کس چیز کا خوف؟

“مجھے یہ خوف تھا کہ کہیں اپنی دو بڑی بہنوں کی طرح یہ بھی اغوا نہ ہوجائے،۔ ۔ “میرے والد اپنی دونوں مٹھیاں اوپر اٹھائے کہہ رہے تھے،”!میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے،اس سے پہلے ایک آدمی میری دو بیٹیوں کو اٹھا چکا ہے،اب وہ آدمی جیل میں ہے”

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے،ان کی باتیں بہت گہری اور پیچیدہ تھیں۔ دوسری طرف جج صاحب کے سوالات بھی میرے سر کے اوپر سے گزر رہے تھے میں اس گفتگو کو سمجھنے سے قاصر تھی،شروع میں ان کی باتیں ہلکی پھلکی لگ رہی تھیں پھر سخت ہوتے ہوتے یوں لگنے لگا جیسے دیوار پہ پتھر مارے جا رہے ہوں  اور وہ ٹکرا کر ہر طرف اڑ رہے ہوں۔ گفتگو کا آہنگ تیز سے تیز تر اور لے بلند تر ہوتی گئی۔ میں نے دونوں ملزموں کوآپس میں لڑتے سنا۔ ہال میں کھسر پھسر ہونے لگی اور میرے دل کی دھڑکن رفتہ رفتہ تیز ہوتی گئی۔ میرے شوہر نے اٹکتے اٹکتےکچھ کہا جو جج محمد غازی کی سمجھ میں نہیں آیا تو انہوں نے کئی بار اپنے ہتھوڑے کو ٹیبل پہ  مارا اور اعلان کیا:”لڑکی کے شوہر کی خواہش پر مزید کارروائی تخلیہ میں ہوگی”

وہ لوگوں سے الگ ہمیں ایک دوسرے ہال میں لے گئے۔ ہجوم سے نکلتے ہی مجھے کچھ سکون کا احساس ہوا،کیونکہ جو بھی تھا مگر یہ باتیں بہت ذاتی نوعیت کی تھیں۔ سوالات وہاں از سر نو دہرا ئے جائیں گے اور مجھے ڈانٹنا ہوگا۔

“محترم فائز علی تامر،یہ بتائیے کہ کیا آپ نے اس لڑکی کے ساتھ ہم بستری کی ہے ؟ہاں یا ناں میں جواب دیں”جج نے پوچھا۔

میں نے اپنی سانسیں روک لیں۔

“ہاں !لیکن میں ان کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آیا ہوں۔ ۔ ۔ ان کا بہت خیال رکھا ہے۔ ۔ ۔ میں نے ان کو مارا بالکل بھی نہیں،”

اس کا یہ جواب ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح میرے منہ پہ لگا،اور میرے آنکھوں کےسامنے وہ سارے مناظر گھوم گئے،وہ مار پیٹ،وہ تکلیف اور درد۔

“کیسے اس نےمجھے نہیں مارا؟ میرے بازو پہ کاٹنے کے نشان،اور درد کے مارے میرا بےتحاشا رونا؟ تمہیں اس کی بات کا جواب دینا ہوگا!”میرے اندر ایک آواز آئی۔ میں آپے سے باہر ہو گئی اور پوری طاقت سے چیخ پڑی:

“یہ جھوٹ ہے!”

ساری نظریں میری طرف گھوم گئیں،اپنی اس بےساختہ حرکت پر سب سے پہلے میں خود ہی دہشت زدہ ہوگئی۔

اسی وقت کئی ساری باتیں بہت تیزی سے ہوگئیں،میراشوہر غصے سے لال پیلا ہورہا تھا اور وہ کہہ رہا تھا کہ اس کے والد نے اس کی عمر کے بارے میں جھوٹ بول کر اسے دھوکا دیا ہے۔ دوسری طرف میرے والد اپنے اعصاب پر قابو کھو بیٹھے تھے۔ وہ میرے شوہر کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ ان سے ہم نے طے کیا تھا کہ جب تک لڑکی بڑی نہ ہو تب تک یہ اس کے قریب نہیں جائے گا۔ اسی وقت میرے شوہر نے کہا کہ وہ طلاق دینے پر راضی ہے لیکن اس کی یہ شرط ہے کہ میرے والد مہر میں دی ہوئی رقم اسےواپس کردیں!میرے والد نے سرے سے یہ بات ماننے سے انکار کردیا کہ اس نے مہر میں کوئی رقم دی بھی تھی۔ یہ ہم کسی بازار میں بھاؤ تاؤ کر رہے ہیں ؟کب دیا ؟کتنا دیا؟کون سچ بول رہا تھا اور کون جھوٹ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ایک نے رائے دی کہ اگر اس کیس کی فائل بند کرنی ہے تو اسے پچاس ہزار ریا ل دے دیے جائیں،میں بےتوقیر ہوگئی تھی۔ ایسے واقعات کے آگے بند باندھنا ہوگا!اورمجھے پہلی اور آخری بار سلامتی سے آزاد کیا جائے۔ بہت ہوگیا !یہ بڑوں کی لڑائیوں میں بچوں کا پسنا بند ہوجانا چاہیے!

آخرجج صاحب نے میری آزادی کا فیصلہ سنا دیا:

“یہ عدالت طلاق کا حکم سناتی ہے!”

طلاق کا حکم سناتی ہے؟مجھے اپنے کانوں پہ یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ اچانک ملنے والی اس خوشخبری کی وجہ سے میں خوشی سے نہال ہورہی تھی۔ مارے خوشی کے میں نے اس بات پہ دھیان ہی نہیں دیا کہ جج صاحب نے میرے والد اورمیرے شوہر کی بغیر کسی سزا اور آئندہ کے لیے اچھے سلوک کا وعدہ لیے بغیر ہی رہائی کا حکم بھی دے دیا تھا!اپنی کھوئی ہوئی آزادی واپس ملنے پر میں کھل کر لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔ میں ہال سے نکلی تو دیکھا کہ ہجوم اب بھی موجود تھا اور پہلے سے بڑھ کر شور مچا ہوا تھا!       “کچھ کہنا چاہیں گی میڈیا پہ!ایک دو جملے بس!” ایک صحافی اونچی آواز میں بولا۔

میرے آس پاس لوگ مجھے دیکھنے کے لیے دھکم پیل کرنے لگے۔  وہ تالیاں بجارہے تھے،کسی طرف سے آرکسٹرا پہ مبارک باد کی دھنیں بج اٹھیں۔ ایک طرف سے کسی کو سنا کہ یہ تو دنیا کی سب سےکم عمر ترین طلاق یافتہ لڑکی بن گئی۔ میرے اوپر تحائف بارش کی طرح برسنے لگے۔ ایک آدمی نے چپکے سے ایک سوپچاس ریا ل میر ے ہاتھ میں تھمائے اور کہا کہ یہ ایک سعودی شخص کی طرف سے عطیہ ہیں۔ میں نے کبھی زندگی میں اتنی رقم اپنے پاس نہیں دیکھی تھی۔

ایک آدمی چلا کر بولا:

“یہ لڑکی بہت ہی بہادر ہے۔ ۔ ۔ اس کو اس کا صلہ ملنا چاہیے!”

ایک اور آدمی نے کسی عراقی خاتون کے بارے میں بتایا کہ وہ مجھے کچھ سونا دینا چاہتی ہیں۔

میرے ارد گرد کیمروں کے فلیش چمک رہے تھے۔ صحافیوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا۔ اچانک ہجوم میں سے میرے ایک چچا شدا کو مخاطب کرکے چلائے”تم نے ہمارے خاندان کی عزت تار تار کردی ہے،ہماری ناموس کو خاک میں ملا دیا ہے!”

شدا میری طرف مڑیں اور بولیں:

“یہ ہفوات بک رہا ہے”

انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اورمجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ اب میری اپنے چچا سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں رہی تھی۔ میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوچکی تھی!مجھے طلاق مل چکی تھی!اب کوئی شادی نہ ہوگی!کتنا ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا،یک دم سے اپنا بچپنا واپس مل جانے پر عجیب سی سرشاری محسوس ہورہی تھی۔

” شدا باجی!”

“بولو نجود!”

“میں پھر سے کھیلنا چاہتی ہوں !میں اپنی پسندیدچاکلیٹ اور کینڈی کھانا چاہتی ہوں ”

جواب دینے کی بجائے وہ مسکرادیں۔

سالگرہ

عدالت سے باہر آنے کے بعد سے مجھ پہ عجیب سی سرشاری کی کیفیت طاری تھی۔ ایک دکان کے سامنے سے گزرتے آئس کریم والے کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ” اب میں اس جیسی ایک،دو، بلکہ تین بھی لے سکتی ہوں”۔ دور سے ایک بلی کو دیکھ کر میں نے اس کے ساتھ کے لیے اس کی طرف پاؤں ہلایا۔ میں اردگرد یوں دیکھ رہی تھی جیسے زندگی کی یہ رعنائیاں پہلی بار دیکھ رہی ہوں،ایک خوشی کا سماں طاری تھا۔ یہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔

“شدا باجی، میں کیسی لگ رہی ہوں ؟”

“بہت ہی خوبصورت!”

شدا باجی نے میری کامیابی کی خوشی میں مجھے کپڑوں کا ایک نیا جوڑ ا تحفے میں دیا۔ پھولدار اونی قمیص اور رنگا رنگ تتلیوں کے ڈیزائن والے ہلکے پیلے رنگ کی جینز پہنے مجھےیوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں کوئی نئی نجود ہوں۔ سبز ربن لگے چوٹی کی شکل میں بندھے میرے لمبے بال مجھے بہت خوبصورت لگ رہے تھے،پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کم عمری میں ہی مجھ پر مسلط کیے گئے سیاہ عبایے سے نجات مل گئی تھی۔

یمن ٹائمز کی شاندار چار منزلہ عمارت میں حامدبھائی اور چند دوسرے صحافیوں سےمیری ملاقات طے تھی،دروازے پر ایک چوکیدار ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ میں تھکے تھکے قدموں کے ساتھ لکڑی کی گرل تھامے سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھتی رہی۔ کھڑکیوں کے شیشے اتنے صاف اور شفاف تھے کہ سورج کی روشنی منعکس ہوکر سفید دیوار پر زرد دائرے بنار ہی تھی۔ اندر فضا میں بھینی بھینی سی خوشبو رچی ہوئی تھی۔

دوسری منز ل پر یمن ٹائمز کی ایڈیٹر نادیہ نے میرا استقبا ل کیا اور مجھے گلے لگایا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایک عورت بھی کسی اخبار کی ایڈیٹر ہوسکتی ہے۔ اس کے شوہر نے کیسے اس کی اجازت دی ہوگی؟

نادیہ صاحبہ نےمجھے حیرت کے سمندر میں ڈوبا دیکھ کر ایک قہقہہ لگا یا اور کہا:”میرے ساتھ آؤ”

انہوں نے اپنے کشادہ اور روشنی سے معمور دفتر کے بالکل متصل ایک دروازے کو کھولا،یہ کسی بچے کا کمرہ لگ رہا تھا،فرش پہ چھوٹے تکیے اور کھلونے بکھرےپڑ ےہوئے تھے۔

“یہ میری بیٹی کا کمرہ ہے،کبھی میں اس کو بھی ساتھ لے آتی ہوں،تویہاں بیک وقت کام کے ساتھ ایک ماں کی ذمہ داری بھی پوری کرتی ہوں “۔

بیٹی کا کمرہ!یہ نئی دنیا تھی جو میرے سامنے اب کھل رہی تھی اور یہ میری دنیا سے یکسر مختلف تھی،مجھے تو یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی دوسرے سیارے پر آگئی ہوں،معاملہ بیک وقت مرعوب کردینے والا اور مسحور کن تھا۔

یہ تو ابھی اس حیرت کدے کی ابتدا تھی،جھٹکا تومجھے تب لگا جب نادیہ صاحبہ مجھے “ادارتی کمرے “میں لے گئیں جہاں اکثر تعداد خواتین صحافیوں کی نظر آرہی تھی،ان میں سے کچھ نے سر تا پا سیاہ عبایا پہنا ہوا تھا،صرف تبھی ان کا نقاب سرکتا تھا جب انہیں چائے کی چسکی بھرنی ہوتی تھی۔ کچھ نے سنگتری اور لال رنگ کے سکارف پہنے ہوئے تھے جن سے کچھ بھورے بال جھلک رہے تھے،ان کی آنکھیں نیلی اور چہرے کی رنگت دودھیا تھی۔ ان کے ناخن لمبے لمبے تھے جن پہ کچھ لگا ہوا تھا۔ وہ کسی نامانوس عربی لہجے میں بات کررہی تھیں۔ ضرور یہ غیر ملکی ہوں گی۔ ۔ ۔ شاید امریکی یاجرمن؟ہو سکتا ہے ان کی شادیاں یہاں کے مردوں سےہوئی ہوں۔  یقیناً اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں بڑے اداروں میں سالوں پڑھائیاں کی ہوں گی۔ سب شدا باجی کی طرح اپنی ذاتی گاڑیاں چلاتی تھیں۔

میں نے خیالوں میں ہی ٹی وی ڈراموں کی طرح ان کو قہوہ اور سگریٹ پیتے دیکھا،بلکہ ہوسکتا ہے یہ جب شام کو بازار جانے نکلتی ہوں تو لپ اسٹک بھی لگاتی ہوں۔ ایک خاتون فون پہ بات کرنے میں مصروف تھی۔ ضرور کوئی اہم کال ہوگی۔ میں اس کی سریلی آواز کو بغور سننے لگی۔ لگتا تھا کہ انگریزی زبان بول رہی ہے، میں نے سوچا کہ ایک دن میں بھی انگریزی بولوں گی۔

باقی تو خیر لیکن یہ سوچ سوچ کر میرے سر میں درد ہونے لگا کہ یہ لوگ پلائی وڈ کے بنے ڈیسکس پر رکھی ٹی وی سکرینز پر مسلسل نظر رکھ کر نیچے مشین پر کیسے لکھ رہے تھے۔ کام بھی کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ٹوم اینڈ جیری کارٹون بھی دیکھ رہی تھیں،واہ کیا مہارت تھی! کیا ترقی تھی!

“نجود یہ کمپیوٹر ہیں “مجھے یوں حیران ہوتا دیکھ کر حامدبھائی بولے۔

“کیا ہیں؟”

“کمپیوٹر!یہ کچھ آلات ہیں جو کمپوزنگ اسٹک کے ساتھ مربوط ہیں،اس کے ذریعے تحریریں لکھی جاتی ہیں اور پیغاما ت بھیجے جاتے ہیں،بلکہ اس میں آپ تصاویر بھی ترتیب د ے سکتی ہیں”!

یہ خواتین تو حقیقی معنوں میں زندگی سے لطف اٹھا رہی تھیں،یہ تو بہت ہی ماڈرن ہیں۔ میں نے تخیل میں ہی دس بیس سال بعد خود کو ان کی جگہ دیکھنے کی کوشش کی،میرے ناخن بھی ایسے ہی رنگین ہوں گے اور ہاتھ میں فاؤنٹین پین۔ میں ایک وکیل یا صحافی بننا چاہوں گی؟یا شاید بیک وقت دونوں !میں اپنے کمپیوٹر سے شدا باجی اور حامد بھائی کو پیغامات بھیج رہی ہوں گی۔ میں بہت محنت سے کام کروں گی!میں کوئی ایسا پیشہ اختیار کروں گی کہ پریشان حال لوگوں کا مداوا بن سکوں اور انہیں ایک پرسکون زندگی دے سکوں۔

ہمارا یہ سفر جا کر میٹنگ روم میں اختتام پذیر ہوا،بقول نادیہ صاحبہ “اہم امور پر تبادلے کاکمرہ “۔

“نجود ! سلامت رہو”۔

“نجود !تم کامیاب ہوگئی! تم کامیاب ہوگئی!”یکے بعددیگرے کئی آوازیں بلندہوئیں۔

ابھی بڑا دروازہ پار کیا ہی تھا کہ میں نےکم وبیش تیس چہرے اپنی طرف متوجہ پائے جو ٹک ٹک مجھے ہی دیکھے جارہے تھے۔ ہال میں تالیوں کا شور گونج اٹھا،اس کے ساتھ گلے ملنے،مسکراہٹؤں اور ہوائی بوسوں کے تبادلے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے اپنے دائیں ہاتھ پر چٹکی کاٹی کہ کہیں میں خواب تونہیں دیکھ رہی۔ ۔ ۔ نہیں یہ خواب نہیں تھا۔ یہ سب سچ تھا۔ آج کی “اہم گفتگو “کا موضوع یقیناً میں ہی تھی۔ ۔ ۔

میرے پاس تحفوں کے ڈھیر لگ گئے!حامد نےمجھے ایک بہت بڑاروئی دار ٹیڈی بئیر دیا جومیرے کندھے تک پہنچ رہا تھا،اس کے پیٹ پر ایک بڑا دل کا نشان بنا ہوا تھا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا جسے میں پڑھنے سے قاصر تھی۔

“یہ I Love you لکھا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ مجھے آپ سے پیار ہے”

ہر طرف سے آنے والے ان پارسلوں کو دیکھ کرمیں حیرت زدہ ہورہی تھی۔ ایک ایک پارسل کو کھولنے کے ساتھ میری حیرانی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا،چھوٹا ساالیکٹرک پیانو،رنگوں کے ڈبے،کاپیاں اور “فیلا گڑیا” جیسی  جج عبد الواحد کے پاس تھی۔

میں اپنے ممنونیت کے احساسات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنے لگی لیکن زبان سے سوائے “شکریہ “کے اور کچھ نہ نکل سکا۔ میں سب کی طرف رخ کرکے مسکرانے لگی۔

نادیہ صاحبہ نے مجھے ایک کیک کاٹنے کے لیے بلایا جس سے میرے پسندیدہ چاکلیٹ کی خوشبو مہک رہی تھی! کیک کے اوپر پانچ سرخ موم بتیاں سجائی گئی تھیں۔ میرے دماغ میں ماضی کی یادیں گھومنے لگیں،ہایل ایونیو پر میں اور میری سہیلیاں مہم جوئی کے لیے نکل پڑتی تھیں،کتنی دفعہ ایسا ہوا کہ دکانوں کے سامنے کھڑے ہوکر میں نےشادی کی تقریب کے خواب دیکھے،ڈھیر سارے تحائف اور سہاگ رات کے جوڑے،لیکن وہ محض خواب ہی رہے۔

حقائق خوابوں کے مقابلے میں کتنے تلخ ہوتے ہیں،لیکن اتنا ہے کہ یہ خواب یادوں کے ذخیرے میں ایک حسین اضافہ ضرور ہوتےہیں۔

آج مجھے معلوم ہو ہی گیا کہ خوشی کیسے منائی جاتی ہے۔ اگر یہ کوئی مٹھائی ہوتی تو بہت ہی ذائقہ دار ہوتی اور اندر سے تازہ ہوتی،بالکل جیسے میری پسندیدہ بادام والی کینڈی۔

میں روئی دار ٹیڈی بئیر گود میں لئے سوچ رہی تھی کہ”طلاق کی خوشی میں منعقد یہ تقریب شادی کی تقریب سے بدرجہا بہتر تھی”۔

“نجود!اس یادگار پارٹی کے موقع پر ہم آپ کے لیے کون سا گیت گائیں؟”نادیہ صاحبہ نے مجھ سے پوچھا۔

“مجھے نہیں معلوم”میں سوچتی رہ گئی۔

شدا باجی نے ایک تجویز دی “اگر ہم سالگرہ کا گیت گائیں تو کیسارہے گا؟”

“سالگرہ کا گیت؟لیکن سالگرہ ہوتی کیا ہے؟”

میں حیرت زدہ ہو کر پوچھ بیٹھی۔

سالگرہ مطلب کسی کے یوم پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنا۔

“وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک مسئلہ ہے!”

“کیسا مسئلہ؟”

“مسئلہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میری تاریخ پیدائش کیا ہے ؟”

“کوئی بات نہیں،آج سے یہی دن آپ کی سالگرہ کا دن مان لیتے ہیں !”

ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

“نجود ! سالگرہ مبارک ہو،سالگرہ مبارک ہو”۔ آج میرا دل کھول کر ہنسنے کو جی کر رہا تھا،کتنا اچھا لگتا ہے جب آپ کے آس پاس آپ سے محبت کرنے والے لوگ ہوں۔

 

مونا

جون 2008

طلاق نے میری زندگی بدل کر رکھ دی تھی، میں اب پہلے جیسے روتی نہیں تھی۔ پے در پے ٹوٹنے والی پریشانیاں اب بتدریج کم ہوتی جارہی تھیں،مصائب کی اس بھٹی نے مجھے کندن بنا دیا تھا۔ میں جب باہر نکلتی تو گلی میں پڑوسی خواتین مجھے مبارکباد دیتیں،حالانکہ میں ان کو جانتی تک نہ تھی،مبارکباد کے لفظ سے میرے ماضی کی بدترین یادیں وابستہ تھیں،مگرا ب پھر سےیہ لفظ کانوں کو بھلا لگنے لگا تھا۔ میں حیا سے سرخ ہو جاتی، لیکن  اندر ہی اندر میں بے انتہا فخر محسوس کرتی !

مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اب میں پہلے سے بہت زیادہ طاقتور ہوگئی ہوں،بلکہ میں اب اس قابل ہوگئی تھی کہ میں اپنے خاندان،اپنے بہن بھائیوں اور خاص کر مونا پر آئی ہوئی پریشانیوں کو اچھی طرح سمجھ سکوں،یہ معاملہ کسی مشکل پہیلی سے کم نہ تھا۔ “رکو! میں نے بھی تمہارے ساتھ جاناہے!”مونا گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہوئے چلائی۔

اس دن ایمان اپنے ہمراہ چند صحافیوں کو ساتھ لیکر آگئی تھیں،وہ خواتین کے حقوق کے لئے بہت ہی سرگرم تھی۔ میں نے تھوڑے ہی عرصہ پہلے اپنے ماموں کا گھر چھوڑدیا تھا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے لگی تھی،کیونکہ ہمارے شہر میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے دارالامان نہیں تھے اور یہی بہتر بھی تھاکہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہوں۔ یہ بات تو تھی کہ مجھے اپنے والد سے ابھی تک ناراضی تھی تو دوسری طرف ان کے پاس بھی مجھ پر غصہ ہونے کے کافی سارے دلائل موجود تھے،لیکن ہم دونوں بظاہر سب کچھ بھول جانے کا دکھاوا کر رہے تھے،فی الحال یہی بہتر تھا۔

میرے گھر والے اب ائیر پورٹ کے راستے پر واقع دارس منتقل ہوگئے تھے۔ گھر دو چھوٹے سے کمروں پر مشتمل تھا جس میں کل سرمایہ دیوار کے ساتھ لگے چند چھوٹے سے کشن تھے۔ رات کو اکثر جہازوں کو اترنے اور اڑان بھر نے کی آواز سننے سے آنکھ کھل جاتی۔ کم از کم اتنا اطمینان تھاکہ میں حیفا پر نظر رکھ سکتی تھی اور اسے کسی مشکل میں گرفتار ہونے سے بچا سکتی تھی۔ میں نے سوچا ہوا تھاکہ اگر کسی نے اس عمر میں اس کی شادی کرانے کی کوشش کی تو میں فوراً اس کی مخالفت کروں گی۔ میں پہلے تو سمجھانے کی کوشش کروں گی کہ یہ ٹھیک نہیں ہے پھر بھی اگر کسی نے میری نہ سنی تو میں پولیس کو بلاؤں گی۔ میں نے ایک عدد موبائل اپنے گریبان میں چھپایا ہوا تھا جو مجھے حامد بھائی نے دیا تھا،یہ ایک سمارٹ فون تھا جیسا شدا باجی کے پاس تھابالکل ویسا،میں کسی بھی وقت کال کرسکتی تھی۔

میرے بڑے بھائی محمد اکبر بہت ناراض تھے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سے وہ مجھے اور حیفا کو کچھ زیادہ ہی ڈانٹنے لگے تھے،کبھی وہ میرے والد سے بحث کرتے کہ یہ سارا بکھیڑاہمارےخاندانی ناموس کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ جب بھی کوئی صحافی ہمارے گھر آتا تو اپنے بھائی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ہی میں اندازہ لگا لیتی تھی کہ ان کو کتنی شدید غیرت آرہی ہے اور ادھر میری کہانی ساری دنیا میں مشہور چکی تھی تو ہر ہفتے صحافیوں کے گروہ در گروہ چکر لگارہے ہوتے،وہ فرانس،اٹلی،امریکا اور پتہ نہیں کون کون سے عجیب سے ممالک کے نام لیتے۔ یہ سب صرف اور صرف میری وجہ سے ہی آتے!

“نجود کی وجہ سے یہ جو سارے اجنبی ہمارے محلے کا چکر لگارہے ہیں نا ں یہ ہمارے لیے بہت ہی زیادہ عار کا باعث بن رہے ہیں !”آج صبح ایمان کے ہمارے ہاں پہنچتے ہی وہ ان پر چیخا۔

“حالانکہ اسے تم جیسے بھائی کی وجہ سے شرمندہ ہونا چاہئے!”اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

“سلامت رہو ایمان”میں دھیمی سی آواز میں بولی۔

محمدسے کچھ جواب نہ بن پڑاتو صحن کے ایک کونے سے ہمیں دیکھتا رہا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں روکے میں نے اپنی سیاہ چادر لی اور حیفا کا ہاتھ پکڑ ےباہر نکل گئی تاکہ کہیں پیچھے اس پر برس نہ پڑے۔ میں دل ہی دل میں اس بات کا عہد کر رہی تھی کہ حیفا کی حفاظت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔

ایمان نے ہمیں کسی پارک لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کوئی پارک نہیں دیکھا تھا۔ میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتی تھی!ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ چکے تھے کہ مونا بھاگتی ہوئی پہنچی۔

“مجھے محمد نے تم لوگوں کے ساتھ جانے کاکہا ہے!”وہ ہانپ رہی تھی۔

مونا بہت منقبض سی لگ رہی تھی،لیکن وہ بضدتھی کہ ہمیں یوں اکیلے جانے نہیں دے گی،ہمیں لگا کہ یہی کہ بہتر ہوگا کہ بڑے بھائی کی بات مان لی جائے۔ چہرے پر نقاب لیے وہ سرک کر ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مجھے یہ سازش تھوڑی تھوڑی سمجھ آرہی تھی کہ محمد نے غصے سے مغلوب ہوکر میری ہی بہن کو میری جاسوسی کے لیے بھیجاتھا،لیکن یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس کے دماغ میں چل کیا رہا تھا،اس کا تو میرے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا۔

ہم تھوڑا ہی آگے چلے تھے کہ اس نے کہا کہ وہ پارک سے پہلے ہمارے قدیم محلہ قاع کے ایک چوک پر تھوڑی دیر رکناچاہے گی۔ کیا ہی چال چلی ہے!کیا محمد نے اسے کسی خاص مشن پر بھیجا ہے؟ اس کی ضد سے تنگ آکر ایمان نے اس کی بات مان لی۔ ہم ایک روڈ چھوڑ کر دوسری پر آئے اور گھومتے گھومتے ایک جامع مسجد کے سامنے جانکلے۔

“رک جاؤ!”مونا چلائی۔

میں نے کبھی اس کو اس قدر پریشان نہیں دیکھا تھا۔ گاڑی اچانک رک گئی۔ مسجد کے دروازے کے سامنے ہی سیڑھیوں پربوسیدہ سی سیاہ چادر اوڑھے ایک عورت ہاتھ پھیلائے گزرنے والوں سے بھیک مانگ رہی تھی،ایک ہاتھ سے اس نے گود میں سوئی ہوئی چھوٹی سی بچی کو سہارا دیا ہوا تھا،بچی کے کپڑے میلے کچیلے اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ میں بے اختیار چلا اٹھی “یہ تو منیرہ ہے !”

منیرہ مونا کی چھوٹی بیٹی تھی،لیکن یہ یہاں اس چہرہ چھپائے سیاہ لباس والی اس بھکاری عورت کی گود میں کیا کررہی تھی؟

“جب سے میرے شوہر جیل گئے ہیں،تومیری ساس نے زبردستی منیرہ کو اپنے پاس لےلیا ہے”سب کو یوں ہکا بکا دیکھ کر مونا ہکلاتے ہوئے بولی۔

“یہ کہتی ہے کہ اس طرح گزرنے والےجب کوئی چھوٹا بچہ ساتھ دیکھتے ہیں تو ان کا دل جلدی پسیج جاتا ہے”۔

حیرت سے میرا منہ کھلاکا کھلا رہ گیا،چھوٹی سی پیاری سی شہزادی جیسی منیرہ اس بوسیدہ کپڑوں والی بڑھیا کے حوالے کی گئی تھی ؟اور مونا کا شوہر جیل میں تھا؟اورکیا کیا ہوا ہوگا؟یہ تو پھر وہی آدمی ہوگا جس کی طرف میرے والد نے عدالت میں اپنےبیان میں اشارہ کیا تھا۔ ۔ ۔ مونا تو فوراً سے اپنی بچی کو خود سے چمٹانے اور گلے لگانے لگی۔ میں اسے کھینچ کر اس جگہ سے دور لائی،لیکن وہ شرم کے مارے کچھ بتانہیں پارہی تھی۔

جب وہ اپنی تین سالہ بچی کو لے کر گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو اس سے پہلے میں نے اسے دیکھا کہ وہ بڑھیا سے کہہ رہی تھی”میرا اس سے ملنے کو بہت دل کر رہا تھا۔ ۔ ۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔ ۔ ۔ میں اسے دوبارہ آپ کے پاس واپس لاؤں گی۔ ۔ ۔ ”

گاڑی کا ماحول یک دم سے حبس زدہ ہوگیا،منیرہ کا جسم اس حد تک میلا کچیلا تھا کہ اس کےجسم اور جوتوں میں امتیاز مشکل ہورہا تھا۔

اس نے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور ہم پھر سے چل پڑے۔ بچی ہمیں دیکھ کر اتنی خوش تھی کہ ہم نے تھوڑی دیر پہلے اس کو جس کسمپرسی کی حالت میں دیکھا تھا اس کو بھول ہی گئے۔

ڈرائیور نے گاڑی کا رخ شہر کے جنوب کی طرف کر دیا تھا۔ راستےمیں ہمارا گزر ایک اور مسجد کے پاس سے ہواجو ابھی زیر تعمیر تھی،اس کی پرشکوہ عمارت کسی محل کا نمونہ پیش کررہی تھی،میں کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکائے مسجد کے آسمان کو چھوتے مینار دیکھتی رہ گئی۔

اب مونا کے قصے نے میرے ذہن کو متشوش کردیا تھا،جب پارک پہنچے تو اس نے آہستہ آہستہ اپنے دل کا حال کھولنا شروع کیا۔ ۔ ۔ ۔

“یہ ایک طویل داستان ہے”وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے گویا ہوئی۔ منیرہ کو اس نے حیفا کے ساتھ ایک ٹیلے کے پاس کھیلنے کے لیے چھوڑدیا تھا۔

ایمان اور دوسری صحافی لڑکی نے اس کے سامنے ہی اپنے لیے جگہ بنالی تھی،وہ سب ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئی تھیں،میں نے چپکے سے ان کی باتوں کی طرف کان لگالیا۔

“نجود کی شادی سے چند ہفتے قبل ہی میرے شوہر کو جیل ہوئی تھی۔ ۔ ۔ وہ میری بڑی بہن جمیلہ کے ساتھ رنگے ہاتھو ں بیڈروم سے گرفتار ہوا تھا۔ ایک عرصے سے شکوک وشبہات میرے دل میں پیدا ہو رہے تھے اور میں اپنی تسلی کے لیے ان لوگوں کو ساتھ لے کر آئی جنہوں نے اسے اس جرم پر رنگے ہاتھوں پکڑا تھا،بات لڑائی تک پہنچ گئی اور پولیس نے آکر محمد اور جمیلہ کو گرفتار کر لیا،تب سے آج تک وہ جیل میں سڑ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک ایسے ہی رہیں گے”

مونا نے اپنی نظریں جھکالیں، جب کہ میں بھونچکا ہوکر اسے دیکھے جارہی تھی،میری سمجھ میں زیادہ کچھ نہیں آرہا تھا میں ان کی گفتگو کی حقیقت کا مکمل اندازہ نہیں کرپائی تھی مگر اس کی باتوں سے خطرے کی بو آرہی تھی۔

آخر کا ر ایمان بولی:”یمن میں تو زنا پر موت تک کی سزابھی دی جاسکتی ہے”

مونا بولی: “مجھے معلوم ہے۔ میرے خیال میں یقیناً یہی وہ بات تھی کہ جس کی وجہ سے آج محمدمجھ پہ یہ دباؤ ڈال رہا تھا کہ اس فائل پر دستخط کردوں جس سے یہ بات سامنے آجائے گی کہ ہمیں اس کے جیل جانے سے پہلے ہی طلاق ہوچکی تھی تاکہ اس کے کیس پر پردہ پڑجائے۔ میں نے اس سے ملنے جیل جانے سے انکار کر دیا تھا تو اس نے وہاں سےیہ خط بھیجا تھا۔ اب پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں تھی،اب کی بار وہ نہیں بچ پائے گا،اس نے مجھے جتنا ستانا تھا ستالیا۔ ”

میں نے کبھی مونا کو اتنا بولتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ بولے جارہی تھی،اس کے ہاتھ چادر سے باہر آگئے تھے اور نقاب سے ڈھکے اس کے سارے چہرے میں سے صرف اس کی آنکھیں چمکتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کی کانپتی آواز سن کر میرا دل بوجھل ہورہا تھا،لیکن یکایک ایک منظر نے ہم سب کوہسٹریائی انداز میں قہقہہ لگاکر ہنسنے پر مجبور کردیا،ٹیلے کے پیچھے منیرہ نے اپنی شلوار نیچے کی اور بیٹھے بیٹھے ہی تیز دھوپ میں زرد پڑتی گھاس کو سیراب کردیا۔

منیرہ!کیا کررہی ہو!مونا نے اسے ڈانٹا۔ اس کی ممتا لوٹ آئی تھی اور چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں پھر سے تاریکیوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے۔

میری پیاری بچی منیرہ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے بچوں کو اکیلے ہی پالنا پڑرہا ہے اس شرط پر کہ میری ساس مجھے انہیں دیکھنے دے۔ محمد نہ اچھا شوہر ثابت ہو سکا تھا نہ ہی اچھا والد۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر رک کر وہ بولی:”میں بھی تقریباً نجود کی ہی عمر کی تھی جب میری اس سے زبردستی شادی کرادی گئی،میں اپنے گھر والوں کے ساتھ خارجی میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھی،پھر وہ سیاہ دن آگیا جس نے میری ساری زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا”میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سرک کر تھوڑا اور قریب ہوگئی تاکہ اچھی طرح سن سکوں،مجھے یہ لگتا تھاکہ میں نے اپنی عمر کے حساب کے سے کچھ زیادہ ہی سن لیاہے،لیکن میں اب پورا قصہ جاننا چاہتی تھی،آخر وہ میری بہن تھی اور عجیب بات یہ تھی کہ مجھے یوں لگ رہا تھاکہ ان کی ذمہ داری میرے اوپر ہے۔

“میری والدہ علاج کیلئےصنعاء گئی ہوئی تھیں، ان کی صحت بہت خراب تھی اور ڈاکٹروں نے یہی مشورہ دیا تھاکہ وہ صنعاء میں کسی بڑےڈاکٹر سے رجوع کریں۔ میرے والد معمول کے مطابق مویشیوں کے باڑے کی طرف گئے ہوئے تھے اور میں چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ اکیلی گھر پر رہ گئی تھی،نجود اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ ۔ ۔ ایک اجنبی نوجوان گھر میں داخل ہوا،اس کی عمر تیس سال کے قریب معلوم ہورہی تھی،وہ مجھے پھسلانے لگا،میں نے اس کو بھگانے کی کوشش کی مگر بے سود،آخر کار وہ مجھے گھسیٹ کرایک کمرے میں لے گیا،میں نے بہت زور لگایا اور چیخی چلائی اور انکار کرتی رہی مگر۔ ۔ ۔ ۔  وہ بولتے بولتے رکی پھر بولی”سب کچھ بہت تیزی سے ہوگیا،جب میرے والد گھر واپس لوٹے تب تک میرے اوپر قیامت ٹوٹ چکی تھی”

مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں ہورہا تھا،بےچاری مونا کے ساتھ بھی بہت ناروا سلوک ہوا تھا۔ تو اس کی آنکھوں کی ویرانی اور ہنستے ہنستے یک دم اداس ہوجانا اس کے پیچھے یہ کہانی تھی۔

“میرے والد بہت ہی غصہ ہوئے اورانہوں نے سب خاندان والوں کو اکٹھا کرلیا تاکہ اس صورتحال پر کوئی ردعمل دیا جاسکے،گاؤں والوں نے تو اس کو باہمی ملی بھگت قرار دےدیا،کسی نے حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی،گاؤں کے نمبردار صاحب کو خبر ملی تو انہوں نے یہ حل پیش کیا کہ اس سے پہلے یہ معاملہ مزید پھیل جائے ان دونوں کی جلد از جلد شادی کرادی جائے، عزت بچانے کا یہی طریقہ تھا!انہوں نے تو اس معاملے کو لپیٹنے کا یہی آسان حل قرار دیا،مجھ سے کسی نے پوچھنا ہی گوارا نہ کیا،مجھے ایک زرد قمیص پہنائی گئی اور اس کی دلہن بنا دیا گیا،اس دوران میری والدہ واپس گاؤں پہنچی،انہوں نے جب یہ دیکھا تو آسمان سر پر اٹھا لیا اور خود کو کوسنے لگی کہ کیوں وہ اس موقعے پر ہسپتال چلی گئی تھیں،میرے والدکو بھی عار سامحسوس ہوا اور انہوں نے انتقام لینے کا سوچا۔ انہوں نے اس سب کی ذمہ داری ہمارے پڑوسیوں پر ڈال دی کہ یہ سب انہی میں سے کسی کی سازش ہے۔ ایک شام ان لوگوں کا جرگہ بیٹھا۔ خوب تکرار ومباحثہ ہوا اور خنجر لہرائے گئے،کچھ دیر بعد شاید شام کو ہی یا اگلے دن (مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے) وہ لوگ رائفلیں لے کر آگئے اور ہمیں دھمکایا اور فوراً اس جگہ کو چھوڑنے کا کہا،ہمارے گھر والے تو صنعاء چلے گئے اور میں اپنے شوہر کے ساتھ لجوء میں ایک دوسری جگہ چند ہفتے رہی پھر آخر کار ہم بھی صنعاء آگئے”۔

میں اندر سے کانپ کر رہ گئی۔ وہ صنعا کی طرف جلد بازی میں کیا گیا سفر،میرے والد کا غصہ،وہ مونا کا غمزدہ ہونااور میری وجہ سے پریشان ہونا تو اس کےپس پردہ یہ کہانی تھی۔ ۔ ۔

“کئی سالوں بعد جب میرے والد نے گھرمیں بتایا کہ نجود کی شادی ہورہی ہےتو میں اس پریشانی میں بستر سے لگ گئی،میں نے ان کو منانے کی بہت کوشش کی کہ ابھی نجود بہت چھوٹی ہےکچھ وقت صبر کریں،لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی،بلکہ الٹا یہ منطق جھاڑنے لگے کہ شادی ہوگی تو یہ اغوا کاروں سے بھی محفوظ ہوجائے گی اور گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتے لفنگوں سے بھی۔ ۔ ۔ میری اور جمیلہ کی وجہ سے انہیں بہت دکھ جھیلنے پڑے تھے۔ ۔ ۔ جب خاندان کے بڑے اس شادی کو کروانے اکٹھے ہوئےتو یہ بھی بات چلی کہ جب کبھی فارس سعودیہ سے لوٹے تو دولہے کی بہن اس کے عقد میں دی جائے،یہ گویاوٹہ سٹہ ہوگیا۔ ۔ ۔ جس رات نجود کی شادی تھی تو میں اس کو یوں برباد ہوتا دیکھ کر خود پر قابونہ پاسکی اور بے اختیار روپڑی۔ یہ تو بہت چھوٹی ہے!میں پھوٹ پھوٹ کر روپڑی !،بلکہ میں اس کوبچانے کی خاطر اس کے شوہر کے پاس گئی اور اس سے اس بات کی قسم لی کہ وہ بلوغت سے پہلے اس کے پاس نہیں جائے گااور اسے اپنی ہم جولیوں کے ہمراہ کھیلنے کی اجازت دے گا۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر بعد میں مکر گیا۔ ۔ ۔ یہ بندہ مجرم ہے !مرد سارے ہی ایسے ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں کا کبھی یقین نہیں کرنا چاہیے۔

میں مونا کے نقاب سے اپنی نظر نہیں ہٹا پارہی تھی،مجھے اس لمحے اس پر بہت پیا ر آرہاتھا اور دل چاہ رہا تھا کہ اس سیاہ نقاب کے پیچھے چھپے اس کے چہرے کو جی بھر کے دیکھ لوں،میں خیالوں ہی خیالوں اس کے گالوں پر بہتی آنسوؤں کی لکیریں دیکھ رہی تھی،مجھے تو اپنے اس شک پر کہ یہ ہماری جاسوسی کرنے ہمارے ساتھ آئی ہے بہت ہی شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔ ۔ ۔ کاش کہ میں جان لیتی کہ اتنے سالوں سے اس نے چپ چاپ اتنے دکھ جھیلے مگر کبھی اف تک نہ کی اور نہ کبھی کسی کی مدد لینے کی کوشش کی۔ میری اس بڑی بہن کو تومجھ سے بھی کڑی سختیاں جھیلنی پڑی تھیں،وہ تو ایسے جال میں پھنس گئی تھی جو مصائب سے اٹا ہوا تھا،اس سے بھی میری طرح اس کا بچپن چھینا گیا تھا،البتہ اتنا تھاکہ میں اس وقت اس بات کا ادراک کر سکتی تھی میری حالت اس سے مختلف ہے کہ مجھے بغاوت کرنے کا موقع بھی ملا تھا اور آس پاس سے کچھ مدد بھی۔

“مونا!نجود! ذرا دیکھو توہماری طرف!”

ہم نے دیکھا تو حیفاچھوٹی منیرہ کو گود میں لیے جھولے پر بیٹھی قہقہے لگا رہی تھی۔ مونا لپکی اور پیچھے پیچھے میں بھی۔ ان کے پاس والا جھولا خالی تھا۔

“نجود ذرا مجھے جھولا دو!”

مونا جھولے پر بیٹھ گئی اور میں اس کے پیچھےاس کی دونوں جانب جھولے کی لکڑی پر پیر رکھے اور دونوں رسیوں کو پکڑے کھڑی ہو گئی۔ جھولے کو حرکت دینے کے لیے میں آگے پیچھے زور لگانے لگی اور جھولا آہستہ آہستہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔

تیز ہوا میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھی،کیا سہانا موسم تھا!مونا بے فکری سے قہقہے لگائے جارہی تھی۔ میں پہلی بار اسے اتنا ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار میں اور وہ اکٹھے جھولا جھول رہی تھیں۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی تنکے کی طرح ہوا میں اڑ جاؤں گی۔ چھنی ہوئی آزادی واپس ملنے کا احساس کتنی تازگی بخشتا ہے۔

امی اڑ رہی ہیں !امی اڑ رہی ہیں!”منیرہ چلائی۔

مونا خوشی کے مارے چیخیں مار رہی تھی اور یوں لگ رہاتھا کہ جیسے وہ رکنا ہی نہیں چاہتی۔

کچھ دیر بعد میری چادر ہوا کی وجہ سے سرک گئی،پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے کسی نے واپس چادر ٹھیک کرنے کو نہیں کہا۔ میرے بال میرے کندھوں پہ بکھر گئے تھےاور ہوا کے ساتھ لہرا رہے تھے۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر اپنی آزادی کا اعلان کروں۔

(جاری ہے)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...