غلام مجدد، پاکستان میں ریاست اور سماج کے مابین کشا کش: نفسیاتی سماجیات کے زاویے
اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ہی تحقیق کے موضوعات کے تیور بتا رہے ہیں کہ یہ صدی ماضی کو دہرانے کی بجائے اس کے مثبت تحلیلی جائزے کی صدی ہے۔ اب ماضی کا مطالعہ نہ تو گذ رے دنوں کی یادوں میں زندہ رہنے کی خواہش کا نام ہے اور نہ رجعت پسندی کی عافیت میں پناہ کی تلاش کا سفر ہے۔ یہ صدی اس رویے کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ ہم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلنے کے شوق میں اپنوں کو پیچھے چھوڑ جائیں۔ ماضی قریب کی دوڑ دھوپ کی بہت سی قومی کہانیاں بتاتی ہیں کہ خوشحالی اور ترقی کی دوڑ میں اشرافیہ قوم کو پس ماندہ ، بلکہ درماندہ، چھوڑ کرخود آگے نکل گئی۔ یہ صدی ایسی اندھی دوڑ کی متحمل نہیں۔ اب ہر شخص اور ہر قوم اپنے ماضی اور حال کا ناقدانہ مطالعہ کررہی ہے تاکہ اپنے زمان و مکان کے اعتبار سے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی سکت کے لحاظ سےکامیابی اور ناکامی کے پیمانے طے کرے۔ قومی مستقبل کی تعمیراشرافیہ کے خوابوں کے محل کھڑے کرنے سے نہیں، عام آدمی کی روزمرہ ضرورتوں کو پورا کرنے سےہوتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ریاست اور پاکستانی سماج میں جاری ایسی ہی کشاکش کا مطالعہ پیش کرتی ہے۔
اس کتاب کے مصنف جناب غلام مجدد کی تعلیم و تربیت پاکستان ایئر فورس کی درسگاہوں میں بطور جی ڈی فائٹنگ پائلٹ ہوئی جو تکنیکی مہارتوں، علمی اور ذہنی صلاحیتوں اور نفسیاتی اور تجزیاتی تحقیق کی تعلیم پر مبنی جامع تربیت کا پروگرام ہے۔ پاکستان ایئر فورس میں ۳۳ سال مختلف عہدوں پر خدمات سر انجام دیتے ہوئے ایئر کموڈور کے رینک تک پہنچے۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد اب نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور ایئر یونیورسٹی میں تعلیم و تحقیق میں مشغول ہیں۔ ان کی زندگی سیف و قلم کی رفاقت سے ترتیب پائی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی رفاقت کا ثمر ہے۔ میری رائے میں یہ کتاب فکر انگیز بھی ہے اور قاری کو معاشرے میں موجود تضادات کے بارے میں سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ میں چار وجوہات کی بنا پر ہر پاکستانی کو اس کتاب کے مطالعے کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ریاست اور سماج کے بارے میں بڑی بیش قیمت تحقیقی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن عسکری رضوی[ پاکستان میں فوج، ریاست اور سماج،۲۰۰۰ ]، عائشہ خان، ربیعہ خان[ پاکستان میں سماجی تبدیلی اور سول سوسائٹی،۲۰۰۰]، مارکو میزیرا، صفیہ آفتاب [پاکستان، ریاست اور سماج کا تجزیہ،۲۰۰۹] اور محمد قاسم زمان [ پاکستان میں اسلام، ایک تاریخ،۲۰۱۸] کی تصانیف اور متعدد کئی کتابیں ان موضوعات پر تحقیق کی گہرائی اور گیرائی کی عمدہ مثالیں ہیں۔ تاہم یہ کتابیں پاکستان کے مسائل کا زیادہ ترسیاسی اور مذہبی نقطہ نظر سے تجزیہ کرتی ہیں، ریاست اور سماج کی کشا کش ملک کی سیاست اور اخلاقیات پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے، اس پر روشنی نہیں ڈالتیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں غلام مجدد صاحب پاکستان میں ریاست اور سماج کے مابین روابط کو سماجی نفسیاتی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس کتاب نے پاکستان سٹڈیز میں ایک نئے تحقیقی رجحان کا آغاز کیا ہے۔ در حقیقت سیاسیات میں ریاست کے نظریے کے سماجیاتی پہلو سے ناقدانہ مطالعے کو اہمیت بھی بعد از خرابی بسیار ملی ہے اور وہ بھی اکیسویں صدی میں۔ ورنہ ریاست کو ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ، حاکمیت کی بنیاد اور سزا اور جزا اور قانون کی بلا شرکت غیرے مالک ہی بتایا جاتا رہا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب برنارڈ بوسانقے [وفات ۱۹۲۳ ] کے افکار کی یاد دلاتی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ بوسانقے کی کتاب “نظریہ ریاست کی فلسفیانہ بنیاد” جو ۱۸۹۹ میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھی اور ۱۹۰۹ میں مصنف کی نظر ثانی کے بعد دوسرا ایڈیشن چھپا، اب ٹورا نٹو سے ۲۰۰۱ میں اس کا تیسرا ایڈیشن سامنے آیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع کی اہمیت کے اعتراف میں دو صدیاں لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا اعتراف اکیسویں صدی میں ہی کیوں ہو رہا ہے۔
بوسانقے ایک معروف برطانوی فلسفی ہے جو ہیگل کے مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا۔ تاہم ہیگل کے دوسرے ساتھیوں کے برعکس جو ریاست کے سیاسی اور قانونی اقتدار کو زیادہ اہمیت دیتے تھے بوسانقے ریاست کے سماجی کردار کو بنیادی سمجھتا تھا۔ غالباً اسی لیے وہ اپنے افکار کی وجہ سے متنازعہ رہا اور اس کو کما حقہ توجہ نہ ملی۔ کارل شمڈٹ اور اس کے ساتھیوں کے افکار جو ریاست کے سیاسی اور قانونی کردار کو زیادہ اہم سمجھتے تھے، مقبول رہے۔ ان کے نزدیک سماج کا کردار اتنا اہم نہیں تھا۔ انہی افکار کے زیر اثر یورپ خصوصاً جرمنی میں اقتدار اعلی، اختیارات، قوت نافذہ، اور قانون سازی کے نظریات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ ریاست کی حاکمیت کو مطلق العنان اور استبدادی اور حاکم وقت کو ڈکٹیٹر بنانے میں کارل شمڈٹ نے مطلوبہ جواز مہیا کئے۔ ریاست کے اقتدار کا یہ تصور یورپ کے بعد امریکہ میں مقبول ہوا۔ امریکی دانشور اگامبن کے ہاں ریاست کی قوت اس کی استثنائی حیثیت پر مبنی ہے۔ عالمی سیاست میں طاقتور ریاست کے اسی تصور نے قومی ریاستوں کی دنیا میں طاقت کی بنیاد پر غلبے کو نظریہ ضرورت سے جوڑ دیا۔ بین الاقوامی قوانین، بین الاقوامی تجارت اور معیشت میں طاقتور ممالک کی سیادت کو مستحکم کیا۔ اقوام متحدہ کو بین الاقوامی ادارے کی بجائے ویٹو ممالک کے زیرنگین ادارہ بنادیا۔ حقوق انسانی جیسے عالمی قوانین کو بین الاقوامی تعاون کی بجائے جنگ و جدل کی تعبیرات سے نافذ کرنے کی داغ بیل ڈالی۔
برنارڈ بو سانقے نے اپنی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کے پیش لفظ میں ریاست اور سماج کے مابین اسی کشاکش کی طرف اشارہ کرتے ہوے لکھا تھا کہ ” جن لوگوں کو سماج کی موجودہ صورت حال کے مطالعے میں دلچسپی نہیں، وہ سماج کی بات کریں بھی تو ان کا مقصودسماج کی بہتری نہیں ہوتا”۔ ” ہونا تو یہ چاہِیے تھا کہ عملی سماجی مسائل کے حل کے لیے ان کو زندگی اور سماجی ذہن سے جڑی مشکلات کے طور پر دیکھا جائے۔ ان کو آپ بیتی کی مانند ذاتی اور قریبی رشتوں کی طرح محسوس کیا جائے۔ اور ان کے تجزیے اور حل کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جو مسائل کی نزاکت اور حساسیت سے مطابقت رکھتے ہوں”۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ریاستی استبداد کے نظریے اور حقیقی یا جمہوری منشا کے تصور پر جدید نفسیات کے اصولوں کا اطلاق کیا جائے اور سماجی فلسفے اور عمرانیاتی نفسیات کی رو سے تشریح کی جائے۔ بوسانقے اس ضمن میں خاص طور پر “پیروی ” یا مثال اور ماڈل کے طرزاستدلال کی بات کرتا ہے۔ اپنے ۱۹۰۹ کے ایڈیشن میں وہ مزید وضاحت کرتاہے کہ ” جب متعدد مرکزیت پسند قومی ریاستیں جنم لیتی ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کونسی قومی ریاست زیادہ مقتدر ہے۔ اس بات کا تعین ممکن نہیں رہتا کہ کونسی قومیت کس بنیاد پر مخصوص اختیارات کی حامل ہے۔ ایسے میں قومی ریاست کانظریہ اپنی انفرادیت اور برابری کی قدر کھو بیٹھتا ہے۔ بلکہ برتری اور غلبے کے سوال کو جنم دیتا ہے۔ بوسانقےاس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ جدید دور کے واقعات اور تجربات سے ریاست کے قدیم نظریات کو مزید تقویت ملے گی۔ استبداد اور غلبے کی جنگ کے قدیم تصورات واپس آ جائیں گے۔
ماضی قریب میں ریاست کے بارے میں تصنیفات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ نظریہ ریاست میں دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ بیسویں صدی میں ریاست کے مکمل اقتدار، اختیار اور برتری کے تصورات سےریاست کے مذہبی اور سیکولر تصورات بھی متاثر ہوے۔ جمہوریت کا تصور جو سیاسیات کی دنیا میں بہت نیا تھاطاقت نہ پکڑ سکا۔ اثباتیت کے سیاق و سباق میں اس کی حیثیت بھی مذہبی اور اخلاقی تعبیرات کی نذرہو گئی۔ قانون کی حکمرانی ایک اخلاقی قدر ٹھہری جو انفرادی اختیار کی بجائے ریاست کی قوت پر منحصر سمجھی جانے لگی۔ جمہوریت مقتدر نہیں رہی۔ سٹنفورڈ انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے نئے ایڈیشن میں اعتراف کیا گیا ہےکہ جمہوری ریاست کی معروضی اور سائنٹیفک تعریف ناممکن ہے۔ مذہبی حکمرانی کی دنیا میں بھی ریاست کے اقتدار کو دینی اور اخلاقی اقدار کی بجائے طاقت کے بل باتے پر کھڑا کرنا پڑا۔ ایران میں ریاست کے اقتدار کی اسلامی تعبیر ولایت فقیہ کے عنوان سے کی گئی۔ پاکستان میں اسلامی ریاست کو اللہ کی حاکمیت اور شریعت کی قانونی سیادت سے تعبیر کرتے ہوے طاقت کی بنیاد پر ریاست کے قیام کو اقامت دین کی صحیح تفہیم بیان کیا گیا۔
اس کتاب کے مطالعے کی دعوت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مصنف نے پاکستان میں ریاست اور سماج کے درمیان موجود کشاکش کو حقیقی اور بنیا دی تضاد قرار دیا ہے اور حقیقت پسندی سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیاتی مطالعے کے لیے مصنف نے سماجی نفسیات کے تحلیل کے طریقے کو اپنایا ہے۔ مصنف شروع میں ہی یہ کہ کر قاری کو چونکا دیتے ہیں کہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ تک حقیقی دنیا میں پاکستان کا کہیں وجود نہیں تھا۔ نہ حقیقی ریاست کے طور پرپاکستان موجود تھا اور نہ ہے پاکستانی سماج موجود تھا۔ پاکستان کی ریاست اور پاکستانی سماج دونوں در حقیقت ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو وجود میں آئے۔ ان کا وجود تخیلاتی اور نظریاتی تھا۔ اس تاریخ تک پاکستان کا جغرافیائی اور قانونی وجودقومی ریاست نہیں بلکہ ایک نوآبادیاتی ریاست کا حصہ تھا۔ ریاست اور سماج کے مابین جو تعلق تھا اسے حاکم اور محکوم کے درمیان ایک تخیلاتی کشاکش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو دو صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ریاست قائم ہوئی تو یہ سول اور ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس اور چیدہ علما پر مشتمل ایک ادارہ تھا جو اختیارات کے مرتب نظام کے تحت سماج پر حکمرانی کے لیے بنایا گیا۔ ادھر سماج میں یہ احساس برقرار رہا کہ وہ اس نظام کا حصہ نہیں اور پہلے کی طرح ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس احساس کی وجہ سے جہاں ریاست کمزور اور غیر مستحکم رہی وہاں سماج بھی ٹکڑوں میں بٹا رہا۔
تاہم یہ کتاب یاسیت کی بجائے خود احتسابی کا حوصلہ دیتی ہے۔ اور یہی اس کتاب کے بغور مطالعے کی دعوت کی چوتھی وجہ ہے۔
مصنف اس کتاب میں ہر پاکستانی سے مخاطب ہے۔ مصنف کا فرد پر اعتماد اس امید پر قائم ہے کہ یہ صورت حال کشاکش کو مثبت سوچ میں بدلنے کا راستہ سکھا سکتی ہے۔ ریاست کے موجود نظریات میں فرد کا کردار صرف تابع اور محکوم کا ہے۔ بوسانقے جب فرد کی اہمیت کی بات کرتا ہے تو وہ ریاست کو حقیقی فرد بتا تا ہے جو عقل کل ہے۔ سماج جن عام لوگوں پر مشتمل ہے وہ فرد کی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ ریاست کے مقابلے میں کم عقل رکھتے ہیں۔ اکثر تو عقل دشمن ہوتے ہیں۔ جاندار سماج اکائی بن جاتا ہے اور اس کا ہر فرد اس اکائی کا معاون جز ہوتا ہے۔ معاون جز کے طور پر یہ کل کا جز بن جاتا ہے اور سماجی اور سیاسی نظام کے مرکزی ادارے سے تعاون کرتا ہے۔ سماجی ہم آہنگی کے نفاذ کے لیے ہم آہنگی کا فطری ہونا لازمی ہے۔
غلام مجدد صاحب کا استدلال ہم آہنگی اور فطری تعاون کی بجائے کشاکش اور تضاد کو بنیاد بتا تا ہے۔ کیونکہ سماج ایسی قومی تنظیم کا نام ہے جو خود مختار افراد سے مل کر بنتی ہے۔ یہ خود مختاری انہیں اپنی مرضی سے نظم و ضبط قائم رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اختلافات ان افراد کے ذاتی افکار ہیں جو تنوع کو مشاورت کے عمل سے گزرنے میں مدد دیتے ہیں۔ مصنف کی رائے میں مسئلے کے حل کے لیے مسئلے سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگوں کو کو مسائل سے آگاہی نہیں یا وہ انہیں مسئلہ نہیں سمجھتے۔ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ ملک میں ریاست اور سماج کے درمیان مسلسل کشاکش چل رہی ہے۔ اس کتاب میں وہ لوگوں کے رجحانات کا سماجی نفسیات کے تحلیلی طریقوں سےتفصیل سے جائزہ پیش کرتے ہیں، افراد اور اداروں کے تعلقات میں اقدار اور رویوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آخر میں وہ ایسے سماجی پروگرام تجویز کرتے ہیں جو رویوں میں بدلاؤ لا سکیں۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ افراد ذاتی غور و فکر کے عمل سے گزریں۔ مثال کے طور پر وہ ہر پاکستانی کو انفرادی طور پر اس جملے پر غور کی دعوت دیتے ہیں:
” جب تک میں خود میں تبدیلی نہ لاؤں پاکستان میں تبدیلی نہیں آسکتی”۔
فیس بک پر تبصرے