تصور جہاد
(یہ اختتامیہ) میری کتاب فقہ الجہاد میں اختیار کردہ فقہی ترجیحات، اجتہادی استنباطات، علمی تحقیقات اور تجزیاتی غور وخوض کے ماحصل پر مشتمل ہے ۔([1])
حصہ اول
باب اول: جہاد کی حقیقت، مفہوم اور حکم([2])
- لفظ جہاد کا مفہوم قتال کے لفظ سے زیادہ وسیع ہے:
میں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ معنی و مفہوم کے لحاظ سے لفظ قتال کی بہ نسبت لفظ جہاد (جیسا کہ کتاب و سنت میں وارد ہوا ہے) کا دائرہ کہیں زیادہ وسعت کا حامل ہے۔ قتال کے مفہوم میں دشمن کے مقابلہ میں اسلحہ کا استعمال شامل ہے، اور اکثر لوگوں نے جہاد کا یہی مطلب سمجھا ہے حالانکہ لفظ قتال کا اشتقاق اور لغوی معنی جہاد سے مختلف ہے([3] ) تاہم فقہی عرف میں لفظ جہاد کو قتال کے ہم معنی قرار دے دیا گیا ہے اور اس طرح یہ اصطلاح بن گئی ہے اور اصطلاح پر بحث نہیں کی جاتی۔([4])
- لفظ اسلامی جہاد کا مفہوم([5]):
میں نے لفظ جہاد کے اس مفہوم کو ترجیح دی جس میں اس سے مراد کسی مسلمان کا اپنی بساط کے بقدر کسی برائی کے خاتمے کے لیے کوشش کرنا اور باطل کا تعاقب کرنا ہے(اور اس کے درج ذیل تین درجے ہیں)
- پہلا درجہ شیطان کے ورغلانے کی وجہ سےاپنی ذات میں (پیدا ہونے والی) برائی کے خلاف جہاد کرناہے۔
- دوسرے نمبر پر اپنے گردو پیش میں معاشرے کے اندر(پائی جانے والی) برائی کا مقابلہ کرنا۔
- اور آخر ی (بلند ترین درجہ) اپنی طاقت کے بقدر کسی بھی جگہ شر کا تعاقب کرنا ہے۔
- جہاد بالسیف کا تعلق معاملات سے ہے:
میں نے جہاد بالسیف کو امت و ریاست سے متعلقہ مسائل کے ضمن میں شامل کرنے کو قرین قیاس قرار دیا کہ اس کا تعلق شرعی سیاست کے احکام سے ہے جو کہ فقہ المقاصد([6] ) و المصالح([7])،فقہ الموازنات([8])، فقہ المآلات([9])
اور فقہ الاولویات([10] ) کی بنیاد پر قائم ہے۔
اور میرا جہاد کو معاملات ہی کی ایک قسم شمار کرنا اسے دین سے الگ نہیں کر دیتا کیونکہ معاملات کا عبادات کے ساتھ گہرا ربط ہے، اور جب جہاد قانونی ہو اور اس میں نیت بھی درست ہو یااس میں شرعی حدود اور اسلامی اخلاقیات کا خیال رکھا گیا ہو تو یہ اللہ کی عبادت اور اس کے قرب کا سب سے بڑا وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔
- آیت (كتب عليكم القتال) وجوب کے لیے ہے نہ کہ استحباب کے لیے، اور قتال سے مراد امت پر فرض قتال ہے:
میں نے اللہ تعالی کے فرمان:
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ﴾
جنگ (ظالموں اور فتنہ پروروں کے خلاف) تم پر فرض کر دی گئی ہے۔([11])
کو استحباب کے بجائے وجوب کے لیے ہونا راجح قرار دیا ہے اور جو (امام) جصاص نے آیت ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ﴾ کی تفسیر میں ابن شبرمہ اور ان کے مویدین سے نقل کیا ہے کہ یہ استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے، تو میں نے اس کا ابطال کیا ہے کہ یہ ظاہری لفظ اور فوری طور پر ذہن میں آنے والے اس کے معنی کے خلاف ہے جیسا کہ (دوسری ) آیت ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ﴾میں ہے، یعنی تم پر (روزے )فرض کیے گئے ہیں۔
اور جو انہوں نے آیت وصیت([12]) کے بارے میں بیان کیا کہ وہ استحباب کے لیے ہے تو یہ بات بھی قابل قبول نہیں،کیونکہ جو قتال امت پر فرض قرار دیا گیا اس کا بیان گزشتہ آیات میں آ گیا ہے اور اس سے مراد ان کے ساتھ قتال کرنا ہے جو اس امت کے ساتھ لڑائی میں پہل کر رہے ہوں، جیسا کہ سورت میں بیان کیا گیا ہے۔
- جہاد کا شرعی حکم: فرض عین یا فرض کفایہ؟
میں نے (اس قول کو ) ترجیح دی کہ جہاد مکلفین پر بہ ہر صورت واجب نہیں ہوتا، بلکہ اس کے واجب ہونے کے اسباب ہوتے ہیں جیسا کہ:
- حد سے گزرنے والوں کی سرکشی کو روکنا۔
- اہل ایمان کے دین میں فتنہ پیدا کرنے کو روکنا۔
- مصیبت زدوں کو نجات دلانا ۔
- اور کمین گاہوں میں بیٹھے دشمنوں کے حملے کا خوف ہونا۔
اور جب جہاد کسی بھی وجہ سے واجب ہو جائے تو کچھ لوگ دوسروں کی نمائندگی کر سکتے ہیں، اور یہ متعین افراد پر خاص حالات میں ہی فرض ہوتا ہے۔
- آیت ﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا﴾ اس وقت نازل ہوئی جب نبی (علیہ السلام) نے غزوہ تبوک کے لیےمنادی کی تھی۔
میں نے ان کا جواب دیا ہے جنہوں نے ارشاد باری تعالی:
﴿انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا﴾
(جہاد کے لیے) نکلو، ہلکے ہو یا بھاری (جس حال میں بھی ہو،فقر ہو یا غنی)۔([13])
سے استدلال کیا کہ جہاد ان احکام میں سے ہے جو فرض عین ہیں۔ اور میں نے (اس مفہوم کو) راجح قرار دیا کہ آپ کی مراد وہ لوگ تھے جن کو اس وقت جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا تھا کہ ان پر واجب ہے اور اسی لیے آپﷺ نے (حضرت) کعب بن مالک اور پیچھے رہ جانے والے ان کے ساتھیوں سے ترک تعلق کر لیا تھا یہاں تک کہ بعد میں اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔([14])
اسی طرح نبی ﷺ کے فرمان:
” إذا استنفرتم فانفروا”([15])
(جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا کہا جائے تو نکل جایا کرو)
کی رو سے اس شخص پر بھی (جہاد) واجب ہے جسے امام (وقت) جہاد کے لیے نکلنے کا کہے۔اور جب امام وقت کسی فرد یا گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا کہے تو ان پر بالاجماع جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔
- اقدامی جہاد ([16])کی فرضیت پر کوئی اجماع نہیں۔
میں نے بیان کیا کہ یہ جو کہا گیا ہے ہے کہ اقدامی جہاد اور دشمن پر سال میں ایک دفعہ چڑھائی کرنا اس امت پر فرض ہے اور یہ کہ اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے درست نہیں۔ اس موقع پر صرف دو امور پر اجماع ہے:
پہلا: یہ کہ کسی مسلم ملک میں دشمن گھس آئے تو ان پر اس سے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے، اور سب پران کی امداد کرنا واجب ہو جاتا ہے تاوقتیکہ (دشمن) شکست کھا جائے۔
دوسرا: یہ کہ دشمن کو ڈرانے کے لیے لشکر تیار کیے جائیں اور ضروری عسکری طاقت اور بقدر کفایت تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی جائے۔
- فرض کفایہ میں رکاوٹیں:
ہر سال جہاد کرنے میں جو رکاوٹیں اور اعذار فقہاء نے بیان کیے ہیں باوجودیکہ میں ان کے اس موقف کو غیر راجح سمجھتا ہوں میں نے ان میں یہ اضافہ کیا ہےکہ:
دنیا کے تمام ممالک امن، جنگ بندی، پُرامن ذرائع سے مسائل کے حل اور پُرامن تحریری،سمعی اور بصری وسائل کے ذریعے دعوت و تبلیغ کے مواقع فراہم کرنے پر اتفاق رائے قائم کریں۔
- کفار سے لڑائی کا شرعی سیاسی احکام سے ربط:
دشمن سے ہر سال جنگ کے واجب ہونے کو میں نے شرعی سیاست کے احکام کے تابع قرار دینے کی رائے کو وزنی قرار دیا، فقہ کی یہ قسم ایسی ہے جو کہ وسعت، لچک، ارتقاء اور مختلف نکتہ ہائے نظر کو قبول کرنےجیسے امتیازی وصف کی حامل ہے۔اس لیے کہ (فقہ کی) یہ (قسم )فقہ المقاصد والمصالح،فقہ المآلات،فقہ الموازنات اور فقہ الاولویات کی اساس پر قائم ہے۔ فقہ کی یہ بیش رنگی اقسام اپنے اندر اجتہاد انشائی([17])، اجتہاد انتقائی([18])، تنوعی اختلاف اور کسی ایک گروہ کی دوسرے گروہ پر نکتہ چینی کیے بغیر مختلف نکتہ ہائے نظر کے لیے وسیع گنجایش رکھتی ہیں تاوقتیکہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مسلمات کا احترم کرتا ہو اور شرعی اصول و قابل لحاظ امور کی پاسداری کرتا ہو۔
- کن وجوہ کی بنا پر جہاد فرض کفایہ ہو جاتاہے؟
میں نے راجح قرار دیا کہ جہاد میں فرض کفایہ کا معنی اس وقت متحقق ہو گا جبکہ:
- امت اپنی ضرورت کے مطابق عصر حاضر کی اتنی بری بحری اور فضائی عسکری قوت کی حامل ہو کہ دشمنوں اور کمین گاہوں میں بیٹھے ہووں سے اگر برتر نہ بھی ہو تو ان کے اسلحے کے مقابلے کی تو ہو، جسے چلانے کی ذمہ داری ایسے تربیت یافتہ لوگ اٹھائیں جن کوجسمانی،نفسیاتی اور ثقافتی بلکہ ان سب سے پہلے ایمانی اعتبار سے مطلوبہ تیاری کروا دی گئی ہو۔ اور یہ سب اشیائے خوردونوش، مصارف اور دیگر ذمہ داریوں جیسی اتنی اقتصادی صلاحیت کو سنبھالا دیے رکھے جو امت کو جنگ کے وقت کفایت کر جائے۔
- جدید جنگ کو سہارا دینے والے روز افزوں ترقی پذیر ضروری سامان حرب و ضرب کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل صلاحیت (کی حامل ہو ) اور اس میں جیتتا وہی ہے جو علم و تجربے میں برتر ہو۔
- اس امر کے ذمہ دار اور اللہ کے دشمن اور امت کے دشمن کو ڈرانے کے کے لیے ضروری تیاری کرنے کے ذمہ دار صرف ارباب حل و عقد ہیں، جب وہ مطلوبہ مقصد کے لیے تیاری کی اپنی ذمہ داری نبھائیں گے تو پوری امت گناہ و پریشانی سے بچ جائے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کر پائیں جیسا ہونا چاہیے اور گھر بغیر اسلحے کے بے یار و مددگار کھلے پڑے رہ گئے تو کیا حکام و محکومین اور کیا نگران و رعایا، پوری کی پوری امت گناہگار ہو گی۔
- ہمارے زمانے میں لوگوں کی تعداد بڑھانے کے لیے نکلنے والے معذوروں کا حکم:
میں نے بیان کیا کہ جسمانی طور پر معذور افراد پر قتال کے لیے نکلنا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ کمزور اور معذور ہیں، میں نے یہ استدلال اس ارشاد ربانی سے کیا ہے:
﴿لَيْسَ عَلَى الأعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الأعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ﴾
“نابینا پر کوئی مواخذہ نہیں، نہ اس پر جو پیروں سے معذور ہےاور نہ بیمار پر مواخذہ ہے۔”([19])
ویسے بھی ان کا نکلنا دشمن کو پسپا نہیں کرے گا بلکہ یہ تو دفاع کرنے والوں کے لیے ہی بوجھ بن جائیں گے۔
بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ:جہاں تک ایسے شخص کا تعلق ہے جو نکلنے کی قدرت تو رکھتا ہو لیکن (دشمن کو) پیچھے دھکیلنے کی(قدرت ) نہیں رکھتا تو اسے بھی نکلنا چاہیے تاکہ بھاری تعداد سے دشمن کو ڈرایا جا سکے۔
(اس پر )میں نے بیان کیا کہ ہمارے زمانے میں جدید خوفناک اسلحے کے ہوتے ہوئےکثرت کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رہی، اور ہمارے زمانے میں تو جدید ممالک اپنے ملک کی فوج میں بھرتی کیے جانے والے ہر فرد کے لیے کم از کم جسمانی سلامتی اور سماعت و بصارت جیسی حسی سلامتی کو شرط قرار دیتے ہیں تاکہ قتال اور اس کے لوازمات کا بوجھ اٹھا سکے، تاہم بعض لوگ جو قتال نہیں کر سکتے وہ جنگجوؤں کے لیے امداد، زخمیوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی جیسی نفع مند خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
میں نے آگاہ کیا کہ جدید اسلحے کا وہ بڑا حصہ جو برقیات کے ذریعے سے چلایا جاتا ہے اس کے لیے کوئی زیادہ جسمانی لیاقت کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لیے عقلی اور عملی قوت درکار ہوتی ہے۔
- کسی ملک پر دشمن کے حملہ کر دینے پر نفیر عام([20]) (کا حکم):
میں نے بیان کیا کہ جب کسی ملک پر اچانک حملہ ہو جائے تو اس حملہ زدہ ملک کے شہریوں پر واجب ہے کہ وہ حملہ آوروں کے مقابلے کے لیے پوری قوت کے ساتھ نکل کھڑے ہوں، ہر شخص جہاد کے ذمہ دار حکام کی ترتیب کے مطابق اپنی طاقت اور مہارت کے بقدر شرکت کرے۔ خواہ وہ حکام ریاست کے ہوں ۔ اگر ریاست کا وجود ہو ۔ یا ریاست کی عدم موجودگی میں اس تنظیم کے حکام ہوں جسے ارباب حل و عقد منتخب کریں۔ مردوں کے لیے ان کے مطابق اور عورتوں کے لیے ان کے مطابق، بوڑھوں کے لیے ان کے مطابق اور بچوں کے لیے ان کے مطابق، پڑھے لکھے افراد کے لیے ان کے مطابق اور غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے ان کے مطابق۔ مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کو ایسی جگہ پر لگایا جائے جو اس کے لیے مناسب ہو۔
- عورت کے ذمہ کون سا جہاد ہے؟
میں نے عورت کوصنفی اختلاف کی وجہ سے پیش آنے والی ماہواری،حمل کی تکالیف، درد زہ، نفاس کا بوجھ، دودھ پلانے کی ذمہ داری اور بچوں کی نگہداشت کو مدنظر رکھتے ہوئے (اس موقف کو) ترجیح دی کہ جہاد بمعنی قتال کے عورتوں پر واجب نہیں کیونکہ اس میں محنت، بوجھ اور ایسی مشقت لازمی اٹھانا پڑتی ہے جو کہ فی زمانہ عورت نہیں اٹھا سکتی، اور یہ سب کا سب جہاد ہی کا ایک رنگ ہے جو عورت ہی کر سکتی ہے نہ کہ مرد، لیکن کچھ عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی قسمت میں شادی کرنا نہیں ہوتا، اور کچھ کے نصیب میں حمل اور بچہ جننا نہیں ہوتا تو ایسی عورتوں کو ایسے طور پر جہاد میں شرکت کا موقع دیا جانا چاہیے جو ان کے لیے مناسب ہو، اور ویسے بھی جنگجویانہ مہارتوں کے لیے بسا اوقات ایسی خاص جسمانی لیاقت کی ضرورت پڑتی ہے جو کہ عموماعورت میں اس کی فطرتی نسوانیت کے بموجب نہیں پائی جاتی ۔
- جدید جنگ میں عورت کا کردار:
میں نے بیان کیا کہ مسلمان عورت اپنے ایمان،جذبے اور بہادری کے باوصف مسلمان جنگجو فوج کی مدد میں زخمیوں کی امداد و دیکھ بھال سے بڑھ کر بھی شریک ہو سکتی ہے کیونکہ آج کی جنگ آلات و مشینوں پر انحصار کرتی ہے جن کے استعمال کے لیے بدن سے زیادہ عقل کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے ایک تربیت یافتہ خاتون کا مرد کی جگہ لینا ممکن ہے۔
باب دوم: جہاد کی اقسام اور درجات
- جہادبالنفس (کیاہے)؟ اور کیا اسے جہاد کی اقسام میں سے نکال دینا چاہیے؟
میں نے جہاد بالنفس ([21])کو جہاد اکبر کا نام نہ دینے (کی رائے )سے اتفاق کیا ہے، اس لیے کہ اس کی بنیاد ایک ایسی
حدیث([22]) پر رکھی گئی ہے جوکہ جھوٹی ہے اور نبی اسلام پر بہتان ہے، البتہ کتاب الجہاد سے کلی طور پر اس موضوع کو نکال دینے -جیسا کہ بعض محققین کی رائے ہے- کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ اس کو اپنی جگہ پر رکھا جائے اور بلا کم و کاست اس کامناسب حجم دیا جائے جیسا کہ جہاد باللسان،جہاد بالمال،ظلم اور کرپشن کے خلاف جہاد اور سول جہاد کے موضوع پر بحث کی جاتی ہے، اور یہ سب کی سب جہاد ہی کی قسمیں ہیں، اور ان کو جہاد کا نام دینے والے ہم نہیں ہیں بلکہ یا تو یہ قرآن عزیز کا دیا ہوا نام ہے یا پھر سنت مطہرہ کا۔
ایسا کسی صورت روا نہیں کہ ہم باطل پر رد کرتے ہوئے اس ڈر سے کچھ حقائق چھپا لیں کہ مبادا انہیں باطل تک رسائی کا ذریعہ بنا لیا جائے گا۔
- شیطان کے خلاف جہاد کا درجہ:
میں نے واضح کیا کہ اسلام میں جہاد کے منجملہ دیگر رنگوں کے اس کھلے دشمن کے خلاف خفیہ جہاد کا رنگ بھی شامل ہے جس نے تخلیق آدم سے انسان کے ساتھ اپنی کھلی دشمنی کا اعلان کیا ہوا ہے، اور اپنی ذات اور لشکر کو ہر طرح کے اسلحے کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لیے تیار کیا ہوا ہے، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس کے مقابلے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے اور اس (سے بچاو) کے لیے ایسی حفاظتی ڈھالیں اور موزوں اسلحہ تیار کرے جو اس کی تدبیر کو بے کار کر دے اور اس کے مکر کو الٹا دے اور اسے اس جنگ سے شکست خوردہ و مغلوب کر کے لوٹائے۔
میں نے متوجہ کیا کہ اسلام میں جہاد کے مفہوم کو صرف قتال میں محصور کر دینا مناسب نہیں، یہ تو جہاد کی مختلف اقسام میں سے ایک قسم ہے، اگرچہ تمام اقسام میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے۔
- ظلم اور ظالموں کا مقابلہ کرنا:
میں نے سرکشوں کا مقابلہ کرنے، (ظلم سے) ان کا ہاتھ روکنے اور ان کی طرف جھکاو نہ رکھنے کے لیے ہر مسلمان کے لیے زبانی جہاد کی اہمیت بیان کی، اور بتایا کہ امت میں اس وقت تک خیر رہے گا جب تک اس میں ایسے لوگ رہیں گے جو ببانگ دہل کلمہ حق کے ساتھ امر و نہی کرتے ہوں چاہے اس کا نجام کچھ بھی ہو۔اور اس وقت یہ امت اپنی بقاء کا حق کھو بیٹھے گی جب اس میں سپراندازی کی روح سرایت کر جائے گی، کمزوری و بزدلی عام ہو جائے گی اور نفسی نفسی سے پہلے امتی امتی کہنے والا (یعنی اپنی ذات پر امت کو ترجیح دینے والا) نہ رہے گا۔اور اسی بارے میں یہ حدیث وارد ہوئی ہے:
” إذا رأيت أمتي تهاب الظالم أن تقول له أنت ظالم فقد تودع منهم”
جب تم دیکھو کہ میری امت ظالم کو یہ کہتے ہوئے ڈرتی ہو کہ تم ظالم ہو تو (اللہ کی مدد )ان سے اٹھ جاتی ہے([23])۔
- جہاد یا تغییر بالقلب([24]) کا مفہوم:
میں نے ظلم اور برائی کے خلاف داخلی (دل میں) جہاد کا مرتبہ بیان کرنے کے ضمن میں بیان کیا کہ جہاد یا تغییر بالقلب کوئی منفی رویہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،بلکہ اس کا مطلب ہے: برائی پر غصے،ظلم سے نفرت اور بگاڑ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے پارہ چڑھ جانا، اور یہ ہیجان و جذباتیت پر مبنی قلبی بغض کسی بھی متوقع عملی تبدیلی کے لیے اہم سرمایہ ہے، اس لیے کہ تبدیلی کے لیے ایسے مقدمات اور نفسیاتی محرکات کا ہونا ضروری ہے جو اس پر اکسائیں اور اس کی طرف دھکیلیں۔
- زبانی یا فکری گمراہی کا خطرہ:
میں نے اسلامی معاشرے میں برائی کے خلاف جہاد کا درجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ: اعتقادی و فکری گمراہی
عملی و سلوکی گمراہی سے زیادہ خطرناک ہے اور میں نے واضح کیا کہ گمراہی اور انحراف کی یہی قسم ہماری اسلامی تاریخ میں رونما ہونے والے ان بےشمار فتنوں اور لڑائیوں کا سبب بنی ہے جن کے نتیجے میں جنگیں ہوئیں،خون بہا اور تباہی مچی۔ اور اس نے ایک امت کو ایسے مختلف مسالک اور فرقوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے کو فاسق قرار دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ (یہ فرقے) باہم دست و گریباں ہیں۔
میں نے سیکولرازم([25])، لبرل ازم([26]) اور مارکسزم ([27])جیسی دور حاضر کی فکری گمراہیوں سے بھی خبردارکیا۔
- ارتداد اور بغاوت:
میں نے اسلامی معاشرے کے اندر ظلم اور برائی کے خلاف جہاد کا درجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جہاد کا سب سے اعلی درجہ ارتداد (کے خلاف جہاد کرنا) ہے اور یہ کہ قومی معیار کے اعتبار سے یہ جرم بغاوت کے مشابہ ہے،اس لیے کہ جب مرتد معاشرے کے اندر کفر و ارتداد کا داعی بن جائے تو اس سے معاشرے کی کایا پلٹ جاتی ہے اور اور ایک قوم کی وفاداری و نسبت تبدیل ہو کر دوسری قوم کے ساتھ جڑ جاتی ہے، لہذا ارتداد محض عقلی موقف میں تبدیلی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شناخت اور وفاداری میں تبدیلی اور ایک قوم سے لاتعلق ہو کر کسی دوسری ایسی قوم میں ضم ہونے کا نام ہے جو اس کی مخالف اور دشمن ہو۔
- ارتداد و مرتدین کا مقابلہ کرنا مسلم معاشرے پر فرض ہے:
میں نے زور دے کر کہا کہ اسلامی معاشرے کے اندر ظلم اور برائی کے خلاف جہاد کی سب سے اہم اور خطرناک قسم ارتداد اور مرتدین کا مقابلہ کرنا ہے خاص طور پر جبکہ اس کی پشت پر نظریاتی اور خارجی فکری جنگ ہو، اور امت پنے اور اس کی شناخت کے تحفظ کے لیے یہ جہاد ضروری ہے بالخصوص جبکہ یہ ارتداد اجتماعی شکل میں ہو۔
اور جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ارتداد کی سزا صرف آخرت میں ہے غلطی پر ہیں کہ نصوص کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے،چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيـْنَ آمَنُوْا مَنْ يَّرتّدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنَهِ فَسَوْفَ يَأتِيْ اللهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحٍبُّوْنَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِيْنَ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائٍم﴾
اے ایمان والو!تم میں سے جو بھی اپنے دین سے مرتد ہو گا(تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں)اللہ(ان کی جگہ پر)ایسے لوگوں کو لے آئے گاجن سے اللہ محبت فرماتا ہو گا اور وہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوں گے۔وہ ایمان والوں کے لیے نرم اور متواضع ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ میں خوددار باعزت اور غالب ہوں گے۔وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کریں گے۔( [28])
یہ قرآن کی اس نسل کو ترغیب ہے جسے اللہ نے امت اور اس کے عقیدے کے دفاع اور مقابلے کے لیے اس وقت کے لیے بچا رکھا ہے جبکہ مرتد ہونے والے مرتد ہوں گے اور دین چھوڑنے والےدین چھوڑ دیں گے۔
اور میں نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ارتداد کا مقابلہ کرنا مسلم معاشرے پر فرض ہے، اور ہمارے زمانے میں امت کو دو بڑی یورشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے:
( ایک )مسیحی بنانے کے عمل کی یورش، اور (دوسری) اشتراکی یورش۔
ایسے ہی میں نے مسلمان فرمانروا یا ریاست کی جانب سے آنے والے ارتداد کے خطرے سے آگاہ کیا جس کی پہلی ذمہ داری ہی امت کے عقیدے کا تحفظ ہونا چاہیے۔ ایسے ہی میں نے اس لپٹے ہوئے ارتداد کے خطرےسے بھی خبردارکیا جس میں صراحتا کفر کا اظہار نہیں کیا جاتا لیکن اس میں ارتداد ایسے شامل ہوتا ہے جیسے شہد میں زہر شامل ہوتا ہے، اور یہی فکری ارتداد ہے جس کے بارے میں شیخ ندوی نے کہا تھا:
ارتداد تو ہے لیکن اس (کو ختم کرنے) کے لیے کوئی ابوبکر نہیں ہے۔([29])
- اندرونی مظالم اور برائیوں کے خلاف جہاد کرنے کی اہمیت:
امام ابن القیمؒ نے جہاد کی جو درجہ بندی کی ہے اور جسے ہم نے اپنایا ہےاس میں ایک اندرونی جہاد ہے، یعنی مظالم، منکرات اور گمراہیوں کے خلاف جہاد، دوسرے لفظوں میں:مسلم معاشرے کے اندر (پائے جانے والے) شر و فساد کے خلاف جہاد۔اور اس جہاد کی اہمیت یہ ہے کہ یہ معاشرے کی شناخت اور معنوی وجود کو ہلاکت و ضیاع سے محفوظ رکھتا ہے،اور اسی وجہ سے بعض احادیث میں اس کی بیرونی جہاد پر ترجیح وارد ہوئی ہے:
“أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر.”
جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے.([30])
اور یہ اس لیے ہے کہ اس جہاد سے غفلت فساد کے پھیلنے اور خطرناک حد تک اس کے بڑھ جانے پر منتج ہوتی ہے، چاہے وہ فساد فکری ہو یا اخلاقی، سیاسی ہو یا کوئی اور، اور اس فساد کا معاشرے میں پھیلنا اور رچ بس جانا جنگ اور غیروں کی جانب سے قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل ([31]) کی ابتدائی آیات([32] ) میں بنی اسرائیل کا فساد مچانا اور پھر دو مرتبہ ان پر دشمنوں کا مسلط کیے جانااس جانب اشارہ کرتا ہے۔
- دعوتی و ابلاغی جہاد کی صورتیں:
میں نے جہاد کی اقسام اور اس کے درجات میں ایک قسم جہاد باللسان و البیان بھی ذکر کی جو کہ اسلام کی طرف دعوت اور اس کے پیغام کو پہنچانے کے ذریعے ادا ہوتی ہے۔ اور میں نے اپنے زمانے میں جہا باللسان و البیان کی کئی اقسام کی طرف دعوت دی ہےجن میں سے ایک قسم خطبات،اسباق اور لیکچرز کے ذریعے زبانی ابلاغ کی ہے۔اور انہیں (اقسام ) میں سے ایک قسم مختلف زبانوں میں لکھا گیا تحریری ابلاغ ہے جس کے مخاطب مختلف سطح کے لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کو مختلف سطحوں پر مخاطب کرتا ہے۔
اور ان میں سے ایک قسم مکالمے کے ذریعے ابلاغ کی ہے،اور اسی ضمن میں یا اس کے قریب قریب وہ میڈیائی ابلاغ بھی ہے جو ڈرامے کے کرداراوں کی صورت میں تھیٹر،شو یا ٹی وی پر سلسلہ وار چلنے والی کہانی کے ذریعے ہوتا ہے۔
- شہری جہاد (civil jihad):
میں نے امام ابن قیم کے بیان کردہ جہاد کے تیرہ درجات (یا قسموں) کی توثیق کی جن میں: نفس و شیطان کے خلاف جہاد،منکرات،مظالم اور گمراہیوں کے خلاف جہاد اور کفار و منافقین کے خلاف جہاد شامل ہے۔
مذکورہ بالا اقسام پر میں نے ایک قسم یعنی (سول جہاد) کا اضافہ کیا،اور میں ہی پہلا وہ شخص ہوں جس نے(پہلی مرتبہ) یہ اصطلاح پیش کی،اس سے میری مراد ایسا جہاد ہے جو معاشرے کی مختلف ضروریات کو پورا کرے اور اس کے متنوع مسائل سے نمٹے اور اس کی مادی ضرورتوں کو پورا کرے۔اور یہ بالعموم ایک سے زائد دائرہ کار پر مشتمل ہوتاہے: سائنسی یا ثقافتی دائرہ کار، معاشرتی دائرہ کار،اقتصادی دائرہ کار،تعلیمی یا تربیتی دائرہ کار، حفظان صحت سے متعلق یا طبی دائرہ کار،ماحولیاتی دائرہ کار اور تہذیبی دائرہ کار۔ اور اسی کی طرف قرآن نے متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا:
﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوْا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ﴾
تمام اہل ایمان (اپنے اپنے علاقوں سے)نکل کھڑے ہوں یہ تو ہونا نہیں ہے،تو ایسا کیوں نہ ہو کہ ہر آبادی سے ایک تعداد نکلے(جو اپنے اپنے علاقوں سے مرکز اسلام میں جائے) تاکہ دین میں تفقہ حاصل کرے (ایمان،اسلام اور احسان کی تفصیلات کو اچھی طرح سمجھے،عقائد،شریعت اور تزکیہ سے بخوبی واقف ہو) اور اپنے لوگوں کو واپس آ کر خبردار کرے،متبنہ کرے تاکہ وہ چوکنا ہوں(خطرات کو سمجھیں اور فکرمند ہوں)۔ ([33])
اور رسول کریم ﷺ نے اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے جہاد پر بیعت کے لیے آنے والے سے دریافت فرمایا تھا کہ:
“ألك والدان؟ قال: نعم، قال: ارجع ففيهما فجاهد.”([34])
کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟اس نےجواب دیاتھا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا تھا:واپس جاؤ اور انہیں خوش کرنے کی کوشش کرو (یہی تمہارا جہاد ہے۔)
- جہاد کا دعوت سے قتال کی جانب ارتقاء:
میں نے بیان کیا کہ جہاد کا عہد نبوت میں انفرادی دعوت کے ذریعے ڈرانے اور تبلیغ کرنے کے مرحلے سے اجتماعی
دعوت کے جہاد تک ارتقاء ہوا،پھر تکلیف پر صبر اور لڑائی نہ کرنے کے مرحلے سے ہوتا ہوا جہاد کی اجازت اور پھر جہاد کے حکم تک مرحلہ وار ارتقاء ہوا۔
- قتال کے بارے میں نازل ہونے والی پہلی آیت:
متعدد وجوہ سے میں نے ترجیح دی کہ قتال کے بارے میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ یہ ہے: ﴿أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقَاتَلُوْنَ بِأنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْر﴾ جن سے جنگ کی جا رہی ہے ان کو (جنگ) کی اجازت ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا،اور اللہ ان کی نصرت پر قادر ہے۔([35])
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اور اس آیت میں جہاد کی صرف اجازت دی گئی ہے۔
﴿كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ﴾
[1]– شیخ قرضاوی اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں: “ہم نے اس اہم اختتامیے کا اضافہ سعودی عرب کے شریف زادے اور پیارے بھائی ڈاکٹر علی حمزہ العمری کی تجویز پر کیا، ان کی رائے تھی کہ اس میں فقہی اختیارات و ترجیحات پر اکتفا کیا جائے، اور اس عمل میں انہوں نے مقدور بھر کوشش کر کے اپنا حصہ ڈالا جس پر ہم نے نظرثانی کی اور کچھ اضافات کیے، اللہ ان کی مساعی کو قبول فرمائے، لیکن ہم نے مناسب سمجھا کہ اس کے دائرے کو وسعت دی جائے تاکہ جس قدر ہو سکے اجتہادی استنباطات،علمی تحقیقات اور تجزیاتی غور و خوض جیسے امورشامل کر دیے جائیں، اس طرح اب یہ اختتامیہ کتاب میں مذکور بنیادی مفاہیم کا خلاصہ بن گیا ہے، اور اس عمل میں پیارے بھائی شیخ مجد مکی نے گرانقدرحصہ ڈالا ہے، اللہ انہیں جزائے خیر دے۔”
[2]– اختتامیے میں مصنف نے اس طرح ابواب بندی اور فصول کا اہتمام نہیں کیا جیسا کہ اصل کتاب میں ہے،ہم نے قارئین کی آسانی کے لیے ترجمہ میں ہر باب سے پہلے الگ سے باب کا عنوان دیا ہے جسے آخر تک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مترجم۔
[3]– جہاد کا لفظ “جہد” سے نکلا ہے جبکہ قتال “قتل ” سے مشتق ہے۔مترجم۔
[4]– یہ مشہور عربی قاعدے (لامشاحة في الاصطلاح) کا ترجمہ ہے،اس کے مفہوم کی تعیین میں کافی اختلاف پایا جا تا ہے یہاں تک کہ ایک عرب سکالر ڈاکٹر محمد بن حسین الجیزانی کو اس قاعدے کا معنی متعین کرنے کے لیے ایک تحقیقی مقالہ لکھنا پڑا جو کہ “لامشاحة في الاصطلاح: دراسة أصولیة تطبیقیة” کے عنوان سے مجلة الأصول والنوازل کی جلد ۱- شمارہ ۲۔ رجب ۱۴۳۰ھ– جولائی ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا۔ہم نے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ترجمہ کیا ہے۔ مترجم۔
[5]– ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتاب ” الجہاد الاکبر” میں لفظ جہاد کے لغوی و اصطلاحی مفہوم پر بڑی نفیس بحث کی ہے اور شیخ قرضاوی کے موقف کی تائید کی ہے۔ دیکھیئے: القادری، طاہر۔ 2015ء۔ الجہاد الاکبر۔ لاہور، منہاج القرآن پرنٹرز۔
[6]– فقہ المقاصد اور فقہ المصالح ایک ہی علم کے دو نام ہیں، مصنف نے اصل کتاب میں بھی ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے،ہم نے اصل کی رعایت کرتے ہوئے ترجمہ میں بھی دونوں کو جمع کر دیا ہے۔اگلے حاشیے میں اس علم کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔مترجم۔
[7]– متقدمین اہلِ علم کے ہاں فقہ المقاصد والمصالح کے نام سے مستقل کسی علم کا وجود نہیں تھابلکہ اصول فقہ کے ضمن میں ہی اس علم وفن سے بحث کی جاتی تھی،چنانچہ فقہ و اصول فقہ کی کتابوں میں مقصد، مصلحت، حکمت، منفعت اور اسرار وغیرہ کی جو تعبیرات ملتی ہیں انہی مباحث کو متاخرین نے الگ سے عنوان دے کر مستقل علم کی شکل دے دی ہے۔اس موضوع پر شیخ نورالدین الخاومی نے “الاجتهاد المقاصدی حجیته، ضوابطه، مجالاته” کے نام سےمفید کتاب لکھی جس میں المقاصد کی تعریف یوں کی ہے:
المقاصد ھي المعاني الملحوظة في ا لأحکام الشرعیة والمترتبة علیھا سواء أکانت تلك المعاني حکما جزئیة أم مصالح کلیة أم سِمات إجمالیة وھي تتجمع ضمن ھدف واحد، ھو تقریر عبودیة اللہ ومصلحة الإنسان فی الدارین. انظر: الخاومي، نور الدين. 1999م. الاجتهاد المقاصدی حجیته، ضوابطه، مجالاته. بيروت: دارالعلم للملايين. 1:52.
”مقاصد سے مراد وہ اہداف بھی ہیں جو شرعی اَحکام میں ملحوظ رکھے گئے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اُن شرعی احکام پر مرتب ہوتے ہیں، خواہ وہ اہداف جزوی حکمتیں ہوں، کلی مصلحتیں ہوں یا اجمالی نشانیاں،اور یہ سب مقاصد اپنے ضمن میں ایک ہی ہدف رکھتے ہیں اور وہ یہ کہ: اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار کرنااور انسان کے لیے دنیا اورآخرت میں فائدہ بہم پہنچانا “۔
[8]– فقہ الموازنات سے مراد مصالح اور مفاسد کا تین طرح سے موازنہ کرنا ہے:
۱۔ جائز مَصالح، مَنافع اور بھلائیوں کا آپس میں موازنہ۔
۲۔ ممنوع مَفاسد، مَضرتوں اور برائیوں کا آپس میں موازنہ۔
۳۔ اسی طرح مصالح و مفاسد اور منفعت و مضرت کے باہم متصادم ہونے کی صورت میں موازنہ۔
[9]– مکلف کے اعمال پر مرتب ہونے والے ان اثرات و نتائج کی رعایت کرنا جو کہ شرعی حکم کی تکییف پر اثرانداز ہوتے ہیں فقہ المآلات کہلاتا ہے،جیسا کہ حضرت خضر کا بادشاہ کے ڈر سے کشتی میں سراخ کرنا۔ دیکھیے: العثمانی، سعد الدین۔2017۔ فقہ المآلات مفہومہ وقواعدہ۔ قاہرہ۔ دارالکلمہ۔
[10]– فقہ الاولویات سے مراد اس امر کا فہم ہے کہ جو عمل اہم ہو اسے غیر اہم پر، اور جو راجح ہو اسے مرجوح پر مقدم رکھا جائے،اور ہر حکم کو شریعت کے مطابق مقام دیا جائے، اس موضوع پر علامہ قرضاوی نے (في فقه الأولويات )کے نام سےمستقل کتاب لکھی ہے جوکہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت سے چھپی ہے۔
[11]– البقرۃ:216.
[12]– آیت وصیت سے مراد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 180 ہے جسے یہاں بمعہ ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔: ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ﴾ (البقرہ: 180) تم میں جب کسی کی موت کا وقت قریب ہو اور وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر فرض ہے کہ والدین اور قریب ترین رشتہ داروں کے لیے بہتر طریقہ پر وصیت کر دے، اہل تقوی پر یہ ایک حق ہے۔
[13]– التوبۃ: 41.
[14]– یہ واقعہ تین صحابہ کرامؓ حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت ہلال بن امیہؓ اور حضرت مرارہ بن ربیعؓ کا ہے جو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پچاس دن تک سوشل بائیکاٹ کی سزا دی تھی۔ قرآن کریم میں سورہ التوبہ کی آیت ۱۱۸ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے جس کی تفصیلی روایت خود حضرت کعب بن مالکؓ کی زبانی صحیح بخاری کی کتاب المغازی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ مترجم۔
[15]– محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری،کتاب الجہاد،حدیث نمبر 2783.صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،حدیث نمبر 1353.
[16]– اسلامی فقہ میں جہادکی دواقسام پر زور دار بحثیں ہوئی ہیں، پہلی قسم اقدامی جہاد کہلاتی ہے جبکہ دوسری قسم کو دفاعی جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اقدامی جہادسے مراد وہ جنگ ہے جب ایک اسلامی حکومت خود آگے بڑھ کر کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہو ،جب کہ دفاعی جہادسے مراد وہ جنگ ہے جب کوئی دوسرا ملک کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہو۔ دفاعی جہاد کی فرضیت پر اتفاق ہے جبکہ اقدامی جہاد سے متعلق اہل علم کے دو گروہ ہیں، ایک اس کی فرضیت کا قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ اسے فرض نہیں سمجھتا، شیخ قرضاوی نے بھی عدم فرضیت کی رائے کو ترجیح دی ہے اور اس پر متعدد دلائل پیش کیے ہیں جیسا کہ متن کی عبارت سے واضح ہے۔مترجم۔
[17]– عصر حاضرمیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تغیر ، دور جدید کے افکار اور نت نئی ایجادات کی حیرت انگیزترقی نے ایسے مسائل کو جنم دیا ہے جن کے حل کے لیےجدید فقہ کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔ جیسا کہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے انتقال جنین کا مسئلہ ، اعضا کی پیوندی کاری، انتقال خون اور کرنسی کو سونے کے قائم مقام قرار دینا وغیرہ۔ ان نئے پیش آمدہ مسائل پر اجتہاد کرنے کے عمل کو اجتہاد انشائی کہتے ہیں۔ دیکھئے: القرضاوی، محمد یوسف۔ 1996ء۔ الاجتھاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ۔ قاہرہ، دارالقلم للنشر والتوزیع۔
2- اجتہاد انتقائی سے مراد یہ ہے کہ عصر حاضر کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئےاسلامی فقہ کے پورے سرمائے سے ایسا قول اختیار کیا جائے جس میں ایک طرف مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھا گیا ہو تو دوسری طرف فی زمانہ لوگوں کی ضروریات کی بھی رعایت کی گئی ہو۔ مثال کے طور پر ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے کو امام ابن تیمیہ وامام ابن قیم کے مذہب کے مطابق ایک شمار کرنا ،یا حج کے دوران زوال سے پہلے بھی رمی جمرات کو جائز قرار دیناتاکہ حجاج کرام کو بھیڑ کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات سے بچایا جا سکے جیسا کہ قطرکی شرعی عدالت کے چیف جسٹس علامہ عبداللہ بن زید آل محمود نے امام عطا ء اور امام طاؤوس جیسے تابعین کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ (باحوالہ بالا)۔
[19]– الفتح:17.
[20]– نفیر کالفظی معنیٰ ہے”بگل”۔ گویا اس اصطلاح کے لفظی معنی یہ ہیں کہ سب لوگوں کے لیے جنگ کا بگل بج گیا ہے۔ جبکہ نفیرِ عام کا اصطلاحی مطلب ہے’’حکمران کی طرف سے اپنے ملک کے ہر مسلمان کو جنگ کے لئے طلب کرنا”۔نفیر عام کی یہ اصطلاح دفاعی جنگ کے ضمن میں استعمال کی جاتی ہے ۔ دیکھیے: فاروق، ڈاکٹر محمد۔ 2010۔ جہاد و قتال چند اہم مباحث۔ مردان، دی پرنٹ مین پرنٹر۔ص 19۔
[21]– جہاد بالنفس سے مراد اپنی نفسانی خواہشات کو کچلنا ہے جیسا کہ اگلے حاشیے میں آئے گا۔مترجم۔
[22]– حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے جسے بیہقی نے “الزھد الکبیر” میں نقل کیا ہے کہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔ دیکھیے: الزھد الکبیر ، حدیث نمبر165۔
[23]-مسند احمد، حديث نمبر6786.
[24]– تغییربالقلب کا مطلب ہےکسی برائی کو دل سے برا سمجھنا اور دل میں اسے مٹانے کا جذبہ پیدا ہونا، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔ مترجم۔
[25]– آزاد دائرۃ المعارف ویکی پیڈیا میں سیکولرازم کی عریف یوں بیان کی گئی ہے: “سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے،یعنی یہ نظریہ کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔ سیکولرازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار سے الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔ سیکولرازم کو اُردو میں عموماً لادینیت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو علمی و لغوی اعتبار سے درست نہیں، سیکولرازم کا موزوں اُردو ترجمہ “خیار فکر” ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیکولر ریاست کے شہریوں کو یہ فکری اختیار حاصل ہے کہ وہ جس نظریہ، فکر یا عقیدہ کی بھی انفرادی طور مشق کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں پس ان کی اس مشق کا براہ راست یا ماورائے راست سٹیٹ افیئرز یعنی امورِ مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ خیارِ فکر علمی و لغوی اعتبار سے انگریزی زبان کی اصطلاح سیکولرازم کی تعبیر پر کماحقہ پوری اُترتی یے سب سے پہلے اصطلاح سیکولرازم کو ایک برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیاک نے 1851ء میں استعمال کیا تھا، یہ اصطلاح دراصل چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی، گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔دیکھیے: سیکولرازم/ https://ur.wikipedia.org/wiki۔
[26]-لبرل ازم (Liberalism)لاطینی زبان کے لفظ’لائیبر (Liber)اور پھر لائبرالس (Liberalis)سےماخوذہے، جسکامطلب ہے “آزاد،جوغلام نہ ہو” اس لفظ کا استعمال سب سے پہلے ۱۸۱۸ء میں فرانسیسی فلسفی مین دی بیران (Maine de Biran) نے کیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تعارف ”ایک ایسے عقیدے کے طو ر پر کرایا تھا جو حریت وآزادی کا علم بردار” ہے ۔ یہ دو لفظوں پر بنیادرکھتاہے (Liberty) آزادی اور(Equality) مساوات۔یعنی ریاست میں ہر شہری بغیر کسی مذہبی وخاندانی پس منظرکی تفریق کےبرابری کی بنیاد پرقانونی اور سیاسی حق رکھتاہواور(Liberty) کی تعریف سےمراد یہ ہےکہ ہرفرد قانون کےدائرہ کارمیں رہ کراپنےفکری افعال میں آزادہو۔اس کو انفرادی آزادی (Individual Liberty) بھی کہاجاتا ہے۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لفظ کےمعنی ایک آزادآدم تھا۔بعدمیں اس سے مرادایساشخص لیاجانےلگاجوفکری طور پرآزاد،تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کامالک ہو ۔ برطانوی فلسفی جان لاک( 1620ء – 1704ء) پہلا شخص ہےجس نےلبرل اِزم کوباقاعدہ ایک فلسفہ اورطرزِ فکر کی شکل دی۔جان لاک کو ہم ماڈرن لبرل ازم کابانی کہہ سکتے ہیں۔ دیکھیے: پنجاب یونیورسٹی۔ 2004ء۔ اردو دائرۃ المعارف۔لاہور، ادبستان۔8:312۔
[27]– مارکسزم کارل مارکس کے نام سے منسوب ایک سماجی ، سیاسی اور معاشی فلسفہ ہے ، جو مزدوری ، پیداواری صلاحیت ، اور معاشی ترقی پر سرمایہ دارانہ نظام کے اثر کا جائزہ لیتا ہے اور ایک مزدور انقلاب کو کمیونزم کے حق میں سرمایہ داری کو ختم کرنے کے لئے دلیل دیتا ہے۔ ۔دیکھیے: امام، ظفر۔ 1971ء۔ مارکسزم ایک مطالعہ۔ دہلی۔ اعلی پریس۔
[28]– المائدۃ: 54 .
[29]-مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے اسی عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا،اسی کی طرف اشارہ ہے۔
[30]– مسند احمد، حدبث نمبر 1884. سنن نسائی،کتاب البیعۃ،باب فضل من تکلم بالحق عند امام جائر، حديث نمبر 4209.
[31]– اسراء اور بنی اسرائیل ایک ہی سورت کے دو نام ہیں،عموما عرب اسے سورہ اسراء کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مصاحف میں اسے ابنی اسرائیل لکھا جاتا ہے، یہ ناموں کا اختلاف یا تعدد کچھ اور سورتوں میں بھی ہے جس کی وجہ سے بسبا اوقات عرب و عجم کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے،جیسے سورہ دھر و انسان،مسد و لہب،حم سجدہ و فصلت،وغیرہ، ہم نے اسی کے پیش نظر اسراء کا ترجمہ بنی اسرائیل سے کیا ہے۔مترجم۔
[32]– سورہ اسراء (جسے سورہ بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے) کی آیت نمبر ۴ اور ۵ کی طرف اشارہ ہے،ذیل میں دونوں آیات بمعہ ترجمہ پیش کی جاتی ہیں:
وَقَضَيْنَـآ اِلٰى بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ فِى الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِى الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُـوًّا كَبِيْـرًا (4) فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَـآ اُولِىْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا (5)
ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ تم روئے زمین پر دو مرتبہ بڑا فساد مچاو گے اور بڑی طاقت حاصل کرو گے(۴)پھر جب ان میں سے پہلی مرتبہ کے وعدے کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم تم پر زبردست جنگ کرنے والے اپنے بندے مسلط کریں گے جو علاقوں میں گھستے چلے جائیں گےاور یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا(اشارہ ہے صحابہ کرام کی فتوحات کی طرف)(۵)
[33]– التوبہ:122.
[34]-صحیح مسلم باب برالوالدین قدیمی کتب خانہ کراچی . 313: 02.
[35]– الحج:39.
فیس بک پر تبصرے