دسمبر اور جنوری میں سوشل میڈیا پر کیا کچھ زیربحث رہا؟

259

اگرچہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے خیالات کے اظہار کے لیے یوٹیوب کا استعمال بھی کرتی ہے، تاہم زیادہ تر نوجوان اس مقصد کے لیے فیس بک اور ٹوٹر کا سہارا لیتے ہیں۔ملک میں رہنے والی مختلف  مذہبی ، سیاسی اور سماجی جماعتیں بھی اپنے اپنے مقاصد کے لیے اب انہی سماجی ذرائع ابلاغ کا کثرت سے استعمال کرتی ہیں۔یہاں زیرگردش رہنے والے موضوعات کا جائزہ لینا نہایت اہم ہے ، کیونکہ نمایاں رہنے والے ہیش ٹیگززیادہ تر انفرادی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے کسی نہ کسی گروہ کا میڈیا سیل کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کا مقصد سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔لہذا ان ٹرینڈز کا جائزہ لینا ضروری ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر کونسی فکر کے حامل گروہ زیادہ متحرک ہیں اور وہ کس طرح اپنا کام کر رہے ہیں۔ ساری دنیا میں سماجی ذرائع ابلاغ پر حکومتیں نظر رکھتی ہیں تاکہ انہیں یہ جاننے میں آسانی ہو کہ معلومات اور روابط کے ان جدید و مؤثر ذرائع کو کوئی منفی مقاصد کے لیے تو استعمال نہیں کررہا۔ پاکستان میں بھی انتظامی سطح پر ایک ایسی جامع منصوبہ بندی کی حاجت ہے جس کے توسط سے سوشل میڈیا پر نوجوانوں پہ منفی اثرات ڈالنے والے یا انہیں غیرصحت مند سرگرمیوں میں استعمال کرنے کے لیے دعوت دینے والے عناصر کی پہچان ہوسکے اور سدباب کے لیے ضروری اقدامات کیے جاسکیں۔

انتہاپسندانہ افکار اور تشریحات کو پھلانے کے لیے سوشل میڈیا متشدد عناصر کے لیے انتہائی اہم اور مقبول ذریعہ ہے۔اس کے توسط سے لوگوں کی بڑی تعداد تک آسان رسائی ممکن ہوتی ہے اورتیزی کے ساتھ کسی خبر کو عام کیا جاسکتا ہے۔ انتہاپسندعناصراپنے حلقوں میں باہمی تعاون اور پیغام کو پرکشش بنانے کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز انٹرنیٹ ، بالخصوص سوشل میڈیا کے ذرائع سے بھی انتہاپسندی کے رجحانات کا جائزہ لیتا ہے جس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ ملک میں کونسے کناصر اس میں متحرک ہیں اور کیا مواد مشتہر کیا جاتا ہے، تاکہ شدت پسندی کے عوامل و اثرات کی جانچ کی جاسکے۔ مذکورہ رپورٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ذیل میں دسمبر اور جنوری کے مہینوں کے دوران سماجی ذرائع ابلاغ پہ نمایاں رہنے والے موضوعات اور ہیش ٹیگز کا سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر کس فکر کے حامل عناصر زیادہ متحرک ہیں اور نوجوانوں پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ماہ دسمبر کے دوران فرانس میں ایک مقامی استاد کی طرف  سے  رسول اکرمﷺ کےتوہین آمیز خاکوں کی حوصلہ افزائی پر اس کے قتل اور بعدازاں فرانسیسی صدرایمانویل میکرون کی طرف سے مسلم مخالف بیان کے بعد فیس بک اور ٹوٹر پہ اس  حوالے سے مختلف ہیش ٹیگز استعمال کیے گئے۔اس ضمن میں  مغربی ممالک  میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خلاف دس ہزار سے زیادہ ٹویٹ کیے گئے ۔ یہ ٹویٹر ٹرینڈ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے شروع کیا گیا ۔’’فرانس کے سفیر کو واپس بھیجو‘‘ کےہیش ٹیگ کے تحت اٹھارہ ہزار سے زائد ٹویٹس کیے گئے۔ یہ ٹرینڈ بھی تحریک لبیک کی جانب سے شروع کیا گیا ۔اسی جماعت کی طرف سے’’فرانس سے تجارت اسلام سےبغاوت‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بھی ٹرینڈ سامنے لایاگیا جس کے تحت 30ہزار سے زیادہ ٹویٹس کی گئیں۔اسی طرح مولانا خادم حسین رضوی کے چہلم کے موقع پر ’’سفیر کڈوبار‘‘ کا ہیش ٹیگ بھی سوشل میڈیا پر نمایاں نظر آیا۔ ان  ٹرینڈز کو پھیلانے میں دیگر مکاتب فکر نے بھی حصہ لیا۔

ماہ دسمبر کے دوران چند مسلم ممالک کی طرف اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی خبروں پر بحث ہوتی رہی۔ اس دوران پاکستان کا موقف بھی زیربحث رہا۔ کئی مذہبی جماعتوں نے اسرائیل مخالف ریلیاں بھی نکالیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی یہ موضوع سرفہرست رہا۔اُس وقت بالخصوص جمیعت علمائے اسلام نے ’’اسرائیل نامنظور‘‘ کے نام سے ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنایا  جس میں جماعت سے نکالے گئے مولانامحمد خان شیرانی کوبھی ہدف بنایا گیا جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت میں بیان دیا تھا۔

اس کے علاوہ دسمبر ہی میں جب وٹس ایپ کی جانب سے نئی پالیسی متعارف کرائی گئی اسے پرائویسی کے لیے غیرمحفوظ قراردیا گیا تھا اور ساری دنیا سمیت پاکستان میں بھی یہ موضوع کافی سرگرم رہا۔ ملک میں سوشل میڈیا پر #WhatsappNewPolicy کے ہیش ٹیگ کے ساتھ اکیس ہزار ٹویٹس کی گئیں۔اسی طرح 6 دسمبر 2016ء کو طیارہ حادثے میں سابق گلوکار اور مبلغ جنید جمشید جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان کی برسی کے موقع پر #WeLoveYouJunaidJamshed کے ہیش شیگ کے ساتھ سات ہزار کے قریب ٹویٹس کی گئیں جن میں  جنید جمشید کی یاد کو تازہ کیاگیا اور انہیں خرج عقیدت پیش گیا۔

اس ماہ جو ٹرینڈز زیادہ نمایاں رہے ان میں سے ایک’’ #ہمارانظریہ عمران_خان‘‘ کے نام سے بھی تھا۔لاہور میں جب حزب مخالف اتحاد نے حکومت کے خلاف جلسہ کیا تھا تو اس دن تحریک انصاف کے سوشل میڈیا مرکز کی جانب سے یہ ہیش ٹیگ استعمال کیاگیا جس کے تحت بارہ ہزار سے زائد ٹویٹس کی گئیں۔انہی دنوں حضرت فاطمہؓ کی زندگی کے حوالے سے برطانیہ میں تیار کی گئی ایک فلم کی ریلیز کا اعلان ہوا تھا۔ اس فلم پر مذہبی طبقے نے سخت ردعمل دیا، اسے توہین آمیز قرار دیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں اس کی تشہیر و ریلیز کو منسوخ کیا جائے۔ اس حوالے سے ایک ٹرینڈ #WeCondemnBlasphemousMovie سامنے آیاجسے ’ٹیم فکرِ بلال شہید‘ نے شروع کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس دباؤ کے بعد حکومت نے ملک میں فلم پر پابندی عائد کردی تھی۔

31 دسمبر2020ء کو کرک میں ہندوؤں کی ایک سمادھی پر مشتعل ہجوم نے دھوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں سمادھی اور مندر کی عمارت کو نقصان پہنچا۔ اس کے خلاف پورے ملک سے ردعمل آیا۔سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی اس حوالے سے بات کی گئی۔ اس دوران ایک ٹرینڈ#SayNoToExtremism سامنے آیاجس کے ضمن میں تین ہزار سے زائد ٹویٹس کیے گئے تھے۔

پاکستان کےسماجی ذرائع ابلاغ پر مذہبی جماعتوں کی فعالیت ایک نمایاں عنصر ہے جس کا مشاہدہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جو سوشل میڈیا استعمال کرتاہے۔ کوئی مذہبی تہوار ہو، مسلکی اہمیت کا کوئی موقع ہو یا مذہب سے جڑے کسی واقعے کی خبر ہو، ایسے مواقع پر باقاعدہ ایک مہم چلائی جاتی ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاتا ہے وہیں عام نوجوانوں کو متوجہ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ایک قابل توجہ امر یہ بھی ہے کہ مذہبی تناظر میں ٹرینڈز چلانے والی جماعتوں میں بریلوی مسلک ،بالخصوص تحریک لبیک سب سے آگے ہوتی ہے جبکہ دیگر مسالک کی تنظیمیں بھی اس میں شامل ہوتی ہیں۔مذہبی حوالوں سے جو چند نمایاں ٹرینڈز دسمبر کے مہینے میں سامنے آئے ان میں بعض یہ ہیں:#ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ، #شہادت عثمان، #عیدغدیر، #GustakheSahabaParLanatChallenge، #صحابہ معیار ایمان ہیں اور  #ہدایت کے ستارے صحابہ۔#پیکرعشق_ممتازقادری کے ہیش ٹیگ سے بیس ہزار سے زائد ٹویٹ کی گئیں ۔ یہ ٹویٹس تحریک لبیک پاکستان کے تینوں دھڑوں کے ساتھ ساتھ بریلوی مسلک کے دیگر مختلف پلیٹ فارمز سے بھی کی گئیں ۔ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس عنوان کے تحت ٹویٹس کی ہیں ۔

جنوری کے مہینے کے شروع میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں واقع کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے دس کان کنوں کو قتل کردیا گیاتھا ۔ یہ سانحہ سوشل میڈیا پر کئی دنوں تک زیربحث رہا۔ دہشت گردی کے اس واقعے کی سخت مذمت کی گئی اور جب تک جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے جنازے دفن نہیں ہوئے اس پر بات کی جاتی رہی۔اس حوالےسے ابتداءََ حکمران جماعت تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کی جانب سے سب سے زیادہ ٹویٹس کی گئیں جن کا ہیش ٹیگ  #UnitedAgainstTerrorism تھا۔اس کے بعد #HazaraKoJeenayDo کے ہیش ٹیگ سے بیس ہزار سے زائد ٹویٹ کی گئیں۔اکثر لوگوں نے اپنی ٹویٹس میں ہزارہ کیمونٹی پر حملوں کا الزام اسرائیل ، افغانستان اور انڈیا پر لگایا۔ #IndiaBehindMachAttack کے نام کا ٹرینڈ بھی سرفہرست رہا ۔جبکہ #ISISO ZionistAgenda کے ہیش ٹیگ سے پندرہ ہزار سے زیادہ ٹویٹ کی گئیں ۔ #HazaraShiasWantJustice اور #HazaraLivesMatter کےہیش ٹیگز  کے تحت بھی دس ہزار سے زائد ٹویٹس کی گئیں ۔یہ ٹویٹس مجلس وحدت مسلمین ، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن  اور شیعہ علماء کو نسل کے پلیٹ فارمز سے بھی کی گئی تھیں۔جب وزیراعظم عمران خان نے تدفین تک ہزارہ کمیونٹی کے دھرنے میں نہ جانے کا اعلان کیا تھا تو ان کے خلاف بھی سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ پر کافی باتیں کی گئیں۔ ٹویٹر پہ ان کے اس فیصلے کے خلاف اکیس ہزار سے زائد ٹویٹس سامنے آئی تھیں۔

جنوری 2021ء میں بھی سماجی روابط کے ذرائع ابلاغ پر جو ٹرینڈزنمایاں رہے وہ دسمبر2020ء میں چلنے والے پیغامات سے مماثلت رکھتے ہیں۔یہ بھی زیادہ تر تحریک لیبک کی جانب سے مشتہر کیے گئے۔یہ پیغامات انتہاپسندانہ نوعیت کے ہوتے ہیں جو نوجوانوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔یہ ٹرینڈز اکثر دن کے مخصوص اوقات میں منظرعام پر آتے ہیں اور عموماََ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی پیغام ہیش ٹیگ کے ساتھ سامنے لایا جاتا ہے۔بریلوی مسلک سے جڑی انتہاپسندانہ فکرحیرت انگیز طور پر سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلتی نظر آتی ہے اور بظاہر یہ بگتا ہے کہ جماعت تحریک لبیک بریلوی مسلک کا چہرہ بنتی جا رہی ہے اور اسے مقبولیت بھی مل رہی ہے۔گزیشتہ انتخابات میں ملک کے مذہبی ووٹ کا زیادہ تر حصہ اسی جماعت نے حاصل کیا تھا اس لیے اس کی عوامی طاقت اور اس کے فکری اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔تحریک لبیک اکثروبیشتر اقلیتوں، بالخصوص احمدیوں کے خلاف جارحانہ پیغامات جاری کرتی ہے۔جماعت کے مرکزی مرحوم رہنما علامہ خادم حسین رضوی کی زندگی اور موت کو بھی کرشماتی تناظر میں پیش کیا جاتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق خادم حسین رضوی نے اپنی زندگی میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے بعد جماعت کے پلیٹ فارم سے اب بھی جاری ہے۔جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے حکومتی ارکان اور وزیراعظم پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔

جماعت تحریک لبیک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کی جانے والی ٹویٹس میں ’’ RRF‘‘ کے الفاظ نمایاں ہوتے ہیں جو ’’رضوی ریویلیشن فورس‘‘ کا مخفف ہے۔ان کی ٹویٹس جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہوتی ہیں۔جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم صرف پاکستان کے اندر کے مذہبی معاملات پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھتی بلکہ ملک سے باہر کی متعلقہ خبروں کو بھی جگہ دی جاتی ہے اور ان کے پس منظر میں ہیش ٹیگز کے ساتھ پیغامات جاری کیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پہ فرانس کے معاملے کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کشمیر کو بھی زیربحث لایا جاتا ہے اور اس کی آزادی کے لیے جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے۔تحریک لبیک کے ہاں سماجی روابط کے ذرائع پر ’’غدار‘‘ اور ’’توہین رسالت‘‘ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں جس سے نوجوانوں میں مختلف سماجی طبقات کے مابین خلیج میں اضافہ ہوتا ہے اور تشدد کو ہوا ملتی ہے۔

جنوری میں جوخبریں نمایاں رہیں ان میں بلوچ سماجی کارکن کریمہ بلوچ کی کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں موت کا مسئلہ بھی شامل تھا۔اس حوالے سے مختلف ٹرینڈز سامنے آئے جن میں سے بعض میں اس موت کو خودکشی کہا گیا ، جبکہ بعض میں اسے قتل قرار دیا گیا جس کا ذمہ دار کسی نے بھارتی لابی کو گردانا تو کسی نے پاکستان پر اس کی ذمہ ڈالی۔

حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم ’’ای یو ڈس انفو لیب‘‘ نے جنوری میں دعوی کیا تھا کہ ایک ہندوستانی نیٹ ورک دنیا کے 65 ممالک میں 265 ’جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس‘ کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں طویل عرصے سے ملوث ہے۔جب یہ خبر منظرعام پر آئی تو پاکستان میں سوشل میڈیا پر یہ نمایاں ٹرینڈ بنی رہی۔ اس کے بارے میں حکومتی اور غیرحکومتی تمام طبقات نے بات کی اور سینکڑوں کی تعداد میں ٹویٹس کی گئیں۔

اگر مذکورہ بالا سرسری جائزے پر غور کیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح ہو رہا ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔یہ ٹرینڈز عام نوجوان انفرادی سطح پر نہیں چلاتے بلکہ ان کے پیچھے جماعتیں اور تنظیمیں کارفرما ہیں، مگر ان کا پہلا شکار عام نوجوان بنتے ہیں۔تنقیدی شعور نہ رکھنے والے اور جذباتی رویہ کے حامل نوجوان ان سے متأثر ہوجاتے ہیں اور وہ ان تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں یا اپنے طور پہ کوئی ےلط اقدام کرلیتے ہیں۔اس لیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہاپسندانہ رجحانات پر نظر رکھے اور اس کے سدباب کے لیے کوئی جامع حکمت علی ترتیب دے تاکہ اس سلسلے کو روکا جاسکے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...