انسانی تاریخ کے فلسفے پر سرسری نظر ڈالنے سے یہی سامنے آجاتا ہے کہ اس انسانی مکان میں جہاں وسائل کی تقسیم کی بنیاد پر طبقات کی کشمکش رہی ہے وہی اسی بنیاد پر ”مرکز“ اور ”حاشیے“ کی تفریق پیدا ہوگئی ہے۔ حاشیے (periphery) اور مرکز (core) کی تفریق اور کشمکش جہاں ایک طرف عالمی سطح پر ملکوں یا قوموں کے بیچ قائم رکھی گئی ہے تو دوسری طرف یہ کسی ایک ملک کے اندر بھی قائم و دائم ہے بلکہ اسی ملک کے اندر مختلت علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے مرکز اور حاشیے بنے ہیں۔ اسی لحاظ سے دیکھا جائے تو کئی علاقے ”حاشیے کے حاشیے“ ہیں۔ اس کرّہ ارض کو ”پہلی“، ”دوسری“ اور ”تیسری دنیا“ میں معاشی و سیاسی طور تقسیم کرنا بھی اسی تفریق کی پیداوار ہے۔ یہ سرمایہ داری دور کا بنیادی خاصہ ہے کہ مرکز میں سرمایہ مرتکز کیاجاتا ہے اور اکثر اوقات یہ سرمایہ ان حاشیوں سے خام مال یا انسانی و قدرتی وسائل کی صورت میں آتا ہے۔ عالم گیریت نے اگرچہ ذرائع ابلاغ کی مد میں اس خلیج کو کم کیا ہے تاہم اس نے انسانی ترقی کے لئے مواقع کی فراہمی میں مرکز اور حاشیے کے بیچ اس خلیج کو کم کرنے کی بجائے بڑھایا ہے۔ چونکہ جدید معیشت کا انحصار انسانی وسائل کے ساتھ ساتھ مشینی، تیکنیکی اور علمی استعداد پر ہے جس کے حصول کے لئے اب بھی سہولیات اور مواقع مرکز کے پاس ہیں اور مرکز ہی ان مواقع اور ان کی بدولت پیدوار کی مارکیٹ ہے لہذا حاشیے اور مرکز میں یہ تفاوت مزید بڑھ گئی ہے۔
معاشی و سیاسی پیمانوں کے علاوے مرکز اور حاشیے میں تفریق ثقافتی وسماجی سطحوں پر بھی پوری طاقت سے جاری ہے بلکہ کئی نئے رجحانات کی وجہ سے یہ تفاوت اب بسااوقات کشیدگی کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ البتہ جہاں اس تفریق کو ریاست کی سطح پر روارکھا جائے وہاں ریاست کی بنیادوں کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ بلوچستان اور سابق فاٹا کے علاقوں میں بے چینی اور نتیجے میں تصادم والی صورت حال کی ایک بڑی وجہ اداروں کی سطح پر موجود حاشیے اور مرکز کے بیچ اس خلیج کا بڑھنا بھی ہے۔
سماجی و ادراجاتی طور پر حاشیے اور مرکز کی یہ خلیج ہر علاقے میں موجود ہے۔ مثلاً ہمارے علاقے میں مضافاتی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کو ”ڈھأروش“ یعنی مضافاتی کہہ کر نہ صرف مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ اس کو حاشیے کے مرکز کی سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح سوات کی سطح پر عام لوگوں میں، کچھ تعلیم یافتہ لوگوں میں اور چند تعلیمی اداروں میں حاشیوں کی طرف یہ تعصب موجود رہتا ہے۔ یہ امتیاز اس صورت میں مزیدگہرا ہوجاتا ہے جب اس کا تاریخی پس منظر ہو اور مرکزاور حاشیے میں الگ ایتھنیسیٹیز (ethnicities) موجود ہو۔ عام لوگ مضافات کے لوگوں کو ملک یا” کلہوڑ“ کہہ کر ایک طرح کا مذاق اڑاتے ہیں تو کئی تعلیمی اداروں میں مضافات کے طلباء و طالبات کو مختلف ٹھپّوں سے نوازا جاتا ہے جس سے یہ طلباء و طالبات دل گرفتہ ہوکر تعلیم چھوڑدیتے ہیں یا پھر اپنی الگ ثقافتی شناخت چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند سال پہلے ایک تعلیم کے شعبے کی ایک خاتون آفیسر نے تو ایک مضافاتی استانی کو کافی غلیظ گالیاں تک دی تھیں اور اس کو اس کی مختلف شناخت کے طعنے دیے تھے۔
انتظامی لحاظ سے بھی مضافات اور مرکز کے بیچ اس سماجی و ثقافتی تعصب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مضافات میں سرکاری سرگرمیوں میں مقامیت کو اسی ذہنیت کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہےاور اکثرترجیح مرکزی ثقافت کو دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی مخفی رویّہ ہوتا ہے کہ یہ مضافاتی لوگ کس کام کے۔ وحشی ہیں،جاہل ہیں اور تہذیب سے دور ہیں۔ انتظامیہ میں یا سیاسی امور میں اس ذہنیت کو مضافات میں بسے بعض لوگ بھی پروان چڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ مرکز سے تعلق رکھنے والے ہر ایرے غیرے کے سامنے جی حضوری اورکسی قسم کی مزاحمت سے ڈرنا بھی اس ذہنیت کی آبیاری میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان کے شمال میں یہ حاشیائی علاقے قدرتی حسن، وسائل اور سرد موسم سے مالال ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا میں ملکوں کی معیشت بڑھانے کے لئے سیّاحت کو بڑھانے کی طرف توجہ مبذول ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ سیّاحت زیادہ تر فطری مناظر اور موسمی رہی ہے۔ اس بنا پر ایسے علاقوں کی طرف دھیان دیا جاتا ہے جہاں کا موسم گرمیوں میں ٹھنڈا رہتا ہے اور جہاں اونچے پہاڑ، جھیلیں، ابشار اور چراگاہیں موجود ہیں۔ بالائی سوات یعنی کالام، بحرین، مدین اور میاں دم کی وادیاں ان مذکورہ وسائل سے بھرے ہیں۔ اس لئے سیّاحت کا رخ اس طرف زیادہ ہونے لگا۔
اب ان وادیوں کی طرف سرکاری توجہ زیادہ ہونے لگی ہے اور سیّاحت کو بڑھانے کے لئے کئی اہم منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان منصوبوں سے مقامی لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا یا کتنانقصان یہ وقت ہی طے کرے گا لیکن کیا سیّاحت کی یوں ترقی اور فروغ سے یہاں کے مقامی باشندوں کی پائیدار ترقی ممکن ہوگی یا نہیں اپنے طور پر بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب نہ حکومت دیتی ہے اور نہ مقامی لوگوں کا دھیان اس طرف جاتا ہے۔
اس علاقے میں سیّاحت کے لئے انفراسٹرکچر تو شائد بڑھایا جائے گا تاکہ سیّاحوں کو آسانی ہو۔ تاہم ان سارے منصوبوں اور سرگرمیوں میں مقامی لوگوں کی بات کم کی جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کی انصرامی اور تعلیمی استعداد نہیں بڑھائی جاتی۔ اسی سے یہی گمان ہوتا ہے کہ مقصد اصل میں یہاں کے وسائل کو ہڑپنا ہے اور ان کو مرکز کے بڑے سرمایہ داروں میں باٹنا ہے۔ مقامی لوگوں کو اگر اس سیّاحت سے کچھ ملے بھی تو وہ ”اوپھل“ کی مانند ہوگا۔ یعنی وہی کچھ جو ان بڑے سرمایہ کاروں کے سرمایہ سے باقی بچ جائے جیسے کہ اخروٹ کے درخت کو اخروٹ پھل کے لئے جھاڑنے کے بعد کچھ دانے درخت کی شاخوں میں یا پھرنیچے زمین پر کہیں کہیں رہ جاتے ہیں۔
کہیں بھی مرکز کسی بھی صورت میں اپنے مواقع و اختیارات کو مضافات کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ آٹھارویں ترمیم کے بعد اس ترمیم کو ختم کرنے کی خواہش ہو یا ملک میں صدارتی نظام کی مہم سب اسی مرکزی رسی کی کڑیاں ہیں جس سے مضافات کو باندھ کر ہر لحاظ سے مرکز کے تابع اور اس کا محتاج کیا جاتا ہے۔ جہاں مرکز سے ناراضگی بڑھ جاتی ہے تو اس کو ملک دشمنی یا دہشت گردی میں ڈال وقتی طور پر دبا کر مزید بڑھایا جاتا ہے۔
سرکاری یا غیر سرکاری طور پر مرکز کی یہ خواہش ہر سطح پر موجود رہتی ہے۔
کئی سالوں سے جب سوات کے موجودہ ضلعے کہ جس کی آبادی ڈھائی ملین کے قریب ہے کو دو ضلعوں میں تقسیم کی بات کی جاتی ہے تو یہاں کا مقامی مرکز تجارتی، سیاسی، ثقافتی اور صحافتی لحاظ سے اس کی مخالفت پر اتر آتا ہے۔ اصل میں پیچھے وہی مرکز والی خواہش متحرک ہوتی ہے کیوں کہ اس سے مرکز سے وابسطہ کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان کے سرمایے کا ارتکاز ٹوٹ جائے گا تو دوسری طرف مقامی صحافی برادری کے ایک حلقے کو فکر ہے کہ ان کی پکڑ ڈھیلی پڑجائے گی۔
دوسری طرف جب سوات موٹرویز فیز ٹو کی بات کی جاتی ہے تو اسی پس منظر کی وجہ سے مخالفت کی جاتی ہے۔ سوات موٹر ویز فیز ٹو کے منصوبے کے تحت چکدرہ تا بالائی سوات کے علاقے چکڑی تک موٹر وے بنانا ہے۔ اب اس سے بالائی سوات کے سیّاحتی علاقوں کے مقامی لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا اس پر صرف قیاس آرائی کی جاتی ہے۔ ایک اہم دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ان وادیوں میں سیّاحت کے شعبے میں سارے سرمایہ دار سوات کے نہیں ،باہر کے ہیں۔ گو کہ اس قیاس ارائی میں صداقت ہے تاہم سب ایسا نہیں ہے، مثلاً بحرین کے سارے ہوٹل مقامی لوگوں کے ہیں اوران میں تین چار سوات کے باقی علاقوں کے لوگوں کے ہیں۔ مطلب یہاں کے سارے ہوٹل سوات کے باشندوں کے ہوئے۔ یہی صورت حال مدین کی ہے۔
پورے شمالی پاکستان میں کالام ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ ہوٹل ایک چھوٹے علاقے میں موجود ہیں۔ درست ہے کہ ان ہوٹلوں میں کئی ہوٹلز غیر سواتیوں کے ہیں مگر کئی سواتیوں نے یہاں بڑے پیمانے پر سرماکاری کی ہے۔
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو سوات کے اس مجوزہ موٹر وے کی وجہ سے سفر میں دشواری کم ہوگی اور یہاں کے مقامی لوگوں کو مینگورہ، پشاور، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں تک جانے میں آسانی ہوگی۔ یہ خود اپنی زات میں ایک بڑی سہولت ہوگی جس سے معاشرے کا ہر طبقہ مستفید ہوسکے گا۔
چاہے تو یہ کہ ہم مطالبہ کرے کہ سوات کے اندر اس موٹر وے کومختلف سیاسی زمینداروں کو نوازنے کی بجائے دریائے سوات کے کنارے ہی تعمیر کیا جائے جس سے نہ صرف دریائے سوات کی زمین مداخلت سے بچے گی بلکہ یہ ایک شاندار منظر پیش کرے گا۔ اس کے ساتھ مدین تا کالام مشرق کی جانب ایک اچھی سڑک کی تعمیر بھی ہو تو یہ پوری وادی ایک سیّاحتی عجوبہ بن جائے گی۔
فیس بک پر تبصرے