پانامہ ، عدلیہ کا امتحان

811

گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ملک پاکستان میں پانامہ لیکس سے اٹھنے والا سیاسی طوفان بالآخر ریاست کے اہم ترین ستون، عدلیہ سے ٹکرا گیا

گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری ملک پاکستان میں پانامہ لیکس سے اٹھنے والا سیاسی طوفان بالآخر ریاست کے اہم ترین ستون، عدلیہ سے ٹکرا گیا ۔ عدلیہ نے اس پھیلے ہوئے  کیمروں سیلاب کا رخ دریا کی طرح اپنی طرف موڑ لیا ہے ۔لیکن کیا وہ اس دریا کو کوزے میں بند کر پائیں گے یا نہیں یہ آنے والے دنوں میں دکھائی دے گا۔ شتر بے مہار کی طرح ٹی وی چینلوں کے کا رخ اب صرف اور صرف  کورٹ روم نمبر ایک پر ہے  ۔ عدلیہ اس کو ہ گراں کو کس طرح اپنے ہاتھوں سے توازن سے اٹھائے گی یہ ایک بہت بڑا امتحان ہے ۔ اس امتحان میں کئی طرف سے کوششیں ہوں گی کہ عدلیہ کو اس کو ہ گراں کے نیچے دبا دیاجائے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی جو چار اور ججوں کے ہمراہ اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں پہلے ہی واضح الفاظ میں خدشے کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح پانامہ معاملے کو عدالت میں لانے کے بعد غیر متوازن حدتک ذرائع ابلاغ میں اٹھایا جا رہا ہے ڈر ہے کہ اس سے عدالت عظمیٰ کی حرمت کو زدنہ پہنچے۔ لگتا ہے کہ عدالت نے اس صراط مستقیم کو بڑے اچھے طریقے سے بھانپ لیا ہے۔

پانامہ دستاویزات کے مطابق صحافیوں کے ایک عالمی گروہ نے ان لوگوں کو بے نقاب کیا ہے جنہوں نے آف شوز (سمندر پار ) کمپنیوں کی مددسے بڑی بڑی جائیدادیں بنائی ہیں یا پیسے کو جمع کیا ہے ۔ ان شخصیات میں دنیا بھر کی سیاسی ا نتظامی اور کاروباری اشرافیہ شامل ہے ۔ بد قسمتی سے اس لسٹ میں پاکستان کے موجودہ منتخب وزیر اعظم میاں نوازشریف کے تینوں بچوں کے نام بھی شامل ہیں اور خوش قسمتی سے مخالف سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کو ایک بھر پورسیاسی اور احتسابی معرکے میں بدل دیا ہے ۔ جوکہ ہونا بھی چاہیے ۔ کیونکہ انصاف اور احتساب ہی ایک معاشرے کو ترقی کی صیح بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں ۔ گو کہ وزیر اعظم نواز شریف متعدد مرتبہ خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ یہ کمپنیاں ان کی اولاد نے اپنے اور اپنے باپ دادا کے خون پسینے کی کمائی سے بنائی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کی اتفاق فاونڈری کا لوہا پورے ملک میں اور پھر پوری دنیا میں مانا گیاحتیٰ کہ ان کے پوتے اور وزیر اعظم کے بیٹے نے سعودی عرب میں ایک لوہے کی فیکٹری بھی قائم کر لی اور پھر اسے کئی گنا منافع پر بیچ دیا لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس ملک پر گزشتہ تین دہائیوں سے وقتاًفوقتاً حکمران اور گزشتہ تقریباً35سال سے پاکستانی سیاست کے افق پر چمکتا اور دن رات کا روبار ی ترقی کرتا یہ شریف خاندان اپنے اس ملک کی سرکاری لوہے کی مل ( پاکستان سٹیل مل ) کو خسارے سے باہر نہیں نکال سکا۔ لیکن چھوڑیں اس وقت ملک نازک موڑ پر ہے جمہوریت خطرے میں ہے ۔

گوکہ وزیراعظم نے خود احتسابی کی دعوت کئی بار دی لیکن کسی بھی احتسابی فورم پر اس جائیداد اور کمپنیوں کے بنانے اور لین دین کے متعلق واضح حقائق اور ثبوت پیش نہیں کیے ۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے اس موضوع کو اتنا اچھالا کے سپریم کورٹ جس نے پہلے پانامہ لیکس کے حوالہ سے وزیراعظم کے احتساب کی درخواستیں معمولی اور بے وقعت قرار دے کر خارج کردی تھیں تحریک انصاف کے پھیلتے ہوئے احتجاج کے ساتھ انہیں دوبارہ سماعت کےلئے منظو ر کرلیا اور پھر ایک پانچ رکنی بینچ نے اس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعادہ بھی کرلیا اور یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہوا جب تحریک انصاف پورے ملک میں احتجاجی تحریک تیز کر چکی تھی اور اسلام آباد کو غیر معینہ مدت کےلئے بند کرنے کااعلان کرچکی تھی جس کےلئے حکومت نے بھرپور دفا ع کرتے ہوئے تحریک انصاف کی اس منصوبہ پر کریک ڈاﺅن کردیا۔

اب جبکہ معاملہ عدالت میں آگیا ہے تو اپوزیشن اورحکومت کے ٹی او آر (ٹرم آف ریفرنس) تو پہلے ہی واضح ہوچکے ہیں، اپوزیشن کے ٹی او آر میں وزیراعظم اور اس کا خاندان مبینہ طور پر چور ہیں اور ان کی پکڑ اور احتساب ہونا چاہیے جبکہ حکومت کے ٹی او آر بھی اب تک واضح ہیں کہ اپوزیشن کے کئی ارکان بھی اسی طرح کے چور ہیں اس لئے ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور سب کے احتساب کےلئے یہ معاملہ پاکستان بننے سے شروع کرنا چاہیے۔ عدالت یہ سیاسی بکھیڑا کس طرح ایک احسن انداز میں نبیڑے گی کہ اس کی غیر جانبداری پرحر ف نہ آئے۔ یہی عدلیہ کا ایک بڑا کڑاامتحان ہے ۔دونوں اطراف سے پہلے ہی عدلیہ پر بلواسطہ دباﺅ نظرآنا شروع ہو گیا ہے ۔ جبکہ عدالت کو ابھی اس بات کا قانونی طور پر جائزہ بھی لینا  ہے کہ آیا عدالت اس طرح کاسیاسی معاملہ سن بھی سکتی ہے یا نہیں ۔ جب ملزم اقتدار کی اعلٰی منصب پر فائز ہو ۔

لیکن قوم کو یہ امید ضرور ہے کہ کم ازکم عدلیہ پاکستان میں احتساب کے حوالے سے غیر موثر اور کمزور قوانین کی نشاندہی اوراس کو موثر بنانے کےلئے تجاویز ضرور پیش کرے گی کیونکہ پاکستان کی ترقی کےلئے یہ لازم ہے احتساب کے نام پر سیاست نہ ہو۔ یہ احتساب بلا امتیاز ہو اور اس میں کسی کو نہ چھوڑا جائے ۔لیکن ایسا کرنے کےلئے کسی احتسابی این آر او کو بھی دوبارہ نہ لایا جائے تاکہ ریاست میں انصاف کا بول بالاہو اورحقیقی عوامی راج ہو ۔ امید ہے کہ 2009کے بعد کی عدلیہ نے بھی یہ خواب ضرور دیکھا ہوگا لیکن کیا وہ اس کی تعبیر کرپائے گی یہ وہاں بیٹھے لوگ مناسب سمجھتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...