یوکرین – امریکی لبرل امپریلسٹ لابی کی مہم جوئی کا شاخسانہ
یوکرین کے خلاف حالیہ روسی کارروائی میں سب دلچسپی لے رہے ہیں۔ دلچسپی کی بڑی وجہ مغربی طاقتوں کا مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر کنٹرول ہے۔ جو ٹرینڈ وہ چلائیں وہ دنیا بھر میں دلچسپی کا سبب بن جاتا ہے۔ غریب ہمسایہ ملک یمن میں سعودی جنگی کارروائیاں ہماری توجہ حاصل نہیں کر پاتیں کیونکہ مغربی میڈیا نہیں چاہتا کہ ہمیں معلوم ہو کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے خریدے گئے اسلحہ کے بل بوتے پر سعودی عرب یمن میں کیا ظلم ڈھا رہا۔ جب روس یوکرین میں فوجیں داخل کررہا تھا اسی وقت امریکہ صومالیہ میں “الشباب” کے ٹھکانوں پر میزائل داغ رہا تھا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔
ایران میں ہونے والے احتجاج تو وال ٹو وال میڈیا پر نظر آئیں گے لیکن بحرین میں لاکھوں کے مجمع پر مبنی حکومت مخالف مظاہرے خبر سے غائب کر دیے جائیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج ہم جو یوکرین کے جھنڈوں کو اپنی سوشل میڈیا پروفائلوں پر چِپکا رہے ہیں، اس میں مغربی میڈیا کے بیانیے کا عمل دخل بھی ہے۔
واپس آتے ہیں روس یوکرین تنازعے کی طرف اور اسے حقائق کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول تو یہ کہ یوکرین اپنی تاریخ میں ہمیشہ روسی سلطنت اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد روس ہی کے قائم کردہ سوویت یونین کے زیر اثر رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ رہی جس کا خاتمہ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام پر ہوا۔ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور اس کے زیراثر ممالک پولینڈ، مشرقی جرمنی، البانیہ، رومانیہ، ہنگری، اور چیکوسلواکیہ وغیرہ “وارسا پیکٹ” اور امریکہ اور اس کے اتحادی “نیٹو” فوجی اتحادوں کا حصہ تھے۔
سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی فوجی اتحاد “وارسا پیکٹ” بھی تحلیل ہوگیا لیکن امریکہ نے سرد جنگ کی نشانی “نیٹو” کو برقرار رکھا، تاہم روسی اور امریکی قیادت کے درمیان انڈرسٹینڈنگ یہ تھی کہ “وارسا پیکٹ” کا حصہ رہنے والے ممالک کو “نیٹو” کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، اور یہ کہ “نیٹو” مشرقی یورپ کی طرف توسیع نہیں کرے گا۔ لیکن لبرل امپریلیسٹ بل کلنٹن کے دور میں مشرقی یورپ کی طرف “نیٹو” کی توسیع کا کام شروع ہوگیا۔ پہلے پولینڈ، ہنگری اور چیک ریپبلک کو رکنیت دی گئی اور پھر نیو کان جارج بش کے دور میں بالٹک ریاستوں اسٹونیا، لتھوینیا، لٹویا اور بلغاریہ، سلواکیہ، رومانیہ وغیرہ کو بھی نیٹو کی رکنیت دے دی۔ ایک بات جسے سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ امریکی خارجہ پالیسی اور توسیع پسندی میں لبرل امپریلیسٹ کلنٹن (یوگوسلاویہ پر حملہ)، اوبامہ (لیبیا پر حملہ اور شام میں کارروائیاں) اور نیو کان بُش (افغانستان اور عراق) ایک ہی صفحے پر ہوتے ہیں۔
نیٹو کی مشرقی یورپ کی طرف تیز رفتار توسیع سے خطرے کو بھانپتے ہوئے پیوٹن نے بخارسٹ میں دوہزار آٹھ کو ہونے والے نیٹو۔روس سربراہ اجلاس میں یہ واضح کردیا تھا کہ نیٹو کی توسیع کے حوالے سے اس کے ہمسایہ ممالک یوکرین اور جارجیا ریڈلائن ہیں۔ لیکن امریکہ اور نیٹو نے یوکرین میں سیاسی انجینئرنگ (اورنج ریولوشن) کا عمل جاری رکھا اور بالآخر 2014 میں نازی ملیشیاؤں کی مدد سے منتخب لیکن روس نواز صدر ینوہکووک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور کیئو میں اپنے اتحادی لا بٹھائے۔
امریکہ اور نیٹو کا منترا اب یہ تھا کہ ہر ملک کو اپنے اتحاد چننے کا اختیار ہے اور اگر یوکرین نیٹو کا حصہ بننا چاہتا ہے تو روس کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اپنے ہمسائے میں اس طرح کی بات برداشت نہیں کرتا۔ ساٹھ کی دہائی میں جب امریکہ نے ترکی میں میزائل نصب کیے تو سوویت یونین نے جواب میں مبینہ طور پر کیوبا میں اپنے میزائل نصب کرنا شروع کیے تو امریکہ نے اس پر سخت ردعمل دیتے ہوئے نیوکلیئر وار کی دھمکی دی تھی، اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھا جب تک سوویت قیادت نے یہ یقین دہانی نہیں کرائی کہ کیوبا میں میزائل نصب نہیں کیے جائینگے۔
نیٹو کے حوالے سے امریکہ اور اتحادی ایک اور دعویٰ ہمیشہ کرتے نظرآتے ہیں کہ یہ ایک دفاعی اتحاد ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یوگوسلاویہ اور لیبیا پر نیٹو نے بغیر کسی دفاعی ضرورت کے حملے کیے جبکہ افغانستان اور عراق پر حملوں کا جواز گھڑا گیا۔
یوکرین کے نیٹو رکن بننے کی صورت میں نیٹو نام نہاد دفاعی انفراسٹرکچر جن میں میزائلوں کی تنصیب بھی شامل ہے روس کے دروازے پر ہوں گے، ایسے ہی جیسے سوویت میزائل کیوبا میں۔ امریکہ انیسویں صدی سے “منرو ڈاکٹرین” نامی ایک خارجہ پالسیی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت وہ مغربی ہمپشائر کے ممالک جیسے کیوبا، نکاراگوا، بولیویا، چلی، میکسیکو، وینزولا، برازیل، وغیرہ میں کسی تیسرے ملک کے سیاسی یا دفاعی عمل دخل کو اپنی مخالفت گردانتا ہے اور اسے برداشت نہیں کرتا، جبکہ خود ان ممالک میں سیاسی انجینئرنگ اور ناپسندیدہ حکومتیں الٹاتا رہتا ہے۔
ایک سپر پاور کے طور پر روس بھی اپنی ہمسائیگی میں کچھ اس طرح کی ہی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور معاشی بدحالی کی وجہ سے روس سرد جنگ کے خاتمے کے ابتدائی سالوں میں ہر وقت نشے میں دھت رہنے والے بورس یلسن کی قیادت میں امریکہ اور نیٹو کی توسیع پسندی کے خلاف خاموش رہا۔ لیکن پیوٹن کے دور میں روس نے عالمی سطح پر دوبارہ اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا، اور اس ضمن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پہلا دھچکا شام میں بشارالاسد کی مدد کے لیے فوجیں بھیج کر دیا۔
رقبے کے اعتبار سے یوکرین ایسا کبھی بھی نہیں رہا جیسا اب ہے۔ پہلے لینن اور پھر خروشیف اور برزنیف نے نئے علاقے یوکرین میں شامل کر کے اسے پھیلایا۔ جن دو علاقوں کی مدد کے نام پر روس یوکرین میں داخل ہوا ہے وہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے اور باغی فورسز روس نواز ہیں۔ دوہزار چودہ میں کیئو میں روس نواز حکومت کے دھڑن تختے اور مغرب اور امریکہ نواز کٹھ پتلیوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیئو اور مشرقی یوکرین کے باغیوں کے درمیان “منسک معاہدہ” طے پایا تھا جس کے تحت ان علاقوں کو خودمختاری دینا شامل تھا۔
حالیہ بحران میں یوکرین کے صدر زیلینسکی نے منسک معاہدے پر عملدرآمد سے انکار کردیا جبکہ امریکہ اور نیٹو نے روسی مطالبے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے کے جواب میں وہی منترا جاری رکھا کہ ہر ملک اپنے اتحادی چننے میں آزاد ہے۔ زیلینسکی کی منسک معاہدے پر عمل نہ کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اس کے تحت مشرقی یوکرینی صوبوں دونیتسک اور لوہانسک کو یوکرین کے نیٹو کی رکنیت کے حصول پر ویٹو پاور حاصل ہے، یعنی اگر وہ اس کی مخالفت کریں گے تو کیئو کو نیٹو رکن بننے کی اپنی کوششیں ترک کرنا ہوں گی۔
کیئو منسک معاہدے پر عملدرآمد سے انکاری تھا اور امریکہ نیٹو کی توسیع روکنے پر تیار نہیں تھا، ایسے میں روس کے پاس دو راستے تھے، یا تو وہ امریکہ اور نیٹو کے سامنے ہتھیار ڈال دے یا امریکی طرزعمل کی نقل کرتے ہوئے اپنی سکیورٹی ضروریات کے نام پر کسی دوسرے ملک پر فوج کشی کر دے۔ اس نے دوسرا راستہ چُنا۔
یوکرینی عوام ہاتھیوں کی لڑائی کی زد میں آگئے ہیں اور اس میں ان کی ناعاقبت اندیش سیاسی قیادت کا بھی ہاتھ ہے۔ اب جبکہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے، زیلینسکی ماسکو سے مذاکرات اور یوکرین کی غیرجانبدار حیثیت یعنی نیٹو کی رکنیت کے حصول کی کوششوں سے سبکدوش ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن آثار یہی ہیں کہ ماسکو جلد یا بدیر کیئو میں اپنی کوئی کٹھ پتلی حکومت قائم کرے گا۔ روسی ردعمل اور کارروائیاں توقع کے عین مطابق ہیں اور پیوٹن 2008 سے اس حوالے سے متنبہ کرتے آرہے تھے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے اس صورتحال سے کیا حاصل کیا؟
سب سے پہلے تو جرمنی کو جانے والی روسی گیس پائپ لائن “نارڈ سٹریم ٹو” کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ امریکی قیادت ایک عرصے سے اس منصوبے کی مخالفت کر رہی تھی۔ دوسرا وار ہسٹریا پیدا کر کے امریکہ نے دو بڑی جنگوں کے متاثرہ یورپ کو دفاع کے نام پر پھر اپنے پروں میں لے لیا ہے۔ یورپ جو آہستہ آہستہ عالمی جنگوں کے نفسیاتی دباؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امریکی اجارہ اداری سے نکل رہا تھا وہ دوبارہ واشنگٹن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یوکرین اس میں محض ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
نئی ممکنہ عالمی صف بندی کیا ہے؟
امریکی خارجہ پالیسی میں دو طرح کے طرز فکر پائے جا رہے ہیں۔ ایک جو ابھی تک عالمی معاملات کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد والے منظر میں دیکھتا ہے جس میں امریکہ واحد سُپر پاور ہے، اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ اس میں لبرل امپریلسٹ اور نیوکان دونوں شامل ہیں جبکہ ایک حقیقت پسند ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ تیس سالوں میں دنیا کافی بدلی ہے اور یہ کہ امریکہ کا اصل مقابلہ چین سے ہوگا، اور اس لڑائی میں روس اگر دوست نہیں تو دشمن بھی نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرے طرزفکر کی ہلکی سی جھلک ہمیں ٹرمپ دور میں نظر آئی جب روس کی طرف دوستانہ رویہ تھا اور چین کی طرف خاصا مخاصمانہ طرزعمل دکھایا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ میں چینی ثقافتی مراکز “کنفیوشس سنٹروں” تک پر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں۔ چار ملکی فورم “کواڈ” کے تحت بھارت، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی انڈو۔پیسیفک میں سالانہ فوجی مشقوں کی بحالی بھی چین مخالف پالیسی کا حصہ تھیں۔
لیکن بائیڈن یا اوبامہ ٹو کے آتے ہی لبرل امپریلسٹ اور نیوکان دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ میں براجمان ہیں اور روس اور یورپ ان کا پسندیدہ پراجیکٹ ہے۔ قلیل مدت میں مغربی یورپ اور نیٹو کی رکن مشرقی یورپی ریاستوں پر امریکہ کا کنٹرول بڑھے گا۔ لیکن یورپ کی انرجی ضروریات کے سامنے اسے زیادہ عرصہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری طرف روس مخالف پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روس اور چین قریب تر ہوتے جائیں گے اور امریکہ کو بعد میں چین سے نمٹنے میں خاصی دشواری ہوگی۔
چنانچہ لبرل امپریلسٹ بائیڈن انتطامیہ کی روس مخالف نیٹو توسیع پسندی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی یونی پولر ورلڈ کی بجائے ملٹی پولر ورلڈ پر منتج ہوگی، جس میں روس مغرب کے بجائے مشرق اور جنوب میں ایشیا کے ساتھ روابط بڑھاتا نظر آئے گا،جبکہ چین اس شراکت میں سینئر پارٹنر کے طور پر امریکہ کے عالمی اثرونفوذ کو چیلنج کرنا نظر آئے گا۔
فیس بک پر تبصرے