پسماندگان کے لیے ایک تحریر
انسانی زندگی بہت مختصر اور خواہشات لا محدود۔محبت کے لیے وجہ نہیں ہوتی ہے لیکن ن ۔ف ۔ر۔ت کے لیے بہانے بہت. الغرض ایسا ہی ہے کہ انسانی سماج میں لفظ تھوڑے لیکن ان کے معانی زیادہ ۔ عجیب بات یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں ایک شے ( Object) کے مختلف نام ہوتے ہیں۔ یہ تونہیں پتہ کہ اتنے ناموں کا کرنا کیا؟ اور اگر اتنے نام ہیں تو اوصاف و خصائص بھی گوناگوں ہی ہوں گے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بات کب ہوگی اور ابلاغ کیسے ممکن ہوگا؟آج کل ہماری مجلسوں میں ایک عمومی مرض یہ لاحق ہوا ہے کہ جہاں ہم ایک موضوع پر بات کرتے ہوئے کبھی کبھار ایک ہی جملے میں لفظوں اور اصطلاحات کی کھچڑی پیش کرتے ہیں۔زبان و بیان کا مسئلہ ویسا ہی پیچیدہ ہے تو وہیں لفظوں کو سلجھاتے سلجھاتے بولنے والا خود ہی سپائیڈر مین بن جاتا ہے نہ زمین پر چلتا ہے ڈھنگ سے اور نہ کسی دیوار پر ٹکتا ہے سلیقے سے۔ کودتا پھاندتا لٹکتا دوڑتا ہے بس۔ ایک بار ہم کہیں کوئی تربیت (ورکشاپ ٹریننگ)لے رہے تھے بولنے اور تقریر(پریزنٹیشن) کرنے کی تو وہاں ہمارے استاد (ریسورس پرسن) نے شرکاء (پارٹی سی پینٹس) کو ہدایت(انسٹرکڈ) کی کہ اگر کسی نے اپنی پریزنٹیشن میں ہال کی چھت کو دیکھا تو شرکاء نے چھت کو دیکھنا ہے اور اگر اس نے اپنی تقریر کے دوران آں ہوں کی تو سب نے وہیں آواز با جماعت نکالنی ہے۔ آپ یقین کریں کہ اس دن چھت کو بھی اپنی قسمت پر ناز تھا اور ہال میں راگ رنگ کا سا سماں تھا۔ اس وقت تک زندگی میں اتنی ٹھوکریں نہیں کھائی تھیں سو بہت زیادہ قہقہے لگائے اور مزے لیے۔ اب سوچتا ہوں جب ہم بولتے ہیں تو دیکھنے کو آسمان رہتا ہے اور بولنے کو وہی گھسے پٹے معاملات ۔
برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ فیض صاحب سے موسوم وہ واقعہ تو مستنصر حسین تارڑ کے بھتیجوں کو بہتر یاد ہوگا کہ جب وہ احباب کی محفل میں بیٹھے تھے توخدشہ یہ ظاہر کیا گیا کہ آئندہ برسوں میں انارکی ہوگی اور کشت و خون کا وہ حال ہوگا کہ لوگ دلی کی تباہی بھول جائیں گے تو فیض صاحب نے عجیب بات کہی کہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں حالات یوں ہی نہ رہے۔ بات یہ ہے جدلیات کا اصول کائنات کے گوش و کنار میں عمل پذیر ہے لیکن ایک معاشرہ جہاں لاتعلقیت اور منظم جہالت پائی جاتی ہو وہاں ارتقا کا عمل بھی اتنا ہی بھیانک ہوتا ہے۔
لاتعلق افراد کے ہجوم میں اجتماعی زبان و بیان بھی اپنی ساخت اور ہئیت میں لاتعلق ہی ہوتا ہے۔ what to Us? ہمیں کیا؟ وغیرہ کہنے میں عار نہ ہو تو یہ شعر سب پر صادق آتا ہے:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
افراد کے ہجوم میں بطور فرد جس جغرافیے میں پلا بڑا ہوں وہیں آس پاس خدائے رحیم، خدا بخش، یزدان خان جیسے ناموں کے علاوہ خدا بیامرزاد، خدای دی اوبخشہ اور خدای پہ امان جیسے روزمرہ سنتے آئے ہیں، لیکن اب تو حال یہ ہے کہ ایک بار ہمارے صاحب زادے نے مجھے خدا حافظ کہنے سے روکا تومیں نے پوچھا کیوں؟ تو کہا کہ ہماری ٹیچر نے کہا ہے یاد رہے یہ وہی ٹیچر نے جس نے میرے بیٹے کو یہ بھی سکھایا ہے کہ قائد اعظم کا اصلی نام محمد علی جناح ہے، قائد کا مطلب Leader ہے اور اعظم کا مطلب Great ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان اس لیے بنایا کہ برصغیر میں مسلمان مسجدوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے وغیرہ وغیرہ اچھا بات کہاں جا کے نکلی کہنا یہ تھا کہ خدا حافظ ہی کیوں؟ میں نے کہا بیٹا خدا حافظ بھی ٹھیک ہے اور وہ جو آپ کی ٹیچر نے کہا ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔ پھر میں نے اس دن سے سوچنا شروع کردیا کہ میرا انگلش میڈیم کا طالب علم بیٹا ایک نہ ایک دن شمس الرحمن فاروقی کی وہ تحریر ضرور پڑھے گا جس میں وہ خدا حافظ کے عنوان سے ایک پورا مضمون لکھ چکے ہیں
اب آتے ہیں اس طرف جہاں ہم رہتے تو سایہ ء خدائے ذولجلال میں۔ لاتعلق اور پرے پرے دلوں کے ساتھ، جہاں ہم سے اچھے ہمارے در و دیوار ہیں جو ہم سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔ وہاں جہاں ہمیں غیر محفوظ اندازمیں دوسری کی زندگی کی ٹوہ لینے کی عالمی ذمہ داری ملی ہے تو وہیں ہمیں بطور انسان کسی کی زندگی سے غرض نہیں۔ یک گونہ نشاط نہیں تو بے خودی غرض ِ نشاط ضرور ہے اور بے خودی بھی بیگانگی کی معراج والی۔ زندگی پر بات نہیں کرتے موت پر، مرنے والوں پر اور بے موت مرنے والوں پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔
پسماندگان المعروف لواحقین جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو کے مصداق آئے روز ایک المیے سے دوچار ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ نفرت انگیز تقاریر و تحاریر کے علاوہ وہ چھوٹے چھوٹے زبانی رد عمل جن سے ہم اور دوسرے اپنے جذبات، احساسات اور نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسا کسی کہ مرنے پر اگر دشمن ہو تو جہنم واصل کرتے ہیں یا پھر اگر ”اپنا”ہو جنت کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔ نوبت اس حد تک پہنچی ہے کہ ہم کسی کو مرحوم لکھتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں۔ زندگی میں تو ترحم سے پیش نہ آسکے اب کسی کے مرنے کے بعد بھی ڈرتے ہیں کہ کسی کی مغفرت کی دعا منہ سے نہ نکلے ورنہ سب کچھ نشٹ ہوجائے گا۔
کہنے کو تو ہر مذموم واقعے کے پیچھے نہ صرف بیرون کا ہاتھ ہوتا ہے بلکہ یہ فعل ِ بدسرانجام دینے والا مسلمان تو بالکل نہیں ہوسکتا۔ درست ہے کہ یہ کام کسی مسلمان کا نہیں ہوسکتا ہے تو اس کے بعدہم مفت میں مرنے والوں کے ساتھ اجتماعی طور پر کرتے ہیں وہ ہرگز قابل تحسین نہیں ہوسکتا۔ہلاک سے جاں بحق اور جاں بحق سے شہید تک کا سفر مردہ بہ دست زندہ والی مثال صادق آتی ہے۔ نہ کسی کو جینے دینا اور نہ مرنے پر اکتفا کرنا۔ چور کو گھر تک پہنچانے کی، مردے کو قبر تک، دشمن کو جہنم میں داخل کرانے کے علاوہ رشتہ داروں کو قیامت کے دن نہ پہچاننے کی ذمہ داری ہم سب پر خوب آئی ہے۔چونکہ ہم سب پسماندہ ہونے کے ساتھ پسماندگان بھی ہیں تو ضروری ہے کہ لفظوں کی ایک ایسی فہرست تیار کی جائے جس میں ہم اپنے اپنے مقصد کے تحت مردہ دشمن یا مردہ دوست پر بوقت ضرورت اپنی اپنی رائے کا اظہار ضرور کرسکے۔کسی کے جسم کے زخموں سے ابھی خون رِس ہی رہا ہوتا ہے تو ادھر ہم اپنی نظریاتی لیبارٹری سے ڈی این اے رپورٹ جاری کرچکے ہوتے ہیں۔ خون تو خون ہے، زندگی تو زندگی ہے کوئی ہلاک ہو یا پھر شہید۔کس نے یہ حق دیا ہے کہ ماؤں کی گود اجاڑتے پھرے اور کوئی اس پر جنت اور جہنم کی رسیدیں بانٹتاپھرے۔ گلی کے کچرے سے لے کر اخبار کی خبروں تک ایسا لاتعلق معاشرہ کسی عمرانی معاہدے یا پھر کسی ایسے انقلاب کا مستحق ہے جہاں سے یہ منظم جہالتیں اور سخت دلی ختم ہوسکے۔
جب خوف بھی ہو اور خوب بھی کہنا ہو تو متن سے طویل تمہید ہوتی ہے اور خلاصہ کبھی بھی نہیں ہوتا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔غالب نے نہ معلوم کس یونانی فلسفیانہ نکتے کی ترنگ میں کہا تھا کہ:
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
فیس بک پر تبصرے