ہم آہنگی میں نوجوانوں کا کردار: سندھ میں جامعات کے طالب علموں کے ساتھ منعقدہ ورکشاپس کی رپورٹ
فضہ بتول
تعارف
پاکستان کی مجمو عی آبادی کا 30 فیصدحصہ 15تا 29 سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جوبھرپور قوت تعمیر اورجذبے کے ذریعے، قومی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً، اس ضمن میں ‘پاکستان کے روشن مستقبل’ کے تمام بیانیے، نوجوانوں کی بڑی تعداد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ تاہم، صلاحیتوں کو بھرپور بروئے کار لانے کے لیے درست سمتوں کا فقدان یا عدم تعین، نوجوانوں میں مایوسی اور اضطراب کا باعث بنتا ہے، اور ملک میں امن و استحکام کی کوششوں میں ان کی لاتعلقی یا دوری کا سبب بھی۔
فرسودہ و طبقاتی نظامِ تعلیم، روزگار کے غیر مسا وی مواقع اور میرٹ یا اہلیت کی ناقدری جیسے عوامل پاکستانی نوجوانوں میں شناخت کے بحران اوربیگانگی جیسے مسائل میں اضافے اور ابتری کا باعث بن رہےہیں۔ شناخت، معاشرتی مقام اور معاشی تحفظ کی تلاش میں سرگرداں، یہ نوجوان انتہا پسند نظریات اور تنظیموں کا اثر قبول کر سکتے ہیں۔ 11ستمبر کے حملوں کے بعد، بہت سے مقامی جہادی گروہوں نے افغان طالبان، القاعدہ اور حال میں داعش صوبہ خراسان سے وابستگی اختیار کی ۔ یہ گروپ ناخواندہ اور مدارس کے طلباء کے علاوہ کالجوں اور یو نیورسٹیوں سے تنظیمی بھرتیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان کے بہترین مستقبل کی تشکیل میں، نوجوانوں کے اہم کردار کے پیشِ نظر، پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس سٹڈیز کے بہت سے گزشتہ پراجیکٹ نوجوانوں پر مرکوزتھے ۔تاہم، ان تحقیقی پراجیکٹس کے نتائج بہت حوصلہ افزا نہ تھے ۔ ادارے کی 2010 کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی تقریباً تمام مذہبی اور عسکریت پسند تنظیموں کے میڈیا،یا ذرائع ابلاغ کے سامعین و قارئین کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ نوجوانوں کی سروے رپورٹ کے مطابق، پاکستانی نوجوانوں میں سیاسی و معاشرتی شمولیت اور رحجان میں کمی آ رہی ہے، اور نتائج اخذ کیے کہ ”مختلف الانواع تعلیمی،سیاسی، معاشرتی و سماجی اور دینی عوامل، نوجوانوں کو انتہا پسندانہ نظریات اور بنیاد پرستی کے رحجانات پر مائل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں ۔” ادارے کی ایک اور پالیسی دستاویزنے نوجوانوں کی ہمہ جہت بنیاد پرستی کی وجوہات بیان کیں اوران کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مختلف محاذوں پر کثیر جہتی کوششوں کی سفارش کی ۔
ان نتائج اورگزشتہ پراجیکٹس کی سفارشات کی روشنی میں، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی پاکستان کے تمام صوبوں کے نوجوانوں سے کی جانے والی موجودہ کاوش کا مقصد، اہم سماجی، دینی و نظریاتی اور سیاسی مسائل کےمتعلق نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ہے، تا کہ وہ متشدد اور غیر مدلل و غیر عقلی نظریات و بیانیوں کو چیلنج اور رد کر سکیں ۔اس عمل کے دوران، ادارہ نوجوانوں کے اعتقادات کے ریاست کے ساتھ تعلق کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ساتھ ہی انھیں پاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی و انتہا پسندی کے اہم مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے تعلیم و تربیت فراہم کر رہاہے ۔ان اہداف کے حصول کے لیے ادارہ پاکستان کے مختلف شہروں میں تربیتی ورکشاپوں کا انعقاد کرے گا، جن میں میڈیا، تعلیمی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندے، نوجوان شرکاء کے ساتھ بین المذاہبی مکالمے، عقلی اور منطقی سوچ اور شہریوں کے حقوق جیسے اہم متعلقہ موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔
پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ، کسی وقت میں مذہبی ہم آہنگی و بین المذاہبی بقائے باہمی کے لیے مشہور رہا ہے۔ تاہم، 21 ویں صدی کے آغاز ہی سے، سندھ میں مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہو رہا ہے ۔ سندھ کے دارالحکومت، کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ افغانستان سے فرار ہوئے مذہبی عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ ہے۔ مزید برآں، سعد عزیز یا نورین لغاری کے دہشت گردی کے واقعات، تعلیم یافتہ نوجوانوں میں انتہا پسندانہ مقاصدسے متاثر ہونے کا ثبوت ہیں ۔ملک کی سب سے زیادہ ہندو آبادی والا صوبہ سندھ، ہندو لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور ہندوؤں کے مندروں کی توڑ پھوڑ جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔
سندھ کے نوجوانوں کو درپیش مختلف الانواع مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کراچی، سکھر اور حیدرآباد کے شہروں میں دو روزہ ورکشاپوں کا انعقاد کیا گیا- ان ورکشاپوں میں صوبے کے دیہی اور شہری علاقوں کے طلباء و طالبات نے شرکت کی ۔ورکشاپس میں ماہر مقررین اور شرکاء کو خیالات و مشاہدات کےباہمی تبادلے کا بھرپور موقع دیا گیا ۔ مزید براں، ادارے کی ٹیم نے، شرکاء کی ورکشاپس میں شرکت سے قبل اور بعد میں کیے گئے سروے کے ذریعے، انکے مذہب، ملک یا ریاست اور معاشرے کے بارے میں خیالات سےمکمل آگاہی حاصل کی ۔ہر ورکشاپ کی رپورٹ میں مقررین کے پیش کردہ موضوعات کا تفصیلی جائزہ و احاطہ کیا گیا، اورنوجوان شرکا ء اور ماہر مقرروں کی باہمی گفتگو کے دوران شناخت کردہ مسائل اور ورکشاپ سے قبل اور بعد میں کیے گئے سروے کا تجزیہ پیش کیا گیا ۔اس سہ طرفہ تشخیص و تجزیے کے ذریعے، رپورٹ کا اختتام تجاویز پر کیا گیا، کہ صوبہ سندھ میں پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں کے کردار و شمولیت کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔
ورکشاپس کے مقررین کے پیش کردہ اہم موضوعات
- بین المذاہب مکالمہ و ابلاغ
- عقلی و شعوری نقطہ ء نظر
- معاشرتی و معاشی و فکری محرومی
- عمرانی معاہدے کا نظریہ اور شہریت
- آزادی ء اظہار اور میڈیا
شرکاء سے انٹرویوز کے مشاہدات
چونکہ قبل از ورکشاپ سروے نے نوجوانوں کے خیالات کے ضمن میں اہم خدشات کا اظہار کیا، اس لیے پراجیکٹ نے منتخب شرکاء کے ساتھ تفصیلی منظم انٹرویوز کیے تاکہ ان کے خیالات و آرا کو تفصیلی طورپر سمجھا جا سکے ۔انٹرویو کے سوالات نے نوجوانوں سے متعلق مختلف قسم کے موضوعات کا احاطہ کیا، مثلاً تعلیمی نظام، کیریر کے منصوبےاور مواقع، مذہبی اور نسلی یا قومی تنوع، اقلیتوں سے امتیازی سلوک، صنفی حقوق اور ان کی موجودہ حالت، حکومتی ذمہ داریاں، میڈیا کا استعمال وغیرہ ۔تقریباً 67 سوالوں کے مختلف ممکنہ دیے گئے جوابات میں سے جواب کا انتخاب کرنا تھا ۔ہر انٹرویو کا اندازاًوقت 30-45 منٹ تھا ۔ انٹرویو کے سوالنامے کے جامع اور تفصیلی ڈیزائن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، جوابات نے نوجوانوں کی آراء اور تصورات کو گہرائی میں سمجھنے میں مدد دی اور ان پر اثر انداز ہونے والی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی ۔
سندھ میں اس مقصد کے لیے 20 نوجوانوں کا انٹرویو کیا گیا- ان کا انتخاب ورکشاپ میں فعال شرکت اور تفصیلی انٹرویو کے لیے رضامندی کے بعد کیا گیا ۔اس سیکشن میں ان 20 منتخب شرکاء کی آبادیاتی تقسیم کا جائزہ اور ان کے جوابات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔
انٹرویو دینے والے شرکاء کا آبادیاتی پروفائل
20 شرکاء، جنھوں نے انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کی ، ان میں صنفی تناسب 4:6 کاتھا ۔ان میں 8 مرد اور 12 خواتین شامل تھیں ۔جواب دینے والے 85 فیصد شرکاء کی عمر18 سے 25 سال کے درمیان تھی۔ صرف دو شرکاء کی عمر 26 سے 30 سال تھی، جبکہ ایک نے اپنی عمر نہیں بتائی۔
پاکستان میں تعلیمی اور کیریئر یا پیشہ ورانہ مواقع پر اطمینان
تعلیمی نظام اور روزگار کے میدان میں بہت سے مسائل کی موجودگی کے اعداد و شمار کے باوجود، یہ امر حیران کن گو خوش آئند بھی ہے کہ نوجوان اس صورتِ حال سے مطمئن ہیں ۔ ایک کے علاوہ تمام شرکاء ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن تھے ۔صرف تین شرکاء (15 فیصد) کے مطابق تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، جبکہ 6 (30 فیصد) کے مطابق، تعلیم کسی حد تک ترجیح ہے ۔
سندھی نوجوان محنت کرنے پر یقین رکھتےہیں۔ 55 فیصد سے زائد انٹرویو شرکاء نے کہا کہ معاشرہ محنت کرنے والوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔85 فیصد کے مطابق معاشرتی و معاشی محروم طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد بھی محنت کے ذریعے مہذب پیشہ یا کیریراپنا سکتا ہے ۔
یہ مثبت سوچ ان کے معیارِ تعلیم اور روزگار کے مواقعوں جیسے اہم سوالات پر بھی اثر انداز ہوتی نظر آتی ہے ۔زیادہ تر نے واضح طور پرمنفی جواب دینے سے گریز کیا اور معتدل آراء کا اظہار کرنے کو ترجیح دی، اس امر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ گو حدود اور بند شیں موجود ہیں،مگر صورت حال مکمل طور پر منفی بھی نہیں۔ مثلاً، سات انٹرویوشرکاء نے میرٹ یا قابلیت کے احترام کے ضمن میں مثبت رائے کا اظہار کیا، اور 55 فیصد کے مطابق میرٹ کی کسی حد تک قدر کی جاتی ہے ۔ اسی طرح 20 میں سے 8 (40 فیصد) انٹرویوشرکاء نے کہا کہ پاکستا ن میں روزگار کے کافی مواقع موجود ہیں، جبکہ 55 فیصد کے مطابق مواقع کسی حد تک میسر ہیں ۔ اسی طرح تعلیمی معیار کے حوالے سے 50 فیصد نے کہا کہ کمرہ ءجماعت میں خیالات کے آزادانہ اظہار کی کسی حد تک حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور 55 فیصد سے زائد نے کہا کہ تعلیمی نظام قانون کی پابندی کرنے والے شہری فراہم کرتا ہے ۔
بہت سے مسائل کے باوجودبھی ا س سے پہلے کیے گئے نوجوانوں کے سروے اسی سطح کی مثبت سوچ کی عکاسی کر چکے ہیں ۔اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرم(یو این ڈی پی) کے نوجوانواں کی آراء کے سروے 2015 کے مطابق 48 فیصد نوجوان شرکاء کے مطابق ان کا پاکستان میں مستقبل روشن ہو گا۔ یہ مثبت سوچ طلباء کی نظام کا تنقیدی تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے کے باعث بھی ہو سکتی ہے ۔گو کہ 80 فیصد طلباء نے کہا کہ وہ تنقیدی سوچ کی صلا حیت رکھتے ہیں، تاہم یہ دعوی ان کے ورکشاپس میں دیے گئے مشاہدات سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
نوجوانوں کے کیریر یا پیشےکی منصوبہ بندی کے حوالے سے اعداد وشمار حوصلہ افزا تھے ۔ 85 فیصد انٹرویو شرکاء کا کیریر پلان واضح تھا ۔صرف دو شرکاء نے کہا کہ انھیں واضح نہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کس پیشے کو اپنائیں گے، اور ایک نے کیریر کے بارے میں منصوبہ بندی ہی نہیں کی تھی ۔اساتذہ کیریر کی منصوبہ بندی میں طلباء کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، کیونکہ 55 فیصد شرکاء نے رپورٹ کیا کہ انھوں نے کیریر کے سلسلے میں رہنمائی اساتذہ سے حاصل کی، جبکہ 45 فیصد کے مطابق اساتذہ نے ان کی کسی حد تک رہنمائی کی ۔کسی طالب علم نے یہ نہیں کہا کہ اس نے اساتذہ سے کیر یر سے متعلقہ کسی قسم کی رہنمائی حاصل نہیں کی ۔
لہٰذا، بحیثیتِ مجموعی، نوجوان مثبت رویہ اور واضح منصوبہ بندی رکھتے ہیں ۔حکومت اور معاشرے کو اس امید اور جذبے کا استعمال کرنا چاہیے اور انھیں مطلوبہ مواقع فراہم کرنے چاہیئں، تا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ منصوبوں کو بروئے کار لا سکیں ۔
تنوع اور تقسیم کا شعور
اس سے قبل کی جانے والی تحقیق کے برعکس، نوجوان زیادہ تر پاکستان کے مذہبی تنوع سے آگاہ ہیں ۔ ایک کے سوا، تمام انٹرویوشرکاء نے پاکستان کے مذہبی تنوع کو پہچانا ۔ تاہم زیادہ تر کے مطابق، یہ تنوع تقسیم میں تبدیل نہیں ہوتا ۔50 فیصد شرکاء نے مختلف مذاہب کے مابین بہت سی یکسانیت بھی پائی اور 50 فیصد نے کچھ یکساں پہلو ؤں کی نشاندہی کی ۔ تاہم کسی نے بھی مختلف مذاہب کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف نہیں کہا ۔ یہ معلومات اہم ہیں، کیونکہ مذہبی یکسانیت کا تعلق دوسرے عقائد کو قابلِ قبول بنانے کے رویے سے ہے ۔تاہم اس ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ 25 فیصد شرکاء کچھ مذاہب کو دوسرے مذاہب سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ انٹرویو کے جوابات نے مذہبی یکسانیت اور دوسرے مذاہب کے مابین مثبت رویے کی باہمی تشکیل و تعلق کی تصدیق کی ۔ زیادہ تر شرکاء نے دوسرے مذاہب کے لیے موافقت اور رواداری کے جذبات کا اظہار کیا۔
زیادہ تر شرکاء نے، بلا امتیازِ مذہب، تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی حمایت کی ۔30 فیصد انٹرویو شر کاءنے تمام مذاہب و عقا ئدکے افراد کے ساتھ مساوی سلوک کی حمایت کی اور 65 فیصد نے بہت زیادہ حمایت کی۔ ایک کے علاوہ تمام شرکاء نے حمایت کی، جن میں سے 25 فیصد نے حمایت کی اور 70 فیصد نے پرزور حمایت کی،کہ تمام مذاہب و عقائد کے افراد کو مساوی مواقع میسر ہونے چاہیئں؛ اور تمام نے حمایت کی (55 فیصد نے حمایت کی اور 45 فیصد نے پرزور حمایت کی) کہ تمام مذاہب و عقائد کے افراد کو عوامی عہدے دینے کی اجازت دینی چاہئے ۔تین چوتھائی شرکاء نے غیر مسلموں کی قیامِ پاکستان اور ملکی ترقی میں کردار کا اعتراف کیا۔
مجموعی طور پر دینی تعلیم کے متعلق رویہ دوستانہ تھا اور تمام شرکاء نے اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے متعلق پڑھنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ لہٰذا، اس سروے کے نتائج کی روشنی میں نصاب بنانے والے ادارے کے ذمہ داران دوسرے مذاہب کے متعلق کورسز متعارف نہ کر سکنے کے ضمن میں عوامی دباؤ کا جواز پیش نہیں کر سکتے ۔اس امر کے خاص ذمہ دار عوامل میں نااہلیت، ارادے کی کمی اور ریاست کی ملک میں اسلام کی بنیاد پر یکساں شناخت کی کوششیں شامل ہیں ۔
لا زمی نہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کی جانب مثبت رویے، سیکیو لر ازم کی جانب مثبت خیالات کا باعث بھی ہوں ۔ 50 فیصد سے زائد انٹر ویو شرکا ءنے حمایت کی اور 10 فیصد نے پرزور حمایت کی، کہ سیکیولرازم مذہب کی ضد ہے۔ پاکستان کی سیکیولرائزیشن کی بابت مسائل سے بھرپور تاریخ کے مدِ نظر یہ جوابات حیران کن نہیں ۔ ریاست سیکیولر خیالات کے اظہار کو ہمارے ملک میں گناہ قرار دیتی رہی ہے ۔سیکیولر ازم سے متعلق منفی آرا وخیالات کو نوجوان شرکاء کی زیادہ مذہبیت سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ اکثریت انٹر ویو شرکاءکی رائے کے مطابق مذہب پراس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہ کرنا پاکستانی معاشرے کے موجودہ معاشرتی مسائل کا باعث ہے ۔
مزید براں، معاشرے میں مذہبی تقسیم اور امتیاز کے سوال پر انٹرویو شرکاء واضح نہیں تھے اور ان کی آراء بہت زیادہ منقسم تھیں ۔نوجوانوں کا واضح تناسب ہمارے معاشرے میں پائی جانے والے مذہبی امتیاز کی شناخت نہیں کر سکا ، جو ان کی اس ضمن میں سمجھ بوجھ کے فقدان یا اس قسم کے واقعات سے لا تعلقی کو ظاہر کرتا ہے ۔گو آدھے سے زیادہ، 35 فیصد نے حمایت نہیں کی اور 20 فیصد نے پرزور حمایت نہیں کی، کہ مذہب کی بنیاد پر امتیاز بہت کم ہوتا ہے، لیکن 40 فیصد نے کہا کہ یہ بہت کم ہوتا ہے ۔اسی طرح، آدھے انٹرویو شرکاء نے کہا کہ حکومت مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے واقعات پر مناسب رد عمل ظاہر نہیں کرتی، جبکہ دوسرے 50 فیصد شرکا ء کے مطابق اس قسم کے واقعات پر حکومت کا جواب مناسب ہے۔ صرف تین شرکاء تعلیمی نظام میں اقلیتوں کی نفرت آمیز تصویر کشی کی شناخت کرسکے، اور 60 فیصد یقین رکھتے تھے کہ ہمارا تعلیمی نظام تمام مذاہب کا احترام سکھلاتا ہے ۔70 فیصد شرکاء آئین میں دی گئی اسلامی دفعات سے متعلقہ مسائل کی شناخت میں ناکام ہو گئے، جہاں اسلام کو دوسرے مذاہب پر فوقیت دی گئی ہے،اور 70 فیصد نے کہا کہ آئین مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز نہیں کرتا ۔
باعثِ حیرت ہے کہ 75 فیصد انٹرویو شرکاء نے پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر قانونی کارروائی کو اہم مسئلہ قرار دیا ۔اس کا موازنہ،ان کے آئینی اور معاشرتی امتیاز کی شناخت نہ کر سکنےسے کر کے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نوجوان معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز و تفریق کی شدت کو مربوط نہیں کر پائے ۔ربط کا یہ فقدان، ان کی سوچ کے الجھاؤ کو ظاہر کرتا ہے، یا محب وطنی کے جذبات کے زیرِ اثر اپنے و طن کی بے جا طرف داری، ان کی اس طرح کے واقعات کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کو الجھا رہی ہے ۔لہذا، گو وہ مذہب کی بنیاد پر قانونی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے، مگر وہ اس قسم کی قانونی کارروائیوں کی شناخت یا پہچان بھی نہیں کر سکتے ۔مسئلے کو نہ پہچان سکنے کے یہ عدم صلاحیت، مسئلے کے حل کو ناممکن بنا دیتی ہے، اور یہ امر مذہبی تقسیم کے مسائل پر نوجوانوں کے متحرک نہ ہوننے کا اہم سبب ہے، اس کے باوجود کہ وہ مذہبی ہم آہنگی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ۔
مذہبی ہم آہنگی کےبارے میں مثبت رویے کے باوجود، سندھ کے نوجوانوں میں قومی او ر لسانی بنیاد پر تقسیم کی بابت مثبت رویے نہیں پائے گئے ۔گو 75 فیصد شرکاء نے مقامی زبانوں کی اہمیت کا ادراک کیا، لیکن 25 فیصد شرکاء نے مقامی زبانوں کو قومی زبان جیسی اہمیت نہیں دی ۔چونکہ سندھ، بالخصوص کراچی شہر میں قومی و نسلی تشدد کئی سالوں سے اہم مسئلہ رہا ہے، اس لیےیہ بات قابلِ فہم ہے کہ تمام شرکاء قومی و نسلی گروہوں میں انتہا پسندی کے رحجانات محسوس سکتے ہیں۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں قومی و نسلی تنوع، معاشرتی اختلافات اور تشدد کا وا ضح ذریعہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا سماجی حقوق کی تنظیموں کو مذہبی ہم آہنگی کی کاوشوں کے ساتھ ساتھ علاقے میں قومی و نسلی ہم آہنگی کے بارے میں مزید آگاہی و شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔
سیاسی شعور و رائے
انٹرویوز میں شامل کچھ سوالات کا مقصد نوجوان شرکاء کے سیاسی علم کی جانچ اور پیمائش تھی ۔ باعثِ دلچسپی ہے کہ”غیر ترقی یافتہ صوبے” کی تعریف کیے بغیر، زیادہ تر شرکاء کے خیال میں ان علاقوں کے رہنے والے افراد قومی مسائل اور سیاست کی بابت محدود شعور اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں “غیر ترقی یافتہ صوبے” کی اصطلاح ان صوبوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو معاشرتی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اور بہت سے انٹر ویوشرکاء نے سندھ کو بھی ان صوبوں میں شامل سمجھتے ہیں ۔
نوجوانوں نے جوابات سے قبل دیے گئے فکری محرومی اور غیر سیاسی رویوں کے مشاہدات کی تصدیق کی ۔زیادہ تر شرکاء ، 40 فیصد نے حمایت اور 15 فیصد نے رائج رائے عامہ کی بھرپور حمایت کی کہ ریاستی اداروں پر تنقید قومی مفادات کے خلاف ہے ۔50 فیصد شرکاء نے انڈیا کو ازلی دشمن قرار دیا اور 65 فیصد نے انڈیا کے خطرے کے پیشِ نظردفاع پر اور زیادہ خرچ کرنے کی حمایت کی ۔اس قسم کے خیالات پاکستان کی انتشار اور افرا تفری سے بھرپور تاریخ کی پیداوار ہیں ۔ پاکستا ن کی تاریخ میں طویل اور بارہا فوجی مداخلتیں ہوئیں، ریاستی زیرِکنٹرول میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کا منفی پروپیگینڈا، تاریخ اور درسی کتب میں سیاسی معلومات و حقا ئق کو مسخ کرنا، اور جمہوری کلچر کا فقدان، بشمول سیاسی جماعتوں میں اس کا نہ ہونا،جیسے مسائل ہماری تاریخ کا حصہ ہیں ۔
اگرچہ ایک کے علاوہ تمام شرکاء نے آئین میں درج شدہ بنیادی آزادیوں کے بارے میں پڑھنے کا دعوی کیا، لیکن جب ان سے ان میں سے دو کے لکھنے کا کہا گیا تو صرف 75 فیصد یہ لکھ پائے، جب کہ 15 فیصد نے انکار کر دیا اور 10 فیصد نے جواب نہیں دیا ۔اسی طرح، 85 فیصد نے انسانی حقوق کے اعلامیےکا آئین پڑھنے کا دعوی کیا اور یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کا کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرنے کا پابند ہے، لیکن صرف 40 فیصد اس ضمن میں پاکستان کی ایک بین الاقوامی ذمہ داری کے متعلق بتا سکے ۔
سندھ ورکشاپ کے نوجوان شرکاء بالعموم دوسروں پر الزام لگانے کا شکار تھے اور اندرونی مسائل اور خامیوں کا ادراک نہیں کر پا رہے تھے ۔ان میں سے آدھے شرکاء نے مغربی میڈیا پر پاکستان کے تاثر کو نقصان پہنچانے کے لیے بدنیتی پر مبنی منظم کوششیں کرنے کا الزام لگایا،اور 70 فیصد نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کا ذمہ داربیرونی سازشوں کو ٹھہرایا ۔دو کے علاوہ تمام شرکاء، 40 فیصد نے حمایت اور 50 فیصد نے بھرپور اتفاق کیا کہ بدعنون رہنما ملکی اور عوامی وسائل کا ضیاع کر رہے ہیں ۔
ان کے سیاسی نظریات میں ربط و ہم آہنگی کی کمی تھی- جمہوریت آدھے سے زیادہ (55 فیصد) شرکاء کے لیے ترجیحی نظامِ حکومت ہے، اور 30 فیصد شریعت کی بنیاد پر قائم نظام پاکستان کے لیے بہترین تصور کرتے ہیں- آمریت کو کسی نے نہیں چنا، لیکن 35 فیصد میں سے 10 فیصد کے مطابق ماضی کی آمریتیں ہمیشہ جائز اور 25 فیصد کے مطابق کسی حد تک جائز تھیں ۔
نوجوان شرکاءآئین کے تقدس اور اس کی اہمیت کا ادراک نہیں رکھتے۔ 20 فیصد انٹرویو شرکاء نے ملکی مفادات کے لیے آئین کی خلاف ورزی کی مکمل حمایت کی جبکہ 15 فیصد کے مطابق آئین کی خلاف ورزی کبھی کبھی کی جا سکتی ہے ۔ یہ بات انھوں نے یہ جاننے کے بعد کی کہ ملکی مفادات کا تحفظ ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے- زیادہ تر شرکاءکو معلوم تھا کہ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ 50 فیصد کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے یا 45 فیصد کے مطابق پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے-لہذا سیاسی مسائل پر نوجوان منطقی اور تنقیدی طور پر نہیں سوچ سکتے تھے، اور سیاسی رائے سازی کے ضمن میں یہ تضاد اور الجھاؤ ان کےدرست سیاسی فیصلوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔
روشن مستقبل کے راستے
1) حکومت کو مذہب کی بنیاد پر قومیت کی معاشرتی اور سیاسی قیمت اور نقصان کا مکمل تجزیہ کرنا چاہئے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی کے پیشِ نظر،ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا سنگین مسئلہ بدتر ہونے کا امکان ہے ۔اس مسئلے کے موثر حل کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور بتدریج اور بہترین پالیسی کے ذریعے مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے اقدامات کرے ۔
2) تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔تعلیم کو شمولیت اور شرکت پر مبنی ہونا چاہیے۔نصاب کو اقلیتوں کی عکاسی میں حساس ہونا چاہیے ۔جائزہ و تشخیص اسباق کو زبانی یاد کرنے کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے، بلکہ پاکستان کے مستقبل کے رہنماؤں میں تنقیدی اور عقلی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
3) اگرچہ سطحی نظر میں، پاکستانی نوجوان مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں مثبت خیالات کے حامل نظر آتے ہیں، تاہم ان میں امتیازی پالیسیوں کو شناخت کرنے کی عقلی صلاحیت کی کمی ہے ۔ یہ امر معاشرتی امن اور ربط و ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہے ۔اس بنیادی علمی صلاحیت کی نشونما کے لیے جوانوں کو اپنے آپ کو معاشرتی ہم آہنگی کے بنیادی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے، اور اس موضوع پر انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھلی بات چیت کرنی چاہیے۔
4) چونکہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں معلومات تک رسائی آسان ہو چکی ہے، اس لیے انٹرنیٹ پر اس موضوع پر از خود سیکھنے سے نوجوانوں کو نہیں روکا جا سکتا ۔تاہم نوجوانوں کے لیے عوامی سطح پر آگاہی کی تحریک اور تربیت ہونی چاہیے تاکہ انھیں غلط بیانی اور نفرت انگیز بیانیوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ انھیں تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ بنیادی ذرائع سے علم حاصل کریں اور مختلف ذرائع سے معلومات کی تصدیق کرنے کے بعد ہی انھیں دوسروں کو بتائیں ۔
5) آئین کی اہم دفعات اور شقوں کےساتھ ساتھ بنیادی حقوق اور ریاست کے بنیادی فرائض سے متعلق تعلیم دینا لازمی قرار دینا چاہیے۔نصاب میں ان موضوعات پر اسباق شامل ہونے چاہیئں، تا کہ نوجوانوں کو پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے حاصل شدہ حقوق کی تعلیم و آگاہی دی جا سکے۔ اس موضوع پر مزید بات چیت کے لیے الیکٹرانک میڈیا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
6) اساتذہ طلباء کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اور ہم آہنگی کی عملی مثال بن سکتے ہیں۔ لہٰذا، اساتذہ کو کمرہء جماعت میں شمولیت کا ماحول پیدا کرنے کی تربیت دینی چاہیے، معاشرتی تنوع سے متعلقہ مسائل پر حساس و ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے، اور طلباکو کمرہء جماعت میں بحث کے دوران اختلافِ رائے قبول کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ اساتذہ کو لیکچرز کے دوران سوچ کو متحرک و متاثر کرنے والے سوالات پوچھنے کی تربیت دینی چاہیے، اور طلبہ کی اسباق کے دوران، موضوعات سے متعلقہ سوالات پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
7) تاہم، پاکستان کے تعلیمی نظام میں بین المذاہبی مسائل پرنامناسب ردعمل کے تناظر میں، شہری حقوق کی تنظیموں کو اس خلا کو پر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، اور اس ضمن میں ملک کے طول و عرض میں، بالخصوص تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر ورکشاپس اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد کرنا چاہیے۔
8) خواتین کی با اختیاری اور صنفی حقوق کی بحث اور دائرہ کار،خواتین کے معاشی اور سیاسی حقوق سے وسیع کرنا چاہیے اور تیسری جنس کے افراد اور ان گروہوں سے روا رکھے جانے والے معاشرتی برتاؤ جیسے حساس موضوعات کو بھی اس میں شامل کیا جانا چاہیے ۔
9) میڈیا کے اداروں میں اقلیتی افراد کو بطورِ صحافی ملازمتیں دینی چاہییں، تا کہ اقلیتوں سے متعلقہ مسائل کے بارے میں ان کے ذریعے مستند معلومات حاصل ہو سکیں ۔انھیں صرف اقلیتوں سے متعلقہ امور اور کوریج کے لیے مخصو ص کیا جانا چاہیے اور یہ ذمہ داری صرف خبروں کی حد تک محدود نہ ہو ۔
10) حکومت کو متوازن میڈیا ریگیولیشن پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ گو کہ یہ ریاستی انتظامیہ یا ریاست کے مذہب پر تنقید پر فوری رد عمل ظاہر کرتی ہے ۔ اس کو اسی فعالیت کے ساتھ مذہبی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں کے بارے میں نفرت آمیز مواد پر بھی رد عمل ظاہر کرنا چاہیے ۔
فیس بک پر تبصرے