دودھ فروش کا بیٹا لبنان کے قصر صدارت میں
لبنان کی شمالی اور مشرقی سرحد شام سے ملتی ہے جہاں گذشتہ ساڑھے پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور اس کے لبنان پر بھی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہزاروں شامی شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر اس چھوٹے سے ملک ہیں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ مختلف باغی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی لبنان کا رُخ کرتے رہتے ہیں۔سعد حریری کی مخالف سیاسی اور عسکری جماعت حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کی ہر طرح سے حمایت کررہی ہے۔اس کے جنگجو ش
آخر کار اڑھائی سال صدارت کی کرسی خالی رہنے کے بعد لبنانی پارلیمنٹ نے اپنا صدر منتخب کر ہی لیا، اور میشال عون قومی اسمبلی کی 46 ویں نشست کے دوسرے مرحلے میں 128 میں سے 83 ووٹ لے کر ملک کے 13 ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ لبنان میں مئی 2014ء سے صدر کا عہدہ خالی تھا اور پارلیمنٹ متعدد اجلاسوں کے باوجود نئے صدر کے انتخاب میں ناکام رہی تھی۔
مذہبی بنیادوں پر کئی ٹکڑوں پر مشتمل سیاسی نظام پر مبنی اس ملک میں میشال عون مختلف گروہوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ہی منتخب ہو سکے ہیں۔ نومنتخب صدر میشال عون لبنان میں مسیحیوں کی سب سے بڑی جماعت آزاد محب الوطن تحریک ( فری پیٹریاٹک موومنٹ) کے بانی ہیں،
ملکی آئین میں تصریح ہے کہ لبنان کاصدر مارونی عیسائی، اسپیکر اسمبلی شیعہ اور وزیر اعظم سنی ہو گا۔
نومنتخب صدر کو حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی لیکن ہر دفعہ وہ صرف چند ووٹوں کی وجہ سے منتخب ہونے سے رہ جاتے ،بالآخر لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نے بھی میشال کی حمایت کا فیصلہ کر دیا تاکہ ملک کو لمبے عرصے سے جاری سیاسی بحران سے نکالا جا سکے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ”لبنان اپنے ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔خاص طور پر شام میں جاری تنازعہ کی وجہ سے لبنان بری طرح متاثر ہوا ہے۔اس لیے عون کی حمایت کا وقت آگیا ہے۔اگرچہ اس اعلان کو بعض لوگ تنقید کا نشانہ بنائیں گے”۔
لبنان کی شمالی اور مشرقی سرحد شام سے ملتی ہے جہاں گذشتہ ساڑھے پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے اور اس کے لبنان پر بھی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہزاروں شامی شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر اس چھوٹے سے ملک ہیں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ مختلف باغی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی لبنان کا رُخ کرتے رہتے ہیں۔سعد حریری کی مخالف سیاسی اور عسکری جماعت حزب اللہ شامی صدر بشارالاسد کی ہر طرح سے حمایت کررہی ہے۔اس کے جنگجو شامی فوج کے ساتھ مل کر باغی گروپوں کے خلاف لڑرہے ہیں۔
لبنان میں 2 سال 5 ماہ قبل جنرل میشال سلیمان کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد سے صدارت کی کرسی خالی تھی۔ اس دوران پارلیمنٹ نے 45 مرتبہ سلیمان کا جاں نشیں منتخب کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ ۔ یہ شخصیت پارلیمنٹ کے 128 ارکان میں دوسری معمر ترین شخصیت 81 سالہ میشال عون ہیں ۔ میشال عون تین بیٹیوں کے باپ اور 10 نواسے نواسیوں کے نانا ہیں،ان کے والد دودھ فروخت کر کے گزربسر کیا کرتے تھے۔میشال عربی کے علاوہ فرانسیسی، انگریزی، ہسپانوی اور اطالوی زبانیں جانتے ہیں۔
میشال عون 1980ء کی دہائی میں چند سال لبنانی فوج کے کمانڈر رہے جب کہ خانہ جنگی کے زمانے میں عبوری حکومت میں ملک کے صدر کا منصب بھی سنبھالا۔ 1991 کے وسط میں وہ جلا وطن ہو کر پیرس چلے گئے اور پھر 14 برس بعد واپس لبنان لوٹے۔
لبنان کے قوانین کے مطابق صدر کے پاس ہی اصل طاقت ہوتی ہے لیکن مسلم کثریت کے باوجود اس ملک کا صدر ہمیشہ عیسائی ہی ہوتا ہے،ایسا کیوں ہے؟اس کی وجہ جاننے کے لیے ہمیں چند دہائیاں ادھر جھانکنا ہوگا؛
پہلی جنگ عظیم اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد لبنان کے پانچوں اضلاع کو جمعیت الاقوام یا لیگ آف نیشنز نے (جو بعد میں اقوام متحدہ بن گئی) فرانس کو سونپ دیے تھے۔ ۔ اس وقت لبنان میں مسلمان ستاون فیصد ، عیسائی چالیس فیصد اور دروز تین فیصد تھے۔ اقتدار عیسائیوں کو سونپنے کے لیے فرانس نے لبنان کی عوام کو تین مذہبی گروہوں (عیسائی ،سنی اور شیعہ ) پر مشتمل قرار دے کر عیسائیوں کو تو چالیس فیصد شمار کیا مگر مسلمانوں کو الگ الگ قوم (شیعہ اور سنی) کی حیثیت سے شمار کیا۔ یوں عیسائی چالیس فیصد، سنی تیس فیصد اور شیعہ ستائیس فیصد ٹھہرے،یہ اعدا د و شمار 1932 کی مردم شماری کے مطابق ہیں جس کے بعد لبنان میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی،
مردم شماری میں تقریبا نصف مسلم آبادی اپنا اندراج نہیں کرواسکی تھی جس کا خمیازہ آج تک وہاں کے مسلمان بھگت رہے ہیں ،کیونکہ فرانس نے شناختی کارڈ کی بنیاد پر مردم شماری کروائی تھی اور بہت سے مسلمانوں نے اس لیے شناختی کارڈ نہیں بنوائے تھے کہ ان کے خیال میں شناختی کارڈ بنوانے کا مطلب فرانس کے قبضے کو تسلیم کرنا تھا۔
چونکہ مردم شماری میں مذہب کے خانے پر عیسائی ،سنی، شیعہ اور دروز درج تھا اس لیے نتیجتا عیسائی آبادی اکثریت میں قرار پائی اور اس بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ صدر جس کے پاس اصل طاقت ہوتی ہے وہ مارونی عیسائی ، وزیر اعظم سنی مسلمان اور سپیکر شیعہ ہو گا۔
اب مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں کی نسبت بہت زیادہ ہو چکی ہے اور اگر مردم شماری کروائی جائے تو مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں سے کہیں زیادہ ہوگی اسی لیے صاحب اقتدار عیسائی مردم شماری نہیں ہونے دیتے۔ پارلیمنٹ کی سیٹیں حتیٰ کہ مختلف جامعات میں داخلے بھی اسی مردم شماری کے تحت ہوتے ہیں۔
1943 میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے والے لبنان کی آزادی پر آٹھ دہائیاں گزنے کے باوجود مردم شماری نہ کرنے دینا انسانیت کے لیے لمحہ فکریہ اور جمہوریت کے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ ہے،
نومنتخب صدر کا انتخاب حزب اللہ اور اور وزیراعظم کی حمایت کے بعد ہی ممکن ہوا ہے اس لیے لبنان کے شیعہ اور سنیوں کو مل کر صدر پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ سب سے پہلے ملک میں مردم شماری کروائیں، اگر لبنان کے مسلمان متحد ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہاں مردم شماری نہ ہو ۔
فیس بک پر تبصرے