ایک ماں سے تعزیت

869

25اکتوبر کی رات کو ابھی تک نامعلوم تین دہشت گردوں نے کوئٹہ سریاب روڈ پر پولیس ٹریننگ کالج میں رات گئے درجنوں تازہ تازہ تربیت یافتہ سپاہیوں کو ابدی نیند سلا دیا ۔60سے زیادہ جوان اور پاکستان جیسے ملک میں باروزگار جوانوں کی اموات نے ان کے گھروں میں کیا قیامت برپا کی ہو گی اس بات کا اندازہ ہر صاحب دل بڑی آسانی سے لگا سکتا ہے

25اکتوبر کی رات کو ابھی تک نامعلوم تین دہشت گردوں نے کوئٹہ سریاب روڈ پر پولیس ٹریننگ کالج میں رات گئے درجنوں تازہ تازہ تربیت یافتہ سپاہیوں کو ابدی نیند سلا دیا ۔60سے زیادہ جوان اور پاکستان جیسے ملک میں باروزگار  جوانوں کی  اموات نے ان کے گھروں میں کیا قیامت برپا کی ہو گی اس بات کا اندازہ ہر صاحب دل بڑی آسانی سے لگا سکتا ہے ۔ احساس محرومی ،بے حقوقی اور بے توقیری کے شکار اس صوبہ بلوچستا ن کے دور دور کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہیدنوجوان نہ جانے کتنی آنکھوں کا ارمان ، کتنے دلوں کی دھڑکن اور کتنے گھروں کا چراغ ہوں گے جو ایک آن میں بجھ گئے ۔ اس کا دکھ تو ان کے گھروالے خصوصاً ان کی مائیں ہی سمجھ سکتی ہیں جنہوں نے ان اولادوں کی اپنی کوکھ سے لیکر اب تک پرورش کی ۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال کے ساتھ وہ اپنے گھر کی اس بہار کو پھلتا پھولتا دیکھتے رہے ۔ بہت سوں نے ان کو منتوں ، مرادوں اور دعاﺅں سے پایا ہو گا۔ کئی اپنے گھروں کی واحد اولاد نرینہ ہو ں گے۔ کئی خاندانوں کی نسل ختم ہوگئی ۔ کئی نوبیاہتا بیوہ ہو گئی ہوں گی اورکئی کے خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے ہو ں گے۔ چند گمراہ نوجوانوں نے دہشت گردی کا روپ دھار کر کئی بے گنا ہ اپنے جیسے نوجوانوں کو ہلاک کردیا نوجوان ہی نوجوانوں کے خلاف استعمال ہوگیا۔ اور دونوں ہی موت کی ابدی کھائی میں جاگرے میڈیا اب ان واقعات کو تحقیقاتی طورپر بے نقاب کرنے کے بجائے ان ماتمی لمحات کو ڈرامائی انداز میں دکھانے کو ترجیح دیتا ہے ۔کیمرہ ان ماتم کدوں میں بدل جانے والے گھروں میں جاکر ان غمزدہ ماﺅں اور بہنوں کے آنسو دیکھاتا ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کی تصویروں سے لپٹ کر آہ و بکاکرتی دکھائی دیتی ہیں ۔اور بڑے بڑے شہروں کے چوکوں اور چوراہوں پر سول سوسائٹی کے چند افراد اس ماتم میں شریک ہونے کے نام پر شمعیں جلاتے ہوئے ۔میڈیا کی اس ڈرامائی تسکین اور اپنی شہرت اور پھر ان تصویروں کو اکھٹا کر کے حقوق کے نام پر مالی امداد میں اضافہ کا سامان بھی مہیا کرتے نظر آتے ہیں ۔

شہید ہونے والی ان بچوں کی ماﺅں کادکھ تو سب بانٹ لیتے ہیں اور گھر جا کر سب تعزیت کرتے ہیں لیکن دھرتی ماں کا دکھ کون سمجھے ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کو ہے سرزمین پاکستان پر کشت وخون کے انبار لگ چکے ہیں اور موت کے سائے اب بھی کہیں چھٹنے کا نام لیتے نہیں دکھائی دیتے ۔یہ جنگ ہزاروں بچے ،جوا ن ،بوڑھے ،خواتین ، سپاہی ، فوجی نگل چکی ہے ۔ اپنے ہی جوان گمراہ ہو کر اپنے ہی بھائیوں پر ٹوٹ پڑھے ۔ اس صورت حال میں اب تک شہا دتوں کی سرکاری تعداد 50ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے بہت زیادہ ہو گی۔ کراچی ، کوئٹہ ، پشاور ، لاہور ، ملتا ن ، فیصل آباد ، راولپنڈی ، اسلام آباد غرضیکہ اس سرزمین کا کون سا شہر اور کون سا کونہ نہیں جہاں اس جنگ میں اب تک خون نہ بہہ چکا ہو ۔ سرکاری ادارے ، عدالتیں ، مسجد یں ، امام بارگاہیں، گھر ، ہسپتال ، سڑکیں ، سکول ،کالج ، یونیورسٹیاںاور پارکیں تک خون میں نہا چکیں ہیں۔

اس دھرتی ماں کی کوکھ رو ز اجڑتی ہے اور وہ دیکھتی رہتی ہے ۔ابھی تازہ تازہ یہ خون گردی ،اس دھرتی ماں کی کے چمن کی 61جوان بہاریں کھا گئی ہے ۔ یہ مرنے والے اپنی ماﺅں کے بیٹے تو تھے ہی لیکن دھرتی ماں کا مان بھی تھے ۔ کوئی دھرتی ماں سے بھی تعزیت کرے اور اس کے دکھ کو سمجھ سکے ۔ اس ما ں کی کوکھ آخر کب تک اجڑتی رہے گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...