جناح کی جائے پیدائش وزیر مینشن یا جھرک، اوریجنل یا چائنا؟
یہ تناز عہ کہ قائد اعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے یا وزیر مینشن میں اپنی جگہ لیکن کلیم لاشاری کا موقف بہت دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش نا تو وزیر مینشن ہے اور نا ہی جھرک.
قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخِ پیدائش اور جائے پیدائش کے حوالے سے مختلف تضادات پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ تاریخِ پیدائش کے بارے میں دو مختلف تاریخوں کے حوالے سے قائد اعظم کی سوانح حیات لکھنے والے جی الانا اِس کا ذکریوں کیا ہے، کتاب کے صفحہ نمبر 19پر جناح صاحب کے حوالے سے رقم ہے کہ: سندھ مدرستہُ الاسلام کے انگریزی شعبے میں داخل ہونے والے طالب علموں کے جنرل رجسٹر سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد علی جناح کو اس اسکول میں 4جولائی1887کو داخل کیا گیا تھا اور وہ ایک سو چودھویں طالب علم تھے۔ دوسرے اندراجات کے مطابق اُن کا نام محمد علی جناح اور جائے پیدائش کراچی تھی۔ یومِ پیدائش درج نہ تھا۔ عمر 14سال،فرقہ خوجہ۔ سابقہ تعلیم اسٹینڈر چہارم گجراتی، فیس معاف ہے یا ادا کی جائے گی، ادا کی جائے گی۔ دوسرا اندراج جس کا نمبر شمار 178 ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ 23، ستمبر1887 کو محمد علی جناح کو سندھ مدرسہ میں دوبارہ داخل کیاگیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بمبئی جانے کے تقریباًساڑھے پانچ مہینے بعد وہ سندھ مدرسہ میں دوبارہ داخل کیے گئے۔ ان کی تاریخ پیدائش20 اکتوبر1875 اور سابقہ تعلیم کے خانے میں انجمن اسلام بمبئی اسٹینڈرڈ اوّل درج ہے۔
9 فرروری 1891 کے ذیل میں جو کوائف بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: نام محمد علی جناح بھائی۔ جائے پیدائش کراچی۔تاریخ پیدائش20اکتوبر1875 فرقہ خوجہ۔ سابقہ تعلیم۔ اسٹینڈرڈ چہارم۔ فیس ادا کی گئی کہ نہیں، ادا کی گئی۔ دو مختلف اندراجات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش20دسمبر1876کی صحت کے بارے میں شبہ ہوتا ہے، لیکن اس امر سے زیادہ مستند کیا بات ہوسکتی ہے کہ قائد اعظم نے ہمیشہ اپنی سالگرہ 25 دسمبر کو منائی۔ سندھ مدرسہ کے رجسٹر کے اندراج کے مطابق اس اسکول میں طالب علمی کے دوران میں ان کے نام کی ہّجے دو مرتبہ تبدیل ہوئی۔
صحافی ، شاعر اور محقق مظہر لغاری کے مطابق، سندھ میں عام طور پر مانا جاتا ہے کہ جناح 20 اکتوبر1875 کو ٹھٹھہ ضلع کے ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے، سروجنی نائیڈو جنھوں نے ان کی پہلی سوانح لکھی، نے اُن کی تاریخ پیدائش 25دسمبر1876لکھی ہے اور اس کے لیے ان کے پاسپورٹ میں درج تاریخ پیدائش کا حوالہ دیا۔1916: Muhammad Ali Jinnah: An Ambassador of Unity،اس زمانے میں ٹھٹھہ ضلع کراچی کا حصہ تھا۔
سابق وزیر ثقافت سسئی پلیجو کے مطابق 1990 میں کیے گئے تحقیقی کام سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جناح جھرک میں پیدا ہوئے۔ 1950 میں سندھی ادبی بورڈ کی چھپنے والی درسی کتابیں جو بڑا عرصہ چلیں، ڈاکٹر عمر بن عبدالعزیز داؤد پوتہ نے لکھیں۔ فاطمہ جناح زندہ تھیں جب یہ کتابیں پرائمری اسکولوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔انھوں نے ان پر اعتراض کیوں نہیں کیا۔ ڈاکٹر کلیم لاشاری کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق جناح ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے تھے جو اس پلاٹ کے قریب واقع تھا جہاں وزیر مینشن تعمیر ہوا۔ وزیر مینشن کا 1883 سے قبل کوئی وجود نہیں تھا۔
کلیم لاشاری کے مطابق قائد اعظم جھرک میں پیدا نہیں ہوئے۔ ان کے بقول کیوں کہ اس تمام عرصے میں جیونا بھائی کراچی میں رہے اور ان کا کاروبار یہیں تھا۔ ہم یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ ایک شخص جو ایک گھر میں کرائے پر رہتا ہو اور جب بچے کی پیدائش کا وقت ہو تو وہاں سے جھرک منتقل ہوجائے؟ آخر اس کی کوئی وجہ بھی تو ہو۔ کوئی موقع بھی ہو۔ وہاں جانے کے لیے حالات بہتر ہونے چاہیے یا وہاں زیادہ سہولتیں اور نوکر چاکر تھے؟ جب جواب نفی میں ہو اور جب حالات یہ ثابت کرتے ہوں کہ جیونا نے کرائے کا مکان چند دنوں کے لیے بھی خالی نہیں کیا تو پھر یہ کیسے باور کرلیا جائے کہ یہ گھرانہ جھرک آیا ہوگا، یاد رہے کہ محمد علی صاحب اپنے گھر میں اکیلے بچے نہیں تھے۔ جیونا بھائی کی خاصی اولاد تھی اور وہ سب کراچی میں پیدا ہوئے۔
یہ تناز عہ کہ قائد اعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے یا وزیر مینشن میں اپنی جگہ لیکن کلیم لاشاری کا موقف بہت دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کی جائے پیدائش نا تو وزیر مینشن ہے اور نا ہی جھرک۔ کلیم لاشاری کے بقول: ہوا تویوں تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے تقسیمِ ہند کے بعد کراچی کے ایک کمشنر کو یہ بتایا تھا کہ وزیر مینشن ہمارا مکان تھا۔ وہ اس گھر میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا بچپن اس میں گزرا تھا ۔تو لوگوں نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی یا مزید تحقیق نہیں کی کہ جناح صاحب بھی اسی مکان میں پیدا ہوئے تھے یا نہیں۔ انھوں نے سوچا ہوگا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح اس گھر میں پیدا ہوئی ہیں تو یقیناً جناح صاحب بھی یہیں پیدا ہوئے ہوئے ہو ں گے۔ جناح صاحب نے خود یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے ہیں تو لوگوں نے اس مفروضے پر یقین کرلیا اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کلیم لاشاری کے مطابق وزیر مینشن جس زمین پر واقع ہے، اس کا پلاٹ نمبر 14ہے جو1880تک خالی تھا۔اس زمین پر دو وکھار (آؤٹ ہاؤسز) واقع تھے اور ایک دو منزلہ مکان تھا۔اس کے برابر والی زمین پر بھی ایک چھوٹا دو منزلہ مکان اور دو وکھار بنے ہوئے تھے۔یہ دونوں پلاٹ در اصل مختلف مواقع پر عمر نامی شخص نے میونسپلٹی سے اور نیلام میں خریدے تھے۔پلاٹ کی وہ سمت جس پر وزیر مینشن بنا ہوا ہے، اس پر موجود مکان میں مالک خود رہتا تھا۔جب کہ دوسری سمت میں جو دو منزلہ مکان اس میں جیونا اور پونجا دونوں کرائے پر رہتے تھے۔اس جگہ آج کل علی منزل نامی اپارٹمنٹ بلڈنگ کھڑی ہے۔ وزیر مینشن نامی عمارت دراصل 1880 کے قریب تعمیر ہوئی اور اس زمانے میں دونوں پلاٹ جیونا بھائی کی ملکیت تھے۔ محمد علی جناح صاحب کی پیدائش کا سن 1876 سرکاری طور پر مانا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے 1875 بھی مانتے ہیں۔لاشاری صاحب اس معاملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد علی جناح صاحب کی پیدائش ہوئی تو وزیر مینشن تعمیر ہی نہیں ہوا تھا۔ پلاٹ نمبر 14کا رقبہ خاصا بڑا تھا اس پر تین پلاٹ تھے اور 1874 کے سروے کے مطابق ان کو ملاکر ایک نمبر الاٹ کیا گیا تھا۔ اس پلاٹ کا ایک ٹکڑا عمر نے کراچی میونسپلٹی سے حاصل کیا تھا ۔یہ 1866کی بات ہے۔ 1866 میں عمر نے عبد الرحیم چھاگلہ سے 2500 روپے قرض لیا تھا، جس کے بدلے میں انھوں نے اپنی یہ جائیدا دجس میں 3 جگہیں شامل تھیں اور اُس وقت ان کے تین الگ الگ نمبر تھے۔ ایک میونسپل نمبر تھا، دوسراٹاؤن نمبر تھا، ایک وہ جو انھوں نے نیلام سے لیا تھا۔ یہ تینوں پلاٹ عمر نے عبدالرحیم چھاگلہ کے پاس گروی رکھ دیئے اور ان کی صرف یہ جائیداد ہی نہیں تھی بلکہ عمر نے سال بھر بعد مزید کچھ رقم چھاگلہ صاحب سے ادھار لی توعبد الرحیم کی نظر میں قرضے کی رقم کے مقابلے میں یہ جائیداد چھوٹی تھی۔ تو ڈوسا کو ایک اور گودام جو ٹرانس لیاری کوارٹر میں تھا، وہ بھی اس میں شامل کیا گیا۔ کچھ سالوں کے بعد عمررقم ادا نہ کرسکے تو انھوں نے اپنی ملکیت بیچ کر معاملہ صاف کیا، یہ تمام دستاویزات سب رجسٹرار کے دفتر میں موجود ہیں۔ جس شخص نے یہ جگہ خریدی، اس نے یہ جائیداد جیونا بھائی ناتھا بھائی اینڈ کمپنی کے پاس گروی رکھ دیں۔ جیونا بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے والد تھے، ان کے دو اور بھائی بھی تھے جو کراچی میں کاروبار کرتے تھے ،وہ شخص بھی رقم ادا نہ کرسکا اور یہ جائیداد جیونا بھائی کے ہاتھوں فروخت کردی گئی۔ 1880 میں جیونا بھائی اور ان کے بھائیوں نے اس جگہ پر مکان کی تعمیر کاآغاز کیا۔ 1880سے 1886 کے دوران جیونا بھائی کی جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ جوناتھا بھائی اور جیونا بھائی کی کمپنی تھی، جس نے اس جگہ یہ خوبصورت عمارت تعمیر کی تھی۔ کسی وجہ سے جیونا بھائی جو اس وقت تک جناح کہلائے جانے لگے، اب ان کی کمپنی کو خسارہ ہوا اور یہ تمام جائیداد نیلام کرنی پڑی۔یہ 1890کی بات ہے۔ جس کی قیمت 18500روپے لگائی گئی۔ انہی دستاویزات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں اس وقت وزیر مینشن ہے اس کے ساتھ ایک اور چھ منزلہ عمارت ’علی پلازہ‘ موجود ہے لیکن اس وقت اس جگہ ایک چھوٹا سا گھر ہوتا تھا، جس کے گراؤنڈ فلور پر محمد علی کے دادا پونجا رہتے تھے اور پہلے فلور پر جیونا بھائی رہتے تھے ۔یہ لگ بھگ وہی عرصہ ہے، جس عرصے میں جناح صاحب پیدا ہوئے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناح صاحب نا جھرک اور نا ہی وزیر مینشن بلکہ اس جگہ پیدا ہوئے جو آج کل علی پلازہ کہلاتی ہے۔
کلیم لاشاری کے مطابق وزیر مینشن میں جو بھی چیزیں موجود ہیں اور جن کے حوالے سے یہ لکھا گیا ہے کہ یہ جناح صاحب اور اُن کے اہل خانہ کے استعمال میں رہی ہیں اس پر ایک بہت بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔ حتیٰ کہ وزیر مینشن کے ایک کمرے کے باہر یہ تختی بھی لگی ہوئی ہے کہ ’’جناح صاحب اِس کمرے میں پیدا ہوئے تھے‘‘۔ اب وزیر مینشن جا جھرک اوریجنل ہیں یا چائنا اس کا فیصلہ قارئین کو کرنا ہے۔
تصویر نمبر ایک: 1874 کے سروے کے مطابق پلاٹ نمبر3،5،13اور17 کو ملاکر نمبر 14 لاٹ کیا گیا تھا جس جگہ آج وزیر مینشن قائم ہے۔
تصویر نمبر دو:1870 کی دہائی کے دوران پلاٹ نمبر 14 پر تعمیرات کی صورتحال، جب پونجا بھائی اور جیونا بھائی درمیان والی عمارت میں کرائے پر مقیم تھے۔ نونہم روڈ والا حصہ عمر پڑپیا اور بعد میں ڈوسا ہیرجی کی ملکیت میں رہا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں1883کے بعد نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ پلاٹ نمبر 14کو بعد میں 23 الاٹ کرکے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جو آج تک موجود ہے۔ کاپی رائٹ کلیم لاشاری۔
فیس بک پر تبصرے