داعش کی واپسی

818

عراقی شہر موصل کو عسکریت پسند گروہ دولت اسلامیہ کے قبضے سے واگزار کرانے میں شاید ابھی چند ہفتے مزید لگیں لیکن دولت اسلامیہ سے وابستہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی اپنے آبائی ملکوں میں واپسی پر عالمی دنیا اور بالخصوص یورپ تشویش میں مبتلا ہے

عراقی شہر موصل کو عسکریت پسند گروہ دولت اسلامیہ کے قبضے سے واگزار کرانے میں شاید ابھی چند ہفتے مزید لگیں لیکن  دولت اسلامیہ سے وابستہ غیر ملکی عسکریت پسندوں کی اپنے آبائی ملکوں میں واپسی پر عالمی دنیا اور بالخصوص یورپ تشویش میں مبتلا ہے ۔کئی تخمینوں کی مطابق ۲۰۱۲ سے لے کر اب تک سو سے زائد ممالک جن میں پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں ، کے ۳۰ ہزار سے زائد مرد اور خواتین نے  عراق اور شام  جا کر  وہاں کے عسکری گروپوں  بالخصوص دولت اسلامیہ  میں شمولیت اختیار کی ۔ا س میں صرف عسکریت پسند نہیں بلکہ ان کے خاندان بھی شامل ہیں جو کہ ابو بکر البغدادی کی اپیل پر  نو  تشکیل شدہ اسلامی خلافت کی حمایت  میں ہجرت کر کے شام پہنچے ۔اب بہت سارے خاندان وہاں پر جاری تنازعہ کی شدت کی وجہ سے اپنے اپنے ملکوں میں واپس جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔

ان عسکریت پسندوں اور ان کے خاندانوں کی واپسی سے درپیش ممکنہ خطرات کو دیکھتے ہوئے کئی اقوام شدید تشویش میں مبتلا ہیں ۔کیونکہ یہ عسکریت پسند دہشت گرد حملے کرنے کی مہارتوں سے لیس ہو کر  لوٹ رہے ہیں ان کی خاندان بھی شدت پسندی کو ہوا دینے میں مدد گار ہو سکتے ہیں ۔یہ خطرات کچھ بے جا بھی نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے وہ عسکریت پسند  جو یورپ میں لوٹے تھے انہوں نے تشدد کو فروغ دیا اور ان میں سے کچھ دہشت گردی  میں بھی شریک ہوئے ۔

اس سال رمضان سے قبل اور اس کے بعد دنیا کے مختلف خطوں کے اندر دہشت گرد حملوں کی جو لہر چلی وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ دولت اسلامیہ عالمی سطح   پر دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر  عالمی سیکورٹی کے لئے دولت اسلامیہ ،القائدہ سے بھی زیادہ  خطرناک ہے  کیونکہ اس کے پاس موثر انسانی وسائل اور بھر پور مدد ہے جس کی وجہ سے یہ  مغرب  کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنی جانب راغب  کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔بہت سے ماہرین کو یقین ہے کہ پر تشدد رجحانات  کی  جڑیں مسلم ممالک کے سماجی و سیاسی ڈھانچے میں بڑی گہری ہیں اور اسی وجہ سے یہاں اسلامی تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں ۔یہی تحریکیں پر تشدد رجحانات کو ہوا دیتی ہیں جو بعدازاں القائدہ اور دولت اسلامیہ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔وہ ماہرین انسداد دہشت گردی جو کہ نسلی نظریہ generational theory پر  یقین رکھتے ہیں ، سیاسی اور بشری حوالوں کے ملاپ سے جنم لینے والی شدت پسند تحریکوں پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ یہ مانتے ہیں کہ پر تشدد اسلامی گروپوں میں ایک نئی جہت کا ظہور ہو رہا ہے ۔

دولت ِ اسلامیہ ا سوقت متحد نہیں  بلکہ یہ شکست و ریخت کا شکار ہے ۔ان حالات میں القائدہ  دوبارہ مزید مظبوط ہوسکتی ہے۔دولت اسلامیہ کے اتحادی جو کہ پہلے القائدہ کا حصہ یا اس کے قریب تھے وہ دوبارہ اپنے اصل گروپوں کی طرف واپس آئیں گے ۔اسی طرح یہ شدت پسند ایک زوال پزیر دولت اسلامیہ کی بجائے القائدہ کا حصہ بن جائیں گے ۔جس سے امکان ہے کہ ایک نئی تحریک کی بنیاد پڑے جس کے نظریاتی اور سیاسی مقاصد کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

کچھ ماہ پہلے مقامی میڈیا نے یہ خبر دی کہ تقریباً 650 پاکستانی خاندان عراق ، شام  اور تنا زعات کے شکار  دوسرے علاقوں میں ہجرت کر گئے ہیں ۔یہ خبریں سرکاری ذرائع سے دی گئی تھیں جن میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ اگر دولت اسلامیہ کو شکست ہوتی ہے تو پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا  اور شاید پاکستان میں فرقہ وارانہ تناؤ بھی بڑھ جائے ۔

یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ عراق اور شام سے جو پاکستانی واپس آئیں گے ان کا طرز عمل کیا ہو گا۔جب ہم ملک میں عسکریت پسندوں کے پیچیدہ  منظر نامے اور انتہا پسندی کے مختلف رجحانات کو دیکھتے ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکورٹی کے لئے نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ۔اسی دوران اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ صرف پاکستانی عسکریت پسند ہی ملک میں واپس نہیں آئیں گے بلکہ  وسطی ایشیائی ممالک اور چینی صوبہ زی جنگ پی سے تعلق رکھنے والے یغر عسکریت پسند بھی اسی علاقے بالخصوص افغانستان میں جہاں پاکستان کی سرحد سے متصل ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں ، میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے پر  ترجیح دیں گے ۔

اگر وہ واپس آئے تواس کا مطلب ہو گا کہ دولت اسلامیہ کا خراسان  باب مظبوط ہو گا۔حال ہی میں نیٹو کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ دولت اسلامیہ کے ایک ہزار دہشت گرد مشرقی افغانستان کے ننگرہار صوبہ کے تین اضلاع میں سرگرم ہیں ۔اگر مزید عسکریت پسند پہنچ گئے تو اس سے نہ صرف یہ کہ دولت اسلامیہ مضبوط ہو گی بلکہ  وہ اپنے ساتھ نئے تجربات بھی لے کر آئیں گے ۔اس دوران اگرچہ دولت اسلامیہ نے اپنا اثرو رسوخ ننگر ہار سے باہر پھیلانے کی کوشش کی ہے مگر اسے ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی  مگر یہ  فرحہ ، فریاب ، بدخشاں ، کنڑ  اور لوگر کے صوبوں میں  قدم جمانے کی کوششوں میں ہے ۔ننگر ہار  چیپٹر میں زیادہ تر پاکستانی عسکریت پسند شامل ہیں جو کہ خیبر ، مہمند ، اورکزئی اور باجوڑ ایجنسی میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے گئے ہوئے ہیں ۔واپس آنے والے دوبارہ منظم ہوں گے اور دولت اسلامیہ کی مرکزی قیادت شاید انہیں اس کے لئے کہے بھی ۔

پاکستان میں دولت اسلامیہ کے اثرات متنوع ہیں ۔کئی عسکریت پسند گروہ علاقے میں نئی دہشت گرد تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں تاہم دولت اسلامیہ کی حکمت عملی اختیاری ہے جس نے کئی گروہوں کی حاصلہ شکنی کی ہے تاہم فرقہ وارانہ بیانئے کو تحریک دیتے ہوئے کچھ فرقہ وارانہ گروہوں کو مضبوط کیا ہے ۔دولت اسلامیہ کی وجہ سے پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے غیر متشدد اور کالعدم گروہوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے ۔

دولت اسلامیہ کی وجہ سے کچھ چھوٹے اسلامی گروہوں  جن میں تنظیم ِ اسلامی اور جماعت اسلامی کے کچھ چھوٹے حلقے اور کالعدم حزب التحریر شامل ہیں کو نیا راستہ مل گیا ہے ۔جماعت الدعوۃ اس کا دوسرا شکار ہے جس کے کئی کارکن دولت اسلامیہ میں شامل ہو چکے ہیں ۔جس کی د ووجوہات ہیں :ایک یہ کہ دونوں گروہ سلفی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جماعت الدعوۃ نظریاتی اور سیاسی سطح پر گومگوں کی کیفیت میں ہے ۔جماعت الدعوۃ بنیادی طور پر ایک عسکری گروہ ہے جس نے پاکستان میں جہادی کلچر اور بیانئے کی تخلیق کی ہے اور اس کا پنجاب کے شہری علاقوں میں خاصا اثر روسوخ  بھی ہے ۔یہ اپنے جیسے دیگر عسکری گروہوں کے مقابلے پر خاندانوں کو متحرک کرتے ہیں ۔

جب دولت اسلامیہ سے  فیض یاب ہونے والے خاندان واپس آئیں گے تو وہ اسلامی گروہوں اور جماعت الدعوۃ کے لئے کئی مسائل کھڑے کریں گے ۔شاید وہ دولت اسلامیہ کے سیاسی اور نظریاتی بیانئے کو اپنے اپنے گروپوں میں پھیلانے کی کوشش کریں جس سے ان گروہوں کے اندر نہ صرف تقسیم بڑھنے کا امکان  ہے بلکہ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ وہ   آگے چل کر  ایک نئے اور زیادہ شدت پسند گروہ  میں ڈھل جائیں ۔

افغانستان اور پاکستان دونوں دولت اسلامیہ کے خطرے کا حقیقی ادراک کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔افغانستان  کے حالات اس لئے بھی دگرگوں ہیں کیونکہ وہاں جنونی دشت گردوں کا دائرہ اثر بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں بھی حالات گھمبیر ہیں کیونکہ یہاں کئی قسم کے عسکری گروہ ہیں جن کے اپنے اپنے نظریاتی رجحانات اور فرقہ وارانہ وابستگیاں ہیں ۔ یہ ایسا منظر نامہ ہے جو نئے رجحانات اور گروہوں کی تشکیل کےلئے زر خیز ہے ۔

(بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...