ڈیرہ کے آبی وسائل کی زبوں حالی
اگر سسٹم کی بحالی کےلئے درکار فنڈز کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو آبپاشی کا یہ عظیم نظام تباہ اور یہ لہلہاتے کھیت ویران ہو جائیں گے
جب ہم دور افتادہ علاقوں کے عوام کے مسائل پر غور کرتے ہیں جن کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے تو مشکلات کی فصیل مزید بلند ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ یہ عوامل قومی وسائل کی ناقدری کی واضح مثال ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 24 سے منتخب رکن اسمبلی مولانا فضل الرحمٰن ملکی و بین الاقوامی سیاست کے جھمیلوں سے کچھ وقت نکال کے ایک عرصہ بعد اپنے حلقہ نیابت کو لوٹے تو ڈپٹی کمشنر معتصم باللہ کی وساطت سے محکمہ ایریگیشن کے افسران نے انہیں وسائلِ آبپاشی کی زبوں حالی اور زیرتعمیر منصوبوں کی راہ میں حائل مشکلات سے آگاہی دینے کی خاطر بریفنگ کا اہتمام کیا۔
محکمہ آبپاشی کے افسران نے مولانا فضل الرحمٰن کو ضلع بھر کے نہری سسٹم بالخصوص چشمہ رائٹ بنک کینال کی حالت زار،رود کوہی نظام آبپاشی کے فطری زوال اور گومل زام ڈیم سے جڑے مسائل سے مفصل آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ بین الصوبائی نہر ہونے کے ناطے، چشمہ رائٹ بنک کینال سے استفادہ کرنے والے،صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی حکومتوں نے 2002ءمیں ایک معاہدہ کے تحت سی آر بی سی مین کینال کے آپریشن اور مرمت و بحالی کی ذمہ داری واپڈا کے سپرد کر کے مرمت و بحالی اور آپریشنل ضروریات کے لئے واپڈا کو پچاس،پچاس فیصد فنڈ کی فراہمی کا وعدہ کیا جبکہ آبپاشی کے پانی کی ڈسٹری بیوشن کے وسیع نظام کو چلانے کی ذمہ داری محکمہ ہائے آبپاشی کے حوالے کی گئی لیکن بدقسمتی سے دونوں صوبائی حکومتیں پچھلے چودہ سالوں سے مین کینال کی مرمت و بحالی کے لئے اپنے حصہ کا فنڈ دینے سے گریزاں رہیں،خیبر پختون خواہ والے کہتے ہیں،واپڈا بجلی کی مد میں ان کے ذمہ ہمارے کروڑوں کے بقایاجات میں سے نہر کی مرمت و بحالی کےلئے درکار فنڈ منہا کر لے،اسی طرز عمل کو جواز بنا کے پنجاب گورنمنٹ کہتی ہے کہ خیبر پختون خواہ اپنے حصہ کے فنڈ نہیں دیتے تو ہم کیوں دیں! اسی کھنچاتانی میں 200 کلو میٹر لمبی یہ بین الصوبائی نہر گزشتہ پندرہ سال سے زبوں حالی شکار ہے،جس سے سی آر بی سی کینال اور اس سے وابستہ نہری نظام بتدریج زوال پذیر ہے۔محکمہ آبپاشی سی آر بی سی ڈویژن کے ایکسئین عقیل اظہر نے خیبرپختون خواہ کے سب سے بڑے نہری نظام کو درپیش مسائل بیان کرتے ہوئے کہا کہ 3054کیوسک پانی کی حامل کم و بیش 272 کلومیٹر لمبی نہر کا ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ڈسٹری بیوٹری نظام 785کلومیٹر پر محیط ہے جس کی مرمت و بحالی کے علاوہ سالانہ بھل صفائی کے لئے درکار فنڈز کی عدم دستیابی ملک کے اس بہترین نظام آبپاشی کی تباہی کا سبب بن رہی ہے،ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مین کینال کا ڈسچارج مسلسل گھٹ رہاہے اور رفتہ رفتہ ٹیل کے زمینداران کو حقوق آبپاشی کی ترسیل ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔
2010ءکے سیلاب میں سی آر بی سی کینال 23 مقامات سے ٹوٹی گئی تھی ،ہنگامی بنیادوں پہ ابتدائی مرمت کے بعد نہر کی مستقل بحالی کے کام کو فراموش کر دیا گیا،ہولناک سیلاب سے سینکڑوں پینل ٹوٹ گئے اور مختلف جگہوں پہ نہر کا اسٹریکچرشدید متاثر ہوا،پچھلے چھ سال سے جمعہ شریف سیفین منہدم پڑا ہے،کئی بار سیفن کے تعمیرنو کے پی سی ون تیار کر کے بھجوائے لیکن کسی نے کان نہیں دھرا،نہر کا بنیادی ڈھانچہ اس قدر کمزور ہو گیا ہے کہ اس میں پوری مقدار میں پانی کا بہاو ممکن نہیں رہا اس لئے واپڈا بدستور ڈسچارج کم کرنے پر مجبور ہے، جس سے لامحالہ کاشتکاری کا نظام متاثر ہو رہا ہے،شمال سے جنوب کو بہنے والی نہر کے بنیادی ڈھانچہ کو مغرب کی طرف سے کوہ سیلمان کے پہاڑی نالوں سے آنے والے سیلابی ریلوں سے بچانے کے لئے29 ڈرینیں بنائی گئیں،2002 ءکے معاہدہ کی رو سے نہر کی تکمیل کے بعد واپڈا آخری بار مرمت و بحالی کر کے ڈرینوں کو پنجاب و خیبر پختون خواہ کے محکمہ ہائے آبپاشی کے حوالے کرنا تھالیکن صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈ کی عدم فراہمی کے باعث چودہ سالوں سے ڈرینوں کی مرمت ہوئی نہ ہنڈلنگ اوور، ٹینکنگ اوور مکمل کی جا سکی۔
دلچسپ حقیقت یہ کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جس نہری نظام سے 3 لاکھ66 ہزار ایکیڑ اراضی سیراب اور10 کروڑ روپے سالانہ آبیانہ وصول ہوتا ہے،صوبائی حکومت اس نہری سسٹم کی مرمت و بحالی کے لئے سالانہ صرف دو کروڑ تیس لاکھ روپے مختص کرتی ہے اس کے برعکس پشاور کی سیزنل ایریگیش سسٹم جو صرف ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی کو سیرابی کے وسائل مہیا کرتا ہے ،مرمت و بحالی کی مد میں سالانہ ساڑھے سات کروڑ ،مالاکنڈ کو چار کروڑ ساٹھ لاکھ ،کوہاٹ کوتین کروڑ اور بنوں کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ کے فنڈ ملتے ہیں۔گومل زام ڈیم کی تعمیر کے وقت وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ڈیم کی تعمیر کےلئے درکار اراضی خریدنے کےلئے دو کروڑ بیس لاکھ کے فنڈ کی ادائیگی خیبر پختون خواہ حکومت کرے گی پہلے تو صوبائی حکومت انکار کرتی رہی بعدازان ایک ارب تیس کروڑ روپے پر راضی ہو گئی،جس میں سے تراسی کروڑ واپڈا کو ملنے ہیں جو قبل ازیں وہ لینڈ اکوزیشن کی مد میں خرچ کر چکا تھا اور ۴۸ کروڑ روپے ان مقامی زمینداروں کو ادائیگی کےلئے مختص تھے جن کی زمینیں ڈیم کی تعمیر کے دوران ایکوائر کی گئیں،صوبائی حکومت نے اس سال لینڈ ایکوزیشن فنڈ کی مد میں ایک ارب روپے ریلیز کئے،ادائیگی کے طے شدہ فارمولا کے مطابق ان میں سے دوتہائی واپڈا کو جبکہ ایک تہائی ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے ڈپٹی کمشنرز کی وساطت سے زمینداروں کو دینے تھے لیکن واپڈا والوں نے پورے ایک ارب ضبط کر لئے جس سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا، گومل زام ڈیم کے لینڈ ایکوزیشن کے عارضی اسٹاف،جنہیں پچھلے سولہ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں، کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی اسی فنڈ سے ہونی تھی،تنخواہوں سے محروم لینڈ ایکوزیشن اسٹاف کے اہلکار سڑکوں پہ محو احتجاج ہیں لیکن واپڈا اور صوبائی حکومت،دونوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ تاہم مشکلات کے باوجود موجودہ نہری نظام کی بدولت اب بھی ڈیڑھ لاکھوں ایکڑ اراضی پہ لہلہاتی کماد کی فصل حالیہ سیزن میں چار شوگر ملز کو کرشنگ کےلئے بارہ کروڑ ٹن گنا فراہم کرنے کاوسیلہ بنی،گومل زام ڈیم کی تعمیر کے بعد مزید 2 نئی شوگر ملز لگائی جا رہی ہیں۔جس سے تحصیل کلاچی میں بیروزگاری کے خاتمہ میں مدد ملے گی،سی آر بی سی کے کمانڈ ایریا میں کماد کے علاوہ گندم، چاول، مکئی اور دیگر فصلوں کی پیداوار بھی قابل رشک ہے۔ صوبے کے سب سے بڑے نہری نظام کو تباہی سے بچانے کے لئے بحالی و مرمت کے کاموں کے لئے فوری اقدامات ناگزیر ہیں،اگر سسٹم کی بحالی کےلئے درکار فنڈز کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو آبپاشی کا یہ عظیم نظام تباہ اور یہ لہلہاتے کھیت ویران ہو جائیں گے،افسوس ریاستی اداروں کی کم مائیگی کے باعث مقامی کاشتکاروں کو نہری نظام سے استفادہ کے بھرپور مواقع نہیں مل سکے۔انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے استدعا کی کہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ حکومتوں کو معاہدہ کے مطابق نہر کی مرمت و بحالی کےلئے اپنے حصہ کے فنڈز مہیا کرنے پہ آمادہ کریں تاکہ قیمتی قومی اثاثوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔واضح رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے دورہ ڈیرہ اسماعیل خان کے موقع پر جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا تھا ان میں سی آر بی سی نہر کی مرمت کے علاوہ دریائے سندھ کے دائیں جانب17.05کلومیٹر طویل لدھو مارجنل بند کی تعمیر بھی شامل تھی،جس کی لاگت کا تخمینہ 3324ملین روپے لگایا گیا تھا۔بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سی آر بی سی گرویٹی کینال پراجیکٹ کا پی سی ون PDWP سے منظور کرا کے اسلام آباد بھجوایا جا چکا ہے تاکہ ایکنک سے اس کی باقاعدہ منظوری لی جا سکے، اس میگا پراجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 119.50ارب روپے ہے۔گرویٹی کینال منصوبے کی تکمیل کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی مزید ساڑھے چار لاکھ ایکڑ اراضی کو آبپاشی کے وسائل مہیا ہوئے تو خطہ میں خوشحالی آئے گی جس کے مثبت اثرات پورے صوبہ کی معیشت پہ مرتب ہوں گے ۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ڈی سی ڈیرہ اسماعیل خان کو ہدایت دی کہ محکمہ کے بیان کردہ مسائل پہ مبنی مفصل رپورٹ تیارکرائیں تاکہ مشکلات کے ازالہ کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے بات کی جا سکے۔
فیس بک پر تبصرے