سیرل کو خبر بنانے سے مسئلہ ختم نہیں ہو گا

1,089

جب صحافی خود خبر بن جائے تو ا س کا مطلب ہے کہ اس خبر کے پیچھے کئی بڑی خبریں ہیں ،جن کو اس خبر کے ذریعے روکا گیا ہے

جب صحافی خود خبر بن جائے تو ا س کا مطلب ہے کہ اس خبر کے پیچھے کئی بڑی خبریں ہیں ،جن کو اس خبر کے ذریعے روکا گیا ہے ۔سیرل المیڈا کی خبر نے جو بھی بھونچال برپا کیا تھا اب اس بھونچال کو سیرل المیڈا کی خبر سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس ساری صورتحال میں اصل موضوع پس منظر میں چلا گیا ہے اور وہ یہ کہ کیا ریاست غیر ریاستی عناصر سے متعلق حتمی فیصلہ کر سکتی ہے ؟

یہ بحث کوئی نئی نہیں ہے ،جب بھی اندرونی سلامتی دگر گوں ہونے لگتی ہے یا ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کے واقعات سے ہل چل مچتی ہے یا کالعدم تنظیمیں سڑکوں پر مارچ کرتی ہیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان پر عالمی دباؤآتا ہے تو یہ موضوع قومی سلامتی کی بحث میں نمایاں ہونے لگتا ہے ۔یہی بحث اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت میں چل رہی تھی جس کی خبر سیرل المیڈا نے لی ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ خبر بڑے قومی اتفاقِ رائے کا سبب بنتی اور دو دہائیوں سے جاری بحث کسی منطقی نتیجے پر پہنچتی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا ،اگرچہ  اس خبر کے فوراً بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ممبران کو اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کا حوصلہ ہوا بھی ، لیکن پھر یہ بحث انہی بھول بھلیوں میں کھو گئی ۔جس سے یہ پیغام اخذ کیا جا رہا ہے کہ شاید ریاست ابھی تک ا س مسئلے پر ابہام کا شکار ہے ۔

سیرل کو ا س مسئلے پر جس طرح قربانی کا بکرا بنایا گیا وہ قابل مزمت ہے اور آزادئ  صحافت پر ریاست کی طرف سے لگایا گیا ایک اور بدنما دھبہ ہے ۔اس قدام سے یہ بحث کچھ وقت کے لئے التوا میں تو جا سکتی ہے لیکن یہ ا س وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک ریاست یہ طے نہیں کرے گی کہ غیر ریاستی عسکری گروہوں کا مستقبل کیا ہے ۔

ممکن ہے کہ ریاست کے اداروں کو ان عسکری گروہوں سے قومی سلامتی اور عالمی امیج کو لاحق خطرات کا اندازہ ہو جیسا کہ اس کا اظہار سیرل کی خبر سے بھی ہو رہا ہے ،تو پھر فیصلے کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟

اگرچہ بعض مبصرین کچھ کالعدم تنظیموں کو غیر ریاستی عناصر میں شمار نہیں کرتے ،لیکن یہ تنظیمیں اپنی ساخت میں وہ تمام اجزائے ترکیبی رکھتی ہیں جو دباؤ کم ہونے پر  زیادہ سے زیادہ خود مختار ہو سکتی ہیں اور ریاست کے لئے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہیں ۔اپنی موجودہ حیثیت سے بھی یہ اندرونی سلامتی کے لئے بڑا چیلنج ہیں اور انہی سے وابستہ عسکریت پسند داعش اور القائدہ جیسی تنظیموں کا ایندھن بنتے ہیں اور انہی تنظیموں سے الگ ہو کر سر پھرے عسکریت پسند پاکستان کے اندر دہشت گردی کا بازار گرم کرتے ہیں ۔یہ تنظیمیں عسکریت پسند ماحول کو تشکیل دیتی ہیں ، اس کوپروان چڑھاتی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں ۔یہ سارا عمل ریاست اور سماج کی معتدل افزائش کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

اگرچہ ان گروہوں کی شناخت مذہبی ہے لیکن پاکستان میں بڑے مذہبی طبقے ایسے گروہوں کی حمایت نہیں کرتے اور انہیں ایک سیاسی اور ریاستی عمل کا جزو گردانتے ہیں ۔

ان گروہوں سے پاکستان کو حاصل کیاہوا ؟ کبھی ریاستی  اداروں نے ا س پر بھی غور کیا ؟ان کی وجہ سے تحریک ِ آزادئ کشمیر کو فائدہ ہو ایا نقصان ؟ بہت سے پہلو ہیں جن پر کھل کر بحث ہونا باقی ہے ۔اور اس بحث میں یہ موضوع بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ کیا ان غیر ریاستی عناصر کوقومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے ؟ اگر ہاں تو کیسے ؟ لیکن بحث پر پردہ ڈالنے سے مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔سیرل کا نام ای سی ایل سے نکل جائے گا ،لیکن عسکری اور سیاسی قیادت کا امتحان ختم نہیں ہو گا ۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...