فیصلہ کریں کدھر جانا ہے؟
تحریک طالبان کے امیر کیسے یہاں رہے ، کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ریاست فیصلہ کرے کہ ایسی خبروں اور اطلاعات سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اور غیر ریاستی عسکری عناصر کی سر زمین پاکستان پر موجودگی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔
پاکستان کا سفارتی سطح پر سب سے بڑا چیلنج غیر ریاستی عسکری گروپ ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی گروپ ہیں۔پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس کا کتنا ادراک اور احساس ہے اس کا اظہار گزشتہ دنوں اخبارات میں لیک ہونے والی خبروں سے ہوتا ہے جن کے مطابق اعلٰی سطحی اجلاسوں میں سیاسی قیادت اور دفتر خارجہ کے اعلٰی اہلکار نے ان غیر ریاستی گروپوں پر تنقید کی ۔اگرچہ ایسی خبروں کی تردید کی جارہی ہے لیکن اس مسئلے پر پارلیمنٹ اور میڈیا پر بحث جاری ہے ۔
ابھی یہ بحث گرم تھی کہ ایک اور خبر آ گئی ہے کہ جو یقیناً پاکستان کے عالمی امیج کے لئے قطعی درست نہیں ہے ۔یہ خبر کوئٹہ کے قریب کچلاک میں افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اخوند کی موجودگی سے متعلق ہے ۔عالمی خبر رساں ادارے روئیٹر نے انکشاف کیا ہے کہ ملا ہیبت اللہ تحریک کے امیر منتخب ہونے سے پہلے الحاج نامی مسجد اور مدرسے میں پندرہ برس تک تعلیم اور تدریس سے منسلک رہے اور اسی دوران سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے اور کئی جلسوں سے بھی خطاب کیا ۔
اس سے قطع نظر کہ یہ کیسے ممکن ہوا ؟اور تحریک طالبان کے امیر کیسے یہاں رہے ، کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ریاست فیصلہ کرے کہ ایسی خبروں اور اطلاعات سے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اور غیر ریاستی عسکری عناصر کی سر زمین پاکستان پر موجودگی کی کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔
فیس بک پر تبصرے