پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں میں فکری اور لسانی تنوع کا مسئلہ
رسمی تعلیم بھی پراپیگنڈا کا ایک ذریعہ ہی ہوتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی فری، یعنی بے تعصب تعلیم موجود نہیں۔ ہر ملک میں اس رسمی تعلیم کے اپنے اہداف ہوتے ہیں۔ تاہم دنیا میں ہرجگہ تعلیم میں تعصب کی مقدار مختلف ہوتی ہے اور اسی طرح تعلیم و تدریس کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کہیں پر پڑھانے کا معیار اور نصابی کتب کا معیار بہتر ہے تو کہیں پہ ان کا معیار پست ہوتا ہے۔ کہیں پہ تدریس طلبہ کی تنقیدی صلاحیت یعنی پرکھنے کی ذہنی استطاعت پر زیادہ زور دیتی ہے تو کہیں پہ یہ تدریس آنے والی نسلوں کو اس جمود کا پیروکار بناتی ہے جو نظریاتی، فکری اور سماجی و سیاسی لحاظ سے خاص طبقات کے لیےمفید ہوتا ہے۔ کہیں پہ تعلیم اندھی تقلید کو پروان چڑھاتی ہے تو کہیں پہ اس کے ذریعے سوال اٹھانے کی صلاحیت ابھاری جاتی ہے۔
یہ جدید رسمی تعلیم یورپ کے ”قومی ریاست“ کے تصور سے جڑی ہوئی ہے۔ جب دنیا کے قدیم مقامی سیاسی نظاموں سے سلطنتوں نے جنم لیا تب رسمی تعلیم کا ایسا رواج نہیں تھا۔ جب ان ہی سلطنتوں کے بطن سے قومی ریاستوں نے جنم لیا تو ان کو برقرار رکھنے کے لیے ایک خاص نظریہ، وحدت اور انصرام کی ضرورت پڑی۔ انہی قومی ریاستوں کی بقا کے لیے رسمی تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔
بعد میں جب دنیا عالمگیریت کی طرف چلی تو تعلیم میں بھی بنیادی تبدیلیاں لازمی قرار پائیں تاکہ گلوبلزم یعنی مختلف ریاستوں کے بیچ ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو۔ یہاں ”ریاست“ اور ”قوم“ ہم معنی سے ہو گئے۔ اس لیے ریاستوں کے اتحاد کو ”اقوام متحدہ“ کہا گیا اگرچہ یہ قوموں کا نہیں بلکہ ریاستوں کا اتحاد ہے۔
پاکستان کی تحریک میں یہی یورپی ریاست کا تصور متحرک رہا، اگرچہ یہاں قوم کو مذہب کی بنیاد پر تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ چونکہ اس یورپی ریاستی تصور میں زبان و ثقافت کا بڑ ادخل ہوتا ہے اس لیے مذہب کے ساتھ ساتھ ایک زبان کو بھی قومی شناختی علامت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا گیا۔ تاہم جو بڑی رکاوٹ اس منصوبے میں حائل رہی وہ 1947 ء کے بعد بھی ہندوستان میں کثیر تعداد میں مسلمانوں کا مقیم رہنا تھا۔ اس نئی ریاست کے جواز کے لیے مذہبی شناخت پر زور دیا گیا اور اسی کی بنیاد پر ایک زبان کو قومی زبان بنا کر لاگو کیا گیا۔ اس جبر کا نتیجہ بعد میں بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا۔
پاکستانی ریاست نے اسلام کو شناخت اور زمین کی سلامتی کے لیے استعمال کیا۔ یہاں اسلامی اصولوں پر شخصی، سماجی و سیاسی طور پر کچھ بھی عمل نہ ہوا۔ نتیجے میں جتنی مذہبی جماعتیں تھیں وہ بھی اسلام کو اپنی الگ شناخت اور اقتدار کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتی رہیں /رہتی ہیں۔ اسی شناخت کی بنیاد پر اقتدار یا طاقت کے حصول کے لیے کئی گروہوں نے بھی مذہب کا خوب استعمال کیا۔ یوں پاکستان میں سماجی و سیاسی پیچیدگیوں کو ایک ہی زاویے یعنی مذہب کے زاویے سے دیکھنے کا چلن عام ہوا۔
پاکستان کی تخلیق دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ دو قومی نظریہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ایک الگ قوم مانتا ہے۔ مگر جس وقت مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس وقت دنیا میں قومیت کا تصور وطن، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر پل رہا تھا۔ اس لیے اس الگ قوم کے لیے ایک زبان اور ثقافت کا ہونا بھی ضروری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم ہند سے پہلے ہی اردو زبان کو صرف مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش جاری تھی۔
قومیت کے لیے مذہب، زبان اور ثقافت کا یہ ابہام پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے مسئلے کو پاکستان کی کسی تعلیمی پالیسی میں حل نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی تعلیمی پالیسیاں اردو کی طرف زیادہ مائل رہیں لیکن اردو اور انگریزی کے متعلقہ رتبے ہمیشہ مبہم رہے۔ البتہ ان پالیسیوں نے ’علاقائی ‘زبانوں پر ہمیشہ اردو کو فوقیت دی۔ دوسرا بڑا چیلنج جو زبانوں سے متعلق برقرار رہا وہ زبانوں کی تعلیمی افادیت اور قومیت سازی میں زبانوں کے کردار کا باہمی ٹکراؤ تھا۔ انگریزی کو اس کی علمی وسعت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جاسکا اور ’علاقائی یا صوبائی ‘زبانوں کو ’قومی وحدت‘ کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔ ان پالیسیوں میں انگریزی زبان کو لعن طعن کا نشانہ تو بنایا گیا لیکن کہیں بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکے۔ دوسری طرف علاقائی اور دیگر کم مشہور زبانوں کو ’قومی وحدت ‘کے لیے خطرہ سمجھ کر ان سے انکار نے ہی اس ’قومی وحدت‘کو پاش پاش کرکے رکھ دیا جس کی اہم مثال بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
قومی تعلیمی پالیسیوں کے سامنے کئی سوالات مثلاً ملک کے لیے ایک زبان کون سی ہونی چاہیے؟ انگریزی کی کیا حیثیت ہو؟ کون سی زبان ذریعہ تعلیم ہو؟ علاقائی زبانوں کی حیثیت کیا ہو؟ اور کون سی زبان تعلیمی اداروں میں بطور مضمون کس جماعت سے شروع ہو؟ نے ہمیشہ تعلیمی پالیسی سازوں کو پریشان کیے رکھا۔
1947ء سے 2016ء تک پاکستان میں کوئی نو (9)تعلیمی پالیسی دستاویزات مرتب کی گئیں۔ ان میں سے پانچ کو فوجی آمروں کے ادوار میں مرتب کیا گیا۔
نومبر۔ دسمبر 1947ء میں کراچی میں پہلی پاکستانی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نئی مملکت کے تعلیمی خدوخال کے لیے سفارشات ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کی گئیں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں اس نئی مملکت کے لیے بنیادی تعلیمی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ’’اردو نے ایک غیر معمولی قوّت اور حساسیت دکھائی ہے۔ اردو خیالات کی ساری سطحیں اور تخیل کے پیچیدہ اور نازک پروازوں کے اعلیٰ اظہار اور ابلاغ کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے ‘‘۔ (حوالہ گورنمنٹ آف پاکستان رپورٹ 1947ء)۔ اس کانفرنس میں اردو کو ’رابطے کی زبان ‘ قرار دیا گیا۔ فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا، ’’جس آسانی سے اردو دوسری زبانوں سے الفاظ مستعار لیتی ہے، اردو کا فارسی، عربی اور سنسکرت سے تاریخی رشتہ اور شاعری و نثر میں اردو کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیت اس کو پاکستان کی رابطے کی زبان بنانے کے لیے ناقابل تردید جواز ہیں ‘‘۔ اس کانفرنس میں انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم مضر گردانا گیا تاہم اسے مغرب کے سارے سائنسی خزانوں اور تہذیبوں تک رسائی کا ذریعہ مانا گیا۔ اسی اجلاس میں صوبائی زبانوں کی اہمیت کی تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ زبانیں نہ صرف ذریعہ تعلیم ہیں بلکہ ثقافت کی ابلاغ کے وسیلے بھی ہیں۔ اسی کانفرنس کی تعلیم پر کمیٹی نے تجویز کیا کہ تعلیم میں ذریعہ تعلیم کا اختیار صوبوں کے پاس ہونا چاہیے تاہم اردو کو ہر صوبے میں ایک لازمی دوسری زبان کی حیثیت ضرور حاصل ہو۔ اسی طرح انگریزی کو بھی نصاب میں ایک لازمی زبان کے طور پر رکھنے کی سفارش اس کانفرنس میں کی گئی۔
اگلے بارہ سالوں کے لیے پاکستان میں تعلیمی پالیسی پر کوئی دستاویز نہیں ملتی۔ ان دس سالوں میں تاہم بڑے اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان میں اہم ترین واقعہ بنگالی زبان کو بطور قومی زبان تسلیم کروانے کے لیے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تحریک ہے۔
گزشتہ تمام تعلیمی پالیسیوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کے مسئلے کو پاکستان میں سماجی، تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زبان کا صرف سیاسی و نظریاتی پہلو غالب رہا۔
بنگالی لوگ تقسیم سے پہلے ہی اردو کو مسلمانوں کی واحد زبان بنانے پر ناراض تھے۔ وہ بنگالی کو بھی مسلمانوں کی زبان سمجھتے تھے۔ تقسیم کے بعد اس وقت کی پاکستانی قیادت نے بنگالیوں کے اس مطالبے کو یکسر نظر انداز کیا۔ خود بانی پاکستان نے 1948ء میں ڈھاکہ میں واضح کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔ یوں بنگالیوں میں اضطراب بڑھتا گیا۔ انہوں نے بنگالی زبان کے لیے قومی زبان کی حیثیت کے لیے تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے زیر اثر 1952ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے مشتعل طلباء پر پولیس نے گولی چلائی جس کے نتیجے میں کم از کم سات طالب علم ہلاک ہوئے۔ اس تحریک کا اثر تھا کہ پاکستان نے 1954ء میں اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان تسلیم کیا اور 1956ء کے آئین میں اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ ابھی اس آئین کو دو سال ہی ہوئے تھے کہ ملک میں 1958ء میں مارشل لاء لگا اور جنرل ایوب خان ملک کے حکمران بن گئے۔
جنرل ایوب کے دورحکمرانی کے دوران ہی 1959ء میں تعلیم پر قومی کمیشن بنا۔ اس کمیشن کی رو سے اردو اور بنگالی دونوں کو پاکستان کی قومی زبانیں تسلیم کیا گیا۔ اس کمیشن نے سفارش کی کہ قومی زبانیں بتدریج انگریزی کی جگہ ہر سطح پر ذریعہ تعلیم ہوں گی تاہم انگریزی کو چھٹی جماعت سے آگے ڈگری سطح کی تعلیم تک ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے برقرار رکھا گیا۔ اسی پالیسی میں کہا گیا کہ اگلے پندرہ سالوں میں یونیورسٹی سطح پر اردو ذریعہ تعلیم کے طور پر انگریزی کی جگہ لے گی۔
1965ء میں پاکستان اور ہندوستان کے بیچ جنگ چھڑ گئی۔ دوسری تعلیمی پالیسی 1969ء میں آئی۔ اس دوران ملک کے حکمران جنرل یحییٰ خان تھے۔ اس پالیسی میں جو نئی باتیں شامل کی گئیں وہ اردو کو مغربی پاکستان میں اور بنگالی کو مشرقی پاکستان میں سرکاری زبان کا درجہ دینا تھا۔ اسی پالیسی میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ انگریزی کی تدریس بتدریج گھٹا کر اسے قومی زبانوں (اردو اور بنگالی)میں تبدیل کیا جائے گا۔
اگلے سال 1970ء میں ایک اور تعلیمی پالیسی مرتب کی گئی جس میں کوئی نئی بات نہیں تھی ماسوائے اس سفارش کے کہ ذریعہ تعلیم کے طور پر زبان اپنانے کے وقت دیکھا جائے کہ وہ زبان تعلیم کے حصول میں آسانی پیدا کرے، جس میں ابلاغ واضح اور معروضی طور پر کیا جاسکے؛ اور جس سے تخلیقی اور تنقیدی فکر فروغ پائے۔
1972ء میں ایک اور تعلیمی پالیسی سامنے آئی۔ اس وقت ملک پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی۔ اس تعلیمی پالیسی میں زبان کے مسئلے کو سرے سے چھیڑا گیا ،نہ ہی ذریعہ تعلیم کا ذکر کیا گیا۔
1973ء میں پاکستان میں ایک جمہوری حکومت نے پہلا متفقہ آئین منظور کروایا۔ اس آئین میں زبان اور ثقافت کے حوالے سے آرٹیکلز 251 اور 28 اہم ہیں۔ ملک میں شہریوں کو اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کا حق دیا گیا۔ اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ صوبائی اسمبلی کو اختیار دیا گیا کہ وہ صوبے کی کسی زبان کے فروغ و ترقی کے لیے ادارے بنائے لیکن یہ اقدامات اردو سے ’تعصب‘پر مبنی نہ ہوں۔ آئین میں وعدہ کیا گیا کہ آئندہ پندرہ سالوں میں اردو کو دفتری/سرکاری زبان بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 28 کو آرٹیکل 251 سے مشروط کرکے ایک طرح سے اردو کو بالادست قرار دیا گیا۔ دوسری جانب آرٹیکل 28 میں شہریوں کو حق دیا گیا کہ وہ اپنی زبان و ثقافت کو پھیلا سکتے ہیں اور اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ مگر اس بارے میں ریاست پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء لگایا۔ جنرل ضیاء نے پورے ملکی نظام کو اپنی فہم کے مطابق اسلامی بنانے کی ٹھانی۔ ان ہی کے دور میں 1979ء میں چھٹی تعلیمی پالیسی آگئی۔ اس پالیسی میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے پر زور دیا گیا۔ نجی سکولوں میں بھی اردو کو بطور ذریعہ تعلیم نافذ کیا گیا۔ اردو کے فروغ کے لیے اقدامات کیے گئے اور اسے مسلم شناخت کی علامت بتایا گیا۔ اس پالیسی میں سفارش کی گئی کہ اردو ذریعہ تعلیم ہوگی تاہم اس کے ساتھ تیسری جماعت سے ایک علاقائی زبان بھی پڑھائی جائے گی۔
1989ء میں ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں تعلیمی پالیسی پر کوئی کام نہ ہوسکا۔ ان کی حکومت کو جلد فارغ کردیا گیا۔
محمد نواز شریف کی پہلی حکومت نے 1992 ء میں تعلیمی پالیسی بنائی جس کی رو سے ذریعہ تعلیم کا فیصلہ صوبوں کو دیا گیا جہاں وہ کسی ایک صوبائی زبان، اردو یا انگریزی کو ذریعہ تعلیم بناسکتے ہیں۔ اس پالیسی نے آگے سفارش کی کہ اعلیٰ سائنسی و تکنیکی تعلیم انگریزی میں دی جائے گی۔
اس دوران یہ جمہوری حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت بھی جلدی ختم ہوا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں دوسری مرتبہ محمد نواز شریف کی حکومت آئی جس نے 1998ء میں ملک کی آٹھویں تعلیمی پالیسی مرتب کی۔ اس پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں کی گئی ماسوائے عربی زبان کے فروغ کے۔
1999ء میں فوج نے پھر حکومت کو چلتا کیا اور ملک کے حکمران اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بن گئے۔ ان کی حکومت کے دوران خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ گیارہ ستمبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینڑ اور پینٹاگون واشنگٹن پر حملے ہوئے جن کی ذمہ داری افغانستان میں اس وقت کے طالبان حکومت کے مہمان اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ نے قبول کی۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا اور پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکا کی قیادت میں شروع ہوئی۔ پرویز مشرف کی حکومت امریکا کی اتحادی بن گئی۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی بیانیہ شروع ہوا۔ پاکستان میں تاہم حالات مختلف رہے۔ مرکز میں پرویز مشرف کی نام نہاد ’روشن خیال‘حکومت تھی جب کہ افغانستان سے متصل صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں سات مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی۔ جنرل مشرف نے خود کو دنیا کے سامنے روشن خیال پیش کرنا شروع کیا۔
ان کی حکومت کے دوران کئی تعلیمی و نصابی اصلاحات کی باتیں کی گئیں۔ مشرف کی حکومت نے تعلیمی پالیسی بنائی جسے 2009ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پیش کیا۔
اس پالیسی میں ایک طرف انگریزی کو اہمیت دی گئی تو دوسری طرف اسے ملک میں عدم مساوات کی ایک اہم وجہ بھی مان لیا گیا۔ اس پالیسی کی رو سے انگریزی زبان کچی جماعت (KG ) سے مضمون کے طور پر شامل ہوگی اور اس کے لیے منصوبہ بندی کا اعلان کیا گیا۔ ملک میں تعلیم میں پیچھے رہ گئے طبقات پر خصوصی توجہ کا وعدہ کیا گیا۔ جماعت اوّل ہی سے اردو، انگریزی، ایک صوبائی زبان اور حساب کو مضامین کی صورت میں رکھنے کی سفارش کی گئی۔ پانچویں جماعت تک ذریعہ تعلیم اپنانے کا اختیار صوبوں کو دیا گیا۔ چھٹی جماعت اور اس سے آگے سائنس اور حساب کے لیے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ معاشرے کے نچلے طبقات کے بچّوں کو انگریزی پڑھانے کی بات بھی اس پالیسی میں کی گئی۔ آخر میں ایک جامع پالیسی زبانوں کے حوالے سے صوبوں، وفاق اور دوسرے تمام شرکاء کی مشاورت سے مرتب کرنے کی بات کی گئی۔
2009 ء کے بعد وفاقی سطح پر کوئی تعلیمی پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ 2010 ء میں پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم ہے جس کی رو سے تعلیم کا شعبہ صوبائی بن گیا۔ اس کے بعد اب تک وفاقی سطح پر تعلیم پہ کوئی پالیسی نہیں آئی۔ البتہ اس سال کے شروع سے وفاقی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی 2016ء کی باتیں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔
آئین کی اٹھارویں ترمیم میں ایک اہم پیش رفت آرٹیکل 25A کا شامل کیاجاناہے جس کی رو سے پاکستان میں پہلی بار ریاست کو تمام بچّوں اور بچّیوں کے لیے جن کی عمریں پانچ سے سولہ سال ہیں مفت اور لازمی تعلیم قانون کے مطابق دینے کا ذمہ دیا گیا۔
اس ترمیم کے بعد پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں میں زبانوں اور ذریعہ تعلیم کا مسئلہ ہنوز باقی ہے۔ صوبوں نے اب تک اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی۔ البتہ 2012 ء کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا کی اس وقت کی حکومت نے علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے قانون سازی کرکے ایک ایکٹ پاس کرایا جس کی رو سے صوبے میں ان علاقائی زبانوں کے فروغ و بقا کے لیے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور سکولوں کے نصاب میں صوبوں میں بولی جانی والی زبانوں کی بتدریج تدریس کا انتظام کیا جائے گا۔ اس قانون کی رو سے ابتدائی دو سالوں(2013ء) اور ( 2014ء) کے لیے صوبے میں پشتو کے علاوہ دیگر چار زبانوں ہندکو، کوہستانی، کھوار اور سرائیکی کو ابتدائی جماعتوں میں پڑھانے کا اہتمام ان علاقوں کے سرکاری سکولوں میں کیا جائے گا جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم صوبے میں حکومت بدلنے سے یہ کام سرد مہری اور سستی کا شکار رہا۔ اب تک خیبر پختونخوا میں علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے وہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا جس کے لیے 2012 ء میں قانون سازی کی گئی تھی۔
ان سب تعلیمی پالیسیوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ زبان کے مسئلے کو پاکستان میں سماجی، تعلیمی اور ثقافتی لحاظ سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زبان کا صرف سیاسی و نظریاتی پہلو غالب رہا۔
اردو کو باوجود وعدوں اور قانون سازی کے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے بھی واضح احکامات دیے لیکن اردو دفتری یا سرکاری زبان نہ بن سکی۔ کئی دعووں کے باوجود انگریزی کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ انگریزی بدستور پاکستان میں طاقت اور ترقی کی زبان رہی۔ پاکستان میں طاقت کے اہم سرچشموں مسلّح افواج، عدلیہ اور افسر شاہی کی زبان انگریزی ہی رہی۔ یہ تمام پالیسیاں اردو اور انگریزی کی اسیر رہیں۔ کچھ ذکر نام نہاد صوبائی زبانوں کا ملتا ہے لیکن پاکستان میں بولی جانے والی باقی ماندہ پینسٹھ (65) زبانوں کا ذکر کہیں موجود نہیں۔ ہمارے تعلیمی پالیسی ساز ایک اَن دیکھے خوف کے شکار نظر آئے۔ انہوں نے صوبائی اور دیگر زبانوں کو اس خوف کی وجہ سے نظر انداز کیے رکھا کہ خدانخواستہ ان زبانوں کو تسلیم کرنے سے ’قومی وحدت ‘ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں 2014 ء میں دس زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کے بل پر قومی اسمبلی کی سٹیندنگ کمیٹی کے سیکرٹری صاحب کے تاثرات دلچسپ ہیں جن میں موصوف مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجہ بنگالی زبان کو قومی زبان کی حیثیت دینا گردانتے ہیں۔ اس بل کو گزشتہ مہینے ایک بار پھر ملتوی کیا گیا۔
پاکستان ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اس کی بقا و ترقی یہاں کے اس تنوع کو تسلیم کرکے اس کی حفاظت میں ہے نہ کہ اسے مٹانے میں۔
اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور اسے یہاں پاکستان کی اکثر آبادی سمجھتی ہے۔ اسے اس حیثیت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ مگر اردو کے ساتھ دیگر زبانیں بھی پاکستان میں ہی بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔
جیسا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے اور آئین پاکستان بھی کہتا ہے، اردو کو سرکاری زبان بنانے کے انتظامات کیے جائیں۔ انگریزی زبان بلاشبہ ایک عالمی زبان بن گئی ہے۔ اس کی مانگ اب چین اور جاپان میں بھی بڑھ رہی ہے۔ انگریزی زبان اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور ابلاغ کی زبان بن گئی ہے۔ اس کی اس حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی مادری زبانیں اپنے اندر حکمت، تاریخ اور ثقافت کے خزینے لیے ہوئی ہیں۔ ان زبانوں کا معدوم ہونا پاکستان کے لوک ورثہ، دیسی حکمت اور تنوع کا مٹنا ہوگا۔ اس کے علاوہ اب یہ بات ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ بچّوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں بہت مؤثر اور تیزرفتار ہوسکتی ہے۔
اور اب یکساں نظامِ تعلیم کے وعدے سے یکساں نصاب تک۔
تحریک انصاف کی حکومت نے آتے آتے ایک اچھا اعلان کیا تھاکہ وہ ملک میں یکساں تعلیم نظام لائے گی۔ اس یکساں نظام تعلیم سے مراد یہی تھا کہ ملک میں سب کے لیے بلا رنگ و قوم اور علاقہ یا مذہب ایک جیسے تعلیمی مواقع میسر ہوں گے۔ بات اچھی لگتی تھی۔ مگر ایسا ان کے لیے کرنا ممکن نہ تھا۔
نتیجہ وہی گھسی پٹی پالیسی میں سامنے آیا۔ یکساں نظامِ تعلیم کی بجائے تعلیم پہ یکساں کتب آ گئیں جس کو یکساں تعلیمی نصاب کہا گیا۔ اسی کے تحت ایسی نصابی کتابیں ترتیب دی گئیں جو نہ صرف تدریسی لحاظ سے ناقص بلکہ ملکی تنوع کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ طلبہ پر بوجھ بڑھا دیا گیا اور اساتذہ کے لیے نئے مسائل پیدا کر دیے گئے۔ چونکہ نصاب کی کتب کی چھپائی میں بڑی بڑی کمپنیاں اثرانداز ہوتی ہیں اس لیے ان کتابوں کو بڑی تعداد میں چھاپا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان حکومتوں نے سکولوں میں اضافہ نہیں کیا۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی اداروں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے لیے بجٹ کی کمی کا بہانہ بنایا گیا تاہم نصاب کی کتب کی چھپائی میں اربوں کے خرچے کو بخوشی برداشت کیا گیا۔
ان نصابی کتب کا تدریسی اور تعلم کے لحاظ سے جائزہ لیں گے ،تاہم موجودہ یکساں نصاب تعلیم پاکستان کے غریب طبقات کے ساتھ ایک اور مذاق ہے۔ اساتذہ کی تربیت وہی، سکولوں کی تعداد و حالت وہی تاہم کتابیں نئی دی گئیں۔
2010 ء کی اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی شعبہ ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس میں مداخلت کر کے آئین کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔
ہمیں یکساں نصاب تعلیم نہیں بلکہ یکساں تعلیمی مواقع کی ضرورت ہے۔ یکساں نظام تعلیم سے ہوتے ہوئے یہ حکومت یکساں نصاب تعلیم پہ رک گئی۔ یوں ہمارے بچے کتابوں کی اس کثرت کے تلے دب جائیں گے مگر ان کی تعلیمی صلاحیت ایسی ہی رہ جائے گی اور جنہوں نے یہ یکساں نصاب تعلیم بنایا ہے ان کی اولاد یورپ اور امریکا میں تعلیم حاصل کر کے ہمارے آئندہ حکمران بنیں گے! یوں ہمارے بچے بھی ہماری طرح ان نظریات اور پاکستانیت کے گرد آپس میں لڑیں گے جبکہ زندگی اور تعلیم سے لطف ان نصاب سازوں اور پالیسی سازوں کے بچے لیں گے۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ہی یہ نئی ریاست شناخت کے بحران سے دو چار رہی۔ اسی بحران پر قابو پانے کے لیے سارا زور مذہب پر دیا گیا اور سماجی مساوات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔بلکہ مذہب اور ریاست کی آڑ میں اس طبقاتی نظام کو تقویت پہنچائی گئی۔ سیاست نظریات سے زیادہ طبقاتی ہو گئی اور اس کے اثرات ہر شعبے میں جڑ پکڑتے گئے۔
دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی نظام بھی کئی طبقات میں بٹ گیا۔ شہروں اور دیہات میں تفاوت بڑھتا گیا۔ تعلیم تک رسائی چند لوگوں کے پاس رہی۔ دوردراز علاقے نظرانداز کیے گئے۔ ہمارے والدین کی عمر کے لوگوں کو شہروں میں ملک کے انصرام کے بڑے بڑے عہدوں پر دیکھ کر اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس تفاوت سے آگے تعلیم مزید کئی طبقات میں بٹ گئی۔ مدرسہ اور سکول الگ ہو گئے بلکہ علم کی بھی تقسیم کی گئی۔ کہیں پہ یہ دینی ٹھہری تو کہیں اسے دنیاوی قرار دیا گیا۔
اسی طرح کی دوئی جدید اور قدیم کی بھی رہی۔ مدرسوں میں بھی یہ تقسیم جاری رہی اور رسمی ریاستی تعلیم میں تو یہ تقسیم کئی درجوں میں بٹ گئی۔ کہیں پہ نجی سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں تو کہیں پہ سرکاری سکولز، کالجز اور جامعات۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں بھی طبقاتی تفریق نمایاں رہی۔ ملک میں ایک طرف عام نجی سکولوں کا ہر گلی اور محلے میں قیام ہو یا پھر نجی طور پر مہنگے اداروں کا قیام ،سب نے طبقاتی تفاوت کو مزید تقویت دی۔ اسی طرح عسکری اداروں نے بھی شعبہ تجارت میں گھسنے کے بعد اس نجی تعلیمی طبقاتی نظام کو بھی فروغ دیا۔
پاکستان کی کوئی حکومت اس طبقاتی نظام کو تبدیل نہیں کر سکی کیوں کہ انہی مہنگے اداروں سے یہ مقتدر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا لہٰذا ایسا کرنا ان کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا۔ مختلف حکومتوں، چاہے ایوب کی ہو یا ضیاء و مشرف کی، سب نے اس طبقاتی نظام تعلیم کو مزید فروغ دیا۔ البتہ ان حکومتوں کے سامنے ریاستی سلامتی میں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ہمیشہ سے غریب طبقہ ہی بڑا ہدف رہا۔ مختلف تعلیمی پالیسیوں کی بدولت اس غریب طبقے کو تعلیمی طور پر بھی غریب و پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ ان سے اپنا ریاستی بیانیہ مستحکم کیا جاسکے۔
پاکستان کو ایک سہ لسانی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پرائمری تعلیم کے لیے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ اردو اور انگریزی کو بطور مضمون ہونا چاہیے۔ اگلی جماعتوں میں اردو اور انگریزی ذریعہ تعلیم ہو اور مادری زبان کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا چاہیے۔ اسی سے پاکستان میں تعلیم بھی بہتر ہوسکتی ہے، امن بھی آسکتا ہے اور ہماری نئی نسل اپنی دیسی روایات و زبانوں سے واقف بھی رہے گی۔ اس طرح ہم اس نوآبادیاتی ذہنیت میں بھی تبدیلی لاسکتے ہیں جو ہماری خود اعتمادی کو بری طرح تباہ کر رہی ہے۔
فیس بک پر تبصرے