ان کو تحفظ دیے بغیر امن کیسے قائم ہوگا؟

386

گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے علاقے حیدرخیل میں چار نامعلوم افراد نے چار نوجوانوں کو قتل کردیا۔ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے یہ تعلیم یافتہ نوجوانوں علاقے میں امن کی کوششوں کے لیے جانے جاتے تھے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی علاقے میں ٹاگٹ کلنگ کے دیگر واقعات میں مزید چار لوگوں کی اموات کی خبریں بھی میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں۔

ملک میں امن و امان کے لیے بھاری قیمت چکانے والے قبائلی جب وزیرستان میں آپریشن کے بعد جب لوگ گھروں کو واپس جانے لگے تھے تو انہیں امید تھی کہ اب یہاں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ لیکن ان کے لیے اب تک صورتحال زیادہ تبدیل نہیں ہوسکی۔  بالخصوص افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی نے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ چل رہا ہے، اس کے باوجود بھی وہاں ٹارگٹ کلنگ کا رجحان ایک سوالیہ نشان ہے کہ سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کو کیسے قابو کیا جائے گا۔

پہلے ہی شدت پسندانہ واقعات اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں قبائلی اضلاع کے تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقات میں علاقے کو چھوڑنے کا رجحان ہے جس کا فائدہ صرف عسکریت پسندوں کو ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جو وہاں رضاکارانہ طور پہ امن وامان کے قیام اور شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت فعال ہیں انہیں تحفظ ملنا ضروری ہے۔ ریاست اس طرح کے نوجوانوں اور سماجی سطح پر فعال صحت مند سوچ کے داعی شہریوں کے بغیر امن قائم نہیں کرسکتی۔ ایسے نوجوان وزیرستان جیسے شدید بدامنی کا شکار علاقے کے لیے اور خود ریاست کے لیے غنیمت ہیں۔

قبائلی علاقہ جات میں امن و امان کے قیام کے لیے ریاست کسی ایک پالیسی پر عمل پیرا نہیں رہی، جس کا نتیجے میں سکیورٹی کا مسئلہ بے قابو ہے اور لوگوں میں ریاست سے متعلق بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں جس کا درست فیصلوں اور مؤثر اقدامت کی شکل میں ازالہ کیا جانا چاہیے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...