پاکستانی ڈرامے عرب دنیا میں اور ترجمہ کا عالمی دن

1,352

پاکستان میں ڈراموں کی تاریخ میں کچھ ڈرامے ایسے بھی ہیں جن کے نشر ہونے کے وقت گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے،یہاں تک کہ شادیوں کی تاریخ طے کرنے میں بھی ان ڈراموں کے نشر ہونے کے ایام کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔

پرانے وقتوں میں  عوام کی انٹرٹینمٹ  کا واحد ذریعہ   وہ قصہ گو  تھے جو شام کے وقت  لوگوں کو جمع کر کےقصے کہانیاں سنا یا کرتے تھے،مشہور  زمانہ کتاب “الف لیلہ” اور” ہزار داستان ” اسی قبیل کے قصہ گوؤں   کی کہانیوں کا نتیجہ ہے۔آج کے دور  میں قصہ گو کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی ہے  اورعوام کی انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ  ٹی وی بن گیا ہے،اس شعبے میں سب سے زیادہ اہمیت ڈراموں  کی ہے جن  میں معاشرے کے مختلف رنگ کہانیوں کی شکل میں پیش کیے جاتے ہیں،گویا وہی کہانیاں جو پہلے قصہ گو کی زبانی سنی جاتی تھیں  اب ڈرامے کی شکل  میں سکرین پر گھر گھر میں دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔

پاکستانی ڈراموں  کا  دنیا بھر میں ایک منفرد مقام ہے،جن میں  ہمارے معاشرے کا ہر رخ  بڑی خوبصورتی سے دکھایا جاتا ہے، پاکستان میں ڈراموں کی تاریخ میں  کچھ ڈرامے ایسے  بھی ہیں   جن کے نشر ہونے کے وقت  گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے،یہاں تک کہ شادیوں کی تاریخ طے کرنے میں بھی ان ڈراموں   کے نشر ہونے کے ایام کو ملحوظ رکھا جاتا تھا،یہی وجہ ہے کہ  اب پاکستانی ڈرامے  نہ صرف بھارت بلکہ مشرق وسطی میں بھی مقبول ہوتے جا رہے ہیں،مشرق وسطی میں عربی زبان بولی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں  کے لوگ پاکستانی ڈرامے نہیں سمجھ سکتے تھے۔ لیکن  کچھ عرصہ سے پاکستانی ڈرامے  عربی میں   ترجمہ  یا ڈبنگ کر کے  عرب دنیا میں بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

سب سے  پہلے  تقریبا چارسال قبل جب ایم بی سی ٹی وی نے ایک پاکستانی ڈرامے “ہمسفر” کو عربی میں  ترجمہ کرکے دکھایا تو  اسےبہت بڑی تعداد میں ناظرین ملے، اس ڈرامے کا عربی میں نام “رفیق الروح ” رکھا گیا۔اس  کے بعد یکے بعد دیگر ےمختلف ڈرامے عربی میں مترجم کئے گئے جنہوں نے مشرق وسطی میں بڑی تعداد میں پاکستانی ڈراموں،فواد خان اور ماہرہ خان کے فین پیدا کئے۔

عربی ناظرین  میں پاکستانی ڈراموں کی  بڑھتی ہوئی مقبولیت کی بڑی وجہ  ان کا ہندوستانی  اور ترکی ڈراموں کی بنسبت  بے حیائی اور ایسے مناظر سے پاک ہونا ہے جو کوئی بھی فیملی ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتی، عرب ناظرین کا کہنا ہے  کہ ایسے صاف ستھرے اور فیملی ڈرامے   ہمارے ہاں  رمضان میں بھی نہیں دکھائے جاتے حالانکہ  رمضان کے احترام  میں خصوصی طور پر   ڈارامے تیار کیے جاتے ہیں۔پاکستانی ڈراموں میں کافی حد تک مشرقی اقدار کا پاس رکھا جاتا ہے۔اس سے پہلے  عرب دنیا میں ترکی کے ڈرامے  دیکھے جاتے تھے لیکن  فریحہ اور عشق ممنوع  جیسے ڈراموں  میں  اسلامی  تہذیب اور احکامات کی کھلی مخالفت  نے ناظرین  کے دل ترکی ڈراموں سے پھیر دیے۔

عرب دنیا میں پاکستانی ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مانگ دیکھ کر   وہاں کی مقامی ٹرانسلیشن اینڈ ڈبنگ انڈسٹری نے اس میدان میں کام شروع کر دیا ہے،پاکستان میں  اس طرح کا  نہ کوئی ادارہ ہے نہ انڈسٹری،ہماری معلومات کے مطابق صرف  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی     یا چند اور لوگوں نے انفرادی طور پر اس کام کو سنبھالا ہوا ہے،اسلامی یونیورسٹی  کے ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ نے پی ٹی وی  کو   ایک درخواست بھی  دی تھی جس میں پی ٹی وی کے ڈراموں کو عربی  ترجمہ  کے ذریعے عالم عرب تک  پہنچانے کے لیے  اقدامات اٹھانے کا مطالبہ  کیا گیا تھا ، اس اقدام سے عرب دنیا کو پاکستانی کلچر کو قریب سے جاننے کا موقع ملے گا  اور پاکستان کے دوستوں میں اضافہ ہو گا، بصورت دیگر ہمارا دشمن یہ خلا  پہلے سے پورا کر رہاہے اور ہر طرح کے فوائد سمیٹ رہا ہے۔

عربی میں ترجمہ  یا  ڈب  ہو کر  مشرق وسطی میں مقبول ہونے والے چند ڈرامے یہ ہیں:

ہم سفر: اس ڈرامے کو پاکستانی نجی چینلز کی تاریخ کا سب سے بہترین ڈرامہ بھی قرار دیا جاتا ہے، جس نے ڈرامہ صنعت میں ایک رجحان پیدا کیا۔ بہترین کاسٹ، ڈائریکشن، اور اسٹوری کی بدولت اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔بعض حلقے تو اسے پاکستان میں پیش کیے جانے والے ہر دور کے سب سے بہترین دس ڈراموں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ اس کی آخری قسط کی ریٹنگ 13.8 تھی، جو کسی بھی ڈرامے کے لیے سب سے زیادہ ہے۔عرب دنیا میں  یہ ڈرامہ “رفیق الروح” کے نام سے ڈبنگ کر کے پیش کیا گیا۔

زندگی گلزار ہے: اس کی مصنفہ عمیرہ احمد اور ڈائریکٹر سلطانہ صدیقی تھیں، اس کا عربی نام”اسرار الحب” رکھا گیا ۔ کہانی اور اداکاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ہمسفر سے کئی درجے بہتر ڈرامہ تھا اور اس نے بھی کامیابی کی تاریخ رقم کی۔

ہندوستان میں بھی اس ڈرامے نے مقبولیت کے نت نئے ریکارڈز بنائے اور اس کے ہیرو فواد خان کے لیے تو بولی وڈ کے دروازے ہی کھل گئے اور وہ اب وہاں تیزی سے آگے کا سفر کر رہے ہیں۔

پیارے افضل (حبیبی افضل): معیار، کہانی اور ڈائریکشن کے حساب سے  یہ ایسا ڈرامہ  ہےجس نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا کر رکھ دیا۔

یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہوا اور حمزہ علی عباسی کا نام بھی اس کی کامیابی کی بدولت آسمان کی جانب پرواز کرنے لگا۔

بشر مومن: یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے مہنگا ڈرامہ ہے اور کچھ عرصے تک چینل کو درپیش تنازعات کی بناء پر یہ نشر بھی نہیں ہوسکا، مگر اس کا دوبارہ آغاز دھماکے دار انداز میں ہوا،یہ فیصل قریشی کے کریئر کا سب سے بہترین ڈرامہ سمجھا جاسکتا ہے جس میں ان کی کارکردگی بے مثال رہی ،عربی میں ترجمہ ہونے کی وجہ سےاس  سیریل نے مڈل ایسٹ میں فیصل قریشی کے بے پناہ فین پیدا کیے۔

شہرِ ذات: زندگی گلزار ہے کی مصنفہ عمیرہ احمد کا یہ ڈرامہ ایک ایسی نوجوان خاتون کے سفر کی کہانی ہے، جو زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بعد اپنی زندگی اللہ کے نام کرنا چاہتی ہے۔عربی میں اس کا ترجمہ “مدینۃ الذات” کے نام سے کیا گیا ہے۔

میرا نصیب (نصیبی) : سمیرا افضل کا لکھا یہ ڈرامہ اسٹار کاسٹ سے سجا ہوا تھا، جس میں بشریٰ انصاری، روبینہ اشرف، ثمینہ پیرزادہ، اور ساجد حسن قابل ذکر ہیں۔ ہم ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ ڈرامہ سائرہ یوسف کے کریئر کا کامیاب آغاز ثابت ہوا اور اسے پاکستان بھر میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔

داستان: اردو ادب کی نامور مصنفہ رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی پاکستانی ڈرامہ سیریل ‘داستان’ ایسے کرداروں کی کہانی ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے مابین سرحدوں کی تقسیم سے دونوں جانب بکھر گئے۔عرب دنیا میں یہ ڈرامہ “نور بانو” کے نام سے  پیش کیا جا رہا ہے۔

ان کے علاوہ  پاکستانی فلم  ” زندگی کتنی حسین ہے!” (کم جمیلۃ الحیاۃ) اور  ڈرامہ سیریل  “بے شرم ” کا  عربی ترجمہ بھی “حیاء” کے نام سے  بڑی تیزی سے جاری ہے اور امید ہے  کہ جلد ہی اسے عرب ناظرین اپنی اسکرینوں پر دیکھ سکیں گے۔

نجی چینلز کی  مشرومنگ سے قبل پی ٹی وی پر بھی  بڑے شاہکار ڈرامے نشر ہوئے ،اگر ان  کو بھی ترجمہ کر کے آج بھی عرب  دنیا

 میں پیش کیا جائے تو  کوئی شک نہیں کہ وہ مقبولیت کے ریکارڈ توڑ سکتے ہیں ۔جن میں:خدا کی بستی، ماروی ،وارث ، اندھیرااجالا،انگار وادی،جیسے   ڈرامے سرفہرست ہیں۔

ا30ستمبر کو جبکہ دنیا بھر میں ترجمہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے   ضرورت اس امر کی ہے  کہ   پاکستان  میں بھی ترجمہ  کی صنف کو فروغ دیا جائے،اور حکومت کی سرپرستی  میں   تمام عالمی زبانوں میں ترجمہ کے متعدد مراکز قائم کیے جائیں ،تاکہ اس گلوبل دنیا میں  ہم ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ کھڑے ہو سکیں  اور اپنے علمی،ثقافتی،اور تہذیبی ورثے کو      ترجمے کی صورت میں عالمی زبانوں میں منتقل کر کے دینا بھر میں پہنچائیں،اسی طرح   کے اقدامات سے ہم دنیا  کے سامنے پاکستان کے امیج کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...