احمقوں کی جنت
آج کل پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ’احمقوں کی جنت‘ کا بہت چرچا ہے۔ لیکن کوئی کھل کر یہ نہیں بتاتا کہ یہ احمق کون ہیں اور یہ جنت کہاں ہے۔ اتنا اندازہ تو ہو گیا ہے کہ یہ سب ایک دوسرے کو احمق اور احمقوں کی جنت کے رہائشی بتلاتے ہے۔ الیکشن سر پر ہیں۔ ووٹر مخمصے میں ہے کہ کسے ووٹ دے کر ووٹ کو عزت دے۔ اس سے بڑی ذہنی اور دینی تکلیف یہ ہے کہ یہ یقین نہیں آتا کہ قیامت سے پہلے ہی جنت دوزخ کا بٹوارہ کیسے ہوگیا۔ اتنی بھی کیا غفلت کہ پتہ بھی نہ چلے کہ قیامت آئی اور چلی گئی۔ لیکن وہ حساب کتاب، حشر نشر، اعمال نامے کیا ہوے؟ کیا محتسبوں کی چھٹی ہو گئی؟ احمقوں کو جنت کے اقامے کب اور کیسے ملے؟
ایک ذاتی سا سوال یہ بھی ہے کہ ہم جو احمق نہیں ہیں کہاں جائیں گے؟ کہیں ہم ان میں سے تو نہیں جو لاپتہ کہلاتے ہیں؟ دھڑکا یہ بھی لگا ہے کہ کہیں احمقوں نے دوزخ کا نام جنت تو نہیں رکھ دیا؟ ہم پچھتر سال سے پل صراط سے گذر تو رہے تھے، دائیں بائیں گرنے کے خوف سے سیدھے بھی چلے جارہے تھے۔ پھر کیسے ہوسکتا ہے کہ نیچے گرنے کا پتا ہی نہ چلے۔ ہم کیسے بھی ہوں اتنے احمق نہیں کہ جنت اور دوزخ میں فرق نہ کرسکیں؟
ہو نہ ہو یہ سارا ہنسی مذاق ہے۔ پاکستانی کسی بھی قسم کے ہنسی مذاق کو برداشت نہیں کرتے۔ جنت اور دوزخ کی ہنسی اڑانے والوں کو تو قطعاً معاف نہیں کر سکتے۔ ہم یہاں احمقوں کی جنت پر جاری بحث کا ایک سنجیدہ تجزیہ پیش کررہے ہیں تاکہ ان پر حدود و قیود کے اطلاق پر غور ہو سکے۔
تنبیہات
حدود و قیود کے اطلاق میں سب کا بھلا مقصود ہوتا ہے، کسی کی دل آزاری مطلوب نہیں ہوتی۔ چنانچہ ابتدا میں ہی چند تنبیہات کا بیان ضروری ہے۔
۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مضمون میں تمام کردار، واقعات، حواشی اور حوالے فرضی نہیں ہیں۔ اصل حالات و واقعات سے مشابہت بھی محض اتفاقی اور حادثاتی نہیں ہے۔ ہم نے پردہ داری کی پوری کوشش کی ہے کہ چہرے بے نام رہیں۔ قاری کومماثلت نظر آئے تو اس دریافت کو اپنی مجبوری سمجھے۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ قواعد کی رو سے ’احمقوں کی جنت‘ مرکب اضافی ہے لیکن مرکب توصیفی کے طور پر اس کے بے دریغ استعمال سے توجہ کا مرکز جنت نہیں رہی، محض احمق ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں بھائیوں کے نام لے کر رونے والی بہنوں کی فریاد کا حوالہ کوئی اور ہوتا ہے۔ یہ جنت کی بحث ہے، احمقوں کا نام بیچ میں نہ لائیں۔
۳۔ تیسری تنبیہ یہ ہے کہ اس تاریخی تجزیے کو مختصر رکھنے کے لئے ہم نے صرف تین ادوار کو لیا ہے۔
[۱] تاریخ اسلام کا عباسی عہد یعنی اسلام کا سنہری دور جس میں احمقوں کی جنت تو کیا اس کا تصوربھی نہیں ملتا۔
[۲] یہ نوآبادیاتی دور ہے جس میں احمقوں کی جنت کا لفظ پہلے پہل استعمال ہوا اور وہ بھی ایک خواب نما سیاسی نظریے کی شکل میں۔ اس لئے جنت کا دینی مفہوم شامل نہیں۔
[۳] احمقوں کی جنت کا جو مفہوم پاکستان کی تحریک کے دنوں میں بہت مقبول ہوا اور اب قبول عام کا درجہ حاصل کر چکا ہے وہ اس کا مفہوم مخالف ہے۔ یعنی جنت سے مراد دوزخ ہے۔ کیونکہ آئین کی رو سے جنت کے رہائشی احمق نہیں ہو سکتے۔
امید ہے یہ تنبیہات مندرجہ ذیل تاریخی تجزیے کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوں گی۔
عباسی عہد: کتاب الحمقاء
عباسی عہد میں ‘احمقوں کی جنت’ کے عنوان سے کوئی مخصوص کتاب تو نہیں ملتی۔ اس موضوع پرمتعدد تصنیفات میں ابو الحسن المدائنی [م ۲۲۵ ھ] کی کتاب الابلہ، جاحظ [م ۲۵۵ ھ] کی کتاب الحمقاء اور ابو الفرج ابن جوزی [م ۵۹۷ ھ] کی أخبار الحمقى والمغفلين کے عنوانوں سے احمقوں کے ساتھ مربیانہ برتاؤ کا اندازہ ضرورہوتا ہے۔ ابن جوزی کی کتاب کے عنوان سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں احمق [حمقی] اورغافل [مغفلین] کے الفاظ ہم معنی سمجھے جاتے تھے۔ اردو میں ان کا صحیح مفہوم احمق نہیں بھولا ہے۔ ابن جوزی کے ہاں جُحا ایک تمثیلی احمق کا کردار ہے جو عربی ادب میں ضرب المثل بن گیا۔ جُحا کے حوالے سے ابن جوزی حکمت کی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جُحا نے بازار سے سودا خریدا اور مزدور سے کہا کہ اس بوری کو اٹھا کرمیرے پیچھے پیچھے آو۔ گھر پہنچ کر مزدوری دوں گا۔ مزدور بوری لے کر بھاگ گیا۔ جحا گھر پہنچا تو بیوی نے لعن طعن کی۔ جُحا نے کئی دنوں بعد مزدور کودیکھا تووہ ایک دکان میں چھپ گیا۔ لوگوں نے پوچھا تو کیوں چھپ رہا ہے؟ جُحا نے کہا کہ یہ مزدور میرے سامان کی بوری لے کر بھاگ گیا تھا۔ اب مجھ سے مزدوری بھی مانگے گا۔
جاحظ عباسی عہد کے نامور ادیب تھے۔ پورا نام ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب کنانی بصری تھا۔ انہوں نے اپنی تصنیف کا نام کتاب الحمقاء رکھا۔ ابن جوزی کی طرح جاحظ نے بھی احمق اورغافل کو ہم معنی استعمال کیا ہے۔ جاحظ کی کہانی میں ایک غافل بازار جا رہا تھا اس کے پیچھے اس کا گدھا چل رہا تھا جس کے گلے میں رسی تھی جو غافل نے پکڑ رکھی تھی۔ دو چوروں نے دیکھا تو موقع سے فائدہ اٹھانے کی سوچی، ایک نے آگے بڑھ کر گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنے گلے میں ڈال لی اور غافل کے پیچھے چلنے لگا۔ دوسرے چور کو اشارا کیا کہ گدھا لے اڑے۔ تھوڑی دور جاکر غافل نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو گدھے کی جگہ ایک انسان نظر آیا۔ حیران ہوا کہ گدھا کہاں گیا۔ چور نے اسے روتے ہوے بتایا کہ اس نے اپنی ماں کی نافرمانی کی تھی۔ اس کی بد دعا سے گدھا بن گیا تھا۔ اس کی ماں نے اسے معاف کردیا ہوگا اس لئے وہ پھر سے انسان بن گیا ہے۔ غافل بہت خوش ہوا کہ گدھا انسان بن گیا۔ معافی مانگی اور اس کے گلے سے رسی نکال کر آزاد کردیا۔ غافل آگے بازار میں پہنچا تو کوئی شخص اس کا وہی گدھا بیچ ریا تھا۔ غافل نے آگے بڑھ کر گدھے کو ڈانٹا کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ تیری ماں نے ابھی پوری طرح معاف نہیں کیا۔ اب میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔
کہانی یہ بھید نہیں کھولتی کہ اس قصے میں احمق یا غافل کون ہے۔ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ کہانی میں گدھا کون ہے۔ کہانی سننے والے کا دھیان کہانی کار کی باتوں اور کہانی سے زیادہ اپنے تجزیے پر رہتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ کہانی میں گدھا خیالی نہیں اصلی ہے اور ایک ہی ہے۔ اس کہانی سے کئی سبق ملتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ گدھا گدھا ہو تا ہے انسان نہیں ہو سکتا۔ انسان غافل ہوسکتا ہے گدھا نہیں بن سکتا۔ اور یہ کہ کسی کو احمق کہے بغیر بھی اس کی کہانی لکھی جا سکتی ہے۔
پاکستانی بھی احمقوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو بلا امتیاز بھولا، پگلا، مورکھ، نادان، کم فہم اور بے وقوف کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ ان الفاظ میں جو پیار اور اپنا پن ہے وہی دوزخ کو جنت بنائے رکھتا ہے
نوآبادیاتی دور: جنت الحمقا
احمقوں کی جنت کا تصور عربی یا اسلامی ثقافت سے نہیں، بلکہ براہ راست انگریزی ادب اور تہذیب سے ہوا۔ اس لئے اس کی تعبیر میں انگریزی تہذیب کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ تعبیر کی غلطی لے ڈوبے گی۔ انگریزی میں ‘احمقوں کی جنت’ کی اصطلاح میں جنت کی تعبیر مجازی ہو گئی اور حقیقت میں جنت ‘دوزخ’ بن گئی۔ نوآبادیاتی دور میں جنت کی تفہیم کا تعلق مغربی تمدن، دنیوی ترقی اور مغرب کی خوشحالی سے جڑا تھا۔ مغربی عقل نے طے کیا کہ پس ماندہ دنیا ترقی کے تصورات کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انگریزی ادب میں ایک عرصے سے جنت گم گشتہ مانی جاتی تھی۔ نوآبادیاتی دور میں جنت گم گشتہ کی بازیابی کی بجائے ارضی جنت کو حقیقی قرار دے کر زمین پر اتار لیا گیا۔ اب ان کے سامنے ساری دنیا امکانی جنت تھی۔ تاہم جنت یا پیراڈائیز کے نام سے چوں کہ ازلی گناہ کا پچھتاوا وابستہ تھا اس لئے قرار پایا کہ یاد ماضی کا عذاب کیوں جھیلیں، احساس گناہ کا بوجھ کب تک اٹھائیں۔ ایک نئی اصطلاح ایجاد کی گئی: “لینڈ آف اپرچونیٹی” [ قسمت آزمائی کا جہان]۔ سب سے پہلےامریکا کو یہ نام دیا گیا۔ سب کچھ بھلا کرنئے سرے سے زندگی شروع کرنے کے لئے کورے کاغذ کی طرح صاف اَن لکھی تختی کی ضرورت تھی۔ جیتے جاگتے انسانوں کی جگہ مشین نما نئے نکور پُتلے درکار تھے۔ اس کے لئے ڈمی یعنی سادہ لوح کا لفظ مناسب ترین سمجھا گیا۔ ڈمی کی حماقت سے نسبت پر بھی کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ اس خاص مناسبت سے ڈمی کے لفظ کوبہت جلد قبول عام حاصل ہوا۔ امریکی مارکیٹ میں کسی بھی کتاب کے سر ورق پر “فار ڈمیز” لگا لیبل اس کی فروخت میں اضافے اور منافعے میں فراوانی اور برکت کی ضمانت ہے۔ امریکن اپنی انکساری کی وجہ سے ساری دنیا میں اتنے بے ضرر سمجھے جاتے ہیں کہ انگریزی بولتے ہیں تو کوئی انہیں انگریز نہیں کہتا۔
بر صغیر میں احمقوں کی جنت در اصل انگریزی لفظ ‘فولز پیراڈائیز” کی اردو میں ہجرت کا استعارہ ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے ایک انشائیہ “جنت الحمقاء” کے عنوان سے لکھا جو ۱۹۲۳ میں نیرنگ خیال نام سے ان کے انشائیوں کے مجموعے میں شائع ہوا۔ مولانا آزاد نے کتاب کے دیباچے میں لکھا کہ ان کے انشائیے اکثر انگریزی ادب سے ماخوذ ہیں۔ وہ جنت الحمقاء کو ایک بے بنیاد محل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ انشائیہ ان جملوں پر ختم ہوتا ہے: “غلط نمائی کا پردہ آنکھوں سے اٹھ گیا۔ تب معلوم ہوا کہ[ جنت الحمقا کے] اس محل کی بنیاد بالکل نہیں۔ ہوا میں معلق کھڑا ہے۔ اس سوچ میں دفعۃً میری آنکھ کھل گئی، خواب تو خواب و خیال ہو گیا مگر نصیحت ہوئی کہ اب خام خیالی کے اشاروں پر کبھی نہ چلوں گا”۔
انشائیہ کے حوالے سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ انشائیہ کی ابتدا انشاء اللہ خان انشا یا ابن انشا سے ہوئی۔ نہ ابن انشا انشاء کے بیٹے تھے اور نہ انشائیہ کا انشاء اللہ سے تعلق ہے۔ انشائیہ کا جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ کی بحث سے بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اردو ادب کے ماہرین انشائیہ اور مضمون مین فرق کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انشائیہ دیکھنے میں مضمون سے مشابہت رکھتا ہے لیکن قاری کو بہت جلد احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ ایسی آزادانہ تحریر ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں۔ کوئی منطقی ترتیب نہیں۔ تحریر کسی تمہید کے بغیر شروع ہوتی ہے اور نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔ نتیجہ قاری کو خود بھگتنا ہوتا ہے۔ تحقیق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اردو میں اسے انشائیہ کیوں کہتے ہیں۔ اسی لئے انگریزی میں اسے ایسے یعنی ‘کوشش’ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ انکساری سے کہیں زیادہ نتیجے کی ذمہ داری سے فرار ہے۔
پاکستان: احمقوں کی جنت کے تصور کی مقبولیت کا دور
پاکستانی بھی احمقوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو بلا امتیاز بھولا، پگلا، مورکھ، نادان، کم فہم اور بے وقوف کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ ان الفاظ میں جو پیار اور اپنا پن ہے وہی دوزخ کو جنت بنائے رکھتا ہے۔ ایسا حادثہ خود پر گذر جائے تو چپکے سے اعتراف تو کر تے ہیں کہ کم بخت ہمیں ہی ماموں بنا گیا لیکن خود کو مزید رسوا نہیں کرتے۔ تاہم پاکستان میں ‘احمقوں کی جنت” کو ہنسی مذاق میں نہیں لیا جاتا، حتی کہ طنزو مزاح کو بھی سنجیدہ ہی لیتے ہیں۔ ڈاکٹر عباس برمانی اپنی کتاب “احمقوں کی جنت” کے ٹائٹل پیج پر لکھ بھی دیں کہ یہ طنزومزاح ہے وہ اسے ماں کی دعا ہی مانتے ہیں۔ کیانی صاحب کالا باغ کو سو مرتبہ سبزباغ لکھیں، پاکستانی کالاباغ ہی پڑھتے ہیں۔ میمو گیٹ ہو یا بلیک واٹر ماموں گیٹ کہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ‘احمقوں کی جنت’ کے عنوان سے جاری بحث ابھی تک جنت کی شناخت، محل وقوع، یا صرف محل یا محض وقوع اور امکان سے متعلق سوالات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمیں تشویش ضرور ہے لیکن ہم بھی اسے قابل اعتراض نہیں سمجھتے کیونکہ ایک نو زائدہ قومی ریاست کے بنیادی مسائل یہی ہوتے ہیں۔ تشویش ہے تو اس بات پر کہ شناخت، جغرافیہ اور امکان کی مباحث میں الجھے پچھتر سال ہم سب سے بار بار یہی سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ہونے پر شک کب ختم ہوگا؟ اب تو لوگ یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ ہمیں ان سوالوں میں الجھا کر کوئی اپنا الو تو سیدھا نہیں کر رہا؟ ہمیں الو سے بھی پرخاش نہیں پڑتا۔ آپ بے شک اپنا الو سیدھا کریں بس ہمیں احمق نہ سمجھیں۔ حماقت سے بھی چڑنہیں۔ آپ ‘حماقتیں’ اور ‘مزید حماقتیں’ لکھتے رہیں ہم پڑھ کر مسکراتے رہیں گے کہ حماقت پر پچھتاوا قابل ستائش ہے۔ البتہ جو لوگ ‘احمقوں کی جنت’ کو دوزخ سمجھتے ہیں وہ ضرور کسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔
ہمارے تجزیے کے مطابق احمقوں کی جنت کے معاملے میں بہتر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہے۔ ہر فرقہ خود کو فرقہ ناجیہ سمجھتا ہے۔ ہم اختصار کے پیش نظر فرقوں کی بحث میں نہیں پڑیں گے کیونکہ اس معاملے میں ہر فرد اپنی ذات میں فرقہ ہے۔ ہم فرقے کی بجائے ان اختلافات کو رجحانات کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ ان میں بدلاو عقیدے کی بنیاد پر نہیں سیاسی حالات کے دباو کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے چار رجحانات بہت اہم ہیں۔
پہلا رجحان احمقوں کی جنت کو ایسا تصور اور آئیڈیل سمجھتا ہے جس کا حصول ناممکن ہو۔ ایسا خواب ہو جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ جناب طارق امین اس تصور کو احمقوں کی جنت کا نا م دے کراسی لئے کڑی تنقید کرتے ہیں کہ کوئی بھی تصور اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب آئیڈیل قابل حصول ہو۔ اس رجحان کے علمبردار کہتے ہیں احمقوں کی جنت کی وجہ تسمیہ ہی اس کی ناکامیابی کا تقاضا کرتی ہے۔ عملی سیاست کے بزرجمہروں کے نزدیک ممکن الحصول ہدف دیر پا نہیں ہوتے۔ روزی روٹی کے لئے مسئلہ لا ینحل رہنا چاہئے۔ احمقوں کی جنت ایسا تصور ہے جو قیامت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس جنت کو تا ابد باقی رکھنے کے لئے جہد مسسلسل اور سعی پیہم کی ضرورت رہتی ہے۔
اس بات کو سمجھانے کے لئے بزرجمہر ایک سیانی بلی کی کہانی سناتے ہیں۔ ایک شیر کو چوہے بہت تنگ کرنے لگے تو اس نے ایک بلی نوکر رکھ لی۔ شیر نے سکون کا سانس لیا۔ اللہ کا کرنا، بلی کو ایک کام پڑ گیا ۔ اس نے شیر سے چھٹی مانگی اور شیر کی چوکیداری اپنے بیٹے کے ذمے کر کے کام پر چلی گئی۔ بلی کے بچے کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ جو چوہا نظر آتا، مارتا اور کھا جاتا۔ بلا بھی خوش اور شیر بھی نچنت۔ بلی کو خبر ملی تو چھٹی کینسل کرکے بھاگی دوڑی واپس آئی۔ بیٹے کو بہت ڈانٹا۔ احمق، چوہے ختم ہو گئے تو نوکری بھی ختم۔ چوہے باقی تو نوکری باقی۔ ناممکن آئیڈیل کی عمر لمبی ہوتی جاتی ہے اس لئے احمقوں کی جنت تا قیامت باقی رہتی ہے۔
دوسرا رجحان احمقوں کی جنت کو نہ خیالی قرار دیتا ہے نہ ناممکن بتاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ احمقوں کی جنت اس وقت تک آباد رہتی ہے جب تک اس کے رہائشی اسے جنت سمجھیں۔ اس کے لئے ان کا احمق یعنی بھولا اور سادہ لوح رہنا لازم ہے۔ اس کے لئے بہت لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی ضرورت نہیں۔ احمقوں کو صرف یہ یقین دلائے رکھنا درکار ہے کہ وہ جہاں رہ رہے ہیں وہی جنت ہے۔ اس یقین کو پختہ کرنے کے لئے کامیاب میڈیا مطلوب ہے۔ اس یقین کے لئے خود پسندی سے بڑھ کر خود پرستی اور ماضی، حال اور مستقبل تینوں سے بے خبری کا مزاج ضروری ہے۔ یوں بتدریج دوزخ بھی جنت لگنے لگتی ہے۔
تیسرا رجحان احمقوں کی جنت کو خیالی اور فرضی لیکن احمقوں کو فرضی اور خیالی نہیں سمجھتا۔ اس رجحان کے علمبردار پاکستان کے تصور کو ۱۹۴۶ تک ‘احمقوں کی جنت” کہ کر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ جنت کے تصور کو فرضی اورغلط بتانے کے لئے انہوں نے اس تصور کے بانی کو اس جنت کا نبی بھی بتایا۔ تاہم وہ جنت کے محل اور وقوع دونوں کو ناممکن سمجھتے تھے۔ لیکن جب اس خیالی اور فرضی جنت کا محل وقوع زمین کی شکل اختیار کرنے لگا تو انہیں احساس ہوا کہ یہ لینڈ اف اپرچونیٹی بھی تو ہوسکتی ہے۔ بظاہر یہ رجحان نو آبادیاتی رجحان سے مماثلت رکھتا ہے لیکن فرق یہ رہا کہ اس رجحان کے علمبرداروں نے اس خیالی اور فرضی جنت میں خود سکونت اختیار کرنا ضروری سمجھا۔ اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ احمقوں کی جنت پر صرف احمقوں کی اجارہ داری ضروری تو نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ احمقوں کے بھی معاشی اور سیاسی حقوق ہوتے ہیں اور ان کے تحفظ کے لئے ولی اور سرپرست کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تیسرے احمقوں کی جنت ناممکن تو نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ احمق اتنے سادہ لوح نہ ہوں جتنے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی یہاں منتقل ہو گئے۔ ان کی بے لوث جد وجہد سے یہ ملک بالآخر اسلامی ریاست بن گیا۔
پتا نہیں کہ ’احمقوں کی جنت‘ کے تصور پر بحث ابھی تک جاری کیوں ہے۔
فیس بک پر تبصرے