مکران میں سرحدی تجارت کی مشکلات، ’ہمارا ایک دن کا سفر ہفتوں میں بدل گیا ہے‘

611

مکران بلوچستان کا ایک اہم اسٹرٹیجک ڈویژن ہے جو کہ مغرب میں ایرانی سرحد پہ واقع ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی لگ بھگ 1489015 نفوس پر مشتمل ہے۔ اسے حال ہی میں حکومت نے انتظامی طور پر ’’ساؤتھ بلوچستان‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس کے تینوں اضلاع  تربت، گوادر اور پنجگور کی سرحدیں ہمسایہ ملک ایران سے لگتی ہیں۔

یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر سرحدی علاقے پر منحصر ہے، لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے غیررسمی طور پہ خوردنی اشیا و ڈیزل سمیت انرجی اور ایندھن ایران سے درآمد کرتے آرہے ہیں۔

ایک ایسا وقت بھی تھا کہ بارڈر سے وابستہ کاروباری حضرات صوبے کے خوشحال ترین شہریوں میں شمار ہوتے تھے۔ مکران سمیت بلوچستان بھر میں پاکستانی ایندھن کی بہ نسبت درآمد شدہ ایرانی ایندھن کی قیمت فی لیٹر بیس فیصد کم تھی۔ اب جب آہستہ آہستہ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے سرحدی امور پر سختیاں برتنا شروع کی گئی ہیں تو مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ آج سے تین سال پہلے تک سرحد پہ جانے پر کوئی بندشیں عائد نہیں تھیں، ہر کوئی بلا روک ٹوک آزادانہ طور پر کاروبار کیا کرتا تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی کے پیش نظر سرحد پہ جانے والی گاڈیوں کی رجسٹریشن کرانی پڑتی ہے اور ہر گاڑی والے کو بارڈر پہ جانے کے لیے اپنے نمبر کا انتطار کرنا پڑتا ہے جو مہینے بعد ایک مرتبہ آتا ہے۔ اب بارڈر کے علاقے پر رہائش پذیر غریب جس کا چولہا اسی سے چلتا تھا اس کی روز مرہ کی زندگی میں مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔

جب سے لیویز فورس کو تعینات کیا گیا ہے، بارڈر پہ موجودہ انتظامی ڈھانچے پر لوگوں کو تحفظات ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر ان کی تجارت کو محدود تر کردیا گیا ہے۔ گاڑی کی رجسٹریشن کے لیے ہی دس دس دن قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لوگ آئے روز سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔

سرحدی تجارت سے وابستہ افراد کہتے ہیں اس وقت تربت کی 3400 اور دشت کی 1260 زمیاد گاڑیاں مقامی انتظامیہ کے پاس رجسٹرڈ ہیں، اور ان کو اجازت فراہم کرنے کا کوئی واضح طریق کار نہیں ہے، جن کے پاس سفارش ہوتی ہے وہی لوگ روزانہ کی بنیاد پر بارڈر کراس کر کے تجارت کر رہے ہیں اور جن کی کوئی سفارش نہیں انہیں مہینے تک اپنے نمبر کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم نے بارڈر ٹریڈ کور کمیٹی کے 48 سالہ غلام جان شمبے زئی سے بات کی، ان کے مطابق اس وقت 80 فیصد دیہی علاقوں کے لوگوں کا روزگار بارڈر سے وابستہ ہے، اور ان کی روزی روٹی کا یہ واحد ذریعہ ہے۔ اس لیے انتظامی حوالے سے شفافیت کی مزید ضرورت ہے، ان کا دعوی ہے کہ عام غریب جس کے پاس کوئی سفارش نہیں وہ بیس بیس دن اپنی باری کے انتظار میں ہوتا ہے، ان کے مطابق بظاہر تو ہر دن ایک لسٹ لگتی ہے، جس کے مطابق لوگ وہاں جاتے ہیں مگر کئی گاڑیاں ایسی ہوتی ہیں جو باآثر افسرشاہی کے منظور نظر افراد کی ہوتی ہیں، وہی افراد ہی مسلسل مستفید ہورہے ہیں، باقی کھڑے رہ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا روز اول سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ بے شک گاڑیوں کا اندراج کیا جائے مگر جو گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اُن پہ کوئی قدغن اور بندش نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں آزادانہ طور پر کاروبار کرنے دیا جائے۔ رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

 بے شک گاڑیوں کا اندراج کیا جائے مگر جو گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اُن پہ کوئی قدغن اور بندش نہیں ہونی چاہیے

حال ہی میں جامعہ بلوچستان سے جیولوجی میں ماسٹر کرنے والے 33 سالہ نوجوان جو اس وقت بارڈر کے کاروبار سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک انتہائی اذیت ناک مزدوری ہے، اس میں کئی بندشیں لاگو ہیں، عام مزدور کی بہ نسبت تعلیم یافتہ نوجوان یہ کام کرتے ہوئے زیادہ مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے ڈیزل کے بیرل کو کندھے پہ اُٹھا کر چلنا تکلیف دیتا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کے دنوں میں بنے گئے اپنے خواب یاد آتے ہیں۔ شاید ہم نے اس دن کے بارے میں کبھی بھی نہیں سوچا ہوگا، مگر یہ یہاں کی ایک سماجی حقیقت ہے، اس وقت پڑھا لکھا طبقہ بے روزگاری کی دل دل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔‘‘

ان کے مطابق ’’بے روزگاری کی وجہ سے وہ اب یہ بھی نہیں سوچنا چاہتے کہ ایک تعلیم یافتہ فرد ہوتے ہوئے پہاڑیوں اور ندیوں میں کئی کئی دن اور راتیں گزارتے ہیں، مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہمیں آزادانہ طور پر مزدوری نہیں کرنے دی جاتی۔ ہم قدم بہ قدم تذلیل محسوس کرتے ہیں، صبح گھر سے نکلتے ہیں، شام کو انٹری پوائنٹ پہ پہنچتے ہیں تو سینکڑوں گاڑیوں کی بے ترتیب قطار لگی ہوتی ہے، آہستہ آہستہ رینگتے رہتے ہیں، اگلے روز بڑی مشکل سے ’ٹوکن‘ ملتا ہے، اس کے بعد ایک اور قطار میں لگنا ہوتا ہے، تب جا کے بارڈر کراس کرتے ہیں۔ اس وقت تک چکنا چور ہوچکے ہوتے ہیں۔ رات کو پہاڑیوں کے دامن میں کمبل بچھا کر تھکاوٹ دور کرتے ہیں کیونکہ صبح صبح ہر کسی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایران کی طرف سے آئے ہوئے گاڑی والوں سے اچھی قیمت میں سودا بن جائے، کیونکہ مختلف قیمتیں ہوتی ہیں، بالکل پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت ہم یہاں پر جس قیمت پہ ڈیزل لے رہے ہیں، پاکستان میں اس کا کیا ریٹ چل رہا ہے، کیونکہ وہاں کوئی موبائل سروس نہیں ہوتی۔ ایران والوں کے پاس تو وائرلس سسٹم ہے وہ رابطے میں ہوتے ہیں۔ ہم صرف اس امید میں ہوتے ہیں کہ کوئی گاڑی والا تربت سے آئے، وہ ہمیں بتائے کہ شہر میں کیا ریٹ چل رہا ہے‘‘۔

جب کسی سے معاملہ بن جائے تو اس کے بعد ہم جلدی جلدی ایک جنریٹر والا تلاش کرتے ہیں کیونکہ ایک گاڑی سے دوسری گاڑی میں ڈیزل منتقل کرنے کا واحد طریقہ یہی ہوتا ہے۔ ’بار‘ لوڈ کرنے کے بعد اخراج گیٹ پہ ایک مرتبہ پھر قطار میں کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرنے دیں تو یہ سارا سفر ایک دن میں کیا جاسکتا ہے، مگر کئی غیر ضروری بندشیں لگا کر مزدوروں کا یہی سفر نارمل حالات میں بھی ہفتوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ اگر بالفرض گاڑی خراب ہوجائے تو دس دن بھی وہاں گزارنے پڑسکتے ہیں، کیونکہ وہاں ورکشاپ وغیرہ نہیں ہے، شاذو نادر ہی کوئی آپ کی مدد کرسکتا ہے۔

گچکی سے تعلق رکھنےوالے یہ تعلیم یافتہ نوجوان مزید بتاتے ہیں کہ عبدوی بارڈ پہ جہاں ایران اور پاکستان کی سرحد ہے، پانی کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، ندیوں کا وہ پانی جو ہم اپنے مویشیوں کودینے سے قبل بھی کئی بار سوچتے ہیں، یہاں اسی پانی کی چھوٹی سی بوتل 100 سے 150 میں فروخت ہوتی ہے اسی طرح ایک دودھ کی بوتل کی قیمت 200 ہے۔

سرحدی تجارت سے وابستہ بلیدہ کے 22 سالہ میران بلوچ کہتے ہیں کہ ’’ٹوٹی پھوٹی پہاڑیوں کی اترائی، چڑھائی سے ہوتے ہوئے 12،13 گھنٹے کی مسافت کے بعد سرحد پہ پہنچتے ہیں اور وہاں پہنچ کر مرکزی دروازے پہ داخلے اور واپسی کے لیے دو دو دن قطار میں انتظار کرنا ہوتا ہے، حالانکہ اس کام میں بچت صرف دس سے پندرہ ہزار ہوتی ہے، یہ ایک مہینے کی کمائی ہے کیونکہ دوسرا ٹوکن ملنے میں اتنا وقت مزید انتظار کرنا ہوتا ہے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہر دوسرے چکر کے بعد گاڑی پہ بھی خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اکیلے جانا پڑتا ہے، ہم کوئی ہیلپر اورمعاون اپنے ساتھ لے کے نہیں جاسکتے، ایسے میں گاڑی خراب ہوجائے تو کون کس کی مدد کرے گا، ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچ جائے‘‘۔ انہوں نے کہا وہاں کوئی ہوٹل بھی نہیں ہوتا کہ جہاں بندہ اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آرام کرلے۔

اس سلسلے میں ہم نے انتظامیہ کا  موقف لینے کی کوشش کی تو اسسٹنٹ کمشنر تربت نے کہا کہ وہ اسوقت بلدیاتی الیکشن میں مصروف ہیں انہوں نے اس ضمن میں اپنا موقف دینے سے معذرت کر لی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...