سیلابی تباہ کاریاں اور انتظامی خلا
پاکستان میں سیلاب اب ہر سال معمول بن گئے ہیں اور یہ پیشین گوئی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ بارشوں کا تناسب کیا ہوگا اور اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جنم لینے والے خطرات ہیں جن کے اثرات مسئلے کو زیادہ گھمبیر اور غیریقینی بنا دیتے ہیں۔ حالیہ بارشوں نے ملک کے کئی شہری و دیہی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بالخصوص بلوچستان میں لوگ سیلاب سے سب سے زیادہ متأثر ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں تقریباً چھ ہزار گھر منہدم ہوچکے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پہ ملک میں تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اگرچہ بارشوں اور سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ممکن ہوتا ہے کہ بروقت اور ٹھوس انتظامی اقدامات کے ذریعے ان کی تباہ کاریوں کو محدود کیا جاسکے۔ پاکستان میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر متعدد اداے قائم ہوچکے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی طویل المیعاد حکمت عملی اور منصوبے موجود نہیں ہیں، جس کا نتیجہ ہے ہر سال کئی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، مکانات کو نقصان پہنچتا ہے، انفراسٹرکچر متأثر ہوتا اور معیشت کو دھچکا لگتا ہے۔ حالیہ برس سیاسی عدم استحکام نے بھی مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے، اور سیاستدان اس پر کوئی بات کرتے ہی نظر نہیں آتے۔
پاکستان میں غیرمتوقع بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ جب ایک معمول بن چکا ہے اور ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا، تو ایسے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے باضابطہ مؤثر پالیسی تشکیل دے تاکہ اس کے نقصان کو محدود کیا جاسکے۔
فیس بک پر تبصرے