اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ اپنے آپ کو ایک مذہبی ریاست کے طور پہ پیش کرتی ہے جس میں مذہبی طبقے کو خاص مراعات حاصل ہیں۔ اس کے باوجود، حکام کبھی بھی اپنے ان تحفظات کو نہیں چھپا سکے جو انہیں اس لیے لاحق ہیں کہ ایران میں بہت سے علماء کے نظریات سپریم لیڈر کے خیالات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔
کچھ ہی عرصہ قبل ایران کے چوٹی کے علماء میں سے ایک نے اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے سرخیوں میں جگہ بنائی تھی۔ 21 اکتوبر 2021ء کو پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے قم میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی (جو اب وفات پاگئے ہیں) کے پاس حاضری دی۔ ملاقات کے دوران آیت اللہ نے ملک کے اقتصادی مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ’’ہمیں دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ باوقار تعلقات استوار کرنے چاہئیں‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’بہت سے ممالک کے ساتھ ترش روی سے پیش آنا درست نہیں ہے اور یہ رویہ عام لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘ صافی گلپائیگانی ایک مرجع تھے، جو اہل تشیع حلقے میں سب سے بڑا منصب ہے۔ ان کے بیانات کا اشارہ ایران امریکا تنازعات کی طرف تھا۔ اس کی وجہ سے سخت گیر طبقے کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ آیت اللہ صافی گلپایگانی کے بیانات خاص طور پر ان کے مقام و مرتبے کے پیش نظر بہت وزن دار اور اہمیت کے حامل تھے۔ امام خمینی کے دور میں، صافی گلپائیگانی نے آٹھ سال تک ’شوری نگہبان‘ کے سیکرٹری کے طور پہ خدمات انجام دیں، جو ایرانی آئین کے مطابق پارلیمانی قانون سازی کی توثیق یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اور صدارتی، یارلیمانی اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کی صلاحیت کی جانچ پڑتال بھی کرتا ہے۔ صافی گلپائیگانی 1993 سے ایران کے سب سے بااثر آیت اللہ عظمی میں سے ایک رہے ہیں۔
آیت اللہ کے بیانات پر سب سے شدید ردعمل ’رجا نیوز‘ ویب سائٹ کی طرف سے آیا، جو کہ سخت گیر حکومت نواز تنظیم ’جبہہ پایداری انقلابِ اسلامی‘ کے ساتھ وابستہ ہے، اس تنظیم کا پارلیمنٹ میں ایک طاقتور دھڑا ہے جو تہران اور واشنگٹن کے درمیان کسی بھی طرح کے نارمل تعلقات کی شدید مخالفت کے لیے جانا جاتا ہے۔ رجا نیوز نے عوام کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی وہ تنقید کی یاد دلائی جو انہوں نے ان لوگوں پر کی تھی جو ایران کے معاشی مسائل کا حل ’غیر ملکی تعلقات‘ میں تلاش کرتے ہیں۔ اسی طرح آیت اللہ صافی گلپائیگانی پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور ’سیکولر قوتوں کی سیاسی پیروی کرنے‘ کا الزام بھی لگایا تھا۔ اس ویب سائٹ نے ان کا موازنہ مرحوم آیت اللہ حسین علی منتظری اور سید کاظم شریعتمداری سے کیا، جنہیں اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے بعد نظر بند کر دیا گیا تھا۔ رجا نیوز کا اس بارے ایک نمایاں مضمون سپریم لیڈر کے دفتر کے قریب سمجھے جانے والے ایک مدرسے کے طالب علم مہد جمشیدی نے لکھا تھا جس کے دیگر مضامین آیت اللہ خامنہ ای کی اپنی ویب سائٹ پر بارہا شائع ہو چکے ہیں۔
تاہم، اس ویب سائٹ کے سخت لہجے کے خلاف ردعمل بھی سامنے آیا۔ قم مدرسہ کے طلبہ اور اساتذہ کے ایک گروہ نے بیان جاری کیا جس میں آیت اللہ صافی گلپایگانی کی ’توہین کرنے والوں‘ کے خلاف عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا (ایرانی قانون میں آیت اللہ عظمی کی توہین ایک جرم ہے)۔ یہاں تک کہ علما کی خصوصی عدالت ’’دادگاہ ویژہ روحانیت‘‘کے سربراہ محمد جعفر منتظری نے بھی آیت اللہ کی ’بے حرمتی‘ کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کی تحقیقات کرے گی۔
لیکن حیران کن طور پہ منتظری کے تبصرے کے بعد ’کیہان‘ اخبار آگے آیا۔ یہ اخبار ایرانی رہبرمعظم سے وابستہ ایک سخت گیر میڈیا گروپ ہے، جس کا مینیجنگ ڈائریکٹر خود آیت اللہ خامنہ ای نے مقرر کیا ہے۔ یکم نومبر 2021ء کے اداریے میں کیہان کے مینیجنگ ڈائریکٹر حسین شریعتمداری نے اس بات پر زور دیا کہ رجا نیوز کی جانب سے صافی گلپائیگانی کے بیانات پر تنقید کی وجہ سے کوئی بھی مقدمہ ’حیران کن اور بلاجواز‘ ہوگا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آیت اللہ کے ’غلط بیان‘ نے ’دشمنوں‘ کو موقع فراہم کیا کہ وہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھائیں۔
دینی حوزوں میں سیکولرازم
اہم بات یہ نہیں ہے کہ یہ تنازعہ ٹھنڈا کیسے ہوا، بلکہ اہم امر ایک اور پہلو ہے۔ صافی گولپائیگانی کے بیان پر ردعمل کے دوران بھی یہ ہوا اور ویسے بھی کئی مواقع پر رہبرمعظم علی خامنہ ای اور ان کے معتمدین ایک چیز کی طرف مسلسل اشارہ کرتے ہیں، اور وہ ہے ’’سیکولر قوتوں کی سیاسی پیروی‘‘ کا الزام، جو سپریم لیڈر کے حلقے میں پائے جانے والے دیرینہ خدشے کی یاد دلاتا ہے جسے وہ ’’علمی حوزوں میں سیکولرازم‘‘ کے پھیلاؤ سے تعبیر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر 23 جولائی 2018ء کو آیت اللہ خامنہ ای کے ایک قریبی ساتھی حسن رحیم پور ازغدی نے اس مسئلے پر ایک متنازع تقریر کر کے سرخیاں بنائیں۔ حوزہ قم کے طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے ازغدی نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’سیکولرازم کی جڑیں حوزوں میں پیوست ہیں۔‘‘
اگرچہ رحیم پور ازغدی یا رجا نیوز کی تنقید خدشے کو ضرورت سے زیادہ بڑھاتی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ وہ خدشات ہیں جن کا اظہار خود ایرانی سپریم لیڈر نے بھی کئی بار کیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے 15 مارچ 2016 کو قم میں علما کے ایک گروہ کے ساتھ ملاقات میں، ’’حوزوں کو غیر انقلابی‘‘ بنانے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حکومتِ اسلامیہ، اسلامی اور انقلابی دونوں ہی رہے تو حوزوں کو انقلابی رہنا چاہیے، بصورت دیگر حکومت انقلاب کے اصولوں سے انحراف کی طرف جاسکتی ہے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی کو بھی انہی اصولوں میں سے ایک قرار دیا اور حوزوں میں اس پر سوال اٹھانے پر تنبیہ کی کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے 9 جنوری 2019 کو ایک اور تقریر میں مقدس شہر قم کو ’’انقلاب کا مرکز‘‘ قرار دیا اور دشمنوں کی طرف سے شہر میں انقلابی مذہبی جذبے کو کمزور کرنے کی کوششوں کے حوالے سے خبردار کیا۔ بعدازاں رہبر معظم کے بیان کی مزید وضاحت کے لیے حوزہِ قم کے تبلیغی دفتر کے سربراہ احمد واعظی نے ایک پریس کانفرنس کی، واعظی نے زور دیا کہ ’’حوزوں کو سیکولرزم سے خطرہ لاحق ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا یا علما کی سیاسی سماجی امور سے بے بے رخی اصل خطرہ ہے۔
ایک ’سٹریٹجک‘ تشویش
’’حوزوں میں سیکولرزم‘‘ کا خدشہ ایسا مسئلہ ہے جو رہبرمعظم علی خامنہ ای کے مختلف بیانات سے متعدد بار مترشح ہوا ہے۔
سپریم لیڈر کی اصل پریشانی ان علماء کا رویہ ہے جو اسلامی حکومت کی حمایت میں ’’سیاسی و سماجی مسائل‘‘ پر جوش و خروش نہیں دکھاتے۔ خامنہ ای کے انہی خدشات کے تناظر میں مختلف سرکاری اداروں نے ’’حوزوں میں سیکولرازم‘‘ کے موضوع پر درجنوں کتب اور مقالات شائع کیے ہیں۔ یہ ادارے سیمینارز بھی منعقد کرتے ہیں جہاں مقررین حوزوں کے لیے رہبرمعظم کی توقعات سے آگاہی دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے لیے اعلیٰ سطح کی تشہیر اور ان کے لیے حکومتی فنڈز کے استعمال سے خامنہ ای اور ان کے رفقاء کی شیعہ مدارس بارے بڑھتی ہوئی حساسیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
قم میں آیت اللہ خامنہ ای کے دفتر کے سربراہ محمود محمدی اراضی نے حوزہِ قم میں ’’نئے سیکولرازم کے ظہور‘‘ سے متعلق خبردار کرتے ہوئے 4 فروری 2021 کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’یہ خطرہ حقیقی ہے اور رہبر انقلابِ اسلامی کے بیانات میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت قائد کے اہم ترین اسٹریٹجک خدشات میں سے ایک، شہرِ قم کی صورتحال ہے۔
جیسے جیسے ایرانی سپریم لیڈر بوڑھے ہو رہے ہیں، یہ خدشہ واضح طور پر تشویشناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ یقیناً اس کا تعلق ایران میں قیادت کی جانشینی کے مسئلے سے نہیں ہے، کیونکہ اگلے سپریم لیڈر کی تقرری کا حوزوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران کے حوزے اس لیے اہم ہیں کہ وہ علماء کی آنے والی نسلوں کو تعلیم دینے کے ذمہ دار ہیں جو اسلامی حکومت کی پالیسی اور ڈھانچے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ کے آئین اور دیگر قوانین کے مطابق، اہم عدالتی اور سیکورٹی حکام سے لے کر مسلح افواج اور صوبوں میں قائد کے نمائندوں تک اعلیٰ سطح کے سرکاری عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد کے لیے شیعہ علما کا ہونا ضروری ہے۔
لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر اور ان کے حامیوں کو علماء کے بارے میں ’سٹریٹجک‘ خدشات لاحق ہیں۔ اگر حوزے ’انقلابی‘ علما کی تربیت نہیں کرتے ہیں، یا اگر حوزوں کے اندر اہم شخصیات سپریم لیڈر کے خیالات سے موافق نہیں ہیں، تو پھر رہبرمعظم کے مطابق اسلامی جمہوریہ کا مستقبل بالکل غیر یقینی ہو جائے گا۔
انقلاب کے وفادار
حالیہ برسوں میں، ایرانی حکومت کے اندر ’پاسدارانِ انقلابِ اسلامی‘ (IRGC) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر متعدد تجزیے شائع ہوچکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے شعبوں میں ’پاسدارانِ انقلابِ اسلامی‘ کی طاقت و نفوذ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی کی انتظامیہ میں فوجی یا سابق فوجی شخصیات کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں، نہ صرف سپریم لیڈر کا اعلیٰ ترین منصب، بلکہ بہت سے دیگر اہم عہدے بھی خصوصی طور پر علما کے پاس ہیں، جس کا مقصد انقلاب کے لیے ملک کے کلیدی عہدوں کی وفاداری کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ علماء کی اگلی نسل بظاہر عین ویسی نظر نہیں آتی جیسے کہ بزرگوں کی خواہش ہے۔
بوڑھے انقلابی علما
اسلامی جمہوریہ میں مذہبی طبقے کے فیصلہ کن کردار کو دیکھتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طویل مدتی سطح پر اس ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے ’انقلابی علما‘ کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہے جن پر حکومتِ اسلامیہ کا مکمل اعتماد ہو۔
28 فروری 2020 کو، علی رضا اعرافی، جنہیں آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی شیعہ حوزوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا، نے اعلان کیا کہ ملک کے تمام حوزوں میں مرد طلبہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے، جبکہ خواتین کی تعداد 80 ہزار ہے۔ حکام نے ہمیشہ حوزوں کے طلبہ کی تعداد میں اضافے کو سرکاری اداروں کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے، کیونکہ یہ ان اداروں کا مستقبل ہیں۔
تاہم، حوزوں میں طلبہ کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود، سپریم لیڈر اور ان کے رفقاء کو اس بات پر تشویش ہے کہ مدارس حساس سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کے لیے ضرورت کے مطابق اہل علما پیدا نہیں کر رہے۔ تربیت نہیں دے رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ خدشات حقیقی بھی ہیں، کیونکہ جب بات اعلیٰ درجے کے ان علما کی ہو جو حساس سرکاری عہدوں میں بھرتی کے لیے درکار ہیں، تو پھر درحقیقت مسئلہ یہ ہے کہ حکومت میں بہت سے اہم عہدوں پر صرف وہ علما ہی فائز ہوسکتے ہیں جو ’’مجتہد‘‘ کے رتبے تک پہنچ چکے ہوں۔
مثال کے طور پر، ’شوری نگہبان‘ کے چھ فقہاء، ’مجلس خبرگان‘ کے تمام 88 اراکین، عدلیہ کے سربراہ، سپریم کورٹ کے سربراہ، اٹارنی جنرل، اور انٹیلی جنس کے وزیر کا مجتہد ہونا ضروری ہے، یا یہ ایسے علماء ہوں جو اجتہاد کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ مزید برآں، صوبوں میں سپریم لیڈر کے زیادہ تر نمائندے بھی مجتہد ہوتے ہیں۔
حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کے لیے نوجوانوں میں اہل ’انقلابی‘ علما کی کمی نے آیت اللہ خامنہ ای کو مجبور کیا ہے کہ وہ عمررسیدہ علما کو ہی کلیدی عہدوں پر برقرار رکھیں۔ ایران میں بہت سے شیعہ مرجع عمر میں بہت بوڑھے ہوچکے ہیں۔ وہ تمام علما جو 1979ء کے انقلاب کے بعد حوزوں میں داخل ہوئے ان میں سے کوئی بھی اب تک مرجع کے رتبے تک نہیں پہنچ سکا۔
جب ایران میں موجود یہ چند آیت اللہ عظمی فوت ہو جائیں گے تو حوزہِ قم کی حیثیت عراق کے حوزہِ نجف کے مقابلے میں کمزور ہو جائے گی، اور یہ چیز اسلامی جمہوریہ کی اتھارٹی کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
علما کی ایک بڑی تعداد اور حوزوں کے لیے کھلا بجٹ فراہم کرنے کے باوجود، ایرانی حکومت کو دونوں کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ جیسے جیسے موجودہ علما کی عمر بڑھ رہی ہے، بہت سے اہم مذہبی اور حکومتی عہدے بالآخر ایسے علما کے حوالے کیے جا سکتے ہیں جو سپریم لیڈر کے وضع کردہ اصولوں پر پورا نہیں اتریں گے، یا ان سے اختلاف کریں گے۔ اس کے بلاشبہ اسلامی جمہوریہ کے مستقبل پر غیر متوقع نتائج مرتب ہوں گے۔
رہبرمعظم خامنہ ای کے حامی اور مخالف مرجع علما
جب اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کا 89 سال کی عمر میں انتقال ہوا تو انہیں اور ان کی قائم کردہ حکومت کو ملک کے بیشتر بڑے علما کی حمایت حاصل رہی۔ تاہم، ان کے جانشین موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جن کی عمر 82 سال ہے، کو بہت مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔ بڑے علما میں سے زیادہ تر بظاہر ان کے حامی نہیں ہیں، جبکہ علما کی نئی نسل کے ’انحراف‘ نے حکومت کے اندر بڑھتے ہوئے خدشات اور بھی نمایاں کردیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی علمی حیثیت پر شدید شکوک و شبہات کے باوجود، ملک میں رسمی طور پر انہیں مرجع ہی سمجھا جاتا ہے۔ ’مرجع‘ شیعہ دینی حلقوں میں سب سے اعلیٰ منصب ہے۔ وہ تہران میں کچھ کلاسز میں تدریس کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں حساس سرکاری عہدوں کے لیے علما کے ایک گروہ کی تربیت کرسکیں۔ ویسے بھی یہ تدریس کا مشغلہ بطو مرجع ان کی شبیہ کے لیے اہم ہے کیونکہ ایک مرجع کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر طلبہ کو اعلیٰ درجے کے مذہبی کورسز پڑھائے۔
حکومتی معاملات میں صرف چند مرجع ہی ایسے ہیں جو کبھی کبھار سپریم لیڈر کی توصیف کرتے ہوئے یا ان کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے حمایت کرتے ہیں۔ درحقیقت، حسین نوری ہمدانی اور ناصر مکارم شیرازی وہ دو آیت اللہ عظمی ہیں جو خامنہ ای کا باقاعدگی سے دفاع کرتے ہیں، جب کہ محمد علی علوی گورگانی اور جعفر سبحانی کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں۔ عبداللہ جوادی امولی ایک اور ایسے مرجع ہیں جو رہبرمعظم کی تائید کردیتے ہیں۔
مندرجہ بالا مراجع کے علاوہ، ایران میں سب سے نمایاں مرجع وہ روایتی علماء ہیں جو آیت اللہ خامنہ ای اور ان کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ کم از کم پوری ایک دہائی تک، انہوں نے اہم مواقع پر سپریم لیڈر کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ ان میں حسین واحد خراسانی، لطف اللہ صافی گلپائیگانی، موسیٰ شبیری زنجانی، اور صادق حسینی شیرازی نمایاں ہیں۔ ان مراجع میں آیت اللہ علی سیستانی کو بھی شامل کیا جائے، جو اگرچہ عراق میں مقیم ہیں ہیں اور بااثرترین مرجع ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر ان کا بڑا نام ہے، ان کا اصل وطن ایران ہے اور وہاں ان کے بہت سے پیروکار ہیں۔ سیستانی بہت سے امور میں خامنہ ای سے مختلف رائے رکھتے ہیں لیکن وہ عام طور پر سیاسی مسائل، خاص طور پر ایران سے متعلق معاملات پر تبصرہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ مرجع علما مختلف سطح پر حکومتی پالیسیوں پہ تنقید کرتے ہیں، اور مذہب اور حکومت کی علیحدگی کی وکالت کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات اللہ کے علاوہ، کچھ دوسرے مرجع بھی ہیں جو پہلے انقلابی علماء ہوا کرتے تھے، لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے ایران میں اصلاح پسند گروہ کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ علما سپریم لیڈر کی طرف سے مکمل طور پر ناقابل اعتماد ہیں جن میں اسد اللہ بیات زنجانی، علی محمد دستغیب اور محمد علی جرمی وغیر شامل ہیں جو وقتاً فوقتاً حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن خامنہ ای پر براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہیں۔
حسین علی منتظری، یوسف الصانعی اور عبدالکریم موسوی جیسے بڑے مرجع ایسے تھے جو وفات پاچکے ہیں، یہ امام خمینی کےدور میں اعلی حکومتی مناصب پر فائز رہے تھے، لیکن علی خامنہ ای کے سخت ناقد تھے۔ ان کے سیکنڑوں شاگر ہیں جو ایران میں فعال ہیں۔
نئی نسل کا انحراف
حوزوں کی نئی نسل پر سرپیم لیڈر اور ان کے معتمدین کو خاص اعتبار نہیں ہے۔ مثال کے طور پہ حالیہ برسوں میں، ایرانی مذہبی حکام نے بارہا ایسے علما پر تنقید کی ہے جو عوام میں مذہبی لباس پہننے سے انکار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ عام لوگ جو ایران کے حالات سے مطمئن نہیں ہیں، وہ علماء کو ریاست کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ نتیجتا عوامی مقامات پر ان کے ساتھ عموما اچھا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ایران کے مختلف شہروں میں علما پر جسمانی حملوں کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ سرکاری عہدوں پر مولویوں کے پاس عموماً ڈرائیور یا باڈی گارڈ ہوتے ہیں اور انہیں کم سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن مدرسے کے نوجوان طلباء اور عام علماء کو عوام میں اپنی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر حوزوں کے طلبہ کی نئی نسل کے بڑھتے رجحان نے بھی ریاستی حکام میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ کچھ نوجوان علما مغربی سیاسی، فلسفیانہ اور ثقافتی نظریات کی طرف راغب ہیں اور عوام کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ مولوی مغربی اقدار کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، اور کچھ مذہب اور حکومت کے درمیان علیحدگی کے معنی میں سیاسی سیکولرازم کی بھی وکالت بھی کرتے ہیں۔
’انقلابی‘ مذہبی طبقے کا مجہول مستقبل
اگرچہ اسلامی جمہوریہ میں آیت اللہ خمینی کے ساتھ مذہبی طبقہ اقتدار میں آیا، آیا لیکن ایرانی حکومت کی ناکامیوں نے انقلابی طبقے کے لیے ایک بنیادی بحران پیدا کر دیا ہے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ انقلابی طبقہ اب بھی اسلامی جمہوریہ کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے۔ آئین اور دیگر قوانین کے مطابق درجنوں اہم سرکاری عہدے اور سینکڑوں دیگر عوامی دفاتر انقلابی علماء کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں، لیکن پھر بھی ہم نہیں جانتے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ نظام کب تک قائم رہے گا، خاص طور پر حالیہ برسوں کے بڑھتے ہوئے سماجی، اقتصادی، سیکورٹی اور سیاسی چیلنجز کو اگر پیش نظر رکھ کے سوچا جائے۔ سارے منظرنامے کو سامنے رکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ اگلے سپریم لیڈر کے لیے معاملات کافی غیریقینی ہوسکتے ہیں۔
بشکریہ: مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ، مترجم شفیق منصور
فیس بک پر تبصرے