بحرانوں کے ہنگام میں کچھ حوصلہ افزا خبریں اور نوجوانوں کا پیغام
برمنگھم کامن ویلتھ گیمز میں جاری کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستانی نوجوانوں نے اب تک آٹھ میڈل اپنے نام کرلیے ہیں جن میں دو گولڈ میڈل بھی شامل ہیں۔ ایک طلائی تمغہ ویٹ لفٹنگ میں نوح دستگیر نے اور دوسرا ایتھلیٹکس میں ارشد ندیم نے جیتا ہے۔
پاکستان دنیا میں چھٹی بڑی آبادی کا ملک ہے جس میں 63 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود کرکٹ کے میدان میں چند کارناموں کے علاوہ مجموعی طور پہ کھیل کے شعبے میں تقریباً پچھلی تین دہائیوں میں اس کے نام کوئی خاطرخواہ کارکردگی نظر نہیں آتی۔ اب جبکہ ملک میں افراتفری کا عالم ہے، معاشی زبوں حالی غالب ہے، مایوسی اور تشدد پسندی کے سایے ہیں، ایسے میں کھیلوں کے میدان سے اچانک اچھی خبروں کا آجانا بہت حوصلہ افزا امر ہے اور یہ مقتدر اشرافیہ کے لیے پیغام بھی ہے کہ پاکستان کا نوجوان کیا کرسکتا ہے اور آپ سے کیا چاہتا ہے، درحقیقت یہی وہ اصل راستہ ہے جس سے پاکستان کی شبیہ دنیا میں بہتر ہوسکتی ہے۔ نوجوانوں کو ان کی مرضی کے مطابق ہر شعبے میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کے پورے مواقع اور وسائل ملنے چاہیئں۔
کھیلوں کے ماحول کو تعلیمی اداروں کی سطح پر پروان چڑھانا چاہیے۔ عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کو سکالرشپس ملنی چاہئیں۔ اس کے لیے صوبوں کوچاہیے کہ وہ اپنے وسائل بروئے کار لائیں۔ اس حوالے سے صنفی تفریق کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ اس کھیل کی حالت 1994ء کے بعد سے ناگفتہ بہ ہے۔ حالانکہ اس میدان میں پاکستان چار عالمی ورلڈ کپ جیت چکا ہے، لیکن آج اس کی شمولیت کسی نمایاں سطح پر نظر نہیں آتی نہ اس بارے بات ہی کی جاتی ہے۔
پاکستانی نوجوان کچھ عرصے سے انفرادی طور پہ اور اپنی کوششوں کے بل بوتے پر ملک کے لیے کچھ عمدہ مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ انہیں مزید مایوس نہ کریں اور ان کے لیے سپورٹس کے میدان میں وسائل مہیا کریں۔ اس میں کوئی زیادہ پیسہ خرچ نہیں ہوگا، صرف کھیل کے موجودہ سرکاری شعبوں اور ڈھانچوں کو انتظامی حوالے سے شفاف اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
فیس بک پر تبصرے