سوات: توروالی اور گاؤری کے علاقوں میں جنگلات کے بندوبست اور مالکانہ حقوق پر ابہام
سوات کو باقاعدہ ریاسست بنانے کی پہلی کوشش 1849ء میں ہوئی جب پنجاب پر انگریزوں نے قبضہ کیا۔ سوات کے یوسفزئیوں نے، جنہوں نے سوات کو سولہویں صدی میں زیر کیا تھا، ایسی حکومت سید اکبر شاہ ستھانہ کی قیادت میں بنائی جو 1849ء تا 1857ء تک قائم رہی۔ اس سے پہلے سوات پر یوسفزئیوں نے اپنے قبضے کے بعد خان کجو اور ملک احمد جیسے سرداروں کی قیادت میں منظم ہونے کی کوشش کی، تاہم ان کے دور کو ریاستی دور نہیں کہا جاسکتا اور یہ کوئی منظم طرز کی حکومت نہیں تھی۔ میاں گل عبدالغفور المعروف سیدوبابا نے اپنے صاحبزادوں کے ذریعے سوات پر حکمرانی کی کوشش کی تاہم کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی اور سوات مسلسل اندرونی خلفشار اور بیرونی حملوں کا شکار رہا۔ 1915ء میں میاں گل عبدالودود کے ایما پر عبدالجبار شاہ ستھانہ کو سوات کا حکمران بنایا گیا لیکن وہ مقامی طور پر سرگرم سنڈاکے بابا اور سوات کے خوانین کے عبدالجبار شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے قائم نہ رہ سکے اور نتیجتاً سوات میں بڑے جرگے نے میاں گل عبدالودود کو 1917ء میں سوات کا بادشاہ مقرر کیا۔
سولہویں صدی میں لکھی گئی کتاب ’’تواریخ حافظ رحمت خانی‘‘ کی رو سے سوات پر خان کجو کی حکومت ’توروال اور تیرات‘ تک تھی۔ مطلب موجودہ سوات کوہستان یا تحصیل بحرین میں خان کجو کی حکومت نہیں تھی اور یہ بدستور یاغستان رہا جب یہاں کے موجودہ توروالی پٹی میں ریاست سوات نے 1921 اور 1922 میں باقاعدہ حکومت قائم کی۔
بالائی سوات میں وسعت کے بعد چیل کو مارچ 1921ء میں شامل کیا گیا، جبکہ شاہگرام تا قاروندوکے تک بحرین وادی کو نومبر 1922ء میں سوات میں شامل کیا گیا۔ کالام کی طرف پیش قدمی کرتے وقت ریاست دیر اور چترال کی ریاست نے اعتراض کیا اور اس وجہ سے مالاکنڈ میں موجود برطانوی حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ نے سوات کے باچا کو قاروندوکے سے اگے بڑھنے سے روک دیا۔
ریاست سوات میں پہلا بندوبست میاں گل عبدالودود نے شیخ ملی والی ’ویش‘ نظام کو ختم کرکے کیا تھا اور اس کے لئے ان کے مطابق انہوں نے دن رات محنت کی تھی۔ تاہم کئی لحاظ سے اس بندوبست میں بڑے نقائص تھے، کیوں کہ انہوں نے اپنے سیاسی ساتھیوں کو بڑی بڑی زمینوں سے نوازا تھا اور کئی حوالوں کے مطابق اپنے مخالفین کو اکثر ایسے حقوق سے محروم رکھا تھا۔ ویش نظام کا خاتمہ اور پہلا بندوبست 1925ء تا 1930ء کے دوران مکمل ہوا تھا۔
ڈاکٹر سلطان روم کے نزدیک سوات کوہستان اور ریاست سوات کے ماتحت انڈس کوہستان میں ویش سسٹم مختلف تھا۔ انڈس کوہستان میں ویش خاص سوات کی طرح مقررہ وقت کے مطابق گردش کرتا یعنی ایک قبیلے سے دوسرے میں چلا جاتا، تاہم سوات کوہستان میں اس کے برعکس ویش سسٹم پہلے سے مستقل طور پر قبائل میں تقسیم شدہ اور تسلیم شدہ تھا۔ یعنی یہاں کوئی گردشی ویش نظام نہیں تھا۔ البتہ دیگر سوات کی طرح یہاں توروال میں بھی زمین اور جنگلات سے متعلق دؤتر اور سیری کا نظام تھا۔ دؤتر مختلف مقامی قبائل میں مستقبل طور پر تقسیم شدہ اور طے شدہ تھا جبکہ سیری غیر مقامی مگر مقامی طور پر مذہبی لحاظ سے مقدّس خاندانوں کا حصّہ ہوتا تھا۔
فریڈریک بارتھ توروالیوں اور گاؤریوں میں زمین اور جنگلات کی تقسیم اور انصرام میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں، یعنی توروالیوں اور گاؤریوں میں قابل کاشت زمین افراد کی ذاتی ملکیت ہوتی تھی اور وہ اپنی مرضی سے اس کو بیچ سکتے تھے۔ تاہم وہ لکھتے ہیں کہ توروالی شخص اپنی زمین کو مقامیوں توروالیوں میں ہی کسی کو بھی بیچ سکتا تھا، یعنی کسی دوسرے گاؤں یا قبیلے کے توروالی کو بھی بیچ سکتا تھا تاہم غیر توروالیوں کو بیچنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ گاؤری لوگوں میں کوئی فرد اپنی زاتی زمین کو صرف اپنے نسبی رشہ داروں کو بیچ سکتا تھا۔
کیا سرکار سیّاحت کے بہانے جنگلات کے اندر نہیں گھستی اور وہاں مقامی ماحولیات کو تباہ نہیں کرتی؟
جنگلات کی تقسیم بھی دؤتر کی بنیاد پرتھی۔ تاہم پورے سوات مع توروالی و گاؤری پٹی میں جنگلات اور جنگلات کی پیداوار تک ہر مقامی فرد کی آزادانہ رسائی حاصل تھی اور وہ اپنی ضروریات کے مطابق جنگلات کو استعمال کرسکتا تھا۔
اللہ یار خان جو انگریز دور میں اس پورے فرنٹئیر کے خطے کے لئے جنگلات کے اعلی افسر تھے اور جنہوں نے موجودہ سوات کوہستان کا 1925ء اور 1928ء میں دورہ کیا تھا، لکھتے ہیں کہ توروالی اور گاؤری علاقوں میں تجارتی سطح پر جنگلات کی کٹائی آج سے کوئی 60، 70 سال پہلے یعنی 1850ء کے قریب شروع ہوئی اور یہاں سے مقامی لوگوں نے باہر خصوصاً پشاور اور نوشہرہ سے آئے ہوئے ٹمبر کے تاجروں کو دریا کنارے دیار کے درخت سستے داموں فروخت کیے جس کی وجہ سے اس علاقے میں دریائے سوات کے کنارے درخت کم دکھائی دیتے ہیں۔ 1925ء کو اللہ یار خان کی نگرانی میں توروالی علاقے میں جنگلات کا پہلا ورکنگ پلان ہوا تھا اور اس کے بعد 1928ء کو گاؤری علاقے میں ہوا تھا اور یہ سب انگریز حکومت نے ریاست سوات کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اللہ یار خان کے مطابق جب وہ 1925ء کو چودگرام (بالاکوٹ) آئے تو انہوں نے سات آٹھ ٹھیکداروں کو دیکھا جو مقامی لوگوں سے جنگلات خرید رہے تھے۔ یار خان کے مطابق یہاں جنگلات کاٹنے کا طریقہ نہایت سفاکانہ اور دردناک ہے۔ یہ لوگ سب سے اچھے دیار کے درخت کاٹتے ہیں اور اور پھر ان سے گیلی بنا کر لڑھکاتے ہیں جس سے چھوٹے پودے بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ یہ تاجر جب ان سے درخت خریدتے ہیں تو دریا کنارے سارے درخت بے دردی سے کاٹ کر دریا میں پھینکتے ہیں اور پانی کے ذریعے لے جاتے ہیں۔ ان تاجروں کے ساتھ مقامی طور پر بااثر افراد ملے ہوتے ہیں جو اس ٹمبر کے بیچنے کے بعد زیادہ رقم اپنی جیب میں ڈالتے ہیں بلکہ جنگلات کی یہ فروخت یہی لوگ کرتے ہیں۔
جنگلات کی اس طرح بے دردی سے کٹائی کا ذکر 1858ء میں اس قندھاری نے بھی کیا تھا جن کو میجر ریورٹی نے یہاں سوات میں شیخ ملی کی کتاب ’دفتر‘ کا مسودہ حاصل کرنے بھیجا تھا۔ ان قندھاری کے مطابق دریائے سوات کے کنارے ہر طرف خصوصاً چودگرام (بالاکوٹ ) اور چورڑئی (مدین) کے بیچ درختوں کے تنے (گیلیاں) پڑے ہوئے تھے۔
اس وقت کاکا خیل میاں گان نے یہاں سوات اور سوات کوہستان کے جنگلات کو بے دریخ کاٹا۔ ان جنگلات کا کوئی انصرام و انتطام نہ تھا۔ ریاست سوات کے ابتدائی دنوں اور اس سے پہلے یہاں کے جنگلات کی حالت بری تھی۔ اللہ یار خان لکھتے ہیں کہ مانکیال 1 اور مانکیال 2 میں کاکاخیل ٹھیکدار میاں محترم شاہ نے یہاں کے توروالیوں سے جنگل خریدا۔ اسے کاٹا مگر دریا کنارے جمع کرنے کے بعد یہ ٹھیکدار غائب ہوگیا اور مقامی لوگوں نے غصّے میں آکر پورے گیلیوں کو آگ لگادی۔ سارا ٹمبر جل گیا۔ ہمارے مقامی لوگ یہی کرتے آئے ہیں کہ اپنی بے بسی کا اظہار خود اپنے وسائل کو آگ لگا کر کرتے ہیں۔
ریاست سوات کے اس علاقے میں آنے سے پہلے یہاں جنگلات کی حالت بہت بری تھی۔ 1965ء کے ایک ورکنگ پلان میں قدیر خان نامی ایک فارسٹ افسر لکھتے ہیں کہ سوات ریاست کے قیام سے پہلے یہاں سوات کے جنگلات سے ہر طرح کی زیادتی ہورہی تھی۔ ان کو بے دریخ کاٹا جاتا تھا، ان کے اندر کھیت بنائے جاتے تھے اور ان کو بہت ہی کم قیمت پر بیچا جاتا تھا جہاں کوئی پلان نہ ہونے کی وجہ سے متعقلہ تاجر پورے کا پورا جنگل چھوٹے بڑے سب درختوں سمیت کاٹتا تھا۔ ریاست کے قیام سے پہلے بھی سب لوگوں کے پاس جنگلات کے مالکانہ حقوق نہیں تھے۔ ویش کے بارے میں اکثر رومانس پایا جاتا ہے اور کئی لوگ ریاست کے قیام سے پہلے ویش کو مساویانہ نظام قرار دیتے تھے لیکن وہاں بھی کہیں بھی جنگلات سب کے لئے یکساں طور پر مہیّا نہیں تھے اور ان کے مالکانہ حقوق مخصوص لوگوں کے پاس ہوتے تھے۔
جنگلات کے مالکانہ حقوق ہمیشہ کے لئے ریاست اور مقامی لوگوں کے بیچ تنازعہ کا سبب رہے ہیں۔ ریاست سوات کے قیام کے بعد جب یہ وسیع ہو کر توروالی علاقے پہنچی تو اس وقت یہاں کے مقامی لوگوں نے باچا صیب کو اس بات پر علاقے میں سڑکیں اور تحصیل بنانے کی اجازت دی کہ باچائے سوات مقامی لوگوں سے جنگلات کے مالکانہ حقوق نہیں چھینے گا لیکن بعد میں روایات کے مطابق باچا صیب نے جنگلات کو ریاست کی ملکیت قرار دیا اور مقامی طورپر شدید مخالفت کو لوگوں کو تقسیم کرکے کچل دیا۔ مقامی لوگ بیگار کے لئے تیار تھے تاہم جنگلات کی ملکیت دینے سے گریزاں تھے۔ اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ اس وقت مقامی لوگوں کے لئے نقدی کا واحد ذریعہ ان ہی جنگلات کا بیچنا تھا۔
یہ واضح نہیں کہ باچا صیب نے یہاں کے جنگلات کو کس تاریخ اور سن میں ریاست کی ملکیت قرار دیا تاہم اللہ یار خان اور کچھ دفتری رپورٹس ان جنگلات کو ریاست کی ملکیت قرار دیتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا 1925ء کے آس پاس کیا گیا۔ جب ریاست کے جنگلات اپنی ملکیت میں لیے تو مقامی لوگوں کے لیے دس فی صد رائلیٹی مقرر کی۔
گاؤری علاقے کے جنگلات کے بارے میں 1929ء کو اس وقت کے انگریز پولیٹیکل ایجنٹ تھامسن کے ایک خط کے مطابق سوات کا باچا اپنے رعایا یعنی ریاست سوات کے اندر کے علاقوں میں مقامی لوگوں کو فی درخت صرف 2 روپے دیتا تھا اور کالام و اتروڑ میں کاکا خیل ٹمبر تاجر میاں مشرف کاکاخیل کی پشت پناہی کرتا تھا کہ وہ گاؤری علاقوں سے ٹمبر نکالے کیوں کہ ان علاقوں پر سوات کے باچا صیب کی براہ راست حکومت نہیں تھی۔ اسی طرح اسی خط کے مطابق باچا صیب چوکیل بانڈا کے آس پاس یعنی سیری جنگلات سے مقامی گوجر براردی کو ایک ٹکہ بھی نہیں دیتا تھا۔
ریاست سوات کے باچا صیب نے دس فی صد رائلیٹی جس کو بعد میں 15 فی صد کیا گیا کے عوض یہاں کے جنگلات کو ریاست کی ملکیت قرار دیا لیکن محققین کے مطابق ایسا شاید زبانی کلامی ہوا کہ کوئی ایسی قانونی دستاویز یا مقامی لوگوں اور باچا صیب کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، جس کی رو سے جنگلات ریاست کی ملکیت ہوں۔ ریاست کے زمانے میں اللہ یار خان کے مطابق باچا صیب نے صرف دیار کے جنگلات کو ریاستی ملکیت قرار دیا کیوں کہ اس زمانے میں تجارتی مقاصد کے لئے دیار ہی استعمال ہوتا تھا اور یہی ریاست کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بھی تھا۔
یہ کافی دلچسپ ہے کہ اس وقت کی برطانوی حکومت نے جو صوبہ فرنٹئیر پر حکمران تھی سوات کے جنگلات میں سب سے پہلے توروالی علاقے کے جنگلات کا سروے بذریعہ اللہ یار خان سن 1925ء میں کرایا جنہوں نے یہاں کا سروے کرکے اپنی رپورٹ دی۔ برطانوی حکومت نے ریاست سوات کے حکمران کو براہ راست ایسا کرنے نہ دیا کیوں کہ ان کے سامنے دیر کے جنگلات کی مثال موجود تھی کہ جو وہاں کے نواب نے ان جنگلات کے ساتھ کیا تھا۔
اللہ یار خان نے جو ورکنگ پلان توروالی پٹی کے لئے 1925ء میں بنایا تھا اس کی رو سے دیار کی کٹائی پر پابندی تھی تاہم اس کو گھروں کی تعمیر اور قبروں میں تابوتوں کے لئے کاٹنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ریاست سوات نے سارے حقوق اور مراعات کو ختم نہیں کیا تھا۔ مویشیوں کے لئے درال، کیدام اور اسریت بالاکوٹ کی چراگاہوں پر لے جانے کے لئے وقت اور راستے مقرر کیے تھے۔
سرکار جنگلات کی ملکیت لے کر بدلے میں مقامی افراد کو کیا دے گی؟ کیا ریاست کے اندر مزید شخصی اور ادارہ جاتی ریاستیں موجود نہیں کہ جن کو سرکار مختلف حیلے بہانوں سے نوازتی ہے؟ کیا سرکاری محکمے کلّی طور پر جنگلات اور ماحولیات کے بارے میں پوری طرح چوکس ہیں؟
کالام پر ریاست سوات کا قبضہ برطانوی حکومت نے مہتر آف چترال اور دیر کے نواب کی وجہ سے نہیں ہونے دیا۔ تاہم یہاں کے جنگلات پر ان کی بھی نظر رہی کیوں کہ 1928ء کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ’گاروی/گاؤری‘ علاقے میں دیار کے جنگلات دنیا میں اپنی نوعیت کے واحد جنگلات ہیں جو ساٹھ ہزار ایکڑ کے رقبے پر محیط ہیں۔ ان جنگلات میں انوکھا جنگل کالام اور اوشو کے بیچ میدانی جنگل ہے جو دیار پر مشتمل ہے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے کالام اور اتروڑو، اوشو بشمول آریانئی کے جنگلات کے انصرام کے لئے پہلا جرگہ 1926ء میں مالاکنڈ میں بلایا گیا تاکہ حکومت اور گاؤری لوگوں کے بیچ کوئی معاہدہ طے پائے جس کی رو سے ان جنگلات کا بہتر انتطام کیا جاسکے۔ جنوری 1927ء کو 120 افراد پر مشتمل جرگہ مالاکنڈ گیا اور اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ سے ملا۔ کالام کے جنگلات کے انتظام میں ایک رکاوٹ چترال کے مہتر بھی تھے۔ برطانوی حکومت سے معاہدے کے لئے ایک دوسرا جرگہ 1928ء کو مالاکنڈ میں منعقد ہوا جہاں 65 بڑوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے جس کی رو سے وہ اپنے علاقے میں مہتر چترال، نواب دیر اور باچا سوات کو بغیر برطانوی حکومت کی اجازت کے انے نہیں دیں گے، مزید براں وہ جنگلات کے انصرام اور ان کے تصرف کا اختیار برطانوی حکومت کو دیں گے اور بدلے میں برطانوی حکومت قریبی علاقوں سے بڑوں کو ان کے جنگلات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔ (غالباً یہ ان توروالیوں کی طرف اشارہ ہے جو اس وقت کالام کے جنگلات سے ٹمبر لاتے تھے اور کئی ایک علاقوں سے قلنگ وصول کرتے تھے جس پر گاؤریوں اور توروالیوں کے بیچ کئی جرگے بھی ہوئے تھے اور کئی جنگیں بھی)۔
برطانوی حکومت کے ساتھ اس معاہدے میں بھی مالکانہ حقوق کی بات نہیں کی گئی تھی۔
ریاست سوات کے مرحلے کے دوران کئی بار یہاں کے جنگلات کو ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا لیکن اس سلسلے میں کوئی قانونی دستاویز تحریری صورت میں دستیاب نہیں۔ اللہ یار خان نے 1925ء اور 1928ء کو جنگلات کے بارے میں اپنی سفارشات کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جنگلات کو بندوبست میں لانے کے لئے پہلی ضرورت یہی ہے کہ لوگوں کے حقوق اور مراعات کا تعین کیا جانا چاہے جو کہ نہیں ہوا۔ جنگلات کے مالکانہ حقوق اور مراعات کی وضاحت نہیں کی گئی۔ اسی وجہ سے اس سلسلے میں ہمیشہ سے سرکاری طور پر ابہام رہا۔ والی سوات کے زمانے میں اگرچہ مراعات اور تصرفات کو وسیع کیا گیا اور ساتھ رائلیٹی کو بھی دس فی صد سے بڑھا کر 15 فی صد کیا گیا تاہم مالکانہ حقوق کو اس زمانے میں بھی واضح قانونی شکل نہیں دی گئی۔
ریاست سوات کے پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد جنگلات اور زمین سے متعلق جو کچھ ہوا اس کا پتہ لوگوں کو بخوبی ہے۔ توروالی بلٹ میں بندوبست/پٹوار 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کے ظالم دور میں کافی مزاحمت اور سرکاری تشدد کے بعد آیا جبکہ کالام اور کمراٹ دیر کے علاقوں میں ایسا نہیں کیا گیا۔ 2002ء میں فرنٹئیر صوبے میں فارسٹ آرڈینینس لایا گیا اور اس کے بعد کئی قوانین اور اصول لاگو کئے گئے۔ اس قانون کے تحت بھی مالکانہ حقوق کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنایا گیا اور وہ ابہام اب تک جاری ہے۔
ریاست سوات اور اس سے پہلے یہاں کی زمین اور جنگلات سے متعلق اس مضمون کے بڑے حصّے کا مقصد یہ ہے کہ مقامی لوگ جنگلات کے بارے اپنی تاریخ سے آگاہ ہوں۔
آیا مقامی لوگوں کو کلّی طور پر جنگلات کے مالکانہ حقوق دیے جائیں یا یہ حقوق صرف ریاست کے پاس ہوں، یہ ایک بہت ہی بڑا سوال ہے کیوں کہ اس سے کئی مسائل جڑے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ریاست کے اداروں اور لوگوں کے بیچ عدم اعتماد کی ایک وسیع خلیج موجود ہے۔ یہ عدم اعتماد مقامی سطح پر تنازعات کو بھی فروغ دے رہا ہے اور وسائل کی تباہی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایسے میں چند سوالات پر ریاست اور مقامی لوگوں کو غور کرکے کوئی اشتراکی راستہ تلاش کرنا چاہے۔
1۔ آیا کلّی طور پر مقامی لوگوں کو ملکیت دینے سے جنگلات کا بچاؤ بہتر طریقے سے ہوسکے گا؟ ماضی کی مثالیں جب یاغستان تھا اس کا جواب الٹ دیتے ہیں۔
2۔ آیا مقامی لوگوں کو ملکیت کے حقوق دینے کے بعد یہ لوگ تقسیم کے طریقہ کار کو بدل سکیں گے؟ کیا وہ ان لوگوں کو جنگلات میں حصّہ دیں گے جن کو رواج نامے نے ایسے کسی حق سے محروم کرکے رکھا ہے؟ اس کے لئے پورے دؤتری سسٹم کو ختم کرنا ہوگا جس کے لئے یہاں کے مقامی باشندوں کے کئی قبائل شاید کبھی تیار نہ ہوں۔
3۔ اسی طرح کیا مقامی طور پر ایسی ملکیت دینے سے مقامی لوگ خواتین کو بھی جنگلات میں شریعت کے مطابق حصّہ دے سکیں گے یا صرف قدیم نطام جو مرد (میل) فرد کے حساب سے طے ہے اور جس کی رو سے جس دؤتری خاندان کے زیادہ مرد ہیں وہ زیادہ حصّہ پائیں گے۔
4۔ کیا اس موجودہ نطام میں ایسے لوگوں کو مناسب حق ملتا ہے جن کے ہاں مرد اولاد نہیں ہے؟ یا ایسے گھرانوں کے مردوں کے گزرجانے کے بعد یہ حصّہ بھی ان کے ساتھ دفن ہوگا اور بیوہ کو کچھ نہیں ملے گا!
5۔ ماضی اور رویات سے رومانیت اپنی جگہ لیکن کیا مقامی لوگوں میں جنگلات کی اہمیت اور ان کی قیمت کے بارے میں نقدی (ٹون پیس/رائیلٹی/دھیمی) کے علاوہ کوئی آگاہی موجود ہے؟
6۔ سرکار جنگلات کی ملکیت لے کر بدلے میں مقامی افراد کو کیا دے گی؟ کیا سرکار یعنی ریاست کے اندر مزید شخصی اور ادارہ جاتی ریاستیں موجود نہیں کہ جن کو سرکار مختلف حیلے بہانوں سے نوازتی ہے؟ کیا سرکاری محکمے کلّی طور پر جنگلات اور ماحولیات کے بارے میں پوری طرح چوکس ہیں؟
7۔ کیا ہمارے ان ہی جنگلات سے سیاسی طور پر باثر افراد کو ٹمبر کی سمگلنگ سے روکا گیا ہے یا روکا جاسکتا ہے؟ کیا سرکار کے اندر کسی عہدہ دار کا کوئی رشتہ دار ڈی فیکٹو یعنی اصل حکمران نہیں بنتا؟
8۔ کیا سرکار سیّاحت کے بہانے جنگلات کے اندر نہیں گھستی اور وہاں مقامی ماحولیات کو تباہ نہیں کرتی؟
9۔ کیا سرکار نے جنگلات کے ترقیاتی فنڈ کو کبھی اسی جگہ کی ترقی کے لئے لگایا ہے جہاں سے یہ ٹمبر نکالا جاتا ہے؟
10۔ کیا کالام اور بحرین کے جنگلات سے ضبط شدّہ ٹمبر یہاں نیلام ہوتا ہے یا کہیں اور؟
11۔ کیا ان ہی جنگلات کی بدولت جو پانی کے ذخائر ہیں ان سے جنگلات کے بچاؤ کے لئے کوئی کام لیا جاتا ہے یعنی اتنی بجلی مفت پیدا کی جاتی ہے کہ مقامی لوگوں کو ایندھن کے لئے جنگلات نہ کاٹنے پڑے؟
12۔ کیا کوئی بندوبست بغیر کوئی سیاسی اثر کے ہوسکتا ہے؟ کیا ایسے کسی بندوبست میں مقامی طور پر بااثر افراد دخیل ہوکر اس کو اپنی طرف نہیں کرتے؟
جنگلات کے مالکانہ حقوق جدید ریاستی دور میں علامتی بن کے رہ جاتے ہیں کیوں کہ جدید ریاست کی مداخلت ریاست کی حدود کے اندر ہر جگہ آئینی و قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ ان حقوق کا مطالبہ بااختیار ہونے کا احساس ہے ورنہ کسی قوم یا گاؤں کو جنگلات کے مالک بنانے سے وہ کسی محکمے کو وہاں جانے سے نہیں روک سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو کالام اور اتروڑ وغیرہ میں محکمہ جنگلات کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ وہ موجود ہے اور اپنا کام کرتے ہیں۔ لوگ اب بھی روایتی طور پر خود کو ان جنگلات اور بانڈاجات کے مالک سمجھتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی قانونی شق کے ذریعے ان مقامی لوگوں کو مالک بنانے سے کون سا آسمان ٹوٹے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ بڑے اہم اور منظم ’جرگے‘ ہمارے ہاں صرف جنگلات سے متعلقہ معاملات بارے ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ایسا کوئی جرگہ اپنے ہاں تعلیمی اداروں، سڑکوں، صحت کی سہولیات، جنگلات اور ماحولیات کے بچاؤ، اپنی زبان و ثقافت کے تحفظ اور فروغ وغیرہ کے لئے بھی کیا ہے؟
فیس بک پر تبصرے