شدت پسندی اور ذکر تین ناولوں کا

748

شدت پسندوں کو واپس کیسے لایا جا سکتاہے؟ اس کے لیے جہاں اصحاب فکر و دانش غور و فکر کر رہے ہیں وہاں ہمیں ان افراد سے بھی اس سلسلہ میں مدد مل سکتی ہے جو کبھی شدت پسند رہ چکے۔

دہشت گردی کیسے جنم لیتی ہے؟کون سے عوامل ہیں جو انسان کو پرامن زندگی کے راستے سے ہٹا کر خطرے سے دوچار  انتہاپسندانہ  راہ   چلنے پرمجبور کرتے ہیں؟آئندہ   ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جن  کی بدولت نئے لوگوں کو یہ پرخطر راستہ اختیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے تاکہ وہ خود بھی پرامن زندگی گزاریں اور سماج  اور ملک  بھی بدامنی  کے عفریت سے نجات حاصل کر سکے؟ یہ وہ  اہم سوالات ہیں  جو دانشور وں  اور مفکر ین  سے بڑھ کر اب عام آدمی  کی بھی سوچ  کا محور بن چکے ہیں ۔

 دنیا بھر میں بہت سے تھینک ٹینک   ہیں جن کی طرف سے اس موضوع پر نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں جو کہ انتہائی اہم  ہیں اور ان کے مطابق عملی اقدامات اٹھا کر  مستقبل میں اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ان تمام کوششوں کی افادیت اپنی جگہ،لیکن اس سب کے باوجود  مسئلہ کا فوری حل کچھ اور اقدامات  کا بھی تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ  کہ  جو نوجوان   کسی بھی طرح  انتہا پسندی کے چنگل میں  پھنس چکے ہیں  اور   دہشت گرد گروہوں   کے ساتھ مل  گئے ہیں  انہیں  کس طرح واپس لایا جائے؟ تاکہ  وہ  بھی تخریبی کاروائیوں سے تائب ہو کر ملک اور سماج کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں، بصورت دیگر عربی شاعر کے بقول : وہ عمارت کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی جس کی ایک طرف سے تعمیر ہو رہی ہو  اور وسری طرف   سے اسے منہدم کیا جا رہا ہو

مَتى يَبلُغ البُنيانُ يَوماً تَمامَه ** اِذا كُنت تَبنيهِ وَغَيرك يَهدِم

اگر ہم       بھٹک جانے والے نوجوانوں   کی واپسی کی راہ تلاش کیے بغیرصرف دہشت گردی  کی طرف لے جانے والے عوامل  پر فوکس کر کے   یہ سمجھ نے لگیں کہ   ہمارا مستقبل  دہشتگردی  اور شدت پسندی سے پاک  ہو  گاتو   مستقبل کے بارے میں شاید ہم  کوئی  پیش گوئی  نہ کر سکیں  لیکن  اتنی بات یقینی ہے کہ ہمارا حال  ایسے ہی بے حال  رہے گا،ہمیں مستقبل  میں دہشتگردی کی روک تھام کے اقدامات کے ساتھ اپنے حال کو بھی سنوارنا ہو گا تاکہ ہم اپنا مستقبل جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند  نسل کے حوالے کر سکیں۔

شدت پسندوں کو  واپس کیسے لایا جا سکتاہے؟ اس کے   لیے جہاں اصحاب فکر و دانش  غور و فکر کر رہے ہیں وہاں  ہمیں ان  افراد سے بھی  اس سلسلہ  میں مدد مل سکتی ہے  جو کبھی شدت پسند رہ چکے مگر اب وہ  پر امن زندگی گزار رہے ہیں،ایسے لوگوں سے مکالمہ  کر کے  ان سے واپسی کا راستہ  اختیار کرنے کے اسباب کا پتہ لگایا جا سکتا ہے،اس  کی حالیہ مثال   نو مسلم امریکی  شہری جیسی مارٹن  (اسلامی نام “یونس”) کی   ہے جس نے شدت پسندوں کے ہاتھوں  اسلام قبول  کرنے  کے بعد متعدد  لوگوں کو    شدت پسندی کے اس راستے پر ڈالنے کے باوجود   سافٹ اسلام کی طرف واپسی کر  لی ہے اور  انتہا پسندی سے تائب ہو گیا ہے، نیویارک ٹائمز کے مطابق  امریکی تھینک ٹینک    نے جیسی مارٹن   کے ذریعے دیگر شدت پسندوں کو  بھی واپس لانے کا کام شروع کر دیا ہے  جس سے خاطر  خواہ کامیابی مل رہی ہے۔

شدت پسندی کے موضوع پر  گذشتہ چندبرسوں میں  عرب دنیا میں متعدد ناول بھی  شائع ہوئے ہیں  جن میں لیلی اطرش کا “رغبات ذاک الخریف” (خزاں کی خواہش) ، جمال ناجی کا  “موسم الحوریات” (حوروں کا سیزن) اور احمد  طراونہ کا “خبز و شای”(روٹی اور چائے)  قابل ذکر ہیں۔

لیلی اطرش نے   (خزاں کی خواہش) میں  تین کرداروں “انجینئر ابو التین،  غیث  اور زیاد ” کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ  وہ کیا عوامل ہیں جو کسی نارمل انسان کو شدت پسند،تکفیری اور دہشت گرد بنا دیتے ہیں جبکہ “ابو محمود” دہشت گردی ، اور  شدت پسندی سے پاک  ایک نارمل انسان  کے طور پر پیش کیا ہے۔

(حوروں کا سیزن) میں جمال ناجی نے    کسی بھی دہشتگردکی ابتدائی معمولی  کاروائیوں سے لے کر   بڑی کاروائیوں تک کا جائزہ لیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ  دہشتگردی  کروانے والے کا مقصد  پیسہ  بڑھانا اور دنیا  کو ہی جنت بنانے اور ارضی حوروں سے لطف اندوز ہونے کا  خواب ہوتا ہے جیسا کہ داعش کے سرکردہ رہنماؤں کا عمل ہے اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے والے غریب کو حور و غلمان کا لالچ دے کر  ایسے اقدامات پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

جبکہ  احمد طراونہ  نے    رواں برس  شائع ہونے والے اپنے ناول  (روٹی اور چائے)میں ایک ایسے شدت پسند کا تذکرہ کیا ہے جس پر اسے استعمال کرنے والوں کے مکروہ عزائم اور دھوکہ دہی واضح ہو گئی تھی،   شدت  پسند ابو وئام الکرکی نے موقع پاتے ہی واپسی کی راہ لی اور    بم  و بارود،اور خون  و لاشوں سے پاک ایسے جہاد کی نیت کی جس کی بدولت اس کے ماں باپ اور بیوی بچوں کو سکون ملے،ان کا معیار زندگی بلند ہو اور وہ دنیا کی تخریب کی بجائے اس کی تعمیر  میں حصہ لے۔

اس نوعیت کے  علمی  و تصنیفی کام کی ہمارے ہاں بھی  ضرورت  ہے ، سردست  مغرب اور عرب دنیا میں ہونے والے  کام  کا ترجمہ کر کے بھی اس ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے،کیا ہمارے  اصحاب فکر ودانش  اس جانب بھی توجہ دیں گے؟   یا  ہمیں پرامن   زندگی کے خواب سے  بھی دستبردار ہونا پڑے گا؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...