دم توڑتی اُمیدیں
یوم آزادی کے موقع پر منعقد کی جانے والی سرکاری تقریب کے اندر رقص کی پرفارمنس پر مذہبی عناصر اور معاشرے کے کچھ طبقات کی جانب سے کافی مذمت کی گئی اور اس عمل کو شرمناک اور نظریہ پاکستان کے خلاف قرار دیا گیا۔ انہوں نے 14 اگست کی سالانہ تقریبات کے دوران اس طرح کے ’قابل اعتراض اقدامات‘ کی اجازت دینے پر حکومت پر سخت تنقید کی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آزادیِ اظہار مولویوں سمیت تمام پاکستانی شہریوں کا جمہوری حق ہے۔ لیکن یہ ردعمل بہرحال ایک تلخ تضاد کی عکاسی کرتا ہے جسے ریاست اور سماج آزدی کے 75 برس بعد بھی دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس تضاد کا تعلق قومی شناخت کے ایک مبہم احساس سے ہے، جو نہ صرف سیاست اور سماجی ہم آہنگی بلکہ ریاستی ڈھانچے اور ریاستی اداروں کے رویے میں بھی بری طرح منعکس نظر آتا ہے۔
عام پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ وہ ماڈرن تو ہو مگر مخصوص مذہبی ڈھانچے کے اندر رہ کر۔ ایسی منفرد شہریت کو عملاً نہ تو ریاست ممکن بنا سکتی ہے نہ مذہبی طبقہ اس کو زمینی تعبیر دے سکتا ہے۔ نتیجتاً مذہب طاقتور عناصر کا ایک آلہ کار بن گیا ہے۔ مذہبی اشرافیہ اور سول سوسائٹی نے مذہبیت اور لبرل ازم کی مختلف شکلوں سے متاثر ہو کر الگ الگ موقف اختیار کیے ہیں۔ آج ریاست اور سماج دونوں کے سامنے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کی قومیت سے جڑے مباحث میں شناخت کے مختلف تصورات کو کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔
شاید ایسے معاشروں میں مذہب کا استعمال کوئی انوکھا معاملہ نہیں کہ جہاں مقتدر اشرافیہ انتخابی عمل یا آمریت کی کسی بھی شکل کے ذریعے ریاستی نظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔ تاہم، پاکستان میں مقتدر اشرافیہ کی طرف سے مذہب کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے سماجی زوال کو جنم دیا ہے، جس کے باعث ایسے دائمی بحران ابھرے ہیں جن کا ریاست آج شکار ہے۔ ایک طرف، تمام معاشی، سماجی اور سیاسی اشاریے تنزلی کی طرف مائل ہیں تو دوسری طرف ملک میں مذہبی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ بحران کا اصل شکار نوجوان ہیں، جو الجھن کا شکار ہیں اور پڑوسی ممالک کے مقابلے میں ان کے پاس آگے بڑھنے کے لیے مواقع اور صلاحیتیں نہایت کم اور محدود ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے لیے جمہوریت محض ایک نعرہ ہے، حقیقت میں ان کے اندر جمہوری عمل کا فقدان ہے اور جمہوریت میں جو بھی خامیاں نظر آتی ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
پاکستان بین الاقوامی جمہوری درجہ بندی میں 123 ویں نمبر پر آتا ہے، یعنی کہ افغانستان سے صرف دو درجے بہتر ہے، اور نظام کے اعتبار سے اس کا شمار ہائبرڈ حکومتوں میں ہوتا ہے۔ ’فریڈم ہاؤس‘ کی تازہ ترین درجہ بندی کے مطابق، پاکستان حقِ آزادی کی فراہمی کے لحاظ سے نیچے سے 37ویں نمبر پر ہے، جبکہ سیاسی اور شہری حقوق کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ ’فنڈ فار پیس‘ کے موجودہ اشاریوں کے مطابق، پاکستان رفتہ رفتہ کمزور ترین ریاستوں کے فہرست کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس سب سے معیشت، سیاست اور سماجی ہم آہنگی کے حوالوں سے ابتری ظاہر ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کے اندر دو رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے: آبادیاتی دباؤ اور اس سے جڑے مسائل، اور دوسرا، اپنے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے اشرافیہ کا اتحاد۔ عام آدمی مقتدر اشرافیہ کے اس اتحاد کی قیمت چکا رہا ہے، کیونکہ معاشی عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے بربنا ریاست اپنی قانونی حیثیت کھو رہی ہے۔ اس صورتحال کا ایک نتیجہ سرمایے کی باہر منتقلی اور ہنرمند و تعلیم یافتہ افراد کی ملک سے ہجرت کی صورت بھی نکل رہا ہے۔
نہ ملک کے بانیوں اور نہ ہی نظریہ پاکستان کے حامیوں نے کبھی سوچا ہوگا کہ آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کے سال ان کا پیارا وطن ایسے بحران سے دوچار ہوگا۔ مستقبل کے بارے اب اشرافیہ میں بھی پرامیدی نظر نہیں آتی، اورعام شہری کے لیے مذہب ہی ایک پناہ گاہ بن گیا ہے۔ اشرافیہ کے لیے آسان راہ یہ ہے کہ مذہبی تعلیم اور نظریاتی تربیت کے ذریعے معاشرے کو ’ہم آہنگ‘ رکھا جائے۔ تعلیمی نصاب سخت گیر ہیں، اور سکول کا نظام تنقیدی شعور کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ نتیجتاً تعلیم یافتہ نوجوان بھی واضح اور عقلی انداز میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے لیے جمہوریت محض ایک نعرہ ہے
’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز‘ کی طرف سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے زاویہِ فکر کا جائزہ لینے کے لیے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ان ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت پاکستان کے لیے موزوں ترین نظام ہے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ملک میں سابقہ آمریتیں مجاز تھیں۔
یہ ایک اجتماعی ناکامی ہے اور اس زوال کی ذمہ داری تمام اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ بظاہر ہر ادارے کے پاس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے بارے میں آئیڈیاز ہیں لیکن انہیں عملی جامہ پہنانے کی قوت ارادی اور صلاحیت کا فقدان ہے۔ صرف رواں ماہ کے دوران، کتنے ہی مقالات اور مضامین ان محرکات و اسباب کی نشاندہی کے حوالے سے شائع ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ریاست میں ان خرابیوں نے جنم لیا ہے، دانشور اور ماہرینِ معاشی و سیاسی استحکام کو بہتر بنانے کے لیے، متوازن جیوسٹریٹیجک نقطہ نظر اپنانے اور تعلیم و گورننس میں اصلاحات کے نفاذ کے لیے حل تجویز کررہے ہیں۔ یہ سب سفارشات قیمتی اور عمدہ ہیں، لیکن سب سے بڑا چیلنج یہ ہے: عملدرآمد کے لیے کون پہل کرے گا؟
یہ نہ صرف بیانیوں کا دور ہے جو ذہنوں اور ریاستی پالیسیوں کو متاثر کرتا ہے، بلکہ یہ وہ وقت بھی ہے جب بیانیوں کا تصادم مکالمے کی ضرورت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی معیشت اور سیاست سے لے کر کر انتہا پسندی تک کے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے مکالمہ یا کوئی منشور تجویز کرتے ہیں، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، کیونکہ اس کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس مکالمے کا حصہ کون ہوگا اور اس کی شروعات کون کرے گا؟ سینیٹر رضا ربانی نے سول عسکری عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے اداروں کے مابین مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ لیکن ایک مضبوط ادارہ کمزور اسٹیک ہولڈر سے مساوی شرائط پر بات کیوں کرے گا؟ خاص طور پر اس وقت کہ جب پوری سیاسی قیادت اطاعت گزار رہنے میں ہی خوش ہو؟
شاید سیاسی جماعتوں کو خود ہی آپس میں بات چیت کا آغاز کرنا پڑے گا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی ایک ماڈل ہے اور اسی طرز پر تمام بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی اشتراک کے بنیادی فریم ورک پر فیصلہ کرنے اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کے لیے بات چیت شروع کر سکتی ہیں۔ سیاسی عناصر کو اپنے سیاسی ڈھانچے کی اصلاح کرنے، انہیں جمہوری اور تکثیریت پسند بنانے اور اپنے تمام اختلافات کو حل کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ’نیوٹرلز‘ کو نقطہ نظر بدلنے کی دعوت دینے کے بجائے، عمران خان کو اس سمت میں قدم اٹھانا چاہیے۔ میاں نواز شریف خود میثاق جمہوریت کے معمار ہیں، اور جمہوریت کا مقام بلاول بھٹو زرداری سے بہتر کون جانتا ہے؟
جماعتوں کے درمیان مکالمہ ضروری ہے لیکن ریاست اور سماج کو بھی قومی منظرنامہ تبدیل کرنے کے لیے ایک منشور کی ضرورت ہے جو معتدل اور قابل قبول ہو، اور یہ دنیا کے لیے نہیں بلکہ ہمارے اپنے لیے۔ اس سے ملک ایک ایسی سرزمین بن جائے گا جہاں کمزور خود کو محفوظ تصور کرے، جبکہ طاقتور اپنی طاقت، مذہب یا عددی قوت کا غلط استعمال نہ کرے۔
بشکریہ: روزنامہ ڈان، مترجم: شفیق منصور
فیس بک پر تبصرے