پاکستان کا سیاسی کلچر اور وفاقی ڈھانچہ

1,610

پاکستان کے سیاسی کلچر میں گزشتہ چالیس برسوں میں زبردست تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ماضی کی نظریاتی سیاست (وہ جیسی بھی کمزور، مجہول یا مضبوط تھی) اب قصہِ پارینہ ہوچکی۔ سیاسی جماعتیں اب نظریوں سے زیادہ ایسے پروگراموں، منشوروں اور نعروں کے گرد اپنی سیاست استوار کرتی ہیں جن کے ذریعے وہ رائے عامہ کو یقین دلاسکیں کہ وہ برسرِ اقتدار آکر اُن کے فوری معاشی مسائل کو حل کروائیں گی۔ سیاسی جماعتیں اب سڑکیں بنانے، بجلی کی فراہمی، کروڑوں کی تعداد میں درختوں کو اگانے اور ایسے ہی دوسرے وعدوں کے ساتھ میدان میں اُترتی ہیں۔ اقتصادی میدان میں کوئی بڑا پروگرام سیاسی جماعتوں کے پیشِ نظر نہیں ہے، نہ کوئی زرعی اصلاحات کی بات کرتا ہے، نہ صنعتی انقلاب اور صنعتی تہذیب کی۔ فلاحی ریاست کا بہت ذکر ہوتا ہے مگر فلاحی ریاست سے مراد لی جاتی ہے لنگر خانے یا روزانہ کی بنیاد پر اور ’پہلے آئیں پہلے پائیں‘ کے تحت فراہم کیے جانے والے بستر جو ملک میں ایک دو شہروں میں قائم کی جانے والی پناہ گاہوں میں دستیاب ہوتے ہیں اور جن کے سہارے غریب غربا شب گزاری کرسکتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اپنے حلقے میں بنیادی سہولتوں سے متعلق وعدوں پر اپنی مہم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ انتخابات میں برادریاں، ذاتیں، اور مسلک ووٹ حاصل کرنے کے لیے وسیلے کے طور پہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب مختلف حلقوں میں اُن نودولتیوں کی کارفرمائی بھی ایک حقیقت بن چکی ہے جو جائز اور ناجائز ذرائع سے دولت کماتے ہیں۔ بعض کے پاس جمع ہونے والی دولت اگر ناکافی ہو تو ایسے مافیاز موجود ہیں جن سے وہ اپنی انتخابی مہم میں سرمایہ کاری کرا سکتے ہیں اور اس سب کے ذریعے ان کی اسمبلیوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔

اس سیاسی کلچر میں اب نظریوں اور اعلی آدرشوں کا کہیں گزر نہیں ہوتا۔ ریاست اپنے کردار میں کتنی جمہوری ہے؟ شہریوں کے بنیادی حقوق ان کو مل رہے ہیں یا نہیں؟ پارلیمان مقتدر ہے یا نہیں؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ ہماری تعلیم وصحت کتنی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہیں یا ہونی چاہئیں؟ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی دس بیس سال بعد کہاں پہنچ چکی ہوگی؟ مستقبل کی ضروریات کے پیشِ نظر ہماری زراعت اور صنعت اور ہماری پیداواری صلاحیتوں کا امکان کیا ہے؟ کشمیر کے ساتھ ہمیں کیا کرنا ہے؟ جنوبی ایشیا میں ہم کس قسم کا مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں؟ اور اگر وہ کوئی پرامن اور مثبت مستقبل ہے تو اس کے لیے ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے؟ یہ اور ایسے ہی امور اب ہماری سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں، نیز ہماری اسمبلیوں میں زیربحث نہیں آتے۔

صورتحال یہ ہے کہ اب ہمیں دوردور تک ایسے سیاستدان نظر نہیں آتے جن کی گفتگو میں کبھی کسی کتاب کا یا باہر کے کسی تھنک ٹینک کی رپورٹ کا ذکر آتا ہو۔ اسمبلیوں کے اجلاسوں کی رُودادیں پڑھ ڈالیں، کہیں کسی کی تقریر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے اہل سیاست اور عوامی نمائندے سیاسی ادب کے مطالعے کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست کا پورا سیاسی بیانیہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، مخالفین کی کردار کشی اور ایک دوسرے کو بے ایمان ثابت کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر سیاستدانوں کی گفتگو کچھ سنجیدہ ہوتی ہے تو اس کا طور بھی چند معاشی آسائشوں کے بلندبانگ وعدوں اور صارفانہ معیشت میں بہتر طور پر جذب ہونے کی تجاویز تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ معاشرے میں ایک ایسی آبادی وجود رکھتی ہے جو سیاسی حقوق اور خودمختاری سے زیادہ روزمرہ کی معاشی استعداد سے آگے دیکھنے کی روادار نہیں ہے۔ یہ وہ کیفت ہے جسے معاشرے کا غیرسیاسی بنا دیا جانا یا Depoliticization کہا جاسکتا ہے۔ معاشرے کو غیرسایسی بنانے کا عمل جنرل ضیاءالحق کی فوجی آمریت کے دور میں بڑے غوروخوض کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ طلبہ انجمنوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ٹریڈ یونینزم کے راستے مسدود کردیے گئے تھے۔ من پسند سیاستدانوں پر مشتمل مجلس شوری بنائی گئی تھی۔ بعدازاں غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات کرواکر ایسی قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں لائی گئی تھیں جو جمہوری جوہر سے محروم تھیں اور مصلحت اور مصالحت کی سیاست کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتی تھیں۔

جنرل ضیاءالحق کی فوجی آمریت نے ریاست اور معاشرے کو غیرسیاسی اور غیرجمہوری بنانے کے حوالے سے مذہب کا جس بے دریغ انداز میں استعمال کیا اس کے اثرات آنے والے عشروں تک پھیلتے چلے گئے۔ ایک طرف ملک کے اندر اسلامائزیشن کے نام پر ایسے اقدامات کیے گئے جو مسلکی اختلافات اور مذہبی شدت پسندی پر منتج ہوئے اور جن کے نتیجے میں معاشرہ جو پہلے ہی تقسیم کا شکار تھا مزید انتشار کا مرکز بنا۔ دوسری طرف امریکا اور مغربی بلاک کے ایما پر پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں اس طرح الجھا دیا گیا جس کا کوئی مثبت نتیجہ پاکستان کے حق میں نہیں نکلا بلکہ جہاد کے نام سے شروع کی جانے والی مہم خود پاکستان کے لیے غیرمعمولی طور پہ نقصان دہ ثابت ہوئی۔ پاکستان میں مذہبی تنظیموں میں عسکریت پسندی کا رجحان ہوا۔ مذہبی اشرافیہ کو پیسے کی ریل پیل کا تجربہ ہوا تو مختلف النوع بدعنوانیاں ان کے حلقوں میں بھی راہ پانے لگیں۔ للہیت اور فقرواستغنا کی زندگی گزارنے والوں کے پنج ستارہ ہوٹلوں کے آرام وآسائش سے واقفیت ہوئی تو ان کا سماجی کردار اور رویے تبدیل ہونے لگے۔ آج بعض مذہبی سیاسی جماعتیں پوری پوری ریاستیں بنائے بیٹھی ہیں۔ مذہبی رسائل وجرائد میں تیس چالیس سال قبل تک کتابوں کے اشتہار چھپتے تھے، بعض حکیم ان مطبوعات کے ذریعے اپنی ادویات کو مشتہر کرتے، کبھی چندوں اور ایثار کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لیے ایثار کی اپیلیں کی جاتی تھیں، اب ان رسائل میں پلاٹوں، فلیٹوں، مکانوں اور رہائشی منصوبوں کے دلفریب اشتہار جگہ پاتے ہیں۔ اسلامی ریاست یا اسلامک اسٹیٹ اب ریئل اسٹیٹ کے راستے سے قائم ہوتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ تین چار عشروں میں ملک بھر میں بیرونی ساختہ اسلحہ شہر شہر، گاؤوں گاؤں پھیلتا چلا گیا۔ ہیروئن جس کا کوئی وجود پہلے پاکستان میں نہیں تھا وہ گلی محلوں میں دستیاب ہونے لگی۔

1980ء کے عشرے کے اواخر میں 17 اگست 1988ء کوجنرل ضیاءالحق توایک فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئے لیکن ان کا تراشیدہ پاکستان ہنوز برقرار ہے۔ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا تحریک پاکستان کے زمانے میں خواب دیکھا گیا اور جس کے جمہوری اور وفاقی کردار کو آزادی سے قبل ہی مضبوط دلائل کے ساتھ اجاگر کردیا گیا تھا۔ گزشتہ چار عشروں میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے بعد گیارہ سال سویلین حکومتیں برسرِاقتدار رہیں لیکن ان پر ضیاءالحق کے زمانے کی آٹھویں ترمیم اور اس ترمیم کی شق b(2)58 کی تلوار لٹکتی رہی۔ اس شق کی رُو سے صدر اپنی صوابدبد پر قومی اسمبلی کوتحلیل کرسکتا تھا۔ دو مرتبہ یہ تلوار بے نظیر بھٹو کی حکومت پر چلی اور ایک مرتبہ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ(ن) کی حکومت پر، اور پھر جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اشتراکِ فکر کے نتیجے میں دستور میں تیرھویں ترمیم کے ذریعے مذکورہ شق کو ختم کردیا گیا تو کچھ ہی عرصے بعد ملک کی چوتھی فوجی آمریت 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نوازشریف کی حکومت کو ختم کرکے طلوع ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں اسمبلیوں کے انتخابات کروائے اور پھر پارلیمان سے سترھویں ترمیم منظور کرائی جس کے ذریعے b(2)58 ایک مرتبہ پھر کتابِ دستور کا حصہ بن گئی۔ اگر ضیاءالحق نے اسمبلی کو بلیک میل کرتے ہوئے آٹھویں ترمیم یہ کہہ کر منظور کروائی تھی کہ اس کی منظوری کے بعد ہی وہ مارشل لاء ہٹائیں گے تو جنرل مشرف نے بھی پارلیمنٹ کو بلیک میل کرتے ہوئے b(2)58 کو دوبارہ دستور میں یہ کہہ کر شامل کرایا کہ اس شمولیت کے بعد ہی وہ فوجی وردی اتاریں گے۔ b(2)58 سے گلوخلاصی اس وقت حاصل ہوئی جب جنرل مشرف کے رخصت ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر موجود سب جماعتوں کے اتفاق سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس میں مذکورہ شق بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2008ء میں جو سویلین حکومت قائم ہوئی وہ اس کے بعد 2013ء میں منتخب ہونے والی حکومت صدر کی طرف سے اسمبلیوں کے تحلیل کردیے جانے والے خطرے سے تو آزاد رہیں لیکن ان دونوں ادوار میں وزرائے اعظم کو ایک نئی صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔ 2007ء کے بعد سے عدلیہ کی فعالیت (judicial activism) کا رجحان شروع ہوا۔ اس رجحان ہی کے زیراثر 2008ء کے بعد پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو مستعفی ہونا پڑا۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم میاں نوازشریف بھی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہوئے۔ دونوں مواقع پر یہ سوال بھی سامنے آیا کہ عدالتیں واقعی اتنے بڑے فیصلے کرنے کی اہل بن چکی ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ خود عدالتیں بھی کسی نہ کسی کے دباؤ کے تحت یہ بڑے فیصلے کر رہی تھیں۔ سیاسی منظرنامہ 2018ء کے انتخابات کے بعد کچھ اور حقائق کا حامل بنا۔ اب ایک ایسی حکومت برسراقتدار آئی جس کی سیاسی بنیادیں کمزور اور پارلیمان میں اس کی اکثریت چند حلیفوں کے تعاون کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ڈھیلی ڈھالی مخلوط حکومت ہے جس کو جوڑ کر رکھنے کا کام بھی پشت پناہی کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر ہے۔

b(2)58 سے گلوخلاصی اس وقت حاصل ہوئی جب جنرل مشرف کے رخصت ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر موجود سب جماعتوں کے اتفاق سے اٹھارویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس میں مذکورہ شق بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن 2007ء کے بعد سے عدلیہ کی فعالیت (judicial activism) کا رجحان شروع ہوگیا۔

1980ء کے عشرے کے بعد پاکستان کا وفاقی نظام بھی کئی اتار چڑھاؤ سے گزرا۔ جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں جو مجموعی طور پر اُنیس سال کی مدت پر پھیلے ہوئے تھے آئین کی وفاقی روح مسلسل مجروح کی جاتی رہی۔ نہ نیشنل فنانس کمیشن کے ایوارڈ وقت پر آئے اور نہ ہی کونسل آف کامن انٹرسٹس کے اجلاس وقت پر منعقد ہوسکے۔ اُنیس سال کی طویل مدت میں کونسل کے بمشکل ایک یا دو اجلاس ہوئے جبکہ یہ ادارہ آئین کے وفاقی نقشے میں کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ اس پورے عرصے میں صوبے ماضی کی طرح مرکز کے مرہونِ منت اور مرکزی فیصلوں کے پابند رہے۔ چنانچہ صوبوں سے مزاحمت اور احتجاج کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہیں۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کی روش کے عین مطابق صوبائی خومختاری کی آوازوں کو بزور دبانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں سندھ میں فوجی آپریشن ہوا اور جنرل مشرف کے زمانے میں بلوچستان، جو ماضی میں بھی کئی مرتبہ فوجی آپرپیشن دیکھ چکا تھا، ایک مرتبہ پھر فوجی آپریشن کی زد میں آیا۔ اسی زمانے میں صوبہ سرحد میں بھی مختلف عنوانات سے فوجی آپریشن کیے جاتے رہے۔

2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم نے وفاقی منظرنامے میں ایک نوعی تبدیلی متعارف کروائی۔ وفاقی نظام میں متعارف ہونے والی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً تین اور باتوں کا بھی اعادہ کرلیا جائے۔ 1973ء کا آئین بنتے وقت صوبائی خودمختاری کا دائرہ بہت محدود رکھا گیا تھا اور اس کا سبب یہ بتایا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک جس بحران سے گزر رہا ہے اُس کے پیش نظر ایک شدید قسم کے مرکزیت پسندانہ نظام کو فوری طور پر کسی بڑی عدم مرکزیت کی طرف نہیں لے جایا جاسکتا۔ اُس وقت جناب ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کے چند سرکردہ رہنماؤں سے وعدہ کیا تھا کہ دس سال بعد آئین کے وفاقی ڈھانچے کو عدم مرکزیت کی طرف مائل کیا جائے گا اور اس سلسلے میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی تھی کہ دس سال بعد آئین میں درج مشترک مضامین کی فہرست (Concurrent List) ختم کردی جائے گی۔ اس کتاب کا ذکر موجودہ کتاب میں شامل عبدالحفیظ پیرزادہ کے انٹرویو میں بھی ہوا ہے۔ ایک اور موقع پر بلوچستان کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو نے بھی راقم السطور کے ساتھ اپنے انٹرویو میں اس بات کا ذکر کیا تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ 1981ء میں جب تحریک بحالیِ جمہوریت (ایم آر ڈی) وجود میں آئی تو اس نے بھی صوبائی خودمختاری کو اپنا ایک بنیادی نکتہ قرار دیا۔ 2006ء میں لندن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے درمیان جس چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوئے اس میں صوبوں کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور ان کے اختیارات میں اضافے کے نکات شامل تھے۔ اس پس منظر میں 2008ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی پارلیمنٹ نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے مشورے پر ایک آئینی کمیٹی تشکیل دی جس نے دستور میں دور رس اہمیت کی حامل ترامیم کا ایک پیکج تیار کیا جو پارلیمنٹ کی منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد اٹھارویں آئینی ترمیم کے نام سے کتابِ دستور کا حصہ بنا۔ اس ترمیم کے تحت آئین کے مشترکہ موضوعات پر مشتمل فہرست ختم کردی گئی اور اس میں شامل زیادہ تر مضامین صوبوں کو منتقل کردیے گئے۔ صوبوں کے مالی وسائل میں بھی اضافہ کیا گیا۔ ترمیم کی رُو سے قرار پایا کہ کسی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو جو حصہ دیا جائے گا آئندہ کے ایوارڈز میں وہ حصہ یا تو برقرار رہے گا یا اس میں اضافہ ہوگا لیکن اس کو پچھلے ایوارڈ میں دیے گئے حصے سے کسی طور کم نہیں کیا جائے گا۔ یہی نہیں بلکہ صوبوں کے معدنی اور ساحلی وسائل کی ملکیت مرکز اور متعلقہ صوبے میں برابر رکھی گئی۔ ترمیم کے نتیجے میں مشترکہ مفادات کونسل کو زیادہ بااختیار بنایا گیا ۔ اس کو پالیسی سازی کے علاوہ پالیسیوں پر عملدرآمد پر نظر رکھنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ یہ اور ایسے کئی اہم فیصلوں نے پاکستان کے 1973ء کے آئین کے وفاقی نظام کو جوکہ بڑی حد تک ایک کاغذی یا نامیاتی وفاقیت (Organic Federalism) کی حیثیت رکھتا تھا، معاون وفاقیت(Cooperative Federalism) کی شکل میں ڈھال دیا۔ یہ خاصی امید افزا بات تھی۔ گو صوبائی خودمختاری کو مستحکم کرنے اور اس کے دائرہ کار کو مزید بڑھانے کے مزید امکانات بھی موجود تھے اور اس حوالے سے چھوٹے صوبوں کی طرف سے مطالبات بھی سامنے آتے رہے تھے، مگر اٹھارویں ترمیم نے جتنا کچھ صوبوں کی طرف منتقل کیا وہ آئین کی اس وقت تک کی شدید مرکزیت پسندی کے مقابلے میں صوبوں کے اعتماد اور ان کے اطمینان کا خاطرخواہ سامان فراہم کرتا تھا۔

اب جبکہ اٹھارویں ترمیم کو منظور ہوئے دس سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں صوبے کس حد تک بااختیار بنے ہیں اور عوام کے حصے میں اس ترمیم کے نتیجے میں کتنی خوشحالی اور اطمینان آیا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ اٹھارویں ترمیم جن ارادوں کے ساتھ متعارف ہوئی تھی نتائج کا حصول ان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ گوکہ بعض شعبوں میں صوبوں کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے لیکن وہ جو ایک خیال تھا کہ صوبوں کے بیشتر مسائل اختیارات ان کی طرف منتقل ہونے سے حل ہوجائیں گے وہ خیال اب اتنا قرینِ حقیقت نظر نہیں آتا۔ اب اس بات کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ صوبوں نے خودمختاری کے نئے پیکج کو بھرپور طور پر روبہ کار لانے میں تساہل کا مظاہرہ بھی کیا۔ بعض صورتوں میں صوبوں میں استعداد کی بھی کمی تھی جس کو بہرحال پورا کیا جاسکتا تھا بشرطیکہ اس کے لیے عزم اور ارادہ موجود ہوتا۔ آئین کے اندر اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی اصلاح کے اقدام کے دس سال بعد اگر ان پچھلے دس سالوں میں مرکز اور صوبوں کی کارکردگی اور وفاقی آئینی اداروں کے کام کرنے کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو اٹھارویں ترمیم میں دی گئی خودمختاری کی راہ میں جو دو سب سے بڑی رکاوٹیں نظر آتی ہیں وہ ایک طرف مرکز کے اداروں، وزارتوں اور مرکز میں کارفرما سیاسی وغیرسیاسی افراد کا مرکزیت پسند مائنڈسیٹ تھا جو ماضی کی ڈگر سے ہٹنے پر بالکل آمادہ نہیں تھا اور جس نے اٹھارویں ترمیم کو مجبوراً قبول کیا تھا۔ ہماری ریاست کے مقتدر ادارے شروع سے ہی اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے سخت تحفظات رکھتے تھے۔ اُس وقت تو انہوں نے اس ترمیم کو ہوجانے دیا یا زیادہ کھل کر اس کی مخالفت نہیں کی، مگر بعد میں انہوں نے اس پر کبھی دبے لفظوں میں اور کبھی کھلم کھلا تنقید کی اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ دوسری طر ف صوبوں کی وہ قیادتیں تھیں جنہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور تو کروالی تھی لیکن یا تو ان میں صوبائی خودمختاری کے لیے حقیقی عزم وارادہ (political will) اور جوش وخروش موجود نہیں تھا یا وہ عدم مرکزیت کو صرف اس حد تک ضروری سمجھتے تھے کہ مرکز کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوجائیں لیکن وہ ان اختیارات کے کسی حصے کو صوبوں سے نچلی سطح پر یعنی مقامی اداروں (Local Bodies) کی طرف منتقل کرنے کے لیے ذہنی اور عملی دونوں لحاظ سے تیار نہیں تھے۔ دسرے لفظوں میں یہ بھی ایک مرکزیت پسندانہ سوچ ہی تھی کہ اختیارات کو اپنی سطح سے نیچے منتقل نہیں ہونے دیا جائے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستانی ریاست کے اندر عسکری اور انتظامی افسرشاہی کے کردار میں کیا کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ کردار کم ہونے کی بجائے ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور سول اور عسکری عدم توازن بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ریاستی اقتدار کے روایتی طور پر دونوں بڑے حصے داروں میں سے فوج اب بیوروکریسی سے زیادہ طاقتور قرار پائی ہے لیکن سول اشرافیہ کے مقابلے میں ان دونوں اداروں کی بالادست حیثیت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

(زیرِنظر اقتباس ڈاکٹر سید جعفر احمد کی کتاب ’کنفیڈریشن، راہِ نجات یا راہِ فرار‘ کی اشاعتِ دوم کے پیش لفظ سے لیا گیا ہے۔)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...