عالمگیریت ،انگریزی کا نیا عالمی کرداراور اردو(آخری حصہ)
اردو میں روشن خیالی ، لبرل پسندی ،تکثیریت ،کثیر الثقافتیت ،مابعد جدیدیت جیسے الفاظ نہ صرف گالی کا درجہ اختیار کرتے جارہے ہیں،بلکہ ان میں یقین رکھنے والے اردو ادیب ’سماجی خوف‘ کا شکار بھی ہورہے ہیں،جو ’سرکاری خوف‘ سے کہیں زیادہ ہیبت ناک ہے۔
گلوبلائزیشن اپنے جواز، استحکام ،تشہیر اور کرہ ارض کے کونے کونے تک رسائی کے لیے ایک عالمی زبان کو ناگزیر سمجھتی ہے۔اس مقصد کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا کی کوئی سات ہزار کے قریب زبانیں ہیں۔گلوبلائزیشن ان سب زبانوں میں خود کو منتقل کرنے کی مشقت نہیں اٹھانا چاہتی۔چناں چہ وہ ایک عالمی زبان کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرتی ہے،جس کا نتیجہ لسانی یکسانیت(Linguistic Homogenization) ہے۔ یہ حقیقت میں ایک زبان کی حاکمیت نہیں، آمریت ہے۔عالمی زبان کی وجہ سے لسانی تنوع ختم ہوتا جارہا ہے ،یعنی زبانیں مرنے لگی ہیں۔ اس صدی کے خاتمے تک دنیا کی سات ہزار میں سے پانچ ہزار زبانوں کے مرجانے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔یہ پیش گوئی پوری ہوتی ہے کہ نہیں ،یہ تو اس صدی کے خاتمے پر معلوم ہوگا ،مگر ایک بات ہم وثوق سے کَہ سکتے ہیں کہ گلوبالائزیشن کو اس سے کوئی دل چسپی نہیںکہ ایک زبان کا خاتمہ ،ایک کلچر کا خاتمہ ہے ؛ایک خاص انسانی زاویے سے دنیا کو سمجھنے، اس کی قدرو معنویت جاننے کا صدیوں پر پھیلے سلسلے کا خاتمہ ہے،یعنی ایک خاص تصورِ حیات اور تصورِ کائنات کا خاتمہ ہے۔ گلوبالائزیشن کی بلا سے کہ ایک زبان کا خاتمہ دنیا کی ثقافتی تاریخ میں ایک پورے عہد کی گم شدگی ہے۔اس طور گلوبلائزیشن لسانی یکسانیت کے نام پرلسانی بربریت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔بلاشبہ زبانیں پہلے بھی ختم ہوتی رہی ہیں،جیسے قدیم سومیری، بابلی، ہڑپہ موہنجودڑو کی زبانیںمگر ان کے خاتمے کے اسباب تجارتی اور صارفی نہیں تھے،تاریخی تھے۔
گلوبالائزیشن کی عالمی زبان انگریزی ہے۔ انگریزی کو یہ حیثیت برطانوی نو آبادیات کے تحت ملی ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ زبانیں عالمی کردار کی محدود مفہوم میں حامل رہی ہیں،جیسے آرامی، یونانی ،لاطینی، عربی، سواحلی وغیرہ۔ انھیں بھی یہ حیثیت اس لیے ملی کہ ان زبانوں کے بولنے والی قوموں نے اپنی سلطنت کی حدود دوسروں ملکوں تک وسیع کیں۔ لیکن نو آبادیات سے پہلے شاید ہی کسی زبان نے مقامی زبانوں کو یکسر ختم کیا ہو،یا انھیں حاشیائی کردار تفویض کیا ہو۔جب کہ انگریزی نے اپنی بعض نو آبادیوں میں قاتل زبان کا کردار اداکیا ہے ،خصوصاً شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں؛یعنی ان ملکوں کی مقامی زبانوں پر موت کی خاموشی مسلط کردی۔برصغیر میں انگریزی کا کردار قاتل زبان کا نہیں رہا،مگر لسانی استعماریت کا ضرور رہا ہے۔لسانی استعماریت کا مطلب زبانوں کے درمیان غیر مساویانہ رشتے ہیں؛ایک زبان کی طاقت و برتری دوسری زبانوں کی زبوں حالی کی قیمت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہاں انگریزی علم ، اقتدارکی زبان اور سماجی مرتبے کی علامت بنی ہے۔گلوبلائزیشن کی وجہ سے انگریزی کے نو آبادیاتی کردار میں ایک نئی جہت پیدا ہوئی ہے۔اب یہ سیاسی وانتظامی اقتدار کے علاوہ معاشی اقتدار اور صارفیت کی زبان بھی ہے۔اب اس کے مفادات کی نگرانی راج برطانیہ نہیں، امریکا اور اس کی بڑی بڑی کثیر القومی کمپنیاں کرتی ہیں،جن کا سرمایہ تیسری دنیا کے بعض ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی زیادہ ہے۔دوسرے لفظوں میں اب انگریزی کی پشت پر انگریزی راج سے بڑی عالمی طاقتیں ہیں۔ ایک اور بات بھی توجہ طلب ہے، نو آبادیاتی عہد میں انگریزی کے ساتھ انگریز قوم کی ثقافتی عظمت کا تصور وابستہ تھا،جس کا سب سے بڑا نمائندہ شیکسپیئر تھا لیکن گلوبالائزیشن میں ثقافت خود ایک کموڈیٹی ہے،قابل ِ فروخت شے ہے۔چناں چہ اب انگریزی علم کی معیشت کی نمائندہ ہے؛اس کی وجہ اسے وہ قومیں بھی اختیار کررہی ہیںجو لسانی قومی تشخص کے سلسلے میں انتہائی متعصب رہی ہیں،یعنی جرمنی، اٹلی ،چین،جاپان،کوریا وغیرہ۔کسی حد تک فرانس جیسا ملک بھی انگریزی اختیار کرنے پر مجبور ہے جو اپنی قومی زبان کے سلسلے میں سخت متعصب ہے۔انگریزی کی ثقافتی عظمت کامقابلہ آسان تھا؛ہم اس کے مقابلے میں اپنی ثقافتی عظمت کے نمائندہ تخلیق کاروں کو پیش کر سکتے تھے ،اور ایساکیا بھی گیا،لیکن علم کی معیشت کا مقابلہ آسان نہیں۔چناں چہ انگریزی بہ طور گلوبل زبان کا مقابلہ ،اردو اور دیگر زبانیں اسی صورت میں کرسکتی ہےں کہ اس میں بھی ایسا علم تخلیق ہو جس کی معاشی قدر عالمی معیار کی ہو؛ہم اردو سمیت اپنی زبانوں کو’ علم کی معیشت ‘ کا حقیقی مظہر بنائیں۔گلوبلائزیشن ایک عالمی منڈی کا دوسرا نام ہے ،آپ اس میں جو چاہیں بیچیں،بشرطیکہ آپ کی مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔ اگرہم ایسا نہیں کر سکتے، (اور ایسا ہونے کا امکان کہیں نظر نہیں آتا ) تو انگریزی کی موجودہ حیثیت مزید مستحکم ہوتی چلی جائے گی۔ہمیں یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس راہ میں اصل رکاوٹ کیا ہے ؟کیا صرف حکومت ،یا جامعات کے اردو کے شعبے اور اردو کے ادارے بھی؟ابھی تک پاکستان کی کسی جامعہ کا اردو کا شعبہ اپنی اردو مطبوعات کے سلسلے میں سرے سے پہچان ہی نہیں رکھتا،باقی پاکستانی زبانوں کو تو چھوڑیں۔کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ اردو میں گلوبالائزیشن سے متعلق کوئی تحقیقی کتاب سرے سے موجود ہی نہیں۔ چند ایک مضامین ہیں ،وہ بھی تاثراتی انداز کے،اور ترجمہ نما دو ایک سرسری کتابیں ہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ گلوبالائزیشن کو ،اس کی اپنی عالمی زبان ہی میں سمجھیں۔ کیا ستم ہے کہ گلوبالائزیشن کے سلسلے میں ہمارے ردّعمل کا بیانیہ خو دہماری زبان میں موجود ہی نہیں، حالاں کہ ردّعمل موجود ہے۔ہماری اس ’خاموشی‘ ہی کی بنا پرانگریزی کو ہماری ترجمانی کا دعویٰ کرنے کا جواز مل جاتا ہے۔
دوسری صورت علم کی معیشت کے مقابلے کی نہیں، اس کے ساتھ چلنے کی ہے۔ یہ کہ ہم اردو میں وہ سارا علم منتقل کریں جو انگریزی سمیت دنیا کی دوسری بڑی زبانوں میں تخلیق ہورہا ہے۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہم سب انگریزی کی لسانی استعماریت کا نشانہ توبنے ہوئے ہیں،مگر ہم سب انگریزی نہیں پڑھ سکتے، ایک محدود اشرافیہ ہی انگریزی پڑھ سکتی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم گلوبلائزیشن اور اس کی حلیف صارفیت کا نہایت سطحی ادراک رکھتے ہیں۔نیز گلوبالائزیشن نے علم کو جس طور انگریزی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا ہے،یعنی اسے گلوبل رسائی دی ہے، وہ ہمارے پہلو میں ہونے کے باوجود ’ہم‘ سے دور ہے۔ یہاں ایک لمحے کے لیے رک کر یہ سمجھنے کی زحمت کریں کہ ’ہم ‘سے کیا مراد ہے؟’ہم ‘ کا جمع متکلم کس کی نمائندگی کررہا ہے؟ انگریزی پڑھنے اور انگریزی لکھنے والی محدود اشرافی جماعت حقیقتاً’وہ ‘ ہے ۔’ہم ‘ میں وہ تمام عوام کالاانعام شامل ہیں جو اردو یاکسی دوسری مقامی زبان میں انگریزی کا جا بجا پیوند توفخریہ انداز میں لگاتی ہے ،لیکن انگریزی میں موجود علم تک رسائی سے قاصر رہتے ہیں۔اس علم تک ہم عوام کی رسائی کی واحد صورت اس علم کی اردو میں منتقلی ہے۔ترجمے کی راہ میں رکاوٹ صرف سرکاری عدم دل چسپی، یا جامعات کے اردو شعبوں کی بے توجہی نہیں،دائیں اور بائیں بازو کی ایک سٹیریو ٹائپ فکر بھی ہے ،جو مغرب میں پیدا ہونے والے ہر علم کو مذہب اورآرتھو ڈاکس اشتراکی نظر سے دیکھتی ہے اور صرف شبہات اور سازش تلاش کرتی ہے۔آپ علم پر دسترس رکھے بغیر علم کی سازش کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ علم پر دسترس ہی علم کی ملکیت ہے،اور جہاں ملکیت ہو،وہاں سازش کو راہ پانے کی جگہ نہیں ملتی۔
مذکورہ معروضات سے متعلق ایک اہم ،اور اس سے زیادہ تلخ حقیقت کا ذکر از حد ضروری ہے۔ اردو رفتہ رفتہ مقامیت کے نام پر قدامت پسندی کی علامت بنتی جارہی ہے۔ہم اردو والوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ انگریزی میںلوگ پوری آزادی اور اعتماد کے ساتھ ہر بات کَہ ،لکھ لیتے ہیں،لیکن یہ آزادی اور اعتماد اردو بولنے ،لکھنے والے کو حاصل نہیں۔اردو میں روشن خیالی ، لبرل پسندی ،تکثیریت ،کثیر الثقافتیت ،مابعد جدیدیت جیسے الفاظ نہ صرف گالی کا درجہ اختیار کرتے جارہے ہیں،بلکہ ان میں یقین رکھنے والے اردو ادیب ’سماجی خوف‘ کا شکار بھی ہورہے ہیں،جو ’سرکاری خوف‘ سے کہیں زیادہ ہیبت ناک ہے۔اس حقیقت کے دو نتائج تو ہمارے سامنے ہیں۔ایک یہ کہ آپ جب تک انگریزی میں لکھتے ہیں، محفوظ ہیں، لیکن اگر وہی کچھ آپ اردو میں لکھتے یاکہتے ہیں ،تو آپ کوموت کے حقیقی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے روشن خیال پاکستانی لکھنے والے انگریزی کو اپنا ذریعہ ءاظہاراختیار کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔اس بنا پر انگریزی کا گلوبل کردار زیادہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتا جارہا ہے۔مبادا غلط فہمی پیدا ہو، دوایک بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے ۔دنیا کی کوئی زبان اپنی اصل میں نہ قدامت پسند ہوتی ہے،نہ جدیدیت پسند۔زبان ایک غیر جانب دار ذریعہ ابلاغ ہے ۔ہرزبان اپنے بولنے ،لکھنے والوں کو ہر طرح کے اظہار کی گنجائش مہیا کرتی ہے۔زبان لوگوں کو جس قدر سچ بولنے کی گنجائش مہیاکرتی ہے ،اسی قدر جھوٹ گھڑنے کا موقع بھی دیتی ہے؛چناں چہ یہ اتفاق نہیں کہ سچائی اور جھوٹ ،ایما ن اور کفر کی سب جنگیں زبان ہی کے اندر، زبان ہی کے ذریعے لڑی جاتی ہیں؛زبان ہی تلوار بنتی اور زبان ہی ڈھال بنتی ہے ؛اسی طرح زبان جس قدر نئے ،ترقی پسندانہ، روشن خیال تصورات کو ظاہر کرنے کے لیے اظہار کے پیرائے مہیا کرتی ہے،اسی قدر پرانے، گلے سڑے، بساند بھیلاتے خیالات ظاہر کرنے کے لیے اپنے اظہاری پیرایوں کی خدمات پیش کرتی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حقیقی معنوں میں صرف زبان ہی روادار ہے،لیکن زبان اپنی رواداری کی حفاظت خود نہیں کر سکتی۔ اس رواداری کو خطرہ اس لسانی سیاست سے ہوتا ہے ،جسے قومی ،مذہبی، نسلی شناختوں کے ’مقدس ناموں‘ سے شروع کیا جاتا ہے۔نو آبادیاتی دور میں لسانی سیاست کا شکار ہونے والی اردو زبان ،اب ایک نئی قسم کی ’مقامی استعماریت‘ کی زد پر ہے۔ اردو کو اب داخلی جبر کا سامنا ہے؛اس کی فطری رواداری ،اور اس کے تاریخی تکثیری مزاج کو اس مقامی دباﺅ کا سامنا ہے،جو کچھ طبقوں نے کچھ نظریات کے نام پر جاری رکھا ہوا ہے۔اس کی بنا پر اردو میں قدامت پسندانہ بیانیے ، اپنے متبادل بیانیوں کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔ایک طرف اردو ،گلوبل انگریزی کی وجہ سے ’خاموشی ‘ کا کرب سہ رہی ہے ،اور دوسری طرف مقامی بیانیوں اور ان کے علم برداروں کے جبر کی وجہ سے ’خاموش ‘ رہنے پر مجبور ہورہی ہے ۔گلوبالائزیشن کی وجہ سے نئے نئے خیالات تیزی سے کرہ ارض کے کونے کونے تک پہنچ رہے ہیں، اور اس عمل سے تکثیری ثقافت کا تصور نمو پارہا ہے۔اردو کی مذکورہ صورتِ حال اسے اپنے ہی خول میں سمٹنے پر مجبور کر دے گی،اور اسے ہر گلوبل شے سے نفرت پر مائل کردے گی۔اردو کی اس صورتِ حال کو ہم اس طور بیان کر سکتے ہیں کہ ایک طرف تلوار ہے ،اور دوسری طرف فقط ڈھال ہے۔اردو کا روشن خیال طبقہ (یعنی اردو دنیا میں سب سے بدنام،مشتبہ افراد کا گروہ)دفاعی محاذ پر ہے ،اور اس کے قدم اکھڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ تھوڑا کہے کو زیادہ سمجھا جانا چاہیے۔
فیس بک پر تبصرے