جدید قطر کے قیام میں آلِ ثانی کا تاریخی کردار

604

خلیجی ممالک میں قطر کوایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے جس کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک چھوٹا سا ملک باوجود تنازعات و مشکلات کے یہاں تک کیسے پہنچا، یہ ایک منفرد تاریخ ہے جس میں آلِ ثانی کا کردار بہت اہم ہے۔ عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مدرس ہیں، انہوں نے زیرنظر مضمون میں قطر کی تاریخ سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے ملک نے کیسے تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔(مدیر)

جدید قطر اور آل ثانی خاندان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آل ثانی کے ہاتھ میں زمام اقتدار آنے سے قبل یہ خطہ طوائف الملوکی کا گڑھ تھا جہاں ایک طرف حجاز و بحرین کے مقامی قبائل اپنا تسلط قائم کرنا چاہ رہے تھے تو دوسری طرف سلطنت عثمانیہ و برطانوی سامراج اپنی نظریں جمائے ہوئے تھے۔یہ بعینہٖ وہی صورتحال تھی جب مشرق میں اموی سلطنت کے سقوط کے بعد اموی شہزادے عبدالرحمن الداخل مغرب میں داخل ہوئے تو قیسیہ اور یمنیہ قبائل ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔ یہاں تک کہ عبدالرحمن الداخل نے انہیں متحد کرکے اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ قطر میں قبائل کو متحد کرنے کا سہرا ا ٓل ثانی کے حصے میں آیا۔ آل ثانی سے پہلے قطر کے نام سے کوئی الگ ملک نہیں تھا، بلکہ جزیرہ نما یہ خطہ کبھی ’بلاد البحرین ‘ اور کبھی الاحساء کہلاتا تھا۔

سولہویں صدی کے اواخر میں اگرچہ یہاں عثمانیوں نے قبضہ جما لیا تھا لیکن بنو خالد کے پے در پے حملوں سے ۱۶۷۰ء میں عثمانیوں کو پسپا ہونا پڑا تھا۔ بنو خالد عثمانیوں کو ہی پیچھے دھکیل کر بصرہ، کویت، قطر اور بحرین پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے تاہم پڑوس سے دیگر خطرات کو بھانپتے ہوئے انہیں بھی عافیت اسی میں نظر آئی کہ عثمانیوں سے صلح کر کے ان کی عملداری کو تسلیم کر لیا جائے۔ ۱۷۹۳ء میں جب عثمانی سلطنت یورپی سرحدوں پر مشکلات کا شکار تھی آل سعود نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنو خالد کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔

نجد میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نے ۱۷۴۵ء میں سلفی تحریک کا آغاز کر دیا تھا جس سے محمد بن سعود متاثر ہو چکے تھے۔ آل سعود اور آل شیخ کے اتحاد نے سعودی ریاست کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ ۱۷۸۸ء میں الخرج کے امیر سلیمان بن عفیصان نے قطر پر حملہ کر دیا تاکہ سعودی سلطنت کو وسعت دی جا سکے۔ قطر کے ساتھ بحرین بھی سعودی پیش قدمی کا سامنا نہ کر سکا، یہاں تک کہ سعود بن عبدالعزیز نے قطر، بحرین اور قطیف پر مشتمل ایک ریاست قائم کر کے بحرین کو صدر مقام کی حیثیت دے دی اور عبداللہ بن عفیصان کو یہاں کا والی مقرر کر دیا جوکہ آل خلیفہ (بحرین کا موجودہ حاکم خاندان) کے ذریعے قطر، قطیف اور بحرین سے زکو ۃ اور محصول جمع کر کے سعودی دارالحکومت درعیہ کو روانہ کر دیتا۔ اس طرح آل خلیفہ سعودی سلطنت کے زیراثر خطے کے نگہبان بن گئے۔

عثمانی سلطنت کے لیے خلیج میں بڑھتا ہوا یہ سعودی نفوذ کیونکر قابل قبول ہو سکتا تھا؟بالخصوص جبکہ آل سعود نے حجاز مقدس پر بھی اپنی عملداری قائم کر لی تھی۔ حجاز مقدس میں سعودی فوجوں کا داخلہ عظیم اسلامی سلطنت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ اپنی رِٹ کو بحال کرنے کے لیے عثمانی سلطان نے مصر کے گونر محمد علی پاشا کو یہ ذمہ داری سونپی۔ محمد علی پاشا نے ۱۸۱۲ء سے ۱۸۱۸ء تک متعدد مرتبہ لشکرکشی کی اوربالآخر سعودی سلطنت کا قلع قمع کر دیا، مصری افواج نے نہ صرف دارالحکومت درعیہ کو تہس نہس کر دیا بلکہ احساء اور پورے خلیج کی طرف پیش قدمی کر دی اور قطر کوبھی سعودی قبضے سے آزاد کروا دیا۔ نتیجتا مثلث ریاست کا حاکم عبداللہ بن عفیصان گرفتار ہو گیا اور نہ صرف بحرین ایک مرتبہ پھر آل خلیفہ کے ہاتھوں میں چلا گیا بلکہ سعودی دور میں قطیف اور قطر پر نگہبانی کی بدولت یہ دونوں خطے بھی آل خلیفہ کے زیر تسلط آ گئے۔

انیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں قطر سعودی قبضے سے نکل کر بحرین کے ہاتھوں میں پہنچ گیا تھا جوکہ بالواسطہ سلطنت عثمانیہ کی ماتحتی میں آتا تھا۔ اسی عرصہ میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی خلیج کی طرف پیش قدمی شرع کر دی تھی اور ۱۸۲۰ء میں قطری شیوخ کے ساتھ تجارتی کشتیوں کی بابت ایک معاہدہ کیا۔ ۱۸۲۱ء میں تجارتی کشتیوں کی لوٹ مار کا بہانہ بنا کر ’’البدع‘‘ میں گولہ باری کی جس کے نتیجے میں البدع شہر تباہ ہو گیا اور سینکڑوں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ دو سال بعد ۱۸۲۳ ء میں برطانوی وائسرائے ماکلویڈ نے دوحہ کا پہلا دورہ کیا اورتجارتی کشتیوں کی بابت معاہدے کی تجدید کی۔ ۱۸۴۰ء میں لندن معاہدے کے تحت مصری افواج نے واپسی کی راہ لی۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ قطر اب عثمانی سلطنت سے نکل کر برطانیہ کے زیراثر آچکا ہے۔

انیسویں صدی کے نصف میں قطر چار مختلف قوتوں کی طرف سے جکڑا ہوا تھا۔ ایک طرف برطانوی سامراج تھا تو دوسری طرف آل خلیفہ۔ پڑوس میں سعودی سلطنت کی باقیات اپنی قوت کو مجتمع کر رہی تھیں تو ادھر عثمانی سلطنت بھی دوبارہ اپنے پنجے مضبوط کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ اس وقت قطر کو ایک حکیم اور دوراندیش قیادت کی ضرورت تھی۔یہی وہ وقت تھا جب قدرت قطر پر مہربان ہوئی اور اسے محمد بن ثانی اور ان کے بیٹے جاسم بن محمد کی شکل میں نڈر اور معاملہ فہم قیادت عطا کی۔ان دونوں نے مل کر اپنی قوم کومشکل سے نکالا اور انہیں مستقل آزاد ملک دینے میں کامیاب ہو گئے۔ چالیس کی دہائی میں سعودی سلطنت کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد شیخ بحرین محمد بن خلیفہ نے قبائل کے جن سرداروں سے مدد طلب کی ان میں پہلی مرتبہ قبیلہ آل ثانی کے فرد شیخ محمد بن ثانی کا نام بھی آیا۔ آل ثانی قبیلہ معاضید کی ایک شاخ ہے جو کہ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں قبائلی خانہ جنگی اور قحط سے تنگ آ کر اشیقر سے ہجرت کر کے، جبرین، اسکاک، رویس سے ہوتا ہوا دوحہ میں آ کر مقیم ہو گیا تھا۔ شیخ ثانی کا شمار ہیرے موتیوں کے مشہور تاجروں میں ہوتا تھا۔

انیسویں صدی کے نصف میں قطر چار مختلف قوتوں کی طرف سے جکڑا ہوا تھا

شیخ محمد بن ثانی نے شروع میں شیخ بحرین کا ساتھ دیا لیکن بعد میں ایک موقع پر سعودی شہزادے فیصل کی قوت کو دیکھتے ہوئے اپنے قبائل کو صلح کا مشورہ دیا جسے شیخ بحرین نے خیانت قرار دیا۔ تاہم شیخ محمد بن ثانی نے اپنی قوم کو قتل عام سے بچانے کے لیے شہزادہ فیصل کے ساتھ صلح کر تے ہوئے شیخ محمد بن خلیفہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔

اب ایک طرف شیخ محمد بن ثانی کی قیادت میں قطری قبائل اور سعودی اتحاد تھا تو دوسری طرف آل خلیفہ نے ابوظبی کے حاکم شیخ سعید بن طحنون کو اپنے ساتھ تیار کر لیا تھا۔ متعدد جھڑپوں کے بعد آل خلیفہ نے سعودیوں کے ساتھ صلح کر لی اور سالانہ چار ہزار ریال خراج دینے پر آمادہ ہو گئے۔ برطانوی وائسرائے ’بیللی‘ کی ۱۸۶۶ء کی رپورٹ کے مطابق شیخ بحرین کا سعودیہ کو خراج دینے کا مقصد قطر میں اپنی جائیدادوں کو بچانا تھا۔شیخ محمد بن ثانی اپنی معاملہ فہمی کی بنیاد پر قطری قبائل کے سردار کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ معروف سیاح ولیم بلگراف جب جنوری ۱۸۶۲ء میں قطر پہنچا تو اس نے لکھا ہے کہ اس کی ملاقات البدع کے حاکم شیخ محمد بن ثانی سے ملاقات ہوئی جنہیں پورے علاقے کے لوگ اپنا سربراہ سمجھتے تھے۔ ولیم بلگراف نے اپنے دورہِ قطر میں شیخ جاسم بن محمد سے بھی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس دوران انہوں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ ان کے ارد گرد کے لوگ اگرچہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے لیکن شیخ جاسم سے ان کا تعلق اور محبت قابل دید تھا۔ اس وقت شیخ جاسم کی عمر ۳۵ سال تھی۔

شیخ جاسم ایک جرأت مند شخصیت کے مالک تھے اور اس وقت اپنے والد کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوا کرتے تھے اور اپنے والد کی امارت کے دور میں ۱۸۷۶ء تک ملک کے امور چلاتے رہے یہاں تک کہ عثمانیوں نے مکمل طور پر قطر اُن کے حوالے کر دیا اور انہیں قطر کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا۔ آپ ۱۸۲۷ءکو پیدا ہوئے اور قطر کے شمال میں واقع فویرط میں اپنے والد شیخ محمد بن ثانی کے زیر سایہ پرورش پائی۔ علمائے دین سے قرآن کریم اور فقہ کی تعلیم حاصل کی، اس کے ساتھ ساتھ گھڑسواری اور شکار کی تربیت بھی حاصل کی۔۱۸۴۷ء میں آپ اپنے والدکے ساتھ ۲۰ سال کی عمر میں البدع منتقل ہو گئے۔ چونکہ آپ کے والد شیخ محمد اپنے علاقے کے سردار تھے؛ ان کی سرپرستی میں آپ نے بھی قیادت کے گر سیکھے اور اسی کا اثر تھا کہ جب قطر پر آل خلیفہ کی جانب سے حملہ ہوا تو شیخ جاسم نے فن سپہ گری کے جوہر دکھائے۔ جس کے بعد سے آپ قطر میں جنگجوؤں کے محبوب بن گئے اور قطر کے نمایاں قا ئد بن کر ابھرے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی محبوبیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آپ کے علم و حکمت اور سیاسی فہم و فراست کی بدولت قطری قبائل آپ کی قیادت میں متحد ہونا شروع ہو گئے۔ مختلف قبائل کے تعاون سے شیخ جاسم قطر کے دشمنوں کو پیچھے دھکیلنے اور قطر کی حدود کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

۱۸۷۱ء میں جب عثمانی سلطنت نے جزیرہ عرب کا رخ کیا تو پہلے سے کمزور قطر بھی خطرے سے دوچار ہو گیا۔شیخ محمد بن ثانی نے عثمانیوں سے مزاحمت کی لیکن ان کے بیٹے شیخ جاسم بن محمد بن ثانی نے ۱۸۷۲ء میں اسے تسلیم کر لیا۔ شروع میں شیخ جاسم اور عثمانیوں کے مابین تعلقات اچھے تھے لیکن بعد میں بگڑگئے اور ان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ آپ کی سیاسی بصیرت اور عسکری مہارت کا اندازہ لگانے کے لیے وہ واقعہ ہی کافی ہے جس میں عثمانیوں کے ساتھ مذاکرات کا پتا چلتا ہے۔ مارچ ۱۸۹۳ء میں جبکہ آپ کی عمر ۶۶برس تھی، عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے آپ نے قائدانہ کردار ادا کیا اور اور حد سے زیادہ دباؤ اور فریق مخالف کے مقابلے میں محدود عسکری قوت کے باوجود آپ نے عثمانیوں کی تمام کوششوں کو ناکام بنا یا اور ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیورا بن گئے۔ اپنے ایمان راسخ اور قبائل کے بھرپور تعاون سے وجبہ کی وہ جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو گئے جو ان پر مسلط کر دی گئی تھی۔ اس جنگ میں قطریوں کو فتح حاصل ہوئی اور عثمانیوں کو عبرتناک شکست ہوئی۔ جس سے قطریوں کی ثابت قدمی، باہمی وحدت اور لیڈر کی پیروی کا عنصرعیاں ہوتا ہے۔

اس فتح کے بعد قطر کی اپنی سرزمین پر سیادت قائم ہو گئی اور شیخ جاسم نے قطر کی تعمیر وترقی کا کام شروع کر دیا، مساجد تعمیر کروائیں، مدارس قایم کیے، اپنے خرچ پر کتابیں طبع کروائیں، جس سے ان کی علم دوستی اور ان کے نزدیک قوموں کے عروج و ترقی میں تعلیم کے کرادر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔شیخ جاسم نے قطر میں امن و امان اور عدل وانصاف کو عام کیا جو آج تک قطر کی خصوصی پہچان کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشی طور پر موتیوں کی تجارت کی وجہ سے قطر میں خوشحالی آئی، تجارتی کشتیوں میں اضافہ ہوا، دیگر کاروباری سرگرمیاں تیز ہوئیں اور ملک کے باسیوں میں اسبابِ رزق کی فراوانی ہوئی۔ بانی قطر شیخ جاسم مظلوموں کی مدد میں پیش پیش ہوتے اور بے گناہ قیدیوں کو رہا کرتے،غلاموں کو آزاد کرتے، نمازوں اور جمعہ کی امامت کرتے، خود شہریوں کے درمیان فیصلے کرتے۔ انہیں صفات کے پیش نظر مؤرخ محمود شکری آلوسی نے آپ کے بارے میں لکھا تھا:’’ شیخ جاسم عرب کے بہترین لوگوں میں سے تھے، نماز و عبادات کے پابند تھے، دین کا فہم رکھنے والے تھے۔ان کے مسلمانوں پر بےشمار احسانات ہیں۔‘‘ جبکہ مؤرخ سلمان الدخیل آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:’’عربوں میں آپ کی بات مانی جاتی تھی، آپ ہمیشہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے جتے رہتے، اور جس کام کے لیے بھی کوشش کرتے تو اللہ کی خصوصی مدد سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے۔‘‘

شیخ جاسم اگرچہ ایک عرصہ سے امور اقتدار میں اپنے والد کا تعاون کرتے چلے آرہے تھے لیکن ۱۸ دسمبر ۱۸۷۸ء کو جب شیخ محمد بن ثانی کا انتقال ہوا تو ملک کی مکمل باگ ڈور شیخ جاسم کے ہاتھ میں آ گئی۔ اسی مناسبت سے قطر کا قومی دن ۱۸ دسمبر کومنایا جاتا ہے اور یہیں سے جدید قطر کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...