راولپنڈی: تاریخ، تہذیب اور اساطیر

2,633

عام طور پہ یہ کہا سنا جاتا ہے کہ راولپنڈی شہر جس مقام پر واقع ہے یہ خطہ قدیم تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ لیکن یہاں کونسی تہذیبیں آباد رہیں، کیسے ارضیاتی تبدیلیوں اور حوادثاتِ زمانہ نے ان آثار پر خاک ڈال دی، اور اس علاقے کے ابتدائی باشندے کون تھے، اور یہ کہ موجودہ شہر کس طرح بالآخر اِس شکل میں ڈھل گیا، یہ ساری تفصیل اوجھل رہتی ہے اور بہت کم اس کا ذکر آتا ہے۔ سجاد اظہر نے اِس مضمون میں عرق ریزی کے ساتھ پرانی آرکائیوز اور تاریخ کی کتب سے ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کیے ہیں جو قارئینِ تجزیات کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ مضمون نگار اسلام آباد میں مقیم صحافی، مصنف اور محقق ہیں، آثارِ قدیمہ میں والہانہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ (مدیر)

دریائے سواں کی تہذیب اور راولپنڈی کے ابتدائی باشندے

قدیم دور سے ہی شہر دریاؤں یا سمندروں کے کنارے آباد ہوتے چلے آرہے ہیں۔ آج کا راولپنڈی اتنا پھیل چکا ہے کہ دریائے سواں، کورنگ اور نالہ لئی سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دریائے سواں کی تاریخ لاکھوں سال قدیم بیان کی جاتی ہے۔ ایک جرمن محقق ڈاکٹر ڈی ٹیرہ جنہوں نے دس سال تک دریائے سواں پر تحقیق کی، ان کا خیال ہے کہ یہاں 25لاکھ سال سے انسان آباد ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بابل، نینوا، موہنجو داڑو، ہڑپا، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے دریائے سواں کی تہذیب کہیں زیادہ قدیم ہے۔ ایم جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’شہر آرزو‘‘ میں جنگ اخبار کے ایک فیچرکا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دریائے سواں کے دونوں اطراف دو مربع میل کے علاقے میں ایسے سکے اور فوسلز دریافت ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر سکندر اعظم کے وقتوں میں بھی آباد تھامگر سفید ہنوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

دریائے سواں 55 ہزار سال پہلے بھی یہاں بہہ رہا تھا جس میں آئس برگ کے ٹکڑے تیرا کرتے تھے۔ 40 ہزار سال پہلے آنے والے زلزلے میں دریائے جہلم تخلیق ہوا ۔اس سے پہلے دریائے جہلم نہیں تھا بلکہ ہمالیہ کا پانی دریائے سواں میں ہی گرتا تھا۔ ماہرین ارضیات کے مطابق ہر چھ سو سال میں ایک خطرناک زلزلہ یہاں آتا ہے جو ارضیاتی تبدلیاں لاتا ہے۔ دریا بھی وقت کے پاتال سے ابھرتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں یا پھر ندی نالوں کی صورت ان کی باقیات ہی رہ جاتی ہے۔ یہی حال ان کے کناروں پر واقع آبادیوں کا بھی ہوتا ہے۔ موسمی تغیرات ازل سے ہی زندگی کی ہیئت بدلتے آئے ہیں۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے کے مصداق،قصبے اور شہر بھی بنتے اور اجڑتے رہتے ہیں۔اڑھائی ہزار سال پہلے مارگلہ کے اس طرف ٹیکسلا کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹیکسلا کی پہاڑی کے اُس طرف کوئی آبادی نہ ہو جبکہ یہاں دریا تھے، ندی نالے اور ہریالی تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ ٹیکسلا کی راج دھانی پاٹلی پترا (پٹنہ )کا راستہ بھی یہاں سے ہی گزرتا ہو۔ روات میں مانکیالہ سٹوپہ ایک پورے کمپلیکس کی شکل میں موجود بھی ہو۔ جب ٹیکسلا کی تہذیب موجود تھی تو یہاں بھی کئی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ضرور تھیں جن کے آثار جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ٹھیکریاں اور ڈھیریاں یہاں ہر دو چار میل کے فاصلے پر موجود ہیں جہاں خزانے کے متلاشی غیر قانونی کھدائیاں کر تے رہتے ہیں۔

محمد عارف راجہ نے اپنی کتاب ’’تاریخِ راولپنڈی و تحریکِ پاکستان ‘‘ میں اس علاقے کی تاریخ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ راولپنڈی کا پہلا حوالہ 5500 قبل مسیح میں مصر کے بادشاہ مینس کے ہاں ملتا ہے۔ جس کا پایہ تخت اہرام مصر سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر میمفس میں تھا۔ اس مصری بادشاہ کے دور میں اس کا ایک وفد اس علاقے میں آیا تھا جس نے واپس جا کر رپورٹ دی کہ یہاں بڑے بڑے بت، مندر،محل اور تہہ خانے ہیں۔ ایک جگہ تین ہزار کمرے ہیں جو علوم ہندسہ اور جیومیٹری کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر بدھا پرکاش بھی لکھتا ہے کہ مصریوں نے علوم ریاضی شمالی پنجاب کے لوگوں سے سیکھا تھا۔ اگر یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو یہاں اہرام مصر کی طرز پر بنی ہوئی تین ہزار کمروں والی کسی عمارت کے آثار نہیں ملتے۔ ہمالیہ چونکہ زلزلوں کی زد پر رہتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے وقت نے ان آثار پر خاک ڈال دی ہو کیونکہ یہاں اڑھائی ہزار سال پہلے ٹیکسلا کی دریافت کا سہر ا بھی سر جان مارشل کے سر ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں شاہ ڈھیری سے ٹیکسلا کو بر آمد کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اہرام مصر طرز کی کچھ عمارتیں آج بھی یہاں مٹی کے نیچے دفن ہوں۔

ساڑھے پانچ ہزار سال قبل مسیح میں بابل میں دو گروہوں سامری اور سامی میں جنگ چھڑ گئی۔ سامیوں کو شکست ہوئی تو وہ ہجرت کر کے کابل سے پشاورآئے اورپھر راولپنڈی پر قابض ہو گئے۔ پانچ سو سال بعد بابل کے شہنشاہ انشک کوشنا نے یہاں حملہ کر کے اس خطہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور اگلے پانچ سو سال تک یہ خطہ بابل کے ماتحت رہا۔ راجہ عارف منہاس لکھتے ہیں کہ سمیری بادشاہ لوگل زیگس کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ جس نے بابل کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے خود کو دنیا کا مالک قرار دیا۔ لوگل زیگس کے بعد سارگن بادشاہ بنا تو اس کی حکومت دنیا کے چاروں کونوں پر تھی اس کے بیٹے سترام سین کو سامریوں نے قتل کیا تو بابل کی سلطنت ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ راولپنڈی اور پشاور کے علاقے راجہ سنب کے تصرف میں آ گئے۔ 2193 ق م میں بابل کے بادشاہ حمورابی کے دور کا ایک سکہ پیرس کے عجائب گھر میں موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حمورابی کے عہد میں راولپنڈی کے علاقے بھی ا س کی سلطنت کا حصہ تھے۔

دو ہزار قبل مسیح میں سانپوں کے پجاریوں کا ایک قافلہ وسط ایشیا آیا جو ناگ ہنسی کہلاتے تھے جس کے رہنما کا نام ٹک شک کھنڈ تھا۔ انہوں نے ہی موجودہ تاشقند کی بنیادرکھی۔ ٹک شک کی اولاد میں ایک راجہ گاندھار تھا جس نے بارہ سو قبل مسیح میں افغانستان سے جہلم تک کا علاقہ فتح کیا اور اسی کی نسبت سے یہ علاقہ گندھارا کہلانے لگا جس کا پایہ تخت ٹیکسلا تھا۔ ناگ قبیلے کے اقتدار کا سورج بھرت ورش قبیلے نے غروب کر دیا۔ بھرت ورش کے بعد آریائوں نے یہاں سولہ خودمختار سلطنتیں قائم کیں جن کا ذکر پارسیوں کی مذہبی کتاب اوستا اور فردوسی کے شاہنامے میں بھی ملتا ہے۔ بعد میں یہ سولہ ریاستیں آپس میں جنگ و جدل میں مشغول ہو گئیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے یونانیوں اور بعد میں ایرانیوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ شیخ عبداللطیف اپنی کتاب ’’تاریخ پنجاب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انہی دنوں مصر کے بادشاہ اوری سس نے ایران کے راستے گندھارا پر حملہ کیا اور اس علاقے پر قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد بابل کی ملکہ سمیرامز نے یہ علاقہ اوری سس سے چھین لیا۔ بابل کی ملکہ سے یہ علاقہ راجہ بکرما جیت نے چھین لیا۔ مہا بھارت کے مطابق 750 قبل مسیح میں ایران کے شہنشاہ فردیون نے گندھارا کو اپنی سلطنت میں شامل کر دیا مگر یہاں کے ایک راجہ سانگل نے بغاوت کر دی۔ سنسکرت کا پہلا گرامر دان پانینی جو صوابی کے نزدیک چھوٹا لاہور کا رہنے والا تھا وہ لکھتا ہے کہ ایران کے شہنشاہ افراسیاب نے حملہ کر کے کیپسیا کو تباہ کر دیا۔ اس زمانے میں موجودہ خطہ راولپنڈی کو کیپسیا کہا جاتا تھا۔ 230 ق م میں راجہ شش ناگ نے سارس کو شکست دے کر تخت سنبھال لیا مگر اس خاندان کے آخری بادشاہ مہا نندن نے اقتدار ایرانی بادشاہ ہ نحا منشی سے چھین لیا۔

معلوم تاریخ کی رُو سے قدیم راولپنڈی کے ابتدائی باشندے تاشقند سےآنے والے سانپوں کے پجاری ناگ ہنسی تھے جنہیں ٹک شک کہا جاتا تھا جنہوں نے چھ سو ق م میں دراوڑوں کے بادشاہ یک شٹ کو شکست دی جو اس وقت ریاست سولن کے حکمران تھے جس کی سرحدیں موجودہ گندھارا تھیں۔ ہندوؤں کی قدیم کتاب بھگود گیتا کے مطابق راولپنڈی کا آج سے تین ہزار سال پہلے نام سالباہن پورہ تھا جو راجہ شالباہن کے نام سے تھا جو راجہ گج کی اولاد میں سے تھا۔ گیتا میں لکھا ہے کہ بدھ یا مرکری کی اولاد کو قمری یعنی چندر ہنسی کہتے ہیں۔ سری کرشن کی ساتویں رانی کے ہاں سامبا نامی بیٹا پیدا ہوا جس کی سلطنت دریائے اٹک کے دونوں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اسی کی نسبت سے یہ علاقہ سندھ ساما کے نام سے موسوم ہوا۔ ساما کی بڑی رانی رک منی کے بیٹے پردمن کی شادی بدربہ کی راج کنیا سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے دادا اور بجر تھے۔ بجر کی اولاد بھاٹی کہلائی جو آج کے بھٹی ہیں۔

شاہنامہ فردوسی میں لکھا ہے کہ سکندر نے مہا بھارت کے آٹھ سو سال بعد جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت راجہ امبی ٹیکسلا کو حکمران تھا اور چوہان راجپوت اس کے باج گزار کی حیثیت سے راولپنڈی کے حکمران تھے جن کا پایہ تخت موجودہ آر اے بازار کے قریب محلہ آوڑہ تھا۔ ان دنوں راولپنڈی کو آوڑہ کہا جاتا تھا۔ چوہانوں سے بھٹی راجپوتوں کے راجہ، راجہ گج عرف گنگال(اسلام آباد ہائی وے پر راولپنڈی کی جانب آج بھی گنگال نام کی آبادی موجود ہے ) نے حکومت چھین لی اور موجودہ راولپنڈی میں غزنی کی طرز کا شہر بسایا جس کا نام پہلے غزنی پور اور پھر گجنی پور ہو گیا جو موجودہ صدر کے علاقے میں تھا۔ بھٹی راجپوتوں سے شہر راجہ رسالو نے چھین لیا اور موجودہ ٹوپی رکھ کے مقام پر شہر آبادکیا جسے یونانی حملہ آوروں نے تباہ کیا۔ بھٹیوں کے سردار راجہ منگل رائو نے پھر بھاٹی کے نام سے یہ شہر آباد کیا جسے سفید ہنوں نے خاک میں ملا دیا۔

821 ء میں بھٹی راجپوت راجہ باجم رائو نے اس علاقے کو فتح کیا تو اس کے بیٹے کا لقب راول تھا جس نے موجودہ راول ڈیم کے کنارے ایک بستی بسائی۔ ایک اور تحقیق کے مطابق راول کا لفظ عربی کے لفظ رمل سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے قسمت کا حال بتانے والے، یہ جوگی وسط ایشیاء سے آئے تھے۔ اس سے پہلے اس خطے میں جوگی گورکھ ناتھ کے نظم کے ماتحت تھے مگر مسلمان جوگیوں نے جو نظم متعارف کرایا اس میں لوگوں کا صرف روحانی و جسمانی علاج معالجہ ہی تجویز نہیں کیا جاتا تھا بلکہ انہیں ان کی آنے والی زندگیوں کے اہم واقعات کے بارے میں بھی بتا دیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ پہلے رمل کہلائے جو رفتہ رفتہ رمل سے راول ہو گیا۔ راول جوگیوں کی آگے مزید دو شاخیں ہیں۔ ایک گال کہلاتے ہیں اور دوسرے راول،راولوں کی گدی راولپنڈی میں تھی جن کے استھان پشاور،کوہاٹ اور جلال آباد، افغانستان تک پھیلے ہوئے تھے۔ ہندو جوگی زیادہ تر جین مت کے ماننے والے تھے، راولپنڈی میں ابتدائی آبادیاں چونکہ جین مت کے ماننے والوں کے تھیں اس لیے جب وسط ایشیا سے مسلمان جوگی آئے تو انہوں نے بھی راولپنڈی کو ہی اپنا مسکن بنایا۔ یہ لوگ غاروں اور جنگلوں میں رہتے تھے۔ دریائے سواں اور مارگلہ کی غاریں ان کا مسکن تھیں اس کے علاوہ بڑے بڑے درختوں میں بھی انہوں نے اپنے آشیانے بنا رکھے تھے۔راولپنڈی کے علاقہ ٹاہلی موہری کی نسبت اسی سے بیان کی جاتی ہے کہ ایک بہت بڑے ٹاہلی کے درخت میں اتنا بڑا سوراخ تھا کہ جو انسانوں کا مسکن تھا۔ ماضی قریب تک یہ جوگی کانوں میں مندریاں ڈالے اور گلے میں بڑی بڑی تسبیح ڈالے نظر آتے تھے۔ بری امام کے میلے میں ان کے جھنڈ کے جھنڈ نمو دار ہو جاتے تھے مگر جب سے میلے ٹھیلوں پر پابندی لگی ہے یہ جوگی بھی کہیں دور پہاڑوں کی جانب چلہ کشی پر چلے گئے ہیں۔اب اکا دکا جوگی نکلسن مانو منٹ کے ساتھ پرانی جی ٹی روڈ پر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔اس میں کیا حکمت ہے جوگی ہی جانیں کہ انہوں نے مارگلہ سے ٹلہ جوگیاں تک کے علاقے کو اب تک کیوں منتخب کر رکھا ہے۔

تاریخ راجستھان کے مطابق جیسلمیر کا مہاراجہ راول سری کرشن اور رانی رک متی کی اولاد میں سے تھا۔ تین ہزار سال پہلے یہ لوگ پنجاب میں آکر آباد ہوئے تھے۔ ان کی اولاد میں سے راجہ گج اور سالباہن بہت مشہور ہوئے تھے۔ سالباہن کے پوتے رائو بھاٹی کے بیٹے دیوراج کی راجدہانی پر غزنی سے برہا قوم نے حملہ کر دیا۔ دیوراج کے تمام ساتھی مارے گئے،اس نے ایک پروہت کے ہاں پناہ لے کر جان بچائی۔ دیوراج نے جب دوبارہ اپنی سلطنت حاصل کر لی تو اس نے اُس پروہت کی تلاش کی جو اب جوگی بن گیا تھا۔ دیوراج بادشاہی چھوڑ کر اس کا چیلہ بن گیا اور راؤ کی بجائے راول کا لقب اختیار کیا۔ دیوراج کی اولاد سے راول موند،جے پال اور انند پال حکمران ہوا۔ سلطان محمود کے حملہ کے وقت ستوگن راولپنڈی کا حاکم تھا۔ سلطان محمود نے راولپنڈی کو فتح کرنے کے بعد اسے اکبر آباد کا نام دیا۔

تاریخ فرشتہ کے مطابق سلطان محمود غزنوی کا بیٹا سلطان مسعود سلجوقیوں کے خوف سے اچھی فوج بھرتی کرنے کے لیے لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ہمراہ تین ہزار اونٹ تھے جن پر خزانہ لدا ہوا تھا۔ سلطان کے ہمراہ اس کا بھائی سابق امیر غزنی جس کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں وہ اور دیگر شاہی افراد تھے۔ یہ قافلہ جب مارگلہ پہنچا تو اس کے اپنے ہی غلاموں نے پہلے شاہی خزانہ لوٹا اور پھر اسے معزول کر کے اس کے اندھے بھائی محمد کو سلطان مقرر کر دیا۔ مسعود کو اس کے بھائی نے گرفتار کر کے قلعہ گیری میں قید کر دیا۔ اسیری کے دوران محمد کے بیٹے نے قلعے میں اپنے چچا کو قتل کر دیا۔ جب اس کی اطلاع غزنی پہنچی تو امرا ء نے سلطان مسعود کے بیٹے امیر مودود کو امیر مان کر اسے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بھیجا۔ جس نے راولپنڈی کے مقام پر مخالفین کو شکست دی اور یہاں ایک سرائے اور فتح آباد نامی شہر کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر بھٹیوں کے شہر راول پائوری کے قرب و جوار میں بسایا گیا تھا جو بعد میں فتح آباد پائوری بن گیا۔

 کیا پنڈی لفظ پنڈ سے نکلا ہے؟

خطے کی قدیم زبانوں میں پنڈی کا لفظ قتل گاہ، قربان گاہ اور میدان جنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے قدیم مصر میں انسانو ں کی قربانی دی جاتی تھی اور ہر سال دریائے نیل میں کسی دوشیزہ کو قربان کیا جاتا تھا تاکہ اس قربانی کے طفیل خدا دریائے نیل کورواں دواں رکھے اور ان کے ہاں شادابی رہے۔ اسی طرح اس خطے میں بھی انسانوں کی قربانی دی جاتی رہی ہو گی۔ یہاں بھی دریا تھے اور دریاؤں کے کنارے آباد شہروں میں یہ روایت رہی ہے۔ اس لیے راولپنڈی کی وجہ تسمیہ پنڈ سے نہیں بلکہ پنڈی سے ہے۔ راولپنڈی کے ساتھ بہنے والا دریائے سواں اپنے وقت کاشیر دریا تھا جسے وقت کی پاتال نے ایک جوہڑ بنا کر رکھ دیا ہے۔ کبھی یہاں انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی مگر اب انسانوں کے ہاتھوں یہ دریا خود قربان ہو گیا ہے اور اس کے بڑے حصے پر قبضہ گروپوں نے جدید آبادیاں کھڑی کر دی ہیں۔ ہو سکتا ہے تاریخ کے کسی موڑ پر یہ دریا جاگ جائے اور ہزاروں سال سے اپنی زیر التوا قربانیوں کا حساب اکٹھا لے لے۔

ایک دوسرا قیاس جو لفظ پنڈ سے کیا جا سکتا ہے اس کا ذکر تاریخ فرشتہ میں ملتا ہے جس کے مطابق ہستنا پور کا ایک کھتری راجہ تھا جس کا نام بھرت تھا اس کی آٹھویں نسل میں ایک راجہ کور مشہور ہوا ہندوستان کا شہر کور کھیت (تھانیسر) اسی کے نام پر آباد کیا گیا تھا۔ راجہ کور کی چھٹی نسل سے ایک لڑکا پیدا ہوا جن نے راجہ چتر برج کے نام سے شہرت پائی۔ اس کے دو بیٹے پیدا ہوئے ایک کا نام دہتر آشتر اور دوسرے کا پنڈا رکھا گیا۔ جو تخت کا وارث ٹھہرا،اس کی اولاد پانڈو کے نام سے مشہور ہوئی۔ راجہ بھرت کی نسل سے پانڈوئوں اور کوروں کے درمیان تاریخی جنگ لڑی گئی جس کی داستان مہابھارت کہلاتی ہے۔ پروفیسر انور بیگ اعوان اپنی کتاب’’دھنی ادب و ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پانڈو جنگ کے دوران جس ریاست میں پناہ گزین ہوئے اس کا پائہ تخت دروپد نگر تھا جو چکوال کے موجودہ قصبے بھون سے ایک میل کے فاصلے پر آباد تھا جہاں آج تھوہا پنڈ ہے۔ اس لیے یہ بھی عین ممکن ہو کہ لفظ پنڈ دراصل پانڈوؤں کے جد امجد پنڈا سے نکلا ہو،جہاں جہاں پانڈوؤں کی اولاد آباد ہوئی وہ علاقہ پنڈا کہلایا جو بعدازاں کہیں راول پنڈی،کہیں پنڈی گھیب اور کہیں پنڈی بھٹیاں بن گیا ہو۔

راولپنڈی کے قدیم قبیلے

راولپنڈی کے گزیٹیئر مطبع 1893-94 ء کے مطابق راولپنڈی کی تاریخ قدیم شواہد کی عدم دستیابی کے سبب گکھڑ قبیلے کی تاریخ بن جاتی ہے۔ جو مسلمانوں کے ابتدائی حملوں کے دوران پہلے ہزاریے کے بعد سامنے آئے اور اگلے ساڑھے آٹھ سو سال تک پوٹھوہار کے حکمران رہے۔ وہ دہلی اور آگرہ کی حکومتوں کے ماتحت رہے،یہاں تک کہ انیسویں صدی کے آغاز تک انہیں سکھوں نے نیست و نابود کر دیا۔ جنرل کننگھم نے درست یا غلط طور پر گکھڑوں کو ابھیسارکے ماتحتوں کے ساتھ شمار کیا ہے جسے سکندر کے مئورخین نے ٹیکسلا کے شمال اور شمال مشرق یعنی مری اور کہوٹہ کے علاقے کا حکمران ظاہر کیا ہے۔ وہ مہا بھارت اور پرانوں کی بنیاد پر ابھیسار کا نام دیتے ہیں۔ خود گکھڑوں کے مطابق وہ ایرانی ہیں اور اصفہان کے رہنے والے سلطان کید بن گوہر یا کائی گوہر کی اولاد ہیں جس نے تبت اور بدخشاں کو تسخیر کر کے سلطنت کی بنیاد رکھی جس کے بعد وہ کشمیر کی طرف بڑھا۔ کشمیر کا ایک بادشاہ سلطان رستم خان بغاوت کے دوران مارا گیا اور اس کے بیٹے کابل خان نے ناصر الدین سبکتگین کے ہاں پناہ لی جو اس وقت 778ء میں کابل کا حکمران تھا۔ کابل کابیٹا گکھڑ شاہ اپنے بچے کھچے قبیلے کو محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان لایا اور دریائے سندھ کے آرپار سلطنت قائم کر لی۔ یوں گکھڑ اپنے وطن لوٹ آئے۔ تاریخ فرشتہ میں ایک مختلف تاریخ بیان کی گئی ہے جس کے مطابق گکھڑ 682ء سے پنجاب میں آباد تھے۔ تیس ہزار گکھڑوں نے محمود غزنوی کے خلاف ہند اتحاد میں جنگ لڑی تھی۔ وہ تیرہویں صدی میں اسلام قبول کرنے سے پہلے وحشی تھے وہ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے اور ان کے ہاں کثیر شوہری کی بدترین صورتیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔ جنرل کنگھم کے بقول وہ سکندر کے حملے سے پہلے پنجاب کی پہاڑیوں میں آباد تھے۔ بعض مؤرخین کے مطابق دوسری صدی عیسوی میں سیالکوٹ کے راجہ رسالو کا شدید دشمن راجہ ہوڈی بھی گکھڑ تھا جس کے محل کے آثار اٹک میں دریائے سندھ کے پار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اس ضلع سے متعلق مستند تاریخ کا پہلا واقعہ پرتھوی راج اور محمود غزنوی کے درمیان 1008ء میں ہونے والی لڑائی ہے جو اٹک میں چھچھ کے علاقے میں لڑی گئی جس کے بعد ہندوستان مسلمان حملہ آوروں کے رحم و کرم پر ہو گیا۔ تاہم گکھڑ سندھ اور جہلم کے درمیان اپنی زمینوں پر قابض رہے۔ 1205ء میں انہوں نے شہہاب الدین کی پسپائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بغاوت کر دی اور لاہور تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ شہاب الدین نے دہلی سے آنے والی فوج کی مدد سے گکھڑوں کو شکست دی۔ جس کے بعد صلح نامے میں گکھڑوں نے اسلام قبول کر لیا۔ الفنسٹن کے بقول یہ کام بہت آسانی سے ہو گیا کیونکہ گکھڑ کسی بھی دین سے بہت کم شناسائی رکھتے تھے۔ تاہم ایک روایت کے مطابق شہاب الدین کو ہندوستان سے واپس جاتے ہوئے گکھڑوں نے قتل کر دیا۔ شہاب الدین غوری کا مزار سوہاوہ کے نزدیک واقع ہے۔

اس کے ایک سو سال بعد گکھڑوں کا ذکر اس وقت تاریخ میں ملتا ہے جب 1340ء میں محمد تغلق کے دور حکومت میں بنگال میں ہونے والی یورشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گکھڑوں نے پنجاب میں لوٹ مار شروع کر دی اور لاہور پر قبضہ کر لیا۔ گکھڑ سردار کے خلاف ایک نوجوان گکھڑ بوجا خان نے بغاوت کر کے روہتاس میں اپنی علیحدہ سرداری قائم کر لی جس کی اولاد آج بھی روہتاس اور ڈومیلی میں آباد ہے۔ ’’پنجاب چیفس ‘‘ میں سر گریفن گکھڑ قبیلے کی تاریخ یوں بیان کرتا ہے :

خان پور کے گکھڑوں کا موجودہ سردار راجہ جہان داد خان اپنے قبیلے کی تاریخ کے بارے میں کہتا ہے کہ کنگھم کی جانب سے گکھڑوں کے متعلق نقل کیا گیا فرشتہ کا بیان سبھی گکھڑوں پر صادق نہیں آتا بلکہ یہ گکھڑوں کی بجائے کھوکھر قبیلے کا بیان ہے۔ یہ کھوکھر کوہستان نمک میں ایک علاقے پر قابض تھے جہاں گکھڑ کبھی نہیں گئے۔ اس لیے فرشتہ نے گکھڑوں اور کھوکھروں کو ملا دیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہاب الدین غوری کو کھوکھروں نے قتل کیا۔ طبقات اکبری میں بھی شہاب الدین غوری کے قتل کو کھوکھروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ گکھڑوں کے اصل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایرانی بادشاہ ایجاب جرد کی اولاد ہیں جس کی شکست کے بعد انہیں اپنا وطن چھوڑ کر چین جانا پڑا جہاں ان کے قائد فیروز شاہ نے بادشاہ کے محافظ دستے میں ملازمت اختیار کر لی۔ وہاں سے وہ تبت گئے۔

تیمور کے حملے کے وقت گکھڑوں کا سردار گل محمد تھا۔ گل محمد کے جانشینوں میں جستر خان کا ذکر ایک بہادر جرنیل کے طور پر آیاہے جس نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور وہاں کے بادشاہ آلا شاہ کو قید کر لیا،اس کے بعد اس نے ایک ترک جرنیل ملک توغان کی مدد سے جالندھر پر قبضہ کر لیا اور دہلی کی جانب کوچ کیا۔ لدھیانہ کے مقام پر ہونے والی لڑائی میں اسے شکست ہوئی اور وہ واپس راولپنڈی کی جانب پسپا ہو گیا۔ وہ اپنی وفات 1483ء تک کبھی جموں اور کبھی لاہور پر حملے کرتا رہا۔ ایک حملے میں اس نے جموں کے راجہ رائے بھیم کو شکست دے کر مار ڈالا۔ اس کے بعد تاتار خان حکمران بنا مگر اسے اس کے بھتیجے ہاتھی خان نے قتل کر دیا۔ جنجوعوں نے گکھڑوں سے ان کے چھینے گئے علاقے واگزار کرانے کے لیے ہلہ بول دیا۔ پہلے ہاتھی خان اور اس کے چچازاد سارنگ خان پسپا ہوئے،مگر پھر اپنی طاقت مجتمع کر کے جنجوعوں پر حملہ کر کے انہیں بھگا دیا۔ ہاتھی خا ن کے دور میں بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا۔ وہ تزک بابری میں لکھتا ہے کہ اس نے گکھڑوں کے قلعہ پھروالہ پر حملہ کیا جنہوں نے بہادری سے مقابلہ کیا۔جب بابر کی فوج قلعے میں داخل ہوئی تو دوسرے دروازے سے ہاتھی خان نکل گیا۔ اس زمانے میں سلطان سارنگ خان نے ہاتھی خان کو زہر دے کر ہلاک کر دیا اور 1525ء میں خود رئیس بن گیا۔ سارنگ خان اور اس کے بھائی آدم خان نے بابر کی اطاعت کر لی جس کے صلے میں بابر نے دونوں بھائیوں کو پوٹھو ہار پر حکمرانی کا پروانہ جاری کر دیا۔ 1541ء میں شیر شاہ سوری نے روہتاس کا قلعہ اس لیے بنایا کہ ہمایوں جو ایران فرار ہو گیا تھا اگر وہ واپس آئے تو گکھڑوں کی حمایت سے حملہ نہ کر دے۔ سارنگ خان نے بابر کے فیاضانہ سلوک کا بدلہ اس کے بیٹے ہمایوں کا ساتھ دے کر نبھایا اور روہتاس قلعے میں متعین بارہ ہزاری فوج کا ناک میں دم کر دیا۔ 1548ء میں شیر شاہ کی وفات کے بعد ا س کے بیٹے سلیم شاہ نے گکھڑوں کو سزا دینے کے لیے ان پر فوج کشی کی۔ سارنگ خان کا بیٹا کمال خان جو صلح کا ایلچی بنا کر بھیجا گیا اسے بھی پابند سلاسل کر لیا گیا۔ اس طرح لڑائی میں سارنگ خان اور اس کے سولہ بیٹے مارے گئے۔ اس دوران قلعہ پھروالہ کئی بار گکھڑوں کے ہاتھ سے گیا اور کئی بار واپس آیا۔ سارنگ خان کے بعد اس کا بھائی آدم خان سردار بنا۔ جس نے سلیم شاہ کے بھائی شہزادہ کامران کو پناہ دی جو سلیم شاہ کا مخالف تھا۔ آدم خان نے گکھڑوں کی روایات کے برخلاف کامران کو سلیم شاہ کے حوالے کر دیا جس نے کامران شاہ کی آنکھیں نکلوا دیں۔ دو سال بعد جب ہمایوں نے دہلی فتح کیا تو آدم خان اس کے ہمرکاب تھا جسے شہزادہ کامران شاہ کے ساتھ دغا بازی کے عوض بہت کچھ انعام دیا گیا۔

سلطان سارنگ خان نے تین بیٹے کمال خان، سعید خان اور علاول خان چھوڑے تھے،علاول خان کی بیوی پر لشکر خان جو کہ آدم خان کا بیٹا تھا عاشق ہو گیا اور اسے نکاح میں لانے کے لیے علاول خان کو قتل کر ڈالا۔ جب یہ واقعہ ہوا تو مقتول کا بھائی کمال خان دہلی میں تھا جس نے شہنشاہ اکبر کے حضور اس کی شکایت کی۔ شہنشاہ نے آدم خان کا نصف علاقہ اسے عطا کر دیامگر مد مقابل اس حکم کی تعمیل میں اپنا علاقہ کب دیتے تھے چنانچہ کمال خان کو حملہ کرنا پڑا جس میں اس نے فتح پائی اور آدم خان کو پھانسی دے کر اپنا دل ٹھنڈا کیا۔ کمال خان جلد ہی 1559ء میں فوت ہو گیا جس کے بعد گکھڑوں میں سرداری کا جھگڑا شروع ہو گیا جس کو حل کرنے کے لیے شہنشاہ اکبر نے علاقے کو تمام فریقوں میں تقسیم کر دیا۔ آدم خان کے پوتے جلال خان کے حصہ میں دان گلی سمیت 454 موضع جات آئے جبکہ کمال خان کے بیٹے مبارک خان کو پھروالہ سمیت 333 موضع جات ملے۔ اکبر آباد اور 242 موضع جات شیخ گنجا جو کہ آدم خان کا چھوٹا بیٹا تھا اس کے حصے میں آئے۔ جبکہ راولپنڈی سلطان سارنگ خان کے تیسرے بیٹے سعید خان کو دیا گیا۔ اس تقسیم کے ایک سال بعد مبارک خان کاانتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا بھی زیادہ عرصے زندہ نہ رہا۔ شادمان خان ایک شاعر مزاج گکھڑ تھا (گکھڑوں کے چیف کرنل سلطان ظہور اختر نے راقم کو بتایا تھا کہ شادمان خان تاریخ میں وہ پہلا انسان تھا جس نے لکڑی کے پر لگا کر پھروالہ قلعے سے کئی بار اڑان کا مظاہرہ کیا تھا اور ایک مظاہرے میں اس کی ٹانگیں بھی ٹوٹ گئی تھیں )اس لیے اکبر نے پھروالہ جلال خان کو عطا کر دیا جو جنگجو رئیس تھا اور کوہاٹ، بنوں،سوات میں بطور شاہی جرنیل اپنی بہادری کے جوہر دکھا چکا تھا۔ اس کےبعد اس کا بیٹا اور پوتا حکمران بنے۔ جن کے بعد اللہ داد خان حکمران بنا لیکن چونکہ وہ کم عقل تھا اس لیے اقتدار اس کی بیوی کے ہاتھ رہا تاوقتیکہ ا س کا بیٹا دولو مراد خان جوان نہیں ہو گیا۔ اس کی فیاضی کی وجہ سے اس کا نام لکھی مشہور ہو گیا۔ اس کا انتقال 1726 ء میں ہوا، اس کے بعد معظم خان نے تیرہ سال حکومت کی۔ گکھڑوں کے آخری سردار مقرب خان تھے جن کے دور میں گکھڑ وں کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ اس نے ایک طرف یوسف زئی پٹھانوں اور قلعی خان رئیس خٹک کو شکست دی اور دوسری طرف گجرات میں چب راجپوتوں کو زیر کر کے گجرات اور بھمبر کو بھی تہہ تیغ کر ڈالا۔ مقرب خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ بھی ہندوستان پر حملوں میں شریک رہا جس کے عوض احمد شاہ نے سندھ سے چناب تک کا علاقہ مقرب خان کو دے دیا۔ مقرب خان کے دور میں گکھڑوں کو جو عروج حاصل ہوا وہ کسی اور سردار کے حصے میں نہیں آیا۔ آخر کار 1765ء میں ایک سکھ رئیس سردار بھنگی سنگھ(بھنگی مثل کا چیف ) نے لاہور سے ایک بڑی فوج لا کر گکھڑوں پر حملہ کر دیا۔ مقرب خان نے گجرات میں مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور جہلم میں پسپائی اختیار کر لی۔ مقرب خان کو کمزور ہوتا دیکھ کر ا س کے ہم قبیلہ ہمت خان رئیس ڈومیلی نے اسے دغا بازی سے قید کر کے مار ڈالا اور خود گکھڑوں کا سردار بن گیا،مگر مقرب خان کے چاروں بیٹوں نے پھروالہ اور دان گلی کے قلعوں پر قبضہ کر لیا لیکن پھر ان کا آپس میں تنازعہ شروع ہو گیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سردار گوجر سنگھ نے سوائے پھروالہ کا تمام علاقہ گکھڑوں سے چھین لیا۔مقرب خان کے بیٹے سعد اللہ خان اور علی خان اولاد نرینہ کے بغیر فوت ہو گئے۔ منصور خان اور شاد مان خان ان کے حصوں پر قابض ہو گئے مگر 1818ء میں انند سنگھ تھیئے پوریہ جو کہ رئیس راولپنڈی ملکھا سنگھ تھیئے پوریہ کا پوتا تھا اس نے گکھڑوں سے تمام جاگیریں چھین کر انہیں مفلس کر دیا۔ پھر 1826ء میں کچھ گکھڑ خاندانوں کو پھروالہ کے مالکانہ حقوق دیے گئے۔

اکبر کے عہد میں یہ علاقہ سندھ ساگر دو آب پر مشتمل تھا جس میں اٹک، نیلاب، جہلم، سرگودھا، پھروالہ، دان گلی اور تخت پڑی شامل تھے یہ علاقے سالانہ ساڑھے چار لاکھ روپے مالیہ ادا کرتے تھے۔ ان میں راولپنڈی، پھروالہ اور دان گلی گکھڑوں کے ماتحت تھے۔

جدید راولپنڈی

جدید راولپنڈی کا بانی گکھڑ سرادر جھنڈا خان تھا۔ اس سے پہلے راجہ راول کیسر کی نسبت سے اسے راول پنڈی کہا جاتا تھا۔ راول گائوں تو موجودہ راول ڈیم کی جگہ پر آباد تھا جہاں دو قدیم مندر آج بھی موجود ہیں۔ لیکن پنڈی کا قصبہ نالہ لئی کے کنارے پرانے قلعے کے ارد گرد واقع تھا۔ جب گکھڑ سرادر جھنڈا کو1493ء میں یہ علاقہ ورثے میں ملا تو انہوں نے اپنی جاگیر جو راول گائوں سے پنڈ ی تک پھیلی ہوئی تھی کو ملا کر راولپنڈی کہنا شروع کر دیا۔ سترہویں صدی کے وسط تک جب صوفی بزرگ شاہ چن چراغ راولپنڈی کو اپنا مسکن بناتے ہیں تو اس وقت یہ موجودہ بھابھڑا بازار میں ساٹھ ستر گھروں پر مشتمل ایک مختصر سی آبادی ہے جہاں جین مت کے ماننے والے رہتے ہیں۔ تاہم اس سے ملحقہ دیگر چھوٹی چھوٹی آبادیاں موجود تھیں جو آج محلوں اور ڈھوکوں کی صورت راولپنڈی میں مدغم ہو چکی ہیں۔

رنجیت سنگھ سے پہلے سردار ملکھا سنگھ ضلع لاہور کے ایک گائوں تھیئے پور کا رئیس تھا وہ گجرات اور گوجرانوالہ پر قبضہ جماتے ہوئے راولپنڈی کی طرف بڑھا جو اس دور میں ایک بے وقعت مقام تھا لیکن ملکھا سنگھ نے ا س کے حدود اربعہ کو دیکھتے ہوئے راولپنڈی کو 1765ء میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ جس نے یہاں نئے مکانات تعمیر کیے اور شہر کی فصیل بھی بنائی۔ اس نے بھیرہ، شاہ پور، چکوال، میانی، پنڈ دادنخان اور جہلم سے تاجروں کو راولپنڈی لا کر بسایا۔ اس نے جلد ہی ارد گرد کاعلاقہ بھی تسخیر کر لیا اور ہزارہ تک اپنی سرحدیں پھیلا دیں وہ 1804 ء میں فوت ہوا۔ ملکھا سنگھ نے مری اور کہوٹہ کے پہاڑی علاقوں کے 107 دیہات گکھڑوں کے پاس رہنے دیے جنہوں نے سکھ راج کا ناک میں دم کیے رکھا۔ ہری سنگھ نے 1820-30 کے درمیان ان علاقوں پر لشکر کشی کی لیکن پھر تنگ آ کر یہ علاقے مہاراجہ کشمیر گلاب سنگھ کو دے دیے جنہوں نے مقامی گکھڑوں پر مظالم کی انتہا کر دی۔ ایک گکھڑ مارنے پر ایک روپیہ انعام کا اعلان کر دیا جس سے گکھڑوں کی آبادی مٹ کر رہ گئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی دور میں گکھڑوں نے خود کو کیانی کہلوانا شروع کیا۔ کیونکہ ان کا جد امجد کائی گوہر کیان سے ہی آیا تھا۔ ملکھا سنگھ تھیئے پوریہ کی وفات کے بعد رنجیت سنگھ نے ا س کے بیٹے جیون خان کے نام جاگیر کی توثیق کر دی تاہم 1814ء میں جیون خان کی وفات کے بعد رنجیت سنگھ نے راولپنڈی میں ساری جاگیروں کو ضبط کر لیا اور راولپنڈی،تخت لاہور کی عملداری میں چلا گیا۔ رنجیت سنگھ کے اقتدار کا سورج بھی راولپنڈی میں ہی غروب ہوا جہاں آخری سکھ جرنیل چتر سنگھ اور شیر سنگھ نے 14 مارچ 1849ء کو دریائے سواں کے کنارے جنرل گلبرٹ کے آگے ہتھیار ڈالے۔ یہ جنگ موجودہ ہمک اور سہالہ گاؤں کے درمیان لڑی گئی۔

راولپنڈی کے گزیٹیئر 1907ء میں لکھا ہے کہ 1853ء میں مندلا کے ایک گکھڑ نادر خان نے بغاوت کر دی۔ اور مشہور کر دیا کہ رنجیت سنگھ کا بیٹا شہزادہ پیش بائورا سنگھ زندہ ہے اور وہ مراقبے میں تھا،حالانکہ وہ اٹک میں قتل ہو چکا تھا۔باغی اس کے ساتھ اکھٹے ہو گئے مگر پھر انگریزوں نے نادر خان کو گرفتار کر کے بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں مری اور ہزارہ کے قبائل نے بغاوت کی جسے انگریزوں نے بر وقت اطلاع دینے پر کچل دیا۔ برٹش راج کے آتے ہی راولپنڈی کی فوجی اہمیت اور اینگلو افغان وار کے تناظر میں راولپنڈی کو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا درجہ مل گیا۔ یہاں ہر مجسٹی کی 53 ویں ریجمنٹ تعینات کی گئی۔ لارڈ ڈلہوزی نے راولپنڈی کو مرکزی اہمیت دی جس کے بعد شہر تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا۔ کنٹونمنٹ کے علاقے میں گھنے جنگلات کو آبادکاری کے لیے کاٹ دیا گیا۔ 1879ء میں پنجاب ناردرن سٹیٹ ریلوے جسے بعد میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کہا گیا اسے پنڈی تک توسیع دی گئی۔ یکم جنوری 1886ء کو راولپنڈی میں ٹرینوں کی آمد ورفت شروع ہو گئی۔ جس کے بعد شہر کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1901ء کی مردم شماری کے مطابق راولپنڈی شہر کی آبادی 47077 اور کنٹونمنٹ کی 40611 نفوس پر مشتمل تھی۔ 1881ء کی مردم شماری کے بعد اس کی آبادی میں 31 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ ملتان، سیالکوٹ کے ساتھ راولپنڈی متحدہ پنجاب کا تیسرا سب سے تیزی سے پھیلنے والا شہر بن گیا تھا۔

نالہ لئی کمنٹونمنٹ اور شہر کو جدا کرتا تھا۔انیسویں صدی کے اوائل میں کابل کے بادشاہ شاہ شجاع اور شاہ زمان بھی راولپنڈی میں پناہ گزین ہوئے۔ ان کا گھر کوتوالی میں تھا جہاں اب تھانہ ہے۔ ان کے پاس کوہ نور ہیرا بھی تھا۔ اس طرح یہ بیش قیمت ہیرہ بھی کچھ عرصہ راولپنڈی میں رہا جس کے بعد یہ ہیرا رنجیت سنگھ نے ان سے لے لیا۔

انگریزوں کے دور میں راولپنڈی میں پہلا چرچ گریژن چرچ 1854ء میں بنایا گیا جس کی تعمیرِ نو 1879ء میں کی گئی۔ اسی عرصے میں کئی سرکاری عمارات تعمیر ہوئیں۔ برگیڈئیر جنرل جان میسی کی یاد میں سردار سجھان سنگھ نے دو لاکھ کے عطیہ سے میسی گیٹ1883ء میں بنوایا۔ شہر کی دیگر اہم جگہوں میں میونسپل گارڈنز، رائے بہادر سجھان سنگھ کا باغ جس میں ایک چھوٹا عجائب گھر، شادی گھر جسے سجھان سنگھ کے بڑے بیٹے سردار ہردیت سنگھ کی شادی کے موقع پر کھولا گیا۔ اسی باغ میں 1902ء میں سجھان سنگھ نے سردار ہردیت سنگھ لائبریری قائم کی۔ جس کی نگرانی سجھان سنگھ کا کزن شام سنگھ کرتا تھا۔ یہاں 80کے قریب اخبارات و جرائد آتے تھے اور مختلف موضوعات پر سینکڑوں کتابیں موجود تھیں۔ شہر کے اہم تعلیمی اداروں میں سریشت نیتی ہائی سکول، اینگلو سنسکرت ہائی سکول، ڈینیز ہائی سکول،ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول، مشن سکول اور مشن جسے بعد میں گارڈن کالج کہا گیا۔ بنی میں مائی ویرو کا تالاب بھی شہر کے اہم مقامات میں شامل تھا۔

گارڈن کالج کو امریکن پریسبٹیرین مشن نے قائم کیا تھا جس میں شروع میں نو پروفیسرز تھے اور کالج کا سالانہ خرچ بیس ہزار روپے تھا۔سریشت نیتی ہائی سکول رائے بہادر بوٹا سنگھ کے عطیہ سے قائم کیا گیا تھا جسے 1906ء میں اس شرط کے ساتھ حکومت کے حوالے کر دیا گیا کہ صبح کی اسمبلی میں تمام مذاہب کے طلبا اپنی اپنی مقدس آیات کی تلاوت لازمی کریں گے اور کوئی ایک استاد طلبا کو اخلاقیات پر سبق بھی پڑھائے گا۔ یہ سکول پنجاب کا سب سے بڑا سکول تھا جہاں چار سو کے قریب طلبا زیر تعلیم تھے۔ ڈینیز ہائی سکول کی جگہ پر پہلے کنٹونمنٹ ٹریننگ اکیڈمی تھی لیکن 1893ء میں یہ عمارت گر گئی جس کے بعد کنٹونمنٹ کے مجسٹریٹ میجر ڈینی نے یہاں سکول قائم کر دیا۔ کنٹونمنٹ اس کو سالانہ پندرہ سو امداد دیتا تھا جبکہ 230 طلبا کی فیس بھی 1200 وصول ہوتی تھی۔ یہاں ایک ہیڈ ماسٹر اور پندرہ ماسٹر تھے۔ ماموں جی اسلامیہ ہائی سکول 1896ء میں مسلمانوں نے مل کر بنایا جسے حکومت سالانہ 1843 روپے گرانٹ دیتی تھی۔ 247 طلبا ء سے سالانہ فیسوں کی مد میں 2391 روپے وصول ہوتے تھے اورسکول کا سالانہ خرچ 5183 روپے تھا۔ ضلع میں لڑکیوں کے 34 سکول تھے جن میں سے 20 کھیم سنگھ بیدی نے قائم کیے تھے۔ گرمکھی سکولوں کے علاوہ لڑکوں کے تمام سکولوں میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔

گذشتہ تین صدیوں میں راولپنڈی کی تاریخ میں تین عناصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ایک اس وقت جب یہاں یہاں صوفی بزرگ شاہ چن چراغ آئے۔دوسرا جب یہاں انگریزوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی چھاونی کی بنیاد رکھی اور تیسرا اس وقت جب یہاں پاکستان کے نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھی گئی۔آج کے راولپنڈی کے پھیلائو میں پاکستان آرمی کے ہیڈ کوارٹر اور اسلام آباد کا بنیادی کردار ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کو پاکستان کے جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔بلکہ بعض جگہوں پر آج بھی دونوں شہروں کے تھانوں کو مسئلہ ہوتا ہے کہ یہ حدود اسلام آباد کی ہے یا راولپنڈی کی۔دو ہزار سال پہلے بھی گندھارا سندھ کی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا مرکز تھا اور آج پھر تاریخ نے جو انگڑائی لی ہے اور اسلام آباد کو پاکستان کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہاں دنیا کی دو بڑی تجارتی شاہراہوں کا ملاپ ہو رہا ہے۔ایک چین کو مشرقِ وسطیٰ سے ملاتی ہے تو دوسری بھارت اور بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیاء کو کابل اور ماسکو تک لے جاتی ہے۔ ان دونوں شاہراہوں پر ابھی بین الاقوامی تجارت شروع نہیں ہو ئی لیکن جب بھی ہو گی راولپنڈی اور اسلام آباد پاکستان کا سب سے بڑا شہری علاقہ بن جائیں گے۔یہاں دنیا بھر سے تاجر اور سیاح آئیں گے اور تب یہاں آنے والے سوچیں گے کہ اس علاقے کی تاریخ،تہذیب، تمدن اور اساطیر کیا رہی ہو گی ؟

اور آخری بات جو اسلام آباد میں مدفون سترہویں صدی کے ایک صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد الطیف المعروف بری امام سے منسوب ہے۔وہ کہتے تھے یہاں ایک شہر تعمیر ہوگا جو دنیا کے لیے مرکز نگاہ بن جائے گا۔لیکن پھر ایک دن ایک خوفناک زلزلے سے وہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

شاید اس سے پہلے بھی یہاں کوئی شہر رہا ہو گا جو اپنے وقت کا مرکز رہا ہو لیکن آج اس کے آثار بھی کہیں سواں کی مٹی تلے دفن ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...